Express News:
2025-06-20@14:20:36 GMT

لطیفے میں حقیقہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

ہم دیکھتے ہیں جہاں کہیں لطیفہ بازی ہوتی ہے یا دوسرے الفاظ میں دلدار پرویز بھٹی بازی جمتی ہے تو اکثر لطیفے یاکثیفے ایک خاص پوائنٹ یا پنچ پر ختم ہوجاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو بدذوق بلکہ بے ذوق کہا جاتا ہے جو اس کے بعد ہنستے نہیں بلکہ منہ یوں کھولے رہتے ہیں جیسے آگے کچھ اور سننا چاہتے ہوں اور وہ بھی کانوں کے بجائے منہ سے ۔لیکن کچھ لطیفے یاکثیفے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس پنچنگ پوائنٹ کے بعد بھی باقی رہ جاتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لطیفہ ختم ہوجاتا ہے لیکن حقیقہ رہ جاتا ہے کیوں کہ حقیقہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں لطیفہ ختم ہو جاتا ہے ۔

 کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا ، اس کی تمنا تھی ، خدا سے التجا تھی کہ تخت کاوارث پیدا ہو، آخر بادشاہ کی خواہش ایک شہزادے کی پیدائش سے پوری ہوگئی لیکن ایک اورآزمائش پیدا ہوگئی ، شہزادہ تھا تو ’’نر‘‘ لیکن لگتا تھا ناری، کچھ بڑا ہونے پر شہزادے کے اندرسے شہزادی نکل آئی، وہ لڑکیوں کی طرح، خود کو پچکاتا، مٹکاتا تھا اورتالیاں بجا کر سارا بدن پچکا کر اورلہرا کر بات کرتا تھا ، مسئلہ گھمبیر ہوگیا ، طلب وزیر ہوگیا اوربادشاہ اس سے تدبیر کا طالب گیر ہوگیا ، وزیر باتدبیر نے تدبیر پیش کی کہ شہزادے پلس شہزادی کو ایک الگ تھلگ قلعے میں سو ہم عمر نوجوانوں کے ساتھ رکھاجائے تو ممکن ہے شہزادی کے اندر سے شہزادہ ، ناری کے اندر سے نر اورلڑکی کے اندر سے لڑکا نکل آئے ۔

تدبیر پر فوراً عمل کیاگیا، سو چنیدہ لڑکوں کے ساتھ شہزادے پلس شہزادی کو قلعہ بند کیاگیا اورہر فرد وبشر کو پابند کردیا گیا کہ قلعے کے آس پاس زنانہ تو کیا زنانہ آواز کو بھی ممنوع کیاجائے ۔سال گزرگیا تو بادشاہ نے بیٹے کی پراگرس دیکھناچاہی لیکن جب قلعہ کادروازہ کھولا گیا تو سامنے ایک سو ایک لڑکی نما لڑکے یا لڑکا نما لڑکیاں کھڑی شرماتی، لجاتی ،لہراتی، بل کھاتی اورتالیاں بجاتی نظر آئیں۔لطیفہ تو یہاں ختم ہوگیا اب حقیقہ شروع ہونے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایک سوال ، کیوں؟کیا ان سو بچوں میں بھی پیدائشی نقص تھا اوراس شہزادے میں بھی ایک پیدائشی جادو تھا اوروہ جادو یہ تھا کہ وہ شہزادہ تھا ، صاحب زادہ تھا، اوران سو کا عیب یہ تھا کہ وہ عوام زادے تھے اورغریب زادے تھے ۔

 نہیں سمجھے تو چلئے عربی زبان کے ایک چارلفظی جملے پر غورکیجیے …اورجملہ ہے ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ ، عوام اپنے حاکموں کے ’’دین ‘‘ پر ہوتے ہیں ۔ یہی سچ ہے ، حق ہے۔باقی سب جھوٹ ہے۔

 اب ذرا اس ’’سیاہ خانے‘‘ پر نظر ڈالیے، جس کا نام نامی اوراسم گرامی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اورجہاں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ جو انسانوں سے کم بہت ہی بہت زیادہ کم اورجانوروں سے تھوڑے بہت تھوڑے بہت ہی تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں اوردوسرے وہ جو انسانوں سے اوپر بہت ہی اوپر ہوتے ہیں ۔ اب یہ پیٹ بھرے، گھر بھرے، جیب بھرے سب کچھ بھرے ان کی تقلید کریں گے جو پیٹ خالی، جیب خالی ہوتے ہیں یا یہ ان پیٹ بھروں کی تقلید کریں یا یوں کہیے کہ پندرہ فی صد اشراف ان پچاسی فی صد خداماروں جیسے بننے کی کوشش کریں گے یا خدا مارے ان کے جیسے بننے کی کوشش کریں گے؟

