صوابی میں اولسی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے  محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ حکومت کس طرح آئی ہے کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ سب  آئین کے اندر کام کریں اور پارلیمنٹ کو ملک کا سر چشمہ ہونا چاہئے، پاکستان میں سب سے بڑی دہشت گردی یہ ہے کہ 8 فروری کو بندوق کے زور پر لوگوں سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی  نے کہا ہے کہ ادارے جب تک سیاست میں مداخلت کریں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ صوابی میں اولسی جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے  محمود خان اچکزئی نے کہا کہ  یہ حکومت کس طرح آئی ہے کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ سب  آئین کے اندر کام کریں اور پارلیمنٹ کو ملک کا سر چشمہ ہونا چاہئے، پاکستان میں سب سے بڑی دہشت گردی یہ ہے کہ 8 فروری کو بندوق کے زور پر لوگوں سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی تقسیم میں 50 فیصد پنجاب، 38 فیصد سندھ، 8 فیصد خیبرپختونخوا اور 3 فیصد بلوچستان کو دیا جا رہا ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس  تقسیم کو بلکل مسترد کرتی ہے۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی کو چاہیے کہ خیبرپختونخوا میں بھی دریاؤں سے نہریں نکالیں تاکہ ہماری زمینیں آباد ہوجائیں، ہم چاہتے کہ پاکستان یکجا ہو لیکن وہ تب ممکن ہوگا جب سب کو برابر کے حقوق اور وسائل پر پورا حق ملے گا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارا صوبہ وسائل سے مالا مال ہے، ہمیں کسی کی خیرات کی ضرورت نہیں، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دنیا کے تمام تر وسائل موجود ہیں، آئی ایم ایف سے جو قرضے لیے جا رہے ہیں اس میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو آج تک کتنا حصہ ملا؟۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو چلانے کیلیے اپنے وسائل دیں گے لیکن ہمیں بھی اتنا حصہ چاہیے کہ ہم اپنے مسافر نوجوانوں کو واپس لاسکیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: محمود خان اچکزئی

پڑھیں:

کیا کوئی اس جنگ کو روک سکتا ہے؟

ایران اور اسرائیل جنگ جاری ہے۔ اسرائیل نے ایران پر جارحیت کی ہے۔ امریکا اور بھارت کے سوا پوری دنیا اسرائیل کی مذمت کر رہی ہے۔ پاکستان نے ایران کی غیرمعمولی سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی پاکستان نے ایران کی غیر معمولی حمایت کی ہے۔

ایران کے صدر نے ایران کی پارلیمان میں اپنے خطاب میں پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔ روس اور چین نے بھی ایران پر اسرائیلی جارحیت کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1973کے بعد پہلی دفعہ اسرائیل کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں۔ اسے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں رہا ہے۔

حماس کے خلاف لڑائی میں اسرائیل کو کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ اسی طرح حزب اللہ اور شام میں بھی اسرائیل کو کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن ایران نے اسرائیل کو قابل ذکر مزاحمت دی ہے۔ ایران کے میزائیل اسرائیل تک پہنچے ہیں۔ انھوں نے وہاں قابل ذکر نقصان کیا ہے۔ اسرائیل سے ہلاکتوں اور بلڈنگ کے تباہ ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔

اسرائیل نے اپنے میڈیا میں ایران کے میزائیلوں سے ہونے والے نقصان کی کوریج پر پابندی لگا دی ہے۔ اب وہاں سے نقصان کی فوٹیج آنا بند ہو گئی ہے۔ اسرائیل کے شہری اسرائیل چھوڑ کر جانے لگے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے شہریوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل میں ایرانی میزائیل کا خوف سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لوگ ڈر گئے ہیں، لوگ حفاظتی بنکرز میں راتیں گزار کر بھی تھک گئے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران یہ جنگ جیت گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران نے ایک قابل ذکر مزاحمت کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی بھی ایران پر بمباری جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ روز تہران میں اسرائیل کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے، لوگوں میں جوش و خروش تھا۔ اسرائیل کی بمباری سے تہران اور پورے ایران میں بہت تباہی ہوئی ہے۔ اسرائیل کی نسبت ایران کا جانی نقصان بھی زیادہ ہوا ہے۔ اس کا ویسے بھی نقصان زیادہ ہوا ہے۔ تقابلی جائزہ میں یقیناً ایران کا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کو برتری ہے۔ لیکن جواب میں ایران نے اسرائیل کا جتنا بھی نقصان کیا ہے۔ وہ بھی قابل ذکر ہے۔

