افسانوں کا مجموعہ فلسطین اور اہم رسائل (آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
گزشتہ سالوں میں ان شاعرات نے مشاعروں کے ا سٹیج سے جس پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا، اسے دیکھ کر کچھ ترقی پسندوں نے ان پر مخرب اخلاق ہونے کی تہمت لگائی تھی اور کچھ ’’بنیاد پرستوں‘‘ نے کہا تھا کہ اگر شاعرات یہی ہوتی ہیں اور مشاعرے میں شعر سنانے کے انداز و ادا یہی ہوتے ہیں تو ہم آیندہ مجرا نہیں سنیں گے۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ مزید فرماتے ہیں ’’ دروغ بر گردن راوی‘‘ کچھ مقامی شاعرات نے مشاعروں کے منتظمین سے کہہ دیا تھا کہ وہ آیندہ کسی ایسے مشاعرے میں شرکت نہیں کریں گی جس میں بھارت سے آئی ہوئی شاعرات کو مدعو کیا گیا ہو۔
مقامی شاعرات نے اپنے اس فیصلے کا کوئی واضح سبب تو ظاہر نہیں کیا البتہ ان شعرا نے جن کی زنان خانوں تک رسائی تھی، اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مشاعروں کے منتظمین کو اتنی معمولی سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے کہ عورتیں خود مرکزیت کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ یہ بات کس طرح پسند کر سکتی ہیں کہ ان کی موجودگی میں ان کے مرد تیری میری عورتوں کے ناز اٹھائیں۔ میرا خیال ہے مضمون سے انھی سطور پر اکتفا کریں۔
حجاب عباسی بہت اچھی شاعرہ، غزل ان کی شناخت ہے۔
وہ گھر نہیں تھا میرا ٹھکانہ تھا اور بس
کچھ وقت اس قفس میں گنوانا تھا اور بس
کیا کیا سجی تھیں رونقیں بزم خیال میں
ایک میں تھی، ایک درد پرانا تھا اور بس
عادل مظفر پوری کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے، بہترین شاعر، ادیب اور نظامت کار ہیں۔
مطلع ہے:
ملتاہے مجھے مل کے بھلا دیتا ہے اک شخص
انجان سے غم دے کر رُلا دیتا ہے اک شخص
اسی غزل کا مقطع ہے:
عادل یہ محبت ہے کہ نفرت کی ادا ہے
دھڑکن میرے سینے کی بڑھا دیتا ہے اک شخص
بہت نفاست اور انفرادیت کے ساتھ انھوں نے نازک جذبوں کا اظہار کیا ہے ان کی شاعری داخلی جذبوں کی عکاس ہے۔
پروفیسر مشتاق مہر کے کلام میں سوز کی کیفیت عیاں ہے دکھ اور محرومی کا اظہار انھوں نے درد دل کے ساتھ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
یہ کیسی بے بسی ہے
دریا میں تشنگی ہے
بے نور ہیں سویرے
بے کیف ہر خوشی ہے
انسانیت بشر کی
صدیوں سے مر چکی ہے
افلاس ہے یقین کا
اخلاص کی کمی ہے
اس دفعہ صفدر علی خان نے اپنے اداریے میں ادب دوستوں کی اخلاقی کمی اور ایفائے عہد کے بارے میں یاد دہانی کرائی ہے، بے شک دروغ گوئی اور وعدہ خلافی غیر اسلامی رویہ ہے، ہمارے بعض ادبا و شعرا میں جھوٹ اور وعدہ خلافی کے ساتھ ساتھ اور دوسری خوبیوں نے بھی جنم لیا ہے جن کی وجہ سے علم و ادب کی فضا مکدر سی ہوگئی ہے لیکن انھیں ہرگز احساس نہیں ہے۔
’’تبصرہ کتب‘‘ میں بھی بہت اہم کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے، جناب عرفان عابدی کی کتاب بعنوان ’’تحریر مرتی نہیں‘‘ 441 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ مبصر ڈاکٹر عرفان شاہ نے ان کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے ’’عرفان عابدی کا اصل میدان اگر افسانہ نگاری کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔‘‘ ان کے افسانوں میں جدیدیت اور مابعدالجدیدیت کے جو آہنگ ملتے ہیں وہ انھیں سماج کے نقیب ثابت کرنے کے لیے مثبت استدلال رکھتے ہیں۔‘‘
