پہلگام حملہ: پاکستان، بھارت نے امریکا میں لابنگ کرنے والوں کی خدمات حاصل کرلیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد، جس نے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو ایک بار پھر بھڑکا دیا ہے، بھارت اور پاکستان دونوں نے واشنگٹن کے اقتداری حلقوں میں اپنے اپنے موقف کو اجاگر کرنے کے لیے ٹرمپ کے سابق اتحادیوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق جیسن ملر، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طویل عرصے سے مشیر رہے، نے بھارتی حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے ماہانہ ایک لاکھ 50 ہزار ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران ان کا پہلا باضابطہ لابنگ کردار ہوگا۔
ڈان کی طرف سے دیکھے گئے امریکی محکمہ انصاف کے پاس فائلنگ کے مطابق، جیسن ملر نئی دہلی کو اسٹریٹجک مشورے، حکمت عملی کی منصوبہ بندی، لابنگ اور تعلقات عامہ کی خدمات فراہم کریں گے۔
مواصلاتی حکمت عملی کے ماہر جیسن ملر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی دونوں صدارتی مہمات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، اور وہ وائٹ ہاؤس میں سینئر مشیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
بعد میں انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’گیٹر‘ کا آغاز کیا، جسے آزادی اظہار رائے کے لیے ٹویٹر کے متبادل کے طور پر فروغ دیا گیا، اور یہ قدامت پسند سیاسی حلقوں میں سرگرم رہا۔
اسی دن، ڈونلڈ ٹرمپ کے دو دیگر ساتھیوں وائٹ ہاؤس کے سابق نائب معاون کیتھ شلر اور ٹرمپ آرگنائزیشن کے سابق ایگزیکٹو جارج سوریال کو پاکستان کے لیے غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا۔ جارج سوریال، ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے وقت کی سرگزشت ’دی ریئل ڈیل‘ کے شریک مصنف بھی ہیں۔
ان کی فرم، جیولن ایڈوائزرز ایل ایل سی نے سیڈن لا کے ذیلی کنٹریکٹر کے طور پر دستخط کیے، جس نے حال ہی میں پاکستانی حکومت کے ساتھ 2 لاکھ ڈالر ماہانہ کا معاہدہ کیا ہے۔
سیاست اور پالیسی کا احاطہ کرنے والے امریکی اشاعتی ادارے ’پولیٹیکو‘ کے مطابق معاہدے میں جیولن کا حصہ 50 ہزار ماہانہ ہے۔
اگرچہ غیر ملکی لابنگ کے معاہدے ظاہری طور پر اقتصادی اور سفارتی مصروفیات پر مرکوز ہیں، لیکن دونوں نئے معاہدوں نے ان کی ٹائمنگ کے باعث توجہ حاصل کی ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کے طور پر ٹرمپ کے کے لیے
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