اقوام متحدہ میں 2 ریاستی حل سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کویت کے وزیر خارجہ عبداللہ الیحییٰ سے ملاقات کی۔

دفتر خارجہ کے مطابق ملاقات میں پاکستان اور کویت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ فریقین نے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، غذائی تحفظ اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: مسئلہ فلسطین کا 2 ریاستی حل امن اور سلامتی کی بنیاد ہے، سعودی وزیر خارجہ

اسحاق ڈار اور کویتی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت کثیرالجہتی فورمز پر قریبی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اعلیٰ سطحی تبادلوں کے جلد انعقاد پر اتفاق کیا تاکہ دوطرفہ روابط کو مزید گہرا کیا جا سکے۔

ملاقات کے دوران غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور بگڑتی انسانی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں وزرائے خارجہ نے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور دیرپا حل کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر امید ظاہر کی گئی کہ نیویارک کانفرنس کے نتائج 2 ریاستی حل کے عملی نفاذ میں مددگار ثابت ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

(2 ریاستی حل) اسحاق ڈار اقوام متحدہ کویتی وزیر خارجہ وزیر خارجہ عبداللہ الیحییٰ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 2 ریاستی حل اسحاق ڈار اقوام متحدہ کویتی وزیر خارجہ ریاستی حل اسحاق ڈار

پڑھیں:

غزہ: غیر یقینی جنگ بندی کے دوران مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر کانفرنس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 جولائی 2025ء) ایک خودمختار فلسطینی ریاست اور اسرائیل کا پرامن طور سے اکٹھے رہنا فی الوقت دور کی بات لگتی ہے تاہم اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی تازہ ترین کوشش کے طور پر اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس نیویارک میں شروع ہو گئی ہے۔

فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل اقوام متحدہ میں کینیڈا کے سفیر باب رائے نے یو این نیوز کو بتایا کہ یہ امن کانفرنس نہیں بلکہ اس کا مقصد فلسطینی مسئلے پر بات چیت کو جاری رکھنا اور رکاوٹوں کو دور کر کے مسئلے کا حل نکالنا ہے۔

امید ہے کہ کانفرنس میں ہونے والی بات چیت اس ضمن میں ٹھوس نتائج کے حصول میں مدد دے گی۔

اس کانفرنس میں تنازع کے دونوں فریق شریک نہیں ہیں اور اسرائیل کے مضبوط حمایتی امریکہ کی جانب سے بھی شرکت کی توقع نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپریل میں سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ دو ریاستی حل کا امکان سرے سے ختم ہونے کو ہے۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم نظر نہیں آتا۔

تاہم 5 جون کو صحافیون سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ دو ریاستی حل پر شبے کا اظہار کرتے ہیں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ ایک ریاستی حل ہو گا جس میں فلسطینیوں کو یا تو ان کے علاقوں سے نکال باہر کیا جائے گا یا وہ اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہیں گے؟

انہوں نے یاد دلایا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اسے عملی صورت دینے کے لیے حالات کو سازگار بنانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔

کینیڈا کے سفیر نے کہا کہ اگرچہ اس کانفرنس کے منتظمین اسرائیل اور فلسطین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھی اس میں شرکت کریں لیکن انہیں اس وقت دونوں فریقین کو درپیش مشکل حالات کا احساس ہے۔ اس وقت اسرائیل کے متعدد شہری حماس کے پاس یرغمال ہیں اور غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کو انتہائی المناک حالات کا سامنا ہے۔

امن و استحکام کا واحد راستہ

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں تولیتی کونسل کے دفتر میں اس کانفرنس کا انعقاد گزشتہ سال منظور ہونے والی جنرل اسمبلی کی قرارداد (ای ایس22/10) کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔

کانفرنس سے قبل جاری کردہ ایک بیان میں فرانس اور سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کو اب بھی قریباً پوری دنیا کی حمایت حاصل ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے اپنی جائز خواہشات کی تکیمل اور علاقائی امن و استحکام کے لیے حالات سازگار بنانے کا واحد راستہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد ایک اور لامختتم عمل کو بحال یا دوبارہ شروع کرنا نہیں بلکہ دو ریاستی حل پر ایک ہی مرتبہ اور ہمیشہ کے لیے عملدرآمد کرنا ہو گا۔