’’ریزہ، ریزہ خط و خال‘‘ افسانوں کا مجموعہ ہے جس کی مصنفہ تزئین راز زیدی ہیں اور یہ ادارہ رموز سے شایع ہوا ہے۔ 25 افسانوں اور 157 اوراق پر مشتمل ہے۔ تزئین راز زیدی معاشرتی مسائل، خواتین کے دکھ، الجھنیں اور تلخ و شیریں حالات پر درد مندی سے لکھتی ہیں اور بہت خوب لکھتی ہیں ان کی کرداروں پرگرفت مضبوط رہتی ہے، ان کے میں نے کئی افسانے پڑھے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان کا اسلوب بیان سادہ اور توانا ہے۔
وہ مکالمہ نگاری اور ماحول سازی کے فن کو برتنے میں کمال رکھتی ہیں۔ ’’تریاق از عراق‘‘ ایک ایسا ہی افسانہ جو سماجی حالات کا عکاس ہے انھوں نے ابتدا سے انتہا تک افسانے میں دلچسپی اور موجودہ حالات اور رشتوں کی نزاکت کو صداقت کے پیکر میں ڈھال کر ایک ایسے افسانے کی شکل دی ہے جسے قاری بار بار پڑھنا چاہے گا۔
ٹائٹل اسٹوری ریزہ ریزہ خط و خال ایک خوبصورت کہانی ہے۔ میاں بیوی کی بے مثال محبت نے گھر کو مہکا دیا ہے لیکن قاری کو کہانی میں آنے والا اچھوتا رنگ خوشی اور چبھن سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایک الجھن کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب میاں بیوی کے درمیان طلاق واقع ہو چکی ہوتی، تزئین راز زیدی کے تقریباً تمام ہی افسانے معاشرے کی کسی نہ کسی سچائی کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی وجہ سے اپنا اثر رکھتے اور قاری کے دل میں اترتے ہیں، مبارکاں!
فلسطین کے حالات نے مسلمان تو مسلمان، غیر مسلموں کے دلوں کو بھی تڑپا دیا ہے لیکن ہمارے 57 اسلامی ممالک نے جہاد کا اعلان کیا اور نہ ہی کسی بے درد نے آواز اٹھائی۔ گویا یہ ان کی آزمائش تھی۔ معصوم بچے، عورتیں، مرد بمباری کے نتیجے میں شہید اور زخمی ہوئے۔
لیکن کوئی بھی مسلم ملک حمایت کے لیے سامنے نہیں آیا۔ ’’یمن‘‘ کا نام ضرور سننے میں آ رہا تھا لیکن اس وقت جب شہیدوں کے کفن سے خون ٹپک رہا تھا اور زندہ بھی زخموں سے چور چور اور اپنوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے یہ خبر سچ تھی یا نہیں؟۔
فلسطین پیغمبروں کی سرزمین ہے، بہت عزت و مرتبے والی زمین، روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ وہ واحد مسجد ہے جہاں عبادت کرنے والوں کا ہجوم خاص اعتکاف کے مواقعے پر بڑھ جاتا ہے۔ فلسطین کی پاک سرزمین انبیا کا مسکن رہی ہے، اس کے چپے چپے پر انبیا کرام علیہ السلام کے نشانات موجود ہیں، اس کی بستیاں، وادیاں، پہاڑ، دریا غرض ہر ہر شے میں ایک داستان پنہاں ہے جو سچی ہے، حقیقی ہے اور جس کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے اطراف میں 1600 میٹر لمبی پتھرکی دیوار ہے اس کے اندر 9 دروازے ہیں جن کے نام یہ ہیں 1۔بابِ رحمت، 2۔ بابِ حطہ، 3۔بابِ فیصل، 4۔باب غوانہ، 5۔بابِ ناظر، 6۔بابِ حدید، 7۔بابِ قطانبین، 8۔بابِ سلسلہ، 9۔بابِ مفارجہ۔
گنبد صخرا کو مسجد صخرا بھی کہا جاتا ہے، اسی صخرہ کے نیچے غارِ انبیا علیہ السلام ہے جہاں پہنچنے کے لیے 11 سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر دو پٹ والے چار دروازے ہیں، ان کے اندر سنگ مر مر سے بنے 16 ستون ہیں۔
حضرت عمرؓ 14 ہجری کے مطابق 636 میں اپنے دورِ خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور اکرم ﷺ کے سفرِ معراج کی منزل تلاش کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی، حضرت عمرؓ نے نماز پڑھائی۔ فلسطین وہ جگہ ہے جہاں کے در و دیوار اور کونوں کونوں میں انبیا کرام کے کردار اور سنتوں کی مہک بسی ہوئی ہے۔
اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ رہی ہے یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے۔ 15 جولائی 1099کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا حملہ ہوا، ہزارہا مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا اور مسجد کو گرجے میں تبدیل کر دیا گیا۔
