مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر انتقال کرگئے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
ویب ڈیسک: مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ اور ممتاز مذہبی و سیاسی رہنما پروفیسر سینیٹر ساجد میر 86 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
1938 ء کوسیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ساجد میر کچھ عرصہ سے علیل تھے،ان کا کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں مہروں کا آپریشن ہواتھاجس کے بعد سے وہ شدید علیل ہو گئے تھے، دس سال قبل ان کے دل میں بھی سٹنٹ پڑا تھا۔
پروفیسر ساجد میر گزشتہ 40سال سے اپنی جماعت کے سربراہ چلے آ رہے تھے،وہ 5 بار ایوان بالا سینٹ کے رکن رہے،ان کا شمار میاں نواز شریف کے قریبی رفقاءمیں ہوتا تھا،انہوں نے متعدد تصانیف بھی لکھیں جس میں سب سے معروف کتاب "عیسائیت ایک مطالعہ او تجزیہ" شامل ہیں۔
قصور : پسند کی شادی نہ ہونے پراپنےہی گھر کا صفایا کرنے والی لڑکی پکڑی گئی
ان کےسعودی عرب کے حکمرانوں شاہ عبد اللہ ،شاہ سلمان بن عبد العزیز اور محمد بن سلمان کے ساتھ بھی خصوصی مراسم تھے،سیاسی تاریخ میں ان کی ایک منفرد پہچان جنرل پرویز مشرف کے صدر کے انتخاب میں مخالفت میں تنہا ووٹ ڈالنا تھا،وہ اسلام کی سربلندی اور جمہوریت کے لیے تواناآواز تھے۔
پروفیسرساجد میر کچھ روزقبل اپنے آبائی شہر سیالکوٹ منتقل ہو گئے تھے اوروہیں انہوں نے آخری سانسیں لیں،انکی نماز جنازہ سیالکوٹ میں ہی ادا کی جاۓ گی،انہوں نے 2 بیٹے ایک بیٹی اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔
سانحہ نو مئی کے تمام مقدمات یکجا کرنے کی درخواست 8 مئی کو سماعت کیلئے مقرر
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
مہمانِ خصوصی ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے 105ویں یومِ تاسیس کے موقع پر ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ یہ خصوصی سیمینار جامعہ کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کانفلکٹ ریزولوشن کی جانب سے منعقد کیا گیا، جس کا عنوان تھا "مہاتما گاندھی کا سوراج"۔ اس موقع پر "دور درشن" کے ڈائریکٹر جنرل کے ستیش نمبودری پاد نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، جبکہ پروگرام کی صدارت جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی۔ اس موقع پر متعدد اسکالروں اور ماہرین تعلیم نے مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے سوراج کے تصور کی عصری معنویت پر اپنے خیالات پیش کئے۔ مہمانِ خصوصی کے ستیش نمبودری پاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے تاریخی اور تحریک انگیز ادارے میں بولنا اپنے آپ میں فخر کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ جدید ہندوستان کی تاریخ، ثقافت، ترقی اور امنگوں کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوراج صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ خود نظم، اخلاقیات اور اجتماعی بہبود کا مظہر ہے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا مشہور قول نقل کیا "دنیا میں ہر ایک کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہے، مگر کسی کے لالچ کے لئے نہیں"۔
ڈاکٹر نمبودری پاد نے بتایا کہ جب وہ نیشنل کونسل فار رورل انسٹیٹیوٹس (این سی آر آئی) میں سکریٹری جنرل تھے تو انہوں نے وردھا کا دورہ کیا جہاں انہیں گاندھیائی مفکرین نارائن دیسائی اور ڈاکٹر سدرشن ایینگر سے رہنمائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے یجروید کے منتر "وشوَ پُشٹم گرامے اَسمِن انا تورم" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "حقیقی سوراج متوازن دیہی خوشحالی اور انسانی ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں "آدرش پسندی بمقابلہ حقیقت پسندی"، "ترقی بمقابلہ اطمینان" اور "شہری زندگی بمقابلہ دیہی سادگی" کے تضادات میں گاندھی کا سوراج انسانیت کے لئے ایک اخلاقی راستہ پیش کرتا ہے۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ دنیا مہاتما گاندھی کو پڑھ کر اور سن کر جانتی ہے، لیکن میں گاندھی میں جیتا ہوں، کیونکہ میں چمپارن کا ہوں، جہاں سے گاندھی کے ستیاگرہ کی شروعات ہوئی تھی۔