ایران کا بڑا مسئلہ تہران اور ملک بھر میں موجود موساد کا نیٹ ورک ہے۔ ایران کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے اس میں ایران میں موجود موساد کے نیٹ ورک کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایران کی فوجی قیادت اور سائنسدانوں کی شہادت کی وجہ بھی ایران میں موجود موساد کا نیٹ ورک ہی تھا۔ اب بھی ایران کے لیے اسرائیلی جارحیت سے زیادہ بڑا مسئلہ ایران کے اندر موساد کا نہایت موثر نیٹ ورک ہے۔ موساد کا اتنا مضبوط نیٹ ورک یقیناً ایران کی ناکامی ہے۔

یہ نیٹ ورک کوئی ایک دن میں نہیں بنا ہے۔ جب اسرائیل نے حماس کے سربراہ کو تہران میں شہید کیا تھا تب ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ موساد کا ایران میں نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔ اب بھی اسرائیل نے دوبارہ یہ بات واضح کی ہے کہ اس کا ایران میں جاسوسی نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔

ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ امریکا کو اس لڑائی سے دور رکھا جائے۔ اس لیے اسرائیلی حملہ سے پہلے ایران یہی کہہ رہا تھا کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو ایران خطہ میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔ لیکن جنگ کے کئی دن بعد میں ایران نے کسی بھی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال اس کی کوشش ہے کہ امریکا کواس جنگ میں شامل نہ کیا جائے۔ وہ اکیلے اسرائیل کے ساتھ لڑنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل ضرور امریکا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ جنگ میں ساتھ شامل ہو۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسا کونسا کام ہے جو اسرائیل اکیلا نہیں کر سکتا اور اس کو امریکا کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے پاس ساری جنگی ٹیکنالوجی موجود ہے۔امریکا آکر کیاکرے گا جو اسرائیل خود نہیں کر سکتا۔ یہ اہم سوال ہے۔ آخر اسرائیل کیا چاہتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا کے ساتھ شامل ہونے سے اسرائیل پر سفارتی دباؤ کم ہو جائے گا۔اس کی سفارتی اور سیاسی تنہائی کم ہو جائے گی۔ یقیناً امریکا کے ساتھ شامل ہونے سے جنگ تیز ہو جائے گی۔ لیکن دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے میں سب سے بڑا مسئلہ ایرانی کی فردو میں نیوکلیئر سائیٹ ہے۔ یہ پہاڑوں کے نیچے ہے۔ وہاں اسرائیلی بم نہیں پہنچ سکتے۔ وہاں مارنے والے بم صرف امریکا کے پاس ہیں۔

امریکا اپنے طیارے جو یہ بم مار سکتے ہیں خطہ میں لے آیا ہے۔ لیکن یہ بم کب مارے گا یہی سوال ہے۔ سوال فردو کو تباہ کرنے کا ہے۔ جب امریکی صدر کہتے ہیں کہ ہم نیوکلیئر سائیٹ تباہ کریں گے تو یقیناً فردو کی ہی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ کیا تہران اسرائیل کے ساتھ ایک لمبی لڑائی لڑ سکتا ہے۔ یہ اہم سوال ہے۔ ایران کے پاس میزائیلوں کا محدود ذخیرہ ہے۔ اس کی نئے میزائیل بنانے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔ وہاں بمباری ہوئی ہے۔ اس وقت نئے میزائیل کی پروڈکشن بند ہو گئی ہے۔ جو میزائیل موجود ہیں ان کی تعداد محدود ہے۔ لوگ تین ہزار میزائیل کی بات کر رہے ہیں۔