12 اکتوبر 1187 کو وہ عظیم الشان موقعہ آیا جب مسجد اقصیٰ عیسائی قابضین سے واپس مل گئی۔ یہ عظیم کامیابی بطلِ جلیل سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی مرہون منت تھی کہ اس صاحب ایمان، بہادر، جری بادشاہ نے شہر فتح کر لیا تھا۔ اس مقدس جگہ پر بار بار جنگیں اور قتل و غارت ہوا، مسلمانوں پر تشدد اور ظلم ڈھایا گیا۔
ہزاروں سال تک یہود اللہ تعالیٰ کے قہر کا نشانہ بنتے رہے، ہر خطہ انھیں ٹھکراتا رہا لیکن یہ اپنی شرارتوں اور ابلیسیت سے باز نہیں آئے اور اب حال یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم پر عمل کر رہا ہے اور عالم اسلام تماشائی بنا ہوا ہے اور فلسطینی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
تو ایران کا کیا ہوگا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یوری ایوننری
اسرائیلی بائیں بازو کے صحافی یوری ایوننری کا یہ کالم ۲۰۰۷ میں یعنی آج سے اٹھارہ سال قبل شائع ہوا؛ اٹھارہ سال پرانا تجزیہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے اب بھی ریلیونٹ ہیں۔ اس وقت بھی امریکا اور اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے اتنے ہی بے تاب تھے۔ ایران پر حملے اور رجیم چینج کی گفتگو پرو اسرائیل امریکا میں کبھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ ان کا کالم تزین فرید کی وال سے لے کر قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
………
ایک معزز امریکی اخبار نے اس ہفتے ایک بڑی خبر شائع کی: نائب صدر ڈک چینی، جو جنگ کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے ایران پر حملے کے لیے ایک مکاری پر مبنی منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کا مرکزی نکتہ یہ ہے: اسرائیل سب سے پہلے ایران کی کسی جوہری تنصیب پر بمباری کرے گا، ایران اس کے ردعمل میں اسرائیل پر میزائل برسائے گا اور یہ حملہ امریکا کے لیے ایران پر حملے کا بہانہ بنے گا۔ کیا یہ منصوبہ ناقابلِ یقین ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ 1956 میں پیش آنے والے واقعے جیسا ہی ہے۔ اْس وقت فرانس، اسرائیل اور برطانیہ نے خفیہ طور پر مصر پر حملے کی منصوبہ بندی کی تاکہ جمال عبد الناصر کو اقتدار سے ہٹایا جا سکے (آج کی زبان میں ’’ریجیم چینج‘‘)۔ طے پایا کہ اسرائیلی پیراٹروپرز سوئز کینال کے قریب اُتارے جائیں گے، اور پیدا ہونے والا تنازع فرانسیسیوں اور برطانویوں کو کینال کے علاقے پر قبضہ کرنے کا موقع دے گا تاکہ وہ اس آبی گزرگاہ کو ’’محفوظ‘‘ کر سکیں۔ یہ منصوبہ عمل میں آیا اور بری طرح ناکام ہوا۔ اگر ہم چینی کے اس منصوبے پر عمل کریں تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ہمارے پائلٹس کو ایران کی سختی سے محفوظ جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا پڑے گا، جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے۔ اس کے بعد ایرانی میزائل ہمارے شہروں پر برسیں گے۔ سیکڑوں، شاید ہزاروں، افراد ہلاک ہوں گے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ امریکا کو جنگ کا جواز مل سکے۔ کیا یہ جواز کافی ہوتا؟ دوسرے الفاظ میں، کیا امریکا کو ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہونا لازم ہے، چاہے ہم ہی اس جنگ کا باعث بنے ہوں؟ نظریاتی طور پر، جواب ہاں ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے درمیان موجودہ معاہدوں کے مطابق، امریکا کو کسی بھی جنگ میں اسرائیل کی مدد کرنا ہے۔ چاہے جنگ کسی نے شروع کی ہو۔
