ہم دیکھتے ہیں جہاں کہیں لطیفہ بازی ہوتی ہے یا دوسرے الفاظ میں دلدار پرویز بھٹی بازی جمتی ہے تو اکثر لطیفے یاکثیفے ایک خاص پوائنٹ یا پنچ پر ختم ہوجاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بدذوق بلکہ بے ذوق کہا جاتا ہے جو اس کے بعد ہنستے نہیں بلکہ منہ یوں کھولے رہتے ہیں جیسے آگے کچھ اور سننا چاہتے ہوں اور وہ بھی کانوں کے بجائے منہ سے ۔لیکن کچھ لطیفے یاکثیفے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس پنچنگ پوائنٹ کے بعد بھی باقی رہ جاتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لطیفہ ختم ہوجاتا ہے لیکن حقیقہ رہ جاتا ہے کیوں کہ حقیقہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں لطیفہ ختم ہو جاتا ہے ۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا ، اس کی تمنا تھی ، خدا سے التجا تھی کہ تخت کاوارث پیدا ہو، آخر بادشاہ کی خواہش ایک شہزادے کی پیدائش سے پوری ہوگئی لیکن ایک اورآزمائش پیدا ہوگئی ، شہزادہ تھا تو ’’نر‘‘ لیکن لگتا تھا ناری، کچھ بڑا ہونے پر شہزادے کے اندرسے شہزادی نکل آئی، وہ لڑکیوں کی طرح، خود کو پچکاتا، مٹکاتا تھا اورتالیاں بجا کر سارا بدن پچکا کر اورلہرا کر بات کرتا تھا ، مسئلہ گھمبیر ہوگیا ، طلب وزیر ہوگیا اوربادشاہ اس سے تدبیر کا طالب گیر ہوگیا ، وزیر باتدبیر نے تدبیر پیش کی کہ شہزادے پلس شہزادی کو ایک الگ تھلگ قلعے میں سو ہم عمر نوجوانوں کے ساتھ رکھاجائے تو ممکن ہے شہزادی کے اندر سے شہزادہ ، ناری کے اندر سے نر اورلڑکی کے اندر سے لڑکا نکل آئے ۔
تدبیر پر فوراً عمل کیاگیا، سو چنیدہ لڑکوں کے ساتھ شہزادے پلس شہزادی کو قلعہ بند کیاگیا اورہر فرد وبشر کو پابند کردیا گیا کہ قلعے کے آس پاس زنانہ تو کیا زنانہ آواز کو بھی ممنوع کیاجائے ۔سال گزرگیا تو بادشاہ نے بیٹے کی پراگرس دیکھناچاہی لیکن جب قلعہ کادروازہ کھولا گیا تو سامنے ایک سو ایک لڑکی نما لڑکے یا لڑکا نما لڑکیاں کھڑی شرماتی، لجاتی ،لہراتی، بل کھاتی اورتالیاں بجاتی نظر آئیں۔لطیفہ تو یہاں ختم ہوگیا اب حقیقہ شروع ہونے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایک سوال ، کیوں؟کیا ان سو بچوں میں بھی پیدائشی نقص تھا اوراس شہزادے میں بھی ایک پیدائشی جادو تھا اوروہ جادو یہ تھا کہ وہ شہزادہ تھا ، صاحب زادہ تھا، اوران سو کا عیب یہ تھا کہ وہ عوام زادے تھے اورغریب زادے تھے ۔
نہیں سمجھے تو چلئے عربی زبان کے ایک چارلفظی جملے پر غورکیجیے …اورجملہ ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ ، عوام اپنے حاکموں کے ’’دین ‘‘ پر ہوتے ہیں ۔ یہی سچ ہے ، حق ہے۔باقی سب جھوٹ ہے۔
اب ذرا اس ’’سیاہ خانے‘‘ پر نظر ڈالیے، جس کا نام نامی اوراسم گرامی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اورجہاں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ جو انسانوں سے کم بہت ہی بہت زیادہ کم اورجانوروں سے تھوڑے بہت تھوڑے بہت ہی تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں اوردوسرے وہ جو انسانوں سے اوپر بہت ہی اوپر ہوتے ہیں ۔ اب یہ پیٹ بھرے، گھر بھرے، جیب بھرے سب کچھ بھرے ان کی تقلید کریں گے جو پیٹ خالی، جیب خالی ہوتے ہیں یا یہ ان پیٹ بھروں کی تقلید کریں یا یوں کہیے کہ پندرہ فی صد اشراف ان پچاسی فی صد خداماروں جیسے بننے کی کوشش کریں گے یا خدا مارے ان کے جیسے بننے کی کوشش کریں گے؟
سمجھ دانی میں نہ آرہا ہو تو اپنے دانا دانشوروں سے ،زبان وروں سے، قلم وروں سے پوچھ لیجیے، جو دن رات اخباروں میں چینلوں میں ’’بجتے ‘‘ رہتے ہیں کہ معاشرے میں کرپشن بڑھ رہی ہے جرائم بڑھ رہے ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں ،ہم کہاں جارہے ہیں ، ہم کہاں جئیں گے ،کہاں مریں گے۔
میں کہاں ہوں کہاں نہیں ہوں میں
اب جہاں ہوں وہاں نہیں ہوں میں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
کوئی کہہ دے یہاں نہیں ہوں میں
اب اگر ’’الناس‘‘ … دین ملوکھم‘‘ اختیار کررہے ہیں تو اس میں عجب کیاہے ، ہمیشہ ایسا ہوتا تھا ،ہوتا ہے اورہوتا رہے گا ۔ کالانعاموں کے پاس ہوتا کیا ہے جس میں کوئی کشش محسوس کرے ایک نحیف ونزار، کمزور،بیمار، بے بس اورلاچار بلکہ ’’مجبوری‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی’’ایمانداری‘‘ ؟؟؟ اسے کوئی اختیار کرے گاکیا ؟سب کچھ تو ’’ملوکھم‘‘ کے پاس ہے، دنیا کی بے تحاشہ دولتیں، عالی شان بنگلے اوران کے بچے اوربیگمات دولتوں کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہی ہیں ۔ پارٹیاں ہیں، زیورات ہیں، ملبوسات ہیں، ایک پاؤں یہاں، دوسرا لندن، امریکا دبئی میں مطلب یہ کہ ہردن عید اور ہر رات شب برات۔
تو ’’مملوک‘‘ ان کے جیسے بننے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے ۔کریں گے ضرورکریں دیوانہ وار کریں گے اورکررہے ہیں ۔’’المملوک علیٰ دین ملوکھم‘‘
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن تر کن ہوشیارباس
یعنی تم نے مجھے ایک تختے سے باندھ کردریا کے درمیان پھینکا ہے اورکہہ رہے ہو خبردار اگر دامن تر کردیا۔
