پاکستانی صحافتی منظرنامہ ناخوشگوار واقعات سے بھرا ہے، شیری رحمان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نائب صدر اور سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا صحافتی منظرنامہ سنسرشپ، ڈرانے دھمکانے، صحافیوں پر تشدد جیسے ناخوشگوار واقعات سے بھرا ہوا ہے۔
شیری رحمٰن نے آزادی صحافت کے عالمی دن پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آج کا دن ہمیں صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کو درپیش چیلنجز پر غور کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور صحافتی اداروں کا جمہوری عمل، معاشرے کی تشکیل اور احتساب میں اہم کردار ہے۔ عوام کو آگاہ کرنے اور اقتدار میں رہنے والوں کو جوابدہ بنانے میں صحافیوں کے ناگزیر کردار کی عزت کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمشیہ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، آزادی صحافت کے لیے پیپلز پارٹی اپنے عزم پر کھڑی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم صحافیوں کے حقوق اور دفاع میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ شہید بےنظیر بھٹو، صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کی حمایت کی مثال قائم کر چکے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آزادی صحافت پیپلز پارٹی
پڑھیں:
پی ٹی آئی قیادت کو سزائیں: پاکستانی سیاست کس طرف جا رہی ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اگست 2025ء) فیصل آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے نو مئی کے تین مقدمات میں پی ٹی آئی کے ایک سو سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو دس دس سال قید با مشقت کی سزائیں سنائی ہیں۔ سزا پانے والوں میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، سابق وزیر زرتاج گل، صاحبزادہ حامد رضا، شیخ رشید شفیق، اشرف سوہنا، رائے حسن نواز، رائے مرتضیٰ، چوہدری اقبال اعجاز، اور کئی دیگر شامل ہیں۔
قانون دان بابر سہیل کے مطابق سزا یافتگان کو اگلی عدالت میں اپیل سے پہلے خود کو قانون کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔سینیئر صحافی حامد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ان مقدمات کو چار ماہ میں نمٹانے کی ڈیڈ لائن دے کر شفاف ٹرائل کے عمل کو متاثر کیا۔
(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ بعض افراد، جیسے مراد راس اور فرخ حبیب، جنہوں نے پریس کانفرنس کی انہیں کوئی سزا نہیں مل سکی۔
ان کے مطابق یہ کوئی نئی بات نہیں خود عمران خان کے دور میں بھی عدالتوں نے طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو نا اہل کیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان حالات میں عوامی ردعمل شدت اختیار کر گیا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ سیاسی حکمت عملی یا قانونی کارروائی؟تاہم کئی سیاسی مبصرین کا مؤقف مختلف ہے۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی قیادت کو دی جانے والی سزائیں محض قانونی کارروائی نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کو انتخابی عمل سے باہر کرنا اور اس کی تنظیمی طاقت توڑنا ہے۔
ان کے مطابق عدالتوں کا کردار جانبدار دکھائی دیتا ہے، اور یکساں نوعیت کی سزاؤں نے سیاسی انتقام کا تاثر پیدا کیا ہے۔اس سے پہلے سرگودھا کی انسداد دہشتگردی عدالت نے بھی گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے 32 رہنماؤں اور کارکنوں کو میانوالی جلاؤ گھیراؤ کیس میں دس سال قید کی سزا دی تھی، ان سزا پانے والوں میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک احمد بھچر بھی شامل تھے۔
ان کی سزا کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں فوری طور پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ اسی طرح لاہور میں یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کو بھی شیرپاؤ پل کیس میں دس دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جبکہ ادھر اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں، جن میں سابق صدر عارف علوی، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور، سینیٹرز اعظم سواتی، فیصل جاوید اور عمران خان کی بہن علیمہ خان شامل ہیں، کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ سیاسی دہشت گردیوفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا مؤقف ہے کہ یہ سزائیں شواہد کی بنیاد پر دی گئی ہیں اور 9 مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی عمران خان کے گھر سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والے "سیاسی دہشت گرد" ہیں اور ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی۔
تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں ماضی کی وہ یاد دلاتی ہیں، جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو بھی اسی انداز میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان کے مطابق سیاسی جماعتیں عدالتی احکامات سے ختم نہیں ہوتیں، بلکہ صرف سیاسی عمل سے ان کی حیثیت کم ہوتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی کی ایک نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔سلمان عابد کے مطابق اس وقت بظاہر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت کو میدان خالی مل رہا ہے، خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا جیسے علاقوں میں جہاں پی ٹی آئی کا اثر تھا، ''تاہم، یہ فائدہ اسی صورت دیرپا ہو سکتا ہے جب عوامی اعتماد برقرار رہے، جو کہ موجودہ حالات میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ پی ٹی آئی کی سیاست ختم ہو چکی ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ پاکستانی سیاست کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے، اور اس کا اثر آئندہ انتخابات، پارلیمانی عمل اور جمہوریت کی شفافیت پر پڑنا یقینی ہے۔‘‘ گرفتاریاں نہ دیںلاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے ڈی ڈبلیو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پنجاب کے کئی شہروں میں پارٹی کارکنوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق سفید کپڑوں میں ملبوس افراد، جو مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھتے ہیں، پارٹی رہنماؤں کے گھروں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے گھروں پر رابطہ کر کے روپوش افراد کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں، جبکہ پارٹی نے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فی الحال گرفتاری نہ دیں۔ڈی ڈبلیو کے پاس موجود صدر ڈویژن لاہور کی پولیس کی ایک فہرست میں 1237 افراد کے نام، پتے اور فون نمبرز موجود ہیں جنہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فہرست میں بعض وہ افراد بھی شامل ہیں جو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا ضمانتی مچلکے جمع کرا چکے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشن کی نوعیت وسیع اور منظم ہے۔پی ٹی آئی خود کو "ریاستی انتقام" کا نشانہ قرار دے رہی ہے اور عمران خان اب بھی سیاسی مرکز میں ہیں، چاہے وہ جیل میں ہوں یا نظر بند۔ پی ٹی آئی نے 5 اگست کو ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی ہے، ایسے میں مزید گرفتاریوں، پولیس ایکشن اور سیاسی تصادم کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