امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کو میانمار میں موجود قیمتی اور نایاب معدنیات (ریئر ارتھ) تک رسائی حاصل کرنے سے متعلق مختلف تجاویز موصول ہوئی ہیں۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق یہ تجاویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب امریکا کی کوشش ہے کہ وہ ان اہم معدنیات کے لیے چین پر انحصار کم کرے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا پاکستان سے معدنیات اور کانکنی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر زور

میانمار دنیا کے چند ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں بھاری ریئر ارتھ معدنیات بکثرت پائی جاتی ہیں۔ ان کی صنعتی اہمیت بہت زیادہ ہے اور چین ان کا سب سے بڑا خریدار اور پروسیسر ہے۔

امریکی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے مختلف سابق حکومتی مشیران، کاروباری لابسٹ اور تجزیہ کاروں نے ٹرمپ ٹیم کو تین بڑی تجاویز پیش کی ہیں۔

پہلی تجویز یہ ہے کہ امریکا، میانمار کی فوجی حکومت (جنتا) کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے اور ساتھ ہی کاچن انڈیپنڈنس آرمی (KIA) کے ساتھ امن معاہدہ طے کرے تاکہ وہ علاقہ جہاں یہ معدنیات پائی جاتی ہیں، محفوظ رسائی میں آ سکے۔

دوسری تجویز کے مطابق امریکا براہ راست KIA سے رابطہ کرے، جو چین کے خلاف بداعتمادی کا اظہار کر چکی ہے اور امریکی تعاون کی خواہاں ہے۔

یہ  بھی پڑھیں:امریکا اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر دستخط

تیسری تجویز یہ ہے کہ امریکا کواڈ اتحاد، خصوصاً بھارت کے ساتھ مل کر پروسیسنگ یونٹس اور سپلائی چین تیار کرے تاکہ چین کے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔

ان تجاویز پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا تاہم ان میں کچھ قانونی اور سفارتی چیلنجز بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر چین کی ممکنہ مزاحمت اور KIA کے زیرِ قبضہ پہاڑی علاقوں تک رسائی میں درپیش رکاوٹیں، ان تجاویز کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

مزید یہ کہ امریکی پالیسی سازوں کو پابندیوں میں نرمی، سفارتی ایلچی کی تعیناتی اور ممکنہ تجارتی مراعات جیسے نکات پر بھی غور کرنا ہوگا۔

ماہرین کے مطابق اگر ان تجاویز پر پیشرفت ہوتی ہے تو امریکا چین کے ریئر ارتھ مارکیٹ پر غلبے کو چیلنج کرنے کے قابل ہو سکتا ہے، تاہم اس عمل سے جنوب مشرقی ایشیا میں نئی جیوپولیٹیکل پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ریکوڈک منصوبہ: معیشت، معدنیات اور سرمایہ کاری کا نیا دور

یہ پیش رفت اس بڑی عالمی دوڑ کا حصہ ہے جہاں اہم صنعتی اور تکنیکی شعبوں کے لیے درکار معدنی وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا عالمی طاقتوں کا نیا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا بھارت ٹرمپ ٹیم چین میانمار نایاب معدنیات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا بھارت ٹرمپ ٹیم چین میانمار نایاب معدنیات کے لیے

پڑھیں:

غزہ پٹی کی صورت حال: جرمن چانسلر کی اردن کے شاہ سے ملاقات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جولائی 2025ء) اردن کے حکام کے مطابق جرمن چانسلر میرس اور اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کی منگل کو برلن میں ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور خطے کی موجودہ سنگین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

چانسلر میرس نے پیر کے روز کہا تھا کہ ان کی حکومت اردن کے ساتھ مل کر غزہ پٹی کے انتہائی ضرورت مند عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کی خاطر کام کرے گی۔