اس میں سے بھی کہا جا رہا ہے کہ ایران نے ایک ہزار استعمال کر لیے ہیں۔ اس لیے پہلے ایران روزانہ دو سو میزائیل چلا رہا تھا۔ اب تیس سے پچاس چلا رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ سب نہیں اسرائیل پہنچتے، امریکا ان میزائلوں کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی میزائیل پہنچتے ہیں، کم پہنچ رہے ہیں۔ اس لیے ایران ایک لمبے عرصہ تک یہ میزائیل نہیں چلا سکتا۔ پھر ختم ہو جائیں گے، پھر کیا ہوگا۔ اس لیے لمبی لڑائی ایران کے حق میں نہیں لیکن سیز فائر کی کوئی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ آج تک غزہ میں سیز فائر نہیں ہوا۔ آج سیز فائر ایران کی فتح سمجھا جائے گا۔

آج سیز فائر اسرائیل اور امریکا کی شکست قرار دیا جائے گا۔ ایک عمومی رائے یہی ہوگی کہ ایران نے خوب مقابلہ کیا۔ میزائیل مارے اور اسرائیل اور امریکا کو سیز فائر پر مجبور کر دیا۔ اسی لیے امریکی صدر نے ٹوئٹ کیے ہیں کہ ایران کا غیر مشروط سرنڈر چاہیے۔ یہ غیر مشروط سرنڈر کیا ہوگا۔ کیا نیوکلیئر سائٹس کی تباہی کے بعد جنگ بند ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا۔ پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ غیر مشروط سرنڈر کیا ہے۔ کیا ایران میں رجیم چینج غیر مشروط سرنڈر ہوگا۔

کیا وہاں رجیم چینج کا کوئی منصوبہ موجود ہے۔ جو ایک دم سامنے آئے گا۔بار بار کہا جا رہا ہے کہ خامنائی کو ہم مار سکتے ہیں مار نہیں رہے۔ کیا خامنائی کو مارنے کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔

کیا اس کے لیے ماحول کو تیار کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم انھیں مار سکتے ہیں مار نہیں رہے۔ آگے کیا ہوگا۔ شاید اچھا نہیں ہوگا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اور کوئی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم اسرائیل کو روک نہیں سکتا۔ امریکا روک سکتا ہے لیکن وہ روکنا نہیں چاہتا۔ باقی کسی میں اتنی طاقت نہیں۔ سب بیان جاری کر سکتے ہیں۔ کوئی اس جنگ کو روک نہیں سکتا۔ جیسے کوئی غزہ اور لبنان میں نہیں روک سکتا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا کوئی اس جنگ کو روک سکتا ہے؟
  • مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے فرزند اسجد محمود پر حملے کا انکشاف
  • فیلڈ مارشل کے اعزازمیں امریکی ظہرانے کی ٹائمنگ عالمی سیاست میں اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے،خواجہ سعد رفیق
  • ادارہ امراض قلب میں مبینہ کرپشن ، ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان کا وزیر اعلیٰ سندھ کو خط
  • شخصیت پرستی کی قومی سیاست کا تضاد
  • باتیں علی امین گنڈا پور کی
  • انسانی امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگی اخراجات کا صرف ایک فیصد درکار، فلیچر
  • امریکہ نے ایران ، اسرائیل جنگ میں مداخلت کی تو بچ نہیں سکے گا، عراقی حزب اللہ بریگیڈ
  • چینی معیشت کی طویل مدتی بہتری کا رجحان برقرار
  • چند کروڑ بچانے کی خاطر 5 ادبی و علمی اداروں کے خاتمے کا منصوبہ