افسانوں کا مجموعہ فلسطین اور اہم رسائل (آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
گزشتہ سالوں میں ان شاعرات نے مشاعروں کے ا سٹیج سے جس پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا، اسے دیکھ کر کچھ ترقی پسندوں نے ان پر مخرب اخلاق ہونے کی تہمت لگائی تھی اور کچھ ’’بنیاد پرستوں‘‘ نے کہا تھا کہ اگر شاعرات یہی ہوتی ہیں اور مشاعرے میں شعر سنانے کے انداز و ادا یہی ہوتے ہیں تو ہم آیندہ مجرا نہیں سنیں گے۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ مزید فرماتے ہیں ’’ دروغ بر گردن راوی‘‘ کچھ مقامی شاعرات نے مشاعروں کے منتظمین سے کہہ دیا تھا کہ وہ آیندہ کسی ایسے مشاعرے میں شرکت نہیں کریں گی جس میں بھارت سے آئی ہوئی شاعرات کو مدعو کیا گیا ہو۔
مقامی شاعرات نے اپنے اس فیصلے کا کوئی واضح سبب تو ظاہر نہیں کیا البتہ ان شعرا نے جن کی زنان خانوں تک رسائی تھی، اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مشاعروں کے منتظمین کو اتنی معمولی سی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے کہ عورتیں خود مرکزیت کا شکار ہوتی ہیں۔ وہ یہ بات کس طرح پسند کر سکتی ہیں کہ ان کی موجودگی میں ان کے مرد تیری میری عورتوں کے ناز اٹھائیں۔ میرا خیال ہے مضمون سے انھی سطور پر اکتفا کریں۔
حجاب عباسی بہت اچھی شاعرہ، غزل ان کی شناخت ہے۔
وہ گھر نہیں تھا میرا ٹھکانہ تھا اور بس
کچھ وقت اس قفس میں گنوانا تھا اور بس
کیا کیا سجی تھیں رونقیں بزم خیال میں
ایک میں تھی، ایک درد پرانا تھا اور بس
عادل مظفر پوری کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے، بہترین شاعر، ادیب اور نظامت کار ہیں۔
مطلع ہے:
ملتاہے مجھے مل کے بھلا دیتا ہے اک شخص
انجان سے غم دے کر رُلا دیتا ہے اک شخص
اسی غزل کا مقطع ہے:
عادل یہ محبت ہے کہ نفرت کی ادا ہے
دھڑکن میرے سینے کی بڑھا دیتا ہے اک شخص
بہت نفاست اور انفرادیت کے ساتھ انھوں نے نازک جذبوں کا اظہار کیا ہے ان کی شاعری داخلی جذبوں کی عکاس ہے۔
پروفیسر مشتاق مہر کے کلام میں سوز کی کیفیت عیاں ہے دکھ اور محرومی کا اظہار انھوں نے درد دل کے ساتھ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
یہ کیسی بے بسی ہے
دریا میں تشنگی ہے
بے نور ہیں سویرے
بے کیف ہر خوشی ہے
انسانیت بشر کی
صدیوں سے مر چکی ہے
افلاس ہے یقین کا
اخلاص کی کمی ہے
اس دفعہ صفدر علی خان نے اپنے اداریے میں ادب دوستوں کی اخلاقی کمی اور ایفائے عہد کے بارے میں یاد دہانی کرائی ہے، بے شک دروغ گوئی اور وعدہ خلافی غیر اسلامی رویہ ہے، ہمارے بعض ادبا و شعرا میں جھوٹ اور وعدہ خلافی کے ساتھ ساتھ اور دوسری خوبیوں نے بھی جنم لیا ہے جن کی وجہ سے علم و ادب کی فضا مکدر سی ہوگئی ہے لیکن انھیں ہرگز احساس نہیں ہے۔
’’تبصرہ کتب‘‘ میں بھی بہت اہم کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے، جناب عرفان عابدی کی کتاب بعنوان ’’تحریر مرتی نہیں‘‘ 441 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ مبصر ڈاکٹر عرفان شاہ نے ان کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے ’’عرفان عابدی کا اصل میدان اگر افسانہ نگاری کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔‘‘ ان کے افسانوں میں جدیدیت اور مابعدالجدیدیت کے جو آہنگ ملتے ہیں وہ انھیں سماج کے نقیب ثابت کرنے کے لیے مثبت استدلال رکھتے ہیں۔‘‘
