ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ ایٹم بم کی دہشت ہی دنیا میں بہت سی خونریزی کو روکے ہوئے ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال برصغیر پاک و ہند میں ہمارے سامنے ہے۔ بھارت اور ہمارے درمیان باقاعدہ آخری بڑی جنگ دسمبر 1971 میں لڑی گئی اس وقت دونوں ممالک میں سے کوئی بھی ایٹمی توانائی کا حامل نہیں تھا یا یہ کہا جائے کہ تسلیم شدہ نیوکلیئر ریاست نہیں تھا۔ گرچہ بھارت نے اس پر کام پہلے سے شروع کررکھا تھا مگر ابھی اس نے اس کے ٹیسٹ نہیں کیے تھے۔
1974 میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سب سے پہلے بھارت کو اس اعزاز سے نوازا۔ ہمارا ملک اس وقت دولخت ہوجانے کے بعد بہت ہی مشکل صورتحال سے گزر رہا تھا اورہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم بھی کبھی اس اعزاز سے سرفراز ہو پائیں گے مگر اس وقت کے ہمارے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے باوجود مشکل معاشی حالات کے یہ تہیہ کر ڈالا کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے ہم بھی یہ توانائی حاصل کر کے چھوڑیں گے۔
اُنھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اُن کے اس برملا اعلان کو عالمی سطح پر اس وقت کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور اِسے ایک دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا۔ مگر کسے معلوم تھا کہ اُن کی یہ بڑ ایک دن حقیقت کا روپ ڈھال کر ساری دنیا کو اچنبھے میں ڈال دے گی۔1974 کا یہ اعلان 1998 میں شرمندہ تعبیر ہوگیا اور دنیا کا ایک پہلا اسلامی ملک ساتویں ایٹمی قوت بن کر ابھر کر سامنے آگیا۔
اب اس سے دنیا کی کوئی بھی طاقت یہ اعزاز چھین نہیں سکتی تھی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی ہم سے باقاعدہ کسی محاذ آرائی اور کھلی جنگ کرنے سے خوفزدہ ہے۔ وہ اکّادکاّ سرحدی خلاف ورزیاں تو ضرور کرتا رہتا ہے لیکن 1965 کی طرح لشکر اندازی نہیںکرتا ہے۔ اُسے یہ خوف اور ڈر لاحق رہتا ہے کہ وطن کے لیے جان دے دینے سے نہ گھبرانے والی اس قوم سے جو ایٹمی قوت کا درجہ بھی رکھتی ہے اب کوئی بڑی جنگ لڑی نہیں جاسکتی ہے۔
اسے اس جنگ کے خوفناک نتائج کا پتا ہے۔ آج اگر ہمارے پاس یہ ایٹمی صلاحیت نہ ہوتی تو ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ ہم سے سات گنا بڑا ملک ہمارا کیا حشر کرچکا ہوتا۔ ہمیں اپنے اُن تمام افراد کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے مشکل ترین مالی حالات میں بھی اس پراپنا کام جاری رکھا اور ہمیں بالآخر ایک نیوکلیئر قوت بنا کے چھوڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر قدیر خان اور میاں نوازشریف تینوں کو اس مقصد کو حاصل کرنے میں بہت سی قربانیاں بھی دینی پڑیں مگر اُنھوں نے ہمت نہ ہاری اور ہماری نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل سے ہمکنار کردیا۔
بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے پر لٹکنا پڑا ، ڈاکٹر قدیر خان کو زندگی کے آخری کئی سال نظر بندی میں گزارنے پڑے اور ٹی وی پر آکر اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی بھی مانگنی پڑی اور میاں نوازشریف کو ایٹمی ٹیسٹ کرنے کی سزا کے طور پر اقتدار سے نہ صرف معزول ہونا پڑا بلکہ کئی جھوٹے کیسوں میں لمبی لمبی سزائیں بھی بھگتنی پڑیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہم نے اِن تینوں شخصیات کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور تینوں کو اس مادر وطن کے لیے ایسے قرض اتارنے پڑے جو اُن پر واجب بھی نہ تھے۔ دیکھا جائے تو جنرل ضیاء اگر چاہتے تو اپنے گیارہ برس کے دور میں یہ کام کرسکتے تھے ۔ اُنہیں اس وقت تمام عالمی اہم قوتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔
میاں نوازشریف بھی اگر 1998 میں اپنا اقتدار بچانے کی فکر میں بل کلنٹن کی مالی پیشکش قبول کر کے یہ ایٹمی دھماکے مؤخر کردیتے تو کیا ہم آج اتنے محفوظ ہوتے۔ میاں نوازشریف کو تو ویسے بھی کسی نہ کسی بہانے سے سزا دیدی جاتی مگر ہم پھر کبھی بھی تسلیم شدہ ایٹمی قوت کا درجہ حاصل نہ کرپاتے۔ ہم پر نہ صرف ایران کی طرح اقتصادی قدغنیں لگا دی جاتیں اور ہمارا نیوکلیئر پروجیکٹ بھی منسوخ کروا دیا جاتا۔ پانچ ارب ڈالرز کی لالچ میں ہم اپنے مستقبل داؤ پرلگاچکے ہوتے۔ کچھ لوگوں کی نظروں میں میاں نوازشریف کا یہ فیصلہ درست سمجھا نہیں گیا اوروہ آج بھی اپنی اس سوچ کی وجہ سے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں کہ اسی فیصلے کی وجہ سے ہم بھارت کی لشکر کشی سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔
بھارت کسی نہ کسی بہانے ہر دوچار سال بعد اپنے یہاں دہشت گردی کروا کے حالات کو تشنہ اور خراب کردیتا کہ اور علاقے کا سارا امن برباد کر کے رکھ دیتا ہے، مگر پھر وہ یہ سوچ کر دو قدم پیچھے بھی ہٹ جاتا ہے کہ وہ جس قوم سے نبردآزما ہے وہ ایک جنگجو قوم ہے اور وہ موت سے کبھی نہیں ڈرتی۔ وہ شہادت کے جذبے سے سرشار ہے اور اس کے پاس بھی ایک ایسا بم موجود ہے جو سارے بھارت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔ یہ خوف اسے ہمیشہ جنگ لڑنے سے روک دیتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار یہ ہمارا ایٹم بم ہی ہے جسے استعمال کیے بغیر ہمارا دشمن ہم سے مغلوب ہوجاتا ہے۔
1971 سے لے کر آج 2025 تک 54 برس گزرگئے، بھارت نے ہم پر کوئی بڑی جنگ مسلط نہیں کی حالانکہ وہ ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے اور معاشی و اقتصادی طور پربھی ایک بہت ہی مضبوط ملک ہے مگر اسی ایٹم بم نے اسے اس کام سے خوف زدہ کررکھا ہے۔ دنیا تو ہمارے ایٹم بم سے اس لیے بھی خوف زدہ ہے کہ یہ ایک اسلامی ایٹم بم ہے ۔ امریکا اور اس کے حواری یہ ہرگز برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ کوئی اسلامی ملک ایٹمی توانائی کا حامل ہو۔ پاکستان نے کسی نہ کسی طرح یہ حیثیت حاصل کر لی لیکن اب کسی اور اسلامی ملک کو اس کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے کہ وہ بھی اس قوت اور صلاحیت کاحامل ہوجائے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بندر عباس سانحہ/ اسرائیل آگ کی لپیٹ میں
ویلاگ اسلام ٹائمز اردو کی پیشکش ہے، جس میں اہم خبروں سے متعلق مفید تبصرے پیش کئے جاتے ہیں۔ ہر ہفتے کے روز، مختصر و مفید ویلاگز، دیکھنے و سننے والوں کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے۔ سامعین سے گزارش ہے کہ یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں اور اپنی مفید آراء سے مطلع فرمائیں۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز وی لاگ 03-05—2025 Islam Time VLog
بندر عباس کا سانحہ
اسرائیل کی آگ میں جلتی 77ویں سالگرہ
پاک بھارت ایٹمی جنگ؟ 99٪ انسانیت خطرے میں
ہفتہ وار پروگرام : وی لاگ
وی لاگر: سید عدنان زیدی
تاریخ: 3 مئی 2025
پروگرام کا خلاصہ:
ولاگ کے موضوعات ہیں
ایران کے بندر عباس میں شہید رجائی پورٹ کے ہولناک حادثے،
رہبر مسلمین کے اہم پیغام، فلسطین میں اسرائیلی ناکامی،
اسرائیل میں بھڑکتی بے قابو آگ،یمن و لبنان کی مزاحمتی قیادت،
اور پاک بھارت ایٹمی جنگ کے تباہ کن خدشات پر۔
یہ ویڈیو انسانیت، مزاحمت اور عالمی امن کی اہم ترین خبروں پر مبنی ہے۔
Khamenei #IranPortFire #IsraelCrisis #PalestineResistance #YemenHezbollah #IndiaPakistan #NuclearWar #GazaUnderAttack #BNwithZaidi