سمجھ دانی میں نہ آرہا ہو تو اپنے دانا دانشوروں سے ،زبان وروں سے، قلم وروں سے پوچھ لیجیے، جو دن رات اخباروں میں چینلوں میں ’’بجتے ‘‘ رہتے ہیں کہ معاشرے میں کرپشن بڑھ رہی ہے جرائم بڑھ رہے ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں ،ہم کہاں جارہے ہیں ، ہم کہاں جئیں گے ،کہاں مریں گے۔

 میں کہاں ہوں کہاں نہیں ہوں میں

 اب جہاں ہوں وہاں نہیں ہوں میں

کوئی آواز دے رہا ہے مجھے

 کوئی کہہ دے یہاں نہیں ہوں میں

 اب اگر ’’الناس‘‘ … دین ملوکھم‘‘ اختیار کررہے ہیں تو اس میں عجب کیاہے ، ہمیشہ ایسا ہوتا تھا ،ہوتا ہے اورہوتا رہے گا ۔ کالانعاموں کے پاس ہوتا کیا ہے جس میں کوئی کشش محسوس کرے ایک نحیف ونزار، کمزور،بیمار، بے بس اورلاچار بلکہ ’’مجبوری‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی’’ایمانداری‘‘ ؟؟؟ اسے کوئی اختیار کرے گاکیا ؟سب کچھ تو ’’ملوکھم‘‘ کے پاس ہے، دنیا کی بے تحاشہ دولتیں، عالی شان بنگلے اوران کے بچے اوربیگمات دولتوں کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہی ہیں ۔ پارٹیاں ہیں، زیورات ہیں، ملبوسات ہیں، ایک پاؤں یہاں، دوسرا لندن، امریکا دبئی میں مطلب یہ کہ ہردن عید اور ہر رات شب برات۔

تو ’’مملوک‘‘ ان کے جیسے بننے کی کوشش کیوں نہیں کریں گے ۔کریں گے ضرورکریں دیوانہ وار کریں گے اورکررہے ہیں ۔’’المملوک علیٰ دین ملوکھم‘‘

درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

 بازمی گوئی کہ دامن تر کن ہوشیارباس

 یعنی تم نے مجھے ایک تختے سے باندھ کردریا کے درمیان پھینکا ہے اورکہہ رہے ہو خبردار اگر دامن تر کردیا۔

کسی مسافر کو بلکہ بھوکے پیاسے مسافر کو دوراستوں کے بیج کھڑا کردو جن میں ایک راستہ جنگل بیابان، پیاسے ریگستان اورکانٹوں سے بھرپور جنگل کو جارہا ہے جب کہ دوسرا ایک ہرے بھرے لہلہاتے ہوئے پھلوں پھولوں والے باغ کی طرف جارہا ہے اوردونوں راستوں کے بارے میں یہ سب کچھ معلوم بھی ہے تو وہ کس راستے پر جائے گا؟

چلئے یہ بھی فرض کرلیجیے کہ وہاں کچھ لوگ بھی لاوڈ اسپیکر لگائے بولے جارہے ہیں کہ اس باغ والے راستے پر مت جاؤ یہ راستہ اچھا نہیں ۔ تم بیابان والا کانٹے دار راستہ اختیار کرو کہ یہی راستہ بہتر ہے ۔

تو کیا وہ مان لیں گے

 خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ وہ سو کے سو نوجوان مملوک تھے اور وہی کیا جو مملوک کرتے ہیں ،اگربادشاہ شہزادی کو شہزادہ بنانا چاہتا تھا تو اس کے سارے شاہی نشان مٹا کر کسی عوامی ہجوم میں ویسے ہی چھوڑ دیتا اورکسی کویہ معلوم نہ ہونے دیتا کہ وہ کون ہے ؟ تو یقیناً کچھ عرصے بعد وہ مرد بن جاتا ۔ اس سے جو دوسری بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اسٹوپڈ تھا اوروزیر باتدبیر بھی اسٹوپڈ تھے اوریہ ہمارے سقراط بقراط بھی۔ جو جلتے ہوئے الاؤ میں پھول اگانے کی کوشش کررہے ہیں ، پہلے الاؤ بجھاؤ پھول خود بخود اگنا شروع ہوجائیں گے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتے ہیں کریں گے جاتا ہے کی کوشش ختم ہو ہے ہیں

پڑھیں:

دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت

دنیا طاقت، سازشوں اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ انہی عوامل کی روشنی میں مئی اور جون 2025 ء کے مہینے دو بظاہر الگ لیکن حیرت انگیز طور پر مماثل تنازعات کی وجہ سے عالمی سیاسی تاریخ میں نقش ہو چکے ہیں۔ایک تنازع پاکستان اور بھارت کے درمیان، جبکہ دوسرا اسرائیل اور ایران کے مابین پیش آیا۔ اگرچہ ان دونوں محاذوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا، لیکن ان کی نوعیت، طریقہ کار، اور پس پردہ کارفرما اتحاد ایک جیسے تھے۔ یہ محض اتفاقیہ جھڑپیں نہ تھیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو مسلم ممالک کو نشانہ بنانے والی مربوط جارحیت تھی۔ ان دونوں میدانوں میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ اسٹریٹیجک فریم ورک نمایاں نظر آیا—طاقت کا ایک محور جو خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
7 مئی 2025 ء کی صبح، پاکستان کو بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور خودمختاری پر حملے کے جواب میں فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ معتبر عسکری رپورٹس کے مطابق، بھارتی ڈرونز نے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی حدود میں گہرائی تک فضائی نگرانی کی کوشش کی، جسے انسداد دہشت گردی کی مشق کا نام دیا گیا۔ جواباً، پاکستان نے ان ڈرونز کو مار گرایا اور لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فوجی چوکیوں پر محدود اور درست نشانہ بناتی کارروائیاں کیں۔
اس واقعے کو منفرد بنانے والی بات یہ تھی کہ گرائے گئے ڈرونز بھارتی نہیں بلکہ اسرائیلی ساختہ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں اور الیکٹرانک فرانزک ٹیموں نے ان ڈرونز کا سراغ اسرائیلی ادارے ’’ایل بٹ سسٹمز‘‘سے لگایا، جن میں ’’ہرمیس‘‘ 900 اور ’’ہاروپ‘‘ جیسے جدید جنگی ڈرون شامل تھے جو پہلے غزہ اور لبنان میں استعمال ہو چکے ہیں۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان ڈرونز کو اسرائیل سے نہیں بلکہ بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے جیسلمیر میں قائم ایک کنٹرول سینٹر سے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسرائیلی دفاعی تکنیکی ماہرین بھارت اور اسرائیل کے درمیان 2023 ء میں دستخط شدہ دفاعی تعاون کے معاہدے کے تحت تعینات تھے۔ یہ اب قیاس آرائی نہیں بلکہ براہ راست اشتراک تھا۔
اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ 1 سے 7 مئی کے درمیان اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان کم از کم چار بار رابطے ہوئے۔ یورپی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک کیبل کے مطابق، نیتن یاہو نے بھارت کو ”حکمتِ عملی کی معلومات، تکنیکی مدد، اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی تحفظ” کی یقین دہانی کروائی۔ یہ پوری کارروائی نہ صرف پاکستان کو اکسانے کے لیے بلکہ مستقبل میں کسی بڑی جنگ کی صورت میں پاکستانی ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے کی گئی تھی۔
اس خفیہ ایجنڈے کی تصدیق نیتن یاہو کے ایک مبینہ انٹرویو میں بھی ہو چکی ہے جس میں انہوں نے گفتگو کے دوران واضح طور پاکستان اور ایران دونوں کو ’’ایسے بنیاد پرست اسلامی ریاستیں قرار دیا جو جوہری طاقت رکھتی ہیں یا اس کے قریب ہیں‘‘ اور مزید یہ بھی کہا کہ ’’عالمی برادری کو ان نظریاتی جوہری خطرات کے خلاف چوکنا رہنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ ہم ایران پر توجہ دے رہے ہیں، ہمیں پاکستان کے اسٹریٹیجک مقام اور عسکری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔خصوصاً جب وہ تہران کے ساتھ نظریاتی طور پر ہم آہنگ ہو۔‘‘ یہ بیانات اس نام نہاد ’’پیشگی دفاع‘‘ کے پردے میں خطے میں جارحیت کو جواز دینے کی کوشش تھے، جو مسلم دنیا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 7 مئی کی کشیدگی سے پہلے امریکی نائب صدر نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ ’’امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کوئی کردار نہیں۔‘‘ لیکن جب صورت حال بگڑنے لگی اور عالمی منڈیوں میں بے چینی پھیل گئی، تو امریکی صدر نے مداخلت کی اور دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر پس پردہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کروا دی۔ یہ امریکی رویہ،پہلے لاتعلقی، پھر مداخلت، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کا فیصلہ کن کردار اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی سیاسی حساب کتاب پر مبنی ہوتا ہے۔