’’ریزہ، ریزہ خط و خال‘‘ افسانوں کا مجموعہ ہے جس کی مصنفہ تزئین راز زیدی ہیں اور یہ ادارہ رموز سے شایع ہوا ہے۔ 25 افسانوں اور 157 اوراق پر مشتمل ہے۔ تزئین راز زیدی معاشرتی مسائل، خواتین کے دکھ، الجھنیں اور تلخ و شیریں حالات پر درد مندی سے لکھتی ہیں اور بہت خوب لکھتی ہیں ان کی کرداروں پرگرفت مضبوط رہتی ہے، ان کے میں نے کئی افسانے پڑھے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان کا اسلوب بیان سادہ اور توانا ہے۔
وہ مکالمہ نگاری اور ماحول سازی کے فن کو برتنے میں کمال رکھتی ہیں۔ ’’تریاق از عراق‘‘ ایک ایسا ہی افسانہ جو سماجی حالات کا عکاس ہے انھوں نے ابتدا سے انتہا تک افسانے میں دلچسپی اور موجودہ حالات اور رشتوں کی نزاکت کو صداقت کے پیکر میں ڈھال کر ایک ایسے افسانے کی شکل دی ہے جسے قاری بار بار پڑھنا چاہے گا۔
ٹائٹل اسٹوری ریزہ ریزہ خط و خال ایک خوبصورت کہانی ہے۔ میاں بیوی کی بے مثال محبت نے گھر کو مہکا دیا ہے لیکن قاری کو کہانی میں آنے والا اچھوتا رنگ خوشی اور چبھن سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایک الجھن کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا ہے۔
یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب میاں بیوی کے درمیان طلاق واقع ہو چکی ہوتی، تزئین راز زیدی کے تقریباً تمام ہی افسانے معاشرے کی کسی نہ کسی سچائی کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی وجہ سے اپنا اثر رکھتے اور قاری کے دل میں اترتے ہیں، مبارکاں!
فلسطین کے حالات نے مسلمان تو مسلمان، غیر مسلموں کے دلوں کو بھی تڑپا دیا ہے لیکن ہمارے 57 اسلامی ممالک نے جہاد کا اعلان کیا اور نہ ہی کسی بے درد نے آواز اٹھائی۔ گویا یہ ان کی آزمائش تھی۔ معصوم بچے، عورتیں، مرد بمباری کے نتیجے میں شہید اور زخمی ہوئے۔
لیکن کوئی بھی مسلم ملک حمایت کے لیے سامنے نہیں آیا۔ ’’یمن‘‘ کا نام ضرور سننے میں آ رہا تھا لیکن اس وقت جب شہیدوں کے کفن سے خون ٹپک رہا تھا اور زندہ بھی زخموں سے چور چور اور اپنوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے یہ خبر سچ تھی یا نہیں؟۔
فلسطین پیغمبروں کی سرزمین ہے، بہت عزت و مرتبے والی زمین، روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ وہ واحد مسجد ہے جہاں عبادت کرنے والوں کا ہجوم خاص اعتکاف کے مواقعے پر بڑھ جاتا ہے۔ فلسطین کی پاک سرزمین انبیا کا مسکن رہی ہے، اس کے چپے چپے پر انبیا کرام علیہ السلام کے نشانات موجود ہیں، اس کی بستیاں، وادیاں، پہاڑ، دریا غرض ہر ہر شے میں ایک داستان پنہاں ہے جو سچی ہے، حقیقی ہے اور جس کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے اطراف میں 1600 میٹر لمبی پتھرکی دیوار ہے اس کے اندر 9 دروازے ہیں جن کے نام یہ ہیں 1۔بابِ رحمت، 2۔ بابِ حطہ، 3۔بابِ فیصل، 4۔باب غوانہ، 5۔بابِ ناظر، 6۔بابِ حدید، 7۔بابِ قطانبین، 8۔بابِ سلسلہ، 9۔بابِ مفارجہ۔
گنبد صخرا کو مسجد صخرا بھی کہا جاتا ہے، اسی صخرہ کے نیچے غارِ انبیا علیہ السلام ہے جہاں پہنچنے کے لیے 11 سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر دو پٹ والے چار دروازے ہیں، ان کے اندر سنگ مر مر سے بنے 16 ستون ہیں۔
