Express News:
2025-08-02@07:00:31 GMT

اچھے طالبان

اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT

اچھے طالبان اور برے طالبان؟ پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور نے اپنی طلب کردہ آل پارٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پہلی دفعہ یہ سوال اٹھایا۔ انھوں نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی اہم سوال اجاگر کیے۔ ان کا یہ بیانیہ تھا کہ پولیس جب اچھے طالبان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو کچھ قوتیں ان کی حمایت میں آجاتی ہیں۔ جب بھی اچھے طالبان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو یہ لوگ رہا کر دیے گئے۔

امین گنڈا پور نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں حالات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن ہوتا ہے اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان اور افسران شہید ہوتے ہیں مگر آپریشن کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ گنڈا پور نے یہ بھی کہا کہ جب طالبان ڈرون سے حملے کرتے ہیں تو بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اس کانفرنس میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا گیا کہ صوبے میں کسی نئے آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ( تاہم اب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور باجوڑ میں آپریشن پر تیار ہوگئے ہیں)۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کا ہدف سب سے زیادہ عوامی نیشنل پارٹی بنی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں سمیت متعدد کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے وزیر اعلیٰ کی بلائی گئی کانفرنس میں شرکت نہیں کی مگر عوامی نیشنل پارٹی نے ایک جرگے کا انعقاد کیا۔ اس جرگے میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے تھی کہ صوبہ کسی نئے آپریشن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس جرگے کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں بنیادی حقوق اور پختون حقوق کے تحفظ کا خصوصی طور پر مطالبہ شامل ہے۔ دیگر مطالبات کے مطابق اے این پی کے رہنما مولانا جان زیب کے قتل کی آزادانہ عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔

مطالبہ کیا گیا کہ حکومت بغیر کسی امتیاز کے دہشت گردوں کے تمام اڈوں کو ختم کرے اور سیاسی قیادت کی نگرانی میں اس کی بحالی کا عمل شروع کیا جائے تاکہ دہشت گردی کو جڑوں سے ختم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی لاپتہ افراد کے مسئلے کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جرگے کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے۔ پختونخوا کی روزانہ بگڑتی ہوئی صورتحال میں تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کی زیرِ نگرانی ہونے والے ان اجلاسوں کے اعلانات میں بہت ہی اہم ترین مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔

 اس پورے معاملے کے پس منظر کا معروضی طور پر جائزہ لیا جائے تو ان جماعتوں کے بیانیے میں پیش کیے گئے حقائق کی تصدیق ہوتی ہے، مگر ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ یوں تو کے پی گزشتہ 25 برسوں سے مختلف نوعیت کی دہشت گردی کا شکار رہا ہے، تاہم تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر صوبے میں 2013 سے دہشت گردی مزید بڑھ گئی ہے۔

افغانستان میں جب امریکا اور اتحادی فوجوں کے حملوں میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تو حامد کرزئی حکومت اقتدار میں آئی، پھر ڈاکٹر اشرف غنی برسرِ اقتدار آئے۔ طالبان نے 2021 میں دوبارہ کابل پر قبضہ کیا۔ تحریک انصاف کے قائد اور بانی ہمیشہ سے طالبان کی تحریک کے حامی تھے۔

انھوں نے طالبان کی جانب سے کابل کو فتح کرنے کو ایک بڑا کارنامہ قرار دیا تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب طالبان ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف جنگ کر رہے تھے تو تحریک انصاف کی حکومت ان کی کسی نہ کسی طرح حمایت کررہی تھی۔ جب طالبان کی کابل میں حکومت قائم ہوئی تو تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانی طالبان کو دوبارہ سابقہ قبائلی علاقوں میں داخلے کی اجازت دی۔ یہ طالبان بھاری اسلحے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ سابقہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔

تحریک طالبان پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ و ہ اس خود ساختہ شریعت کو قبائلی علاقوں میں تو ہر صورت میں نافذ کرنا چاہتی ہے ۔ پختونخوا کے ہر شہر سے خبریں آنے لگیں کہ اچھے طالبان نے اپنی متوازی حکومتیں قائم کرنی شرو ع کردی ہیں۔ ان لوگوں نے عدالتیں لگانا شروع کر دیں۔ خواتین کے تفریحی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کی گئی۔

