بھارت کے پاکستان پر حملے کی صورت میں بنگلہ دیش کو انڈیا پر قبضہ کرلینا چاہیے، سابق بنگلہ دیشی فوجی افسر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
ڈھاکہ:بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے مشیر اور سابق ریٹائرڈ فوجی جنرل فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ بھارت اگر پاکستان پر حملہ کرے تو بنگلہ دیش کو فوری طور پر انڈیا کی سات شمال مشرقی ریاستوں پر قبضہ کرلینا چاہیے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق سابق فوجی افسر اے ایل ایم فضل الرحمٰن نے اپنی فیس بک پوسٹ میں بنگالی زبان میں بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستوں پر حملے کی تجویز دی۔
سابق بنگالی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ بھارت کی سات ہی شمال مشرقی ریاستیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور اس ضمن میں بنگلہ دیش کو ابھی سے ہی چین کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
سابق آرمی افسر نے کہا کہ پاک-بھارت کشیدگی اور ممکنہ طور پر بھارت کے پاکستان پر حملے کے تناظر میں بنگلہ دیش کو چین سے بات چیت کرکے فوجی مشقیں شروع کرلینی چاہیے۔
انہوں نے دو ٹوک تجویز دی کہ بھارت جیسے ہی پاکستان پر حملے کرے تو بنگلہ دیش کو انڈیا کی سات شمال مشرقی ریاستوں پر قبضہ کرلینا چاہیے۔
اے ایل ایم فضل الرحمٰن کی جانب سے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں پر حملے کی تجویز کے بعد بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے ریٹائرڈ فوجی افسر کے بیان کو ذاتی قرار دے دیا۔
بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اے ایل ایم فضل الرحمٰن کا بیان حکومتی پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتا۔
خیال رہے کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ارونا چل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، مزورام، تری پورا اور ناگالینڈ کی سرحدیں بنگلہ دیش کے ساتھ 1600 کلو میٹر رقبے تک لگتی ہیں۔
بھارت کی ان ہی ریاستوں کی سرحدیں چین، میانمار، نیپال اور بھوٹان سے بھی لگتی ہیں، مذکورہ علاقے کی متعدد ریاستوں کے کئی علاقوں پر نیپال، بھوٹان، چین اور میانمار اپنا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے سابق فوجی افسر کی جانب سے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں پر قبضے کی تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کو جواز بنا کر پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شمال مشرقی ریاستوں پر پاکستان پر حملے بنگلہ دیش کو فضل الرحم ن پر حملے کی فوجی افسر بھارت کی کہ بھارت کی سات
پڑھیں:
حسینہ کی معزولی کے ایک سال بعد بھی بنگلہ دیش منقسم کیوں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) بنگلہ دیش میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جلاوطنی کے بعد عبوری حکومت، انتخابی غیر یقینی، انسانی حقوق اور اسلام پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔
اگست 2024 میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے سے برسر اقتدار وزیرِاعظم شیخ حسینہ نے حکومت مخالف پر تشدد احتجاج کے بعد استعفیٰ دیا اور بھارت چلی گئیں۔
ان مظاہروں کی ابتدا سرکاری ملازمتوں میں متنازع کوٹہ نظام کے خلاف ہوئی تھی، مگر یہ وسیع تر عوامی تحریک میں بدل گئے۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے رہنما یا تو گرفتار ہوئے یا روپوش ہوگئے، جبکہ اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔(جاری ہے)
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا اور دیگر رہنما، جو حسینہ دور میں بدعنوانی اور تشدد جیسے الزامات میں قید تھے، اب آزاد ہیں۔
پارٹی رہنما عبدالسلام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی آزادی بحال ہوئی ہے مگر عام عوام کے لیے حالات اب بھی غیر یقینی ہیں۔دارالحکومت ڈھاکہ میں گارمنٹ ورکر امبیہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ طلبہ کی تحریک نے امید پیدا کی، مگر بدامنی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی اب بھی جاری ہے۔
عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں، جنہوں نے ابتدائی طور پر اپریل 2026 میں انتخابات کا وعدہ کیا، لیکن بی این پی اور اتحادی جماعتیں فروری میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
انسانی حقوق کے محاذ پر بہتری کی امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ اگرچہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم میں کمی آئی ہے مگر اب بھی سیاسی مخالفین کو بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے اور عدالتی و صحافتی اصلاحات سست روی کا شکار ہیں۔
ایک نئی پیش رفت میں محمد یونس کی حکومت نے سب سے بڑی اسلام پسند جماعت پر سے پابندی ہٹا لی ہے، جس کے بعد ''حفاظتِ اسلام‘‘ جیسی تنظیموں کی عوامی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔
ان گروہوں نے خواتین کے مساوی وراثتی حقوق، تعدد ازدواج پر پابندی اور جنسی کارکنوں کی قانونی حیثیت جیسے مجوزہ اصلاحات کے خلاف ہزاروں افراد پر مشتمل مظاہرے کیے۔سرکاری ترجمان فویز احمد نے ایچ آر ڈبلیو کی تنقید کو جزوی طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مکمل ختم نہیں ہوئیں لیکن ان کے بقول حسینہ دور کے مقابلے میں ان خلاف ورزیوں میں اب نمایاں کمی آئی ہے۔
ان کے مطابق بند کیے گئے میڈیا ادارے دوبارہ کھل چکے ہیں اور لوگ سرکاری نشریاتی اداروں پر بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، جو پہلے ممکن نہ تھا۔دوسری جانب حسینہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت خود عوامی لیگ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ عوامی لیگ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جب تک کہ ایک خصوصی ٹریبیونل گزشتہ سال کے پرتشدد واقعات میں اس کی مبینہ ذمہ داری پر فیصلہ نہ سنا دے۔
سابق وزیرِ اطلاعات محمد عرفات نے الزام عائد کیا ہے کہ یونس اقتدار طول دینے کے لیے اسلام پسندوں اور نیشنل سٹیزنز پارٹی کو خوش کر رہے ہیں، جو عوامی لیگ پر پابندی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔
اقتصادی لحاظ سے عبوری حکومت نے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام اور غیرملکی سرمایہ کاری کی کوششیں شامل ہیں۔
سب سے نمایاں پیش رفت امریکہ سے حاصل کردہ رعایتی 20 فیصد درآمدی ٹیرف ہے، جو سات اگست سے نافذ العمل ہوگا اور بنگلہ دیش کی گارمنٹ انڈسٹری کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر مقابلے کی سہولت دے گا۔مجموعی طور پر، حسینہ کی رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی آزادی کا تاثر ضرور پیدا ہوا ہے، مگر انسانی حقوق، انتخابی شفافیت اور مذہبی شدت پسندی جیسے چیلنجز اب بھی حل طلب ہیں۔
عرفات اسلام، شکور رحیم
ادارت: عرفان آفتاب