حضرت عمرؓ 14 ہجری کے مطابق 636 میں اپنے دورِ خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور اکرم ﷺ کے سفرِ معراج کی منزل تلاش کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ حضرت بلالؓ نے اذان دی، حضرت عمرؓ نے نماز پڑھائی۔ فلسطین وہ جگہ ہے جہاں کے در و دیوار اور کونوں کونوں میں انبیا کرام کے کردار اور سنتوں کی مہک بسی ہوئی ہے۔
اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ رہی ہے یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے۔ 15 جولائی 1099کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا حملہ ہوا، ہزارہا مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا اور مسجد کو گرجے میں تبدیل کر دیا گیا۔
12 اکتوبر 1187 کو وہ عظیم الشان موقعہ آیا جب مسجد اقصیٰ عیسائی قابضین سے واپس مل گئی۔ یہ عظیم کامیابی بطلِ جلیل سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی مرہون منت تھی کہ اس صاحب ایمان، بہادر، جری بادشاہ نے شہر فتح کر لیا تھا۔ اس مقدس جگہ پر بار بار جنگیں اور قتل و غارت ہوا، مسلمانوں پر تشدد اور ظلم ڈھایا گیا۔
ہزاروں سال تک یہود اللہ تعالیٰ کے قہر کا نشانہ بنتے رہے، ہر خطہ انھیں ٹھکراتا رہا لیکن یہ اپنی شرارتوں اور ابلیسیت سے باز نہیں آئے اور اب حال یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم پر عمل کر رہا ہے اور عالم اسلام تماشائی بنا ہوا ہے اور فلسطینی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمان کی ایرانی سفارت خانے آمد، سفیر ڈاکٹر رضا مقدمی کی دورہ ایران کی دعوت
جے یو آئی کے میڈیا سیل کے مطابق ایرانی سفیر نے کہا کہ مئسلہ فلسطین امت مسلمہ کا متفقہ مسلمہ ہے، ایرانی سفیر کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو دورہ ایران کی دعوت دی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ جمیعت علمائے اسلام پاکستان (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر ڈاکٹر رضا مقدمی سے ایرانی سفارت خانے میں ملاقات کی۔ جے یو آئی کے سوشل میڈیا کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا ایرانی شہر بندر عباس میں ہونیوالی آتش زدگی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ایرانی سفیر کے ساتھ ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمان نے موجودہ ملکی سیاسی صورتحال، پاک بھارت کشیدگی اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے متعلق گفتگو کی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مودی خطے میں جنگی سیاست کے ذریعے اپنی بقاء چاہتا ہے، بھارت کو جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایرانی سفیر سے ملاقات میں مولانا فضل الرحمان نے خطے میں امن وامان کے قیام پر زور دیا۔ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں ایرانی سفیر نے مولانا فضل الرحمان کو مسئلہ فلسطین پر جاندار موقف اپنانے پر خراج تحسین پیش کیا۔ جمیعت علمائے اسلام کے میڈیا سیل کے مطابق ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ایرانی سفیر نے کہا کہ مئسلہ فلسطین امت مسلمہ کا متفقہ مسلمہ ہے۔ اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے آمد اور ایرانی سفیر سے ملاقات کے دوران ایرانی سفیر کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو دورہ ایران کی دعوت دی گئی۔