کیا اس خبر میں کوئی صداقت ہے؟ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اس سے یہ شک ضرور مضبوط ہوتا ہے کہ ایران پر حملہ توقع سے زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔ کیا بش، ڈک چینی اور ان کے ساتھی واقعی ایران پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ مجھے یقین نہیں، لیکن یہ شک ضرور بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ جارج بش کی مدتِ صدارت اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اگر یہ دور ویسے ہی ختم ہوا جیسے ابھی حالات ہیں، تو وہ امریکا کے بدترین بلکہ شاید سب سے بدترین صدر کے طور پر یاد کیے جائیں گے۔ ان کی صدارت کا آغاز ٹوئن ٹاورز کے سانحے سے ہوا، جو خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا عکاس تھا، اور اس کا اختتام عراق کی ہولناک تباہی پر ہو گا۔ اب صرف ایک سال باقی ہے کچھ ’’قابل ِ فخر‘‘ کرنے کے لیے تاکہ تاریخ میں اپنا نام بچایا جا سکے۔ ایسے حالات میں، حکمران اکثر فوجی مہم جوئی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اور بش کی شخصیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے، جنگ کا امکان واقعی خوفناک نظر آتا ہے۔ بے شک، امریکی فوج عراق اور افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ بش اور چینی جیسے لوگ بھی اس وقت ایک ایسے ملک پر حملہ کرنے کا خواب نہیں دیکھ سکتے جو رقبے میں عراق سے چار گنا اور آبادی میں تین گنا بڑا ہے۔ لیکن جنگ کے حامی بش کے کان میں سرگوشی کر سکتے ہیں: آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ حملے کے لیے زمینی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ صرف بمباری کافی ہے، جیسے ہم نے سربیا اور افغانستان پر کی۔ ہم اپنی جدید ترین بمباری اور میزائلوں سے دو ہزار کے قریب اہداف کو نشانہ بنائیں گے تاکہ نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات اور حکومتی دفاتر بھی تباہ ہو جائیں۔ جیسا کہ ایک امریکی جنرل نے ویتنام کے بارے میں کہا تھا: ’’ہم انہیں پتھر کے دور میں واپس پہنچا دیں گے‘‘ یا جیسا کہ اسرائیلی فضائیہ کے جنرل دان حلوتز نے لبنان کے بارے میں کہا: ’’ہم ان کی گھڑی بیس سال پیچھے کر دیں گے‘‘۔ یہ ایک پرکشش خیال ہو سکتا ہے۔ امریکا صرف اپنی فضائیہ، میزائلوں اور طاقتور طیارہ بردار بحری بیڑوں کو استعمال کرے گا، جو پہلے ہی خلیج فارس میں تعینات ہیں۔ یہ سب کچھ قلیل نوٹس پر متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ایک ناکام صدر کے لیے، جو اپنے دورِ اقتدار کے اختتام پر ہو، ایک آسان اور مختصر جنگ کا تصور بہت کشش رکھتا ہے۔ اور اس صدر نے پہلے ہی ثابت کیا ہے کہ وہ ایسے وسوسوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ واقعی اتنا آسان منصوبہ ہوگا، جیسا کہ امریکی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’پیس آف کیک‘‘؟
مجھے شک ہے۔ ’’اسمارٹ بمز‘‘ بھی انسانوں کو مارتے ہیں۔ ایرانی ایک باوقار، پْرعزم اور باہمت قوم ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دو ہزار سال میں انہوں نے کبھی کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا، لیکن ایران- عراق جنگ کے آٹھ سال میں انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جب ان کے اپنے ملک پر حملہ ہو تو وہ اس کا دفاع کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی حملے کا ان کا پہلا ردِعمل خلیج فارس کے داخلی راستے آبنائے ہرمز کو بند کرنا ہو گا۔ یہ دنیا کی ایک بڑی تیل کی ترسیل کو روک دے گا اور عالمی سطح پر ایک بے مثال اقتصادی بحران پیدا کر دے گا۔ اس آبنائے کو دوبارہ کھولنے کے لیے (اگر ایسا ممکن بھی ہو) امریکی فوج کو ایران کے بڑے رقبے پر قبضہ کرنا پڑے گا۔ مختصر اور آسان جنگ ایک طویل اور مشکل جنگ میں بدل جائے گی۔ اس کا اسرائیل کے لیے کیا مطلب ہوگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا، تو وہ اپنے اعلان کے مطابق ردعمل دے گا: وہ ہمیں ان راکٹس سے نشانہ بنائے گا جو اس نے خاص اسی مقصد کے لیے تیار کیے ہیں۔ یہ اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ تو نہیں ہوگا، لیکن یہ خوشگوار بھی ہرگز نہیں ہوگا۔ اگر امریکی حملہ ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں تبدیل ہو گیا، اور اگر امریکی عوام اسے عراق کی طرح ایک اور تباہی سمجھنے لگے، تو کچھ لوگ لازماً اس کا الزام اسرائیل پر ڈالیں گے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ پرو اسرائیل لابی اور اس کے اتحادی، جن میں زیادہ تر یہودی نیو کنزرویٹو اور عیسائی صہیونی شامل ہیں امریکا کو اس جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں، بالکل جیسے انہوں نے عراق کی جنگ میں کیا تھا۔ اسرائیلی پالیسی کے لیے، اس جنگ سے جو متوقع فائدے ہیں، وہ بہت بڑے نقصانات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نہ صرف اسرائیل کے لیے، بلکہ امریکی یہودی برادری کے لیے بھی۔ اگر صدر محمود احمدی نژاد موجود نہ ہوتے، تو اسرائیلی حکومت کو انہیں ایجاد کرنا پڑتا۔ ان میں دشمن کے لیے وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن کی کوئی تمنا کر سکتا ہے۔ وہ بہت زیادہ بولتے ہیں، بڑھکیں مارتے ہیں، جان بوجھ کر تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ وہ ہولوکاسٹ کے منکر ہیں۔ وہ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ اسرائیل ’’نقشے سے مٹ جائے گا‘‘ (حالانکہ جیسا کہ غلط رپورٹ کیا گیا، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اسرائیل کو خود مٹا دیں گے)۔ اس ہفتے، پرو اسرائیل لابی نے ان کے نیویارک کے دورے کے خلاف بڑے مظاہرے منظم کیے۔ یہ مظاہرے دراصل احمدی نژاد کے لیے بہت بڑی کامیابی ثابت ہوئے۔ ان کا خواب پورا ہو گیا کہ وہ عالمی توجہ کا مرکز بنیں۔ انہیں یہ موقع ملا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنے دلائل کچھ ناقابل ِ قبول، کچھ معقول؛ دنیا بھر کے سامعین کے سامنے پیش کریں۔ لیکن احمدی نژاد، ایران نہیں ہیں۔ بے شک، وہ عوامی انتخابات جیت چکے ہیں، لیکن ایران کی ساخت کچھ ایسی ہے جیسے اسرائیل کی مذہبی جماعتیں: وہاں سیاست دانوں کے بجائے علما (آیات) کی بات چلتی ہے۔ شیعہ مذہبی قیادت ہی فیصلے کرتی ہے اور فوج کی کمان بھی انہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہ قیادت نہ تو لفاظی کرتی ہے، نہ بڑھکیں مارتی ہے، نہ ہی تنازعات میں الجھتی ہے۔ بلکہ وہ بہت محتاط انداز میں فیصلے کرتی ہے۔
اگر ایران واقعی ایٹم بم حاصل کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوتا، تو وہ مکمل خاموشی اور رازداری سے کام لیتا اور خود کو منظر عام سے چھپا کر رکھتا (جیسے اسرائیل نے کیا تھا)۔ احمدی نژاد کی لاف زنی ایران کی ایٹمی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اس سے زیادہ جتنا ایران کا کوئی دشمن نہیں پہنچا سکتا۔ یہ خیال کافی ناپسندیدہ ہے کہ ایران (یا کسی بھی ملک) کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔ میری خواہش ہے کہ اسے روکا جا سکے یا ترغیب دے کر یا پابندیاں لگا کر۔ لیکن اگر یہ کوشش ناکام بھی ہو جائے، تو یہ نہ دنیا کا خاتمہ ہو گا، نہ اسرائیل کا۔ اس معاملے میں، اسرائیل کی دفاعی قوت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ احمدی نژاد بھی ایسا رسک نہیں لے سکتے کہ ایران کی تباہی کے بدلے اسرائیل کی تباہی کو برداشت کریں یعنی ’’رانیوں کا تبادلہ‘‘۔