ٹھوس بات چیت کی ضرورت

اس کانفرنس کی تیاریوں کے لیے مئی میں ہونے والے ایک اجلاس میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کی مشیر برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ این کلیئر لیجنڈرا نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کے امکانات کو برقرار رہنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ناقابل واپسی اور ٹھوس اقدامات لیے جانا ضروری ہیں جبکہ غزہ میں میں پائیدار جنگ بندی، انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ان کی ہم منصب اور اپنے ملک کی مذاکراتی ٹیم کی سربراہ منال بنت حسن روان نے کہا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں و قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششیں ایک قابل اعتماد اور ناقابل واپسی سیاسی منصوبے پر مبنی ہونی چاہئیں جس کے ذریعے تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں مدد ملے اور امن، وقار اور باہمی سلامتی کی حقیقی راہ میسر آئے۔

انہوں نے کہا کہ 1993 کے اوسلو معاہدوں کے بعد اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی اور اب اس مسئلے پر حقیقی بات چیت کا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا۔

دو ریاستی حل کیا ہے؟یہودی اور فلسطینی آبادیوں کی پرامن ریاستوں کے قیام کا تصور اقوام متحدہ کی تخلیق (1945) سے بھی پہلے کا ہے۔ تب سے یہ تصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجنوں قراردادوں، متعدد امن مذاکرات، اور جنرل اسمبلی کے حال ہی میں دوبارہ شروع ہونے والے دسویں ہنگامی خصوصی اجلاس کا حصہ بن چکا ہے۔

1947 میں برطانیہ نے فلسطین پر اپنا اختیار ختم کر کے 'فلسطینی مسئلہ' اقوام متحدہ میں پیش کیا جس نے اس کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو آزاد عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی جن کا مشترکہ دارالحکومت یروشلم ہوتا۔ یہی فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کا ایک بنیادی خاکہ تھا۔1991 میں میڈرڈ میں امن کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مقصد فریقین میں براہ راست مذاکرات کے ذریعے پرامن تصفیے تک پہنچنا تھا۔

یہ مذاکرات اسرائیل اور عرب ریاستوں کے مابین اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونا تھے اور اس عمل کی بنیاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 (1967) اور 338 (1973) پر رکھی گئی تھی۔1993 میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور فلسطینی تنظیم آزادی (پی ایل او) کے چیئرمین یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے جس میں مزید مذاکرات کے اصول وضع کیے گئے اور مغربی کنارے اور غزہ میں ایک عبوری فلسطینی خودمختار حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔

1993 کے اوسلو معاہدے میں کچھ اہم امور کو بعد میں ہونے والے مذاکرات کے لیے موخر کر دیا گیا جو 2000 میں کیمپ ڈیوڈ اور 2001 میں طابا میں ہوئے لیکن یہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔اوسلو معاہدے سے تین دہائیوں کے بعد بھی اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اس تنازعے کے حل اور قبضے کے خاتمے کے لیے مدد فراہم کی جائے تاکہ دو ریاستوں کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا جا سکے۔ اس تصور کے تحت اسرائیل اور ایک آزاد، جمہوری، باہم متصل، قابلِ عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست 1967 سے پہلے کی سرحدی حدود کی بنا پر باہم امن و سلامتی سے رہیں گے اور یروشلم دونوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ: غیر یقینی جنگ بندی کے دوران مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر کانفرنس
  • سعودی وزیر خارجہ کا اقوام متحدہ میں دوٹوک مؤقف: فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر امن ممکن نہیں
  • نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی کویت کے وزیر خارجہ عبداللہ ال یحییٰ سے ملاقات
  • اسحاق ڈار کی مصر کے وزیر خارجہ ڈاکٹر بدر عبدالاطے سے ملاقات
  • اسحاق ڈار کا مارکو روبیو کو فون، بنگلہ دیشی مشیرخارجہ سے ملاقات
  • وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی بنگلہ دیش کے مشیر برائے امور خارجہ توحید حسین سے ملاقات
  • اسحاق ڈار اور مصری وزیر خارجہ کی ملاقات، فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے پر اتفاق
  • اسحاق ڈار کا ترک ہم منصب کو فون، اسرائیلی مظالم کی مذمت، غزہ جنگ بندی کا مطالبہ
  • پی ٹی آئی کی حکومت مزید 6 ماہ رہتی تو ملک ڈیفالٹ کرجاتا، اسحق ڈار