ایک بار پھر بھارت سے ہم آہنگی واضح نظر آئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملے سے چند گھنٹے قبل نیتن یاہو اور مودی کے درمیان ایک اور رابطہ ہوا، جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا نے تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان خفیہ پیغامات کی ترسیل سے کی۔ اس کے ساتھ ہی ایک سائبر حملہ بھی کیا گیا، جس سے ایران کے 40 فیصد فضائی ٹریفک کنٹرول نظام اور تیل کی برآمدات کی مواصلاتی تنصیبات متاثر ہوئیں۔ تہران میں سائبر سیکورٹی ماہرین نے اس میلویئر کا سراغ ’’ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز‘‘ اور ’’اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز‘‘ کے اشتراک سے تیار کیے گئے سافٹ ویئر سے لگایا۔ یہ ’’سٹکس نیٹ‘‘ اور’’فلیم‘‘ وائرسز کا امتزاج تھا، جو SCADA سسٹمز کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا،یہ بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سائبر جنگی حکمت عملی کا ثبوت تھا۔
ایران نے، بالکل پاکستان کی طرح، اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کیا۔ ’’باور-373‘‘ اور ’’خورداد 15‘‘ دفاعی نظاموں نے 19 میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے۔ جواباً، ایران نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں میں موجود اسرائیلی انٹیلی جنس مراکز پر ’’فاتح-110‘‘ میزائلوں سے محدود جوابی حملہ کیا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے قوم سے ایک نادر خطاب میں ’’صہیونی-ہندو گٹھ جوڑ‘‘ کی مذمت کی اور عالمِ اسلام سے اتحاد کی اپیل کی۔
دونوں تنازعات میں ایک واضح قدر مشترک تھی؛ اسرائیل اور بھارت کا اشتراک، جس میں عسکری، تکنیکی اور سائبر مہارت کو یکجا کر کے مسلم طاقتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور پاکستان ان کے نزدیک نظریاتی، اسٹریٹیجک اور جغرافیائی سیاسی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیل ایران کو جوہری میدان میں حریف سمجھتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ کی راہ میں رکاوٹ۔
لیکن اصل تشویش عالمی برادری کی خاموشی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کسی ہنگامی اجلاس کی زحمت تک نہ کی۔ مغربی میڈیا نے پاکستان-بھارت تنازعے کو محض ’’سرحدی کشیدگی‘‘ اور اسرائیل-ایران جنگ کو ’’روک تھام کا حملہ‘‘ قرار دیا۔ ایک بھی مذمتی قرارداد منظور نہ ہوئی۔ یہ منافقانہ رویہ اس عالمی انصاف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے جو صرف تب جاگتا ہے جب غیر مسلم مفادات خطرے میں ہوں۔
ایسے پیچیدہ حملوں کے مقابلے میں، پاکستان اور ایران کو محض ردعمل سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ انٹیلی جنس کا تبادلہ، سائبر دفاع میں اشتراک، مشترکہ فوجی مشقیں، اور سفارتی ہم آہنگی مستقبل میں ایک مضبوط اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تنہا ریاستیں گرتی ہیں، لیکن متحد قومیں قائم رہتی ہیں۔ دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ان کی بقا اور عزت صرف مذہب یا ثقافت میں نہیں، بلکہ تقدیر میں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
مئی اور جون 2025 ء کی یہ جنگیں صرف ڈرونز اور میزائلوں کی قوت کی وجہ سے یاد نہیں رکھی جائیں گی، بلکہ اس شعور کے باعث بھی یاد رکھی جائیں گی جو انہوں نے مستقبل کی جنگوں کی نوعیت پر ڈالا۔ یہ ہائبرڈ جنگوں کا دور ہے، جہاں گولیاں اور بائٹس ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مگر اس دور میں بھی ایک سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے: جب ایک قوم متحد ہو، تو اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ایران اور پاکستان نے ان حملوں سے صرف زندہ رہنا ہی نہیں سیکھا بلکہ مضبوط ہو کر ابھرے، ان کی عوام پُرعزم ہوئیں، اور ان کے دشمنوں کو انتباہ ملا۔ بالآخر، ظلم فولاد کے ساتھ چل سکتا ہے، مگر تاریخ ہمیشہ عدل کے ساتھ چلتی ہے اور عدل، اگرچہ تاخیر سے، کبھی مرتا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج
  • ایران استقامت کی علامت اور سامراجی بیانیے کا نشانہ
  • ہمیں کسان پیکج نہیں بلکہ فوڈ سیکیورٹی چاہیے، خالد کھوکھر
  • تاریخ کی کروٹ،وقت کی کڑواہٹ
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • عالمی بحران کے مقابل یکجہتی کی پکار اور اپیل
  • امریکا جانتا ہے خامنہ ای کہاں چھپے ہیں لیکن فی الحال قتل نہیں کریں گے؛ ڈونلڈ ٹرمپ
  • ہمیں پتا ہے ایرانی سپریم لیڈر کہاں ہیں لیکن ابھی نشانہ نہیں بنانا چاہتے ، ٹرمپ کا دعویٰ
  • جانتے ہیں کہ آیت اللہ خامنہ ای کہاں ہیں مگر فی الحال انہیں مارنا نہیں چاہتے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایران مکمل سرنڈر کرے، خامنہ ای آسان ہدف، معلوم ہے کہاں چھپے ہیں، ٹرمپ