نپولین نے کہا تھا کہ اگر کسی ملک کی پالیسی سمجھنی ہو، تو اس کا نقشہ دیکھو۔ اگر ہم ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی کوئی معروضی وجہ نہیں ہے۔ بلکہ، طویل عرصے تک یروشلم میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ دونوں ممالک قدرتی اتحادی ہیں۔
ڈیوڈ بن گوریان نے ’’سرحدی اتحاد‘‘ (Alliance of the Periphery) کا نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پوری عرب دنیا اسرائیل کی فطری دشمن ہے، لہٰذا اسرائیل کو اپنی سرحدوں سے باہر کے غیر عرب مسلم ممالک جیسے ترکی، ایران، ایتھوپیا، چاڈ وغیرہ سے اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ (انہوں نے عرب دنیا کے اندر بھی ان قوموں سے تعلقات قائم کیے جو سنّی عرب نہیں تھیں، جیسے مارونی، قبطی، کرد، شیعہ وغیرہ۔) شاہِ ایران کے دور میں ایران اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات تھے کچھ مثبت، کچھ منفی، اور کچھ سراسر خفیہ۔ شاہ نے ایلات سے اشکلون تک پائپ لائن تعمیر کروائی تاکہ ایرانی تیل کو سویز نہر سے بچا کر بحیرہ روم تک پہنچایا جا سکے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی (شاباک) نے ایران کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی (ساواک) کو تربیت دی۔ اسرائیلی اور ایرانی ایجنٹس نے عراق کے کردستان میں مل کر کام کیا تاکہ کردوں کو سنّی عرب حکمرانوں کے ظلم سے بچایا جا سکے۔ خمینی انقلاب نے ابتدا میں اس اتحاد کا خاتمہ نہیں کیا اسے صرف زیر ِ زمین کر دیا۔ ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کو اسلحہ فراہم کیا، اس بنیاد پر کہ ’’جو عربوں سے لڑتا ہے، وہ ہمارا دوست ہے‘‘۔ اسی وقت، امریکا نے صدام حسین کو اسلحہ فراہم کیا، جو واشنگٹن اور یروشلم کی پالیسیوں میں ایک نادر اختلاف تھا۔ بعد میں ’’ایران- کانٹرا اسکینڈل‘‘ کے ذریعے اس خلا کو پْر کیا گیا، جب امریکیوں نے اسرائیل کو آیت اللہ کو اسلحہ بیچنے میں مدد دی۔
آج دونوں ممالک کے درمیان ایک نظریاتی جنگ جاری ہے، لیکن یہ زیادہ تر بیان بازی اور عوامی اشتعال انگیزی کی سطح پر لڑی جا رہی ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نژاد کو اسرائیل فلسطین تنازعے کی واقعی پروا نہیں۔ وہ اسے صرف عرب دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر میں فلسطینی ہوتا تو میں ان پر انحصار نہ کرتا۔ جلد یا بدیر، جغرافیہ اپنا کردار ادا کرے گا، اور اسرائیل ایران تعلقات دوبارہ اسی نہج پر لوٹیں گے۔ امید ہے کہ زیادہ مثبت انداز میں۔ ایک بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں: جو کوئی بھی ایران کے خلاف جنگ کو ہوا دے رہا ہے، وہ ایک دن اس پر پچھتائے گا۔ کچھ مہم جوئیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں داخل ہونا آسان، لیکن نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آخری شخص جس نے یہ سبق سیکھا وہ صدام حسین تھا۔ اسے لگا کہ یہ ایک آسان جنگ ہو گی؛ آخرکار خمینی نے شاہ کی فوج کے زیادہ تر افسران اور خاص طور پر پائلٹس کو مار دیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ عراق کا ایک تیز حملہ ایران کو گرا دے گا۔ اسے آٹھ طویل سال کی جنگ میں اس پر پچھتانا پڑا۔ ممکن ہے کہ ہم اور امریکی جلد ہی یہ محسوس کریں کہ عراق کی دلدل، ایران کے دلدل کے مقابلے میں مکھن جیسی تھی۔