طالبانائزیشن کے خلاف سب سے مضبوط تحریک شمالی وزیرستان میں پی ڈی ایم کی تحریک تھی۔ اس تحریک کے کارکنوں نے عدم تشدد کے ذریعے اور سیاسی جدوجہد کا راستہ ہموار کر کے پوری دنیا کو اس علاقے کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی طرف متوجہ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر جماعتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں طالبانائزیشن کے خلا ف مزاحمتی تحریکوں کو منظم کرنے کی کوشش کی مگر بدقسمتی یہ تھی کہ نہ ہی اسلام آباد اور نہ ہی پشاور کی حکومت نے اس بارے میں سنجیدہ رویہ اختیارکیا۔ حتیٰ کہ طالبان اور داعش کی دیگر تنظیموں کے جنگجوؤں نے ان افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

برسوں سے سابقہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کا کوئی شہر نہیں ہوگا جہاں اس کمیٹی کے سربراہ ، عوامی نیشنل پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کے کارکنوں کو شہید نہ کیا گیا ہو۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسند عناصر نے جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خود کش حملوں میں بال بال بچے۔ ان کے صاحبزادے کو گزشتہ ماہ اغواء کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب کے پی کی حکومت مخالف جماعتوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور اور صوبائی کابینہ کے باقی ارکان اپنے آبائی علاقوں میں نہیں جاسکتے تو وزیر اعلیٰ خاموش رہے۔ اب تو وفاقی وزیر داخلہ کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔

اس وڈیو میں موصوف یہ الزام لگا رہے ہیں کہ صوبائی حکومت کا ایک وزیر اپنے تحفظ کے لیے طالبان کو بھتہ دیتا ہے۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے رویے میں تبدیلی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے صرف اس وقت موثر ہوسکتی ہے جب تحریک انصاف کی قیادت پاکستانی طالبان کی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے تحت ہونے والے جرگے کے اعلامیہ میں پختونخوا کے اس دائمی مسئلے کے حل کے لیے جو تجاویز دی گئی ہیں وہ انتہائی اہم ہیں۔ اب تو خیبر پختونخوا کے تمام اسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ماضی میں طالبان کو برے طالبان اور اچھے طالبان میں تقسیم کرنے کی پالیسی بنیادی طور پر غلط تھی۔ طالبان کا نظریہ معاشرے کو پندرہ سو سال پیچھے لے جانے کا ہے۔ اچھے طالبان نے بھی خیبر پختونخوا میں متوازی حکومتیں قائم کی اور اپنی خود ساختہ شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کی۔ جب عوام کے کسی حصے نے مزاحمت کی تو پھر اس علاقے میں دہشت گردی بڑھ گئی۔

اس بناء پر اب ایک واضح پالیسی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بلا کسی امتیاز کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مسمارکرنا چاہیے اور نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے سرپرستوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے اور کسی بھی علاقے میں کسی بھی گروہ کو متوازی حکومت اور متوازی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔  2019میں ایک دفعہ پھر انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی تجویز دی گئی تھی۔

اس پلان کے تحت ریاست کی سطح سے لے کر تعلیمی اداروں، میڈیا کے اداروں اور برادریوں کی سطح پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے، مگر اس ایکشن پلان کے تحت وفاق اور صوبائی حکومتوں کو وقتی فوائد کے لیے رجعت پسندوں کو تقویت دینے والے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا۔ اس پلان کے تحت مدارس میں اصلاحات ہونی چاہئیں۔اسی طرح اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی نصاب کو جدید بنانا بھی ضروری عمل ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عوامی نیشنل پارٹی تحریک انصاف کی قبائلی علاقوں خیبر پختونخوا امین گنڈا پور دہشت گردوں کے پختونخوا کے علاقوں میں طالبان کی طالبان کو وزیر اعلی کی حکومت کرنے کی کیا گیا کے خلاف کے تحت کے لیے

پڑھیں:

طالبان بے روزگاری کم کرنے کے لیے افغان کارکنوں کو قطر بھیجیں گے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اس نئے پروگرام کے تحت 2000 ہنرمند افراد کے لیے رجسٹریشن کا آغاز اسی ہفتے منگل کے روز کیا گیا، جن میں مہمان نوازی، خوراک و مشروبات اور انجینئرنگ جیسے شعبوں کے ماہر افراد شامل ہیں۔ افغانستان کے 34 صوبوں سے تعلق رکھنے والے درخواست دہندگان اپنے تجربے اور اسناد جمع کرا سکتے ہیں، جن کی اہلیت کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ رجسٹریشن پروگرام ایک ایسے وقت پر شروع کیا گیا ہے، جب پڑوسی ممالک خاص طور پر ایران اور پاکستان سے کم از کم 15 لاکھ افغان باشندوں کو زبردستی واپس بھیجا گیا ہے۔ یہ وطن واپسی ایسے حالات میں ہوئی ہے، جب افغانستان کو معاشی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔

امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ مقامی خدمات پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور بیرون ملک کام کرنے والے افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں نمایاں کمی آئی ہے، جو ملک میں سرمائے کے بہاؤ کو متاثر کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

قائم مقام وزیر محنت عبدالمنان عمری نے اس لیبر ایکسپورٹ پروگرام کو ایک ''اہم اور بنیادی قدم‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ترکی اور روس کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نصف ملین افغان بے روزگار

عمری نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم مستقبل میں ہنرمند، نیم ہنرمند اور پیشہ ور کارکنوں کو ان ممالک میں بھیجنے کے لیے پرعزم ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم افغان کارکنوں کے قانونی حقوق اور بیرون ملک ان کی حفاظت کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمارا مقصد غیر قانونی نقل مکانی کو روکنا اور افغان کارکنوں کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا ہے۔‘‘

اگرچہ صرف روس نے ہی کابل میں طالبان انتظامیہ کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم کیا ہے لیکن کئی دیگر ممالک کے کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔

سن2021ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے قطر طالبان سے فرار ہونے والوں کے لیے ایک اہم مرکز رہا ہے۔

قطر نے طالبان کے لیے ایک سفارتی پوسٹ کی میزبانی بھی کی اور سن 2019 اور 2020 میں طالبان اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی بھی۔

طالبان کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ ''قطر کا لیبر اقدام‘‘ ملک میں بے روزگاری کو کم کرنے اور معیشت کو بہتر بنانے میں مدد سے گا اور ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو گا۔

بہت سے افغان باشندے اپنی بقا کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد پر انحصار کرتے ہیں لیکن فنڈنگ میں بہت زیادہ کٹوتیوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے، جس کی وجہ سے امدادی ایجنسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس ملک میں اپنے تعلیم اور صحت کے پروگراموں میں کمی کر دی ہے۔

عبدالغنی برادر نے اس پروگرام کے آغاز پر کہا، ''ہنرمند اور پیشہ ور افغان کارکنوں کو قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے کا عمل قومی معیشت پر مثبت اثر ڈالے گا اور بے روزگاری کو کم کرنے میں بھی مدد کرے گا۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ حکومت چار سال سے بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی و ملکی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے انگلش چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ایک ملاقات کی تھی۔ یہ اخوندزادہ اور کسی غیر ملکی حکومتی عہدیدار کے درمیان عوامی طور پر معلوم پہلی ملاقات تھی۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • اچھے کپڑوں اور گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی: حرا مانی
  • پی ٹی آئی قومی و خیبر پختونخوا اسمبلی سے مسعفی ہو، عمیر نیازی
  • حکومت پشاور یونیورسٹی کی درپیش مالی مشکلات ترجیحی بنیادوں پر حل کرے. عبدالواسع
  • بھارتی حکومت نے ایف اے ٹی ایف میں علی امین گنڈاپور کا بیان بطور ثبوت جمع کروادیا
  • پنجاب حکومت کے ‘حق دو تحریک’ کے لانگ مارچ کے شرکا سے مذاکرات میں کیا طے پایا؟
  • ’آپریشن مہادیو‘؛ بی جے پی کی پہلگام حملے کے اصل حقائق سے توجہ ہٹانے کی نئی چال
  • خیبر پختونخوا حکومت کا ’علم پیکٹ پروگرام‘ کیا ہے؟
  • طالبان بے روزگاری کم کرنے کے لیے افغان کارکنوں کو قطر بھیجیں گے
  • بنگلہ دیش: کامیاب طلباء تحریک کی پہلی سالگرہ پر انسانی حقوق کمشنر کا پیغام