میرس نے کہا تھا، ''ہم جانتے ہیں کہ یہ غزہ کے عوام کے لیے بہت چھوٹی سی مدد ہو سکتی ہے، لیکن یہ ایک حصہ ہے جو ہم خوشی سے ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ امداد کی فراہمی پر عائد پابندیوں میں نرمی کرے کیونکہ غزہ پٹی کے محصور علاقے میں قحط کے پھیلنے کا خطرہ شدید ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

اردن نے حالیہ دنوں میں غزہ پٹی میں خوراک کی فراہمی کے لیے امدادی سامان فضا سے گرانے کا عمل شروع کیا ہے، جو اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے خلاف جنگ میں ''تزویراتی توقف‘‘ کے اعلان کے بعد ممکن ہوا ہے۔

اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، اور دیگر امدادی تنظیموں کے مطابق غزہ پٹی میں انسانی بحران شدید تر ہو رہا ہے اور ہزارہا انسان فاقہ کشی کا شکار ہیں۔

اس صورت حال کے پیش نظر عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ امداد کی ترسیل کے لیے راستے کھولے۔

اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمین نیتن یاہو نے اتوار کے روز دعویٰ کیا تھا کہ ''غزہ میں قحط نہیں ہے،‘‘ تاہم ایک دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''محصور علاقے میں واقعی قحط ہے اور ہمیں بچوں کو خوراک فراہم کرنا چاہیے۔

‘‘ ہر چار میں سے تین جرمن اسرائیل پر مزید دباؤ کے حامی

تقریباً 75 فیصد جرمن شہری چاہتے ہیں کہ میرس حکومت غزہ پٹی میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال کے پیش نظر اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے۔

فورسا انسٹیٹیوٹ کے ذریعے جرمن جریدے اشٹیرن کے لیے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج، جو اس جریدے میں آج منگل کو شائع ہوئے، کے مطابق 74 فیصد جرمن باشندے چاہتے ہیں کہ وفاقی جرمن حکومت اسرائیل کے حماس کے ساتھ جاری تنازعے میں اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔

یہ سروے سیاسی وابستگی کی بنیاد پر رائے عامہ میں واضح فرق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کے 94 فیصد ووٹر اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے 88 فیصد ووٹر اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالنے کے حق میں تھے۔

جرمن حکومتی اتحاد میں شامل سینٹر رائٹ یونین جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو، اور سینٹر لیفٹ پارٹی ایس پی ڈی کے حامیوں میں سے بھی 77 فیصد افراد چاہتے ہیں کہ جرمن حکومت اسرائیل کو غزہ پٹی میں جاری انسانی بحران ختم کرنے اور جنگ روکنے پر مجبور کرے۔

البتہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے حامیوں میں سے 37 فیصد اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے جانے کے مخالف تھے۔ پھر بھی ان میں سے بھی 61 فیصد افراد اسرائیل کے خلاف جرمنی کے سخت موقف کے حق میں تھے۔

جرمنی اسرائیل کا ایک اہم اتحادی ملک ہے، اور اسرائیل کی سلامتی اور بقا کا دفاع جرمن ریاست کی بنیادی پالیسی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین، مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • غزہ پٹی کی صورت حال: جرمن چانسلر کی اردن کے شاہ سے ملاقات
  • امریکا میں قید کاٹنے والی عافیہ صدیقی کے کیس میں کب کیا ہوا؟
  • امریکا اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا
  • یورپی یونین اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ، 15 فیصد ٹیرف پر اتفاق
  • یورپی یونین 30 فیصد امریکی ٹیرف سے بچ گیا، امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے گیا
  • امریکا غزہ میں جلد جنگ بندی معاہدے کے لیے پُرامید
  • پاکستان امریکا کے ساتھ بھی مضبوط ترین تعلقات چاہتا ہے: اسحاق ڈار
  • پاک-امریکا عسکری تعلقات میں کلیدی کردار پر امریکی جنرل کو نشان امتیاز سے نواز دیا گیا
  • پاک امریکا عسکری تعاون کے فروغ پر امریکی جنرل مائیکل کوریلا کو نشانِ امتیاز (ملٹری) سے نوازا گیا