کسی مسافر کو بلکہ بھوکے پیاسے مسافر کو دوراستوں کے بیج کھڑا کردو جن میں ایک راستہ جنگل بیابان، پیاسے ریگستان اورکانٹوں سے بھرپور جنگل کو جارہا ہے جب کہ دوسرا ایک ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے پھلوں پھولوں والے باغ کی طرف جارہا ہے اوردونوں راستوں کے بارے میں یہ سب کچھ معلوم بھی ہے تو وہ کس راستے پر جائے گا؟
چلئے یہ بھی فرض کرلیجیے کہ وہاں کچھ لوگ بھی لاوڈ اسپیکر لگائے بولے جارہے ہیں کہ اس باغ والے راستے پر مت جاؤ یہ راستہ اچھا نہیں ۔ تم بیابان والا کانٹے دار راستہ اختیار کرو کہ یہی راستہ بہتر ہے ۔
تو کیا وہ مان لیں گے
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ وہ سو کے سو نوجوان مملوک تھے اور وہی کیا جو مملوک کرتے ہیں ،اگربادشاہ شہزادی کو شہزادہ بنانا چاہتا تھا تو اس کے سارے شاہی نشان مٹا کر کسی عوامی ہجوم میں ویسے ہی چھوڑ دیتا اورکسی کویہ معلوم نہ ہونے دیتا کہ وہ کون ہے ؟ تو یقیناً کچھ عرصے بعد وہ مرد بن جاتا ۔ اس سے جو دوسری بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اسٹوپڈ تھا اوروزیر باتدبیر بھی اسٹوپڈ تھے اوریہ ہمارے سقراط بقراط بھی۔ جو جلتے ہوئے الاؤ میں پھول اگانے کی کوشش کررہے ہیں ، پہلے الاؤ بجھاؤ پھول خود بخود اگنا شروع ہوجائیں گے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں کریں گے جاتا ہے کی کوشش ختم ہو ہے ہیں
پڑھیں:
غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حماس کو نئی دھمکیاں دی ہیں۔ کاٹز نے کہا ہے کہ اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط نہ مانیں تو غزہ میں مزید شدت اختیار کرنے والے حملے کیے جائیں گے۔ اسرائیل اپنی دھمکی پر عمل کرے گا۔
غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ تمام مذمتوں کے باوجود غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی کو مزید گہرا کرنے جا رہا ہے۔ ادارے نے مزید بتایا کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب وزیر رون ڈیرمر کا لندن میں وائٹ ہاؤس کے ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کا شیڈول ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے امکان پر بات کی جا سکے۔
قطری اعلیٰ حکام بھی لندن میں موجود ہیں اور ایلچی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ ایک باخبر ذریعہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکی اس وقت اسرائیل اور قطر کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں تاکہ اس بحران کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے جو دوحہ میں حماس کے اعلیٰ حکام کے خلاف اسرائیلی حملے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور دوحہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے کردار میں واپس لایا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور قطر کے ساتھ بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب میدان میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا اور اپنے ہتھیار نہ ڈالے تو غزہ کو تباہ کر دیا جائے گا اور غزہ حماس کو ختم کرنے والوں کے لیے ایک یادگار بن جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر زمینی کارروائیاں اور سیاسی و فوجی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غزہ میں ایک فوری انسانی بحران کے بارے میں وارننگ دی جا رہی ہے۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ غزہ کے شہریوں کے شہر سے نکلنے کے لیے ایک “عارضی منتقلی کا راستہ” قائم کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس کے بعد ہوا جب فوج نے حماس کے ساتھ تقریباً دو سال کی جنگ کے بعد پٹی کے سب سے بڑے شہر پر زمینی حملے اور بمباری میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران صہیونی فوج نے پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی کے رہائشیوں کو شدید انتباہات دیے ہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر پٹی کے جنوب میں قائم کردہ ایک “انسانی علاقے” میں منتقل ہو جائیں کیونکہ وہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
فوج نے منگل کو بھی کہا تھا کہ اس نے اس شہر میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسیع کرنا شروع کر دیا ہے اور غزہ میں مسلسل اور شدید بمباری ہو رہی ہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے پیر کی رات سے 150 سے زیادہ اہداف پر بمباری کی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اگست کے آخر میں غزہ شہر اور اس کے آس پاس رہنے والے افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ بتائی تھی۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ لوگ پیدل، کاروں، گاڑیوں اور زرعی ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہوئے شہر کو چھوڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بدھ کو اندازہ لگایا ہے کہ غزہ سٹی چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد 350,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی دوران بہت سے فلسطینی وہیں رہنے پر مصر ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
Post Views: 5