بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور مودی کے حامی کٹھ پتلی میڈیا پر تنقید
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
سٹی42: پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور مودی کے حامی کٹھ پتلی میڈیا پر تنقید بڑھ گئی۔
مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر بھارتی شہری پہلگام میں سیاحوں کی سکیورٹی میں ناکامی کی کھلی حقیقت کو لے کر نریندر مودی کی مرکزی حکومت پر سخت کو تنقید کر رہے ہیں۔
حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ ہوسٹ نے براہ راست سوال پوچھا کہ کیا پہلگام سکیورٹی فیلیئر نہیں ہے؟
پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز اور کراچی کنگز میں آج جوڑ پڑے گا
پوڈکاسٹ شو کے مہمانوں نے جواب دیا کہ پہلگام میں سیاحوں کا قتل جس نے بھی کیا یہ ایک بدترین سکیورٹی ناکامی ہے۔ پلوامہ بھی سکیورٹی فیلیئر تھا۔ ، پٹھان کوٹ کا واقعہ بھی سکیورٹی کی ناکامی تھا۔
پوڈکاسٹ میں شریک ایک مہمان نے نریندر مودی کے پھیلائے ہوئے اس جھوٹ پر سوال کیا کہ 2 لوگ پاکستان کے زیر استعمال کشمیر گئے، 7 سال ٹریننگ کی اور واپس آگئے، تو اس سب کو کون مانیٹر کر رہا تھا ؟ پوڈکاسٹ ہوسٹ نے کہا کہ مودی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے بھارت خصوصاً کشمیر کو دہشتگردی سے پاک کر دیا اور پھر وہاں 26 سیاحوں کا ایسے قتل ہو جاتا ہے کہ مودی کی کسیورٹی فورس نزدیک تک نہیں آتی اور قاتل کارروائی کر کے سہولت سے غائب ہو جاتے ہیں۔
9سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کرنے والا ملزم عمر گرفتار
پوڈکاسٹ ہوسٹ نے کہا کہ کیا بی جے پی حکومت کو 11 سال کافی نہیں تھے؟ مودی نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اقدامات کا دعویٰ کیا مگر نتیجہ کیا نکلا ؟
پوڈکاسٹ کے مہمان نے کہا بھارتی الیکٹرانک میڈیا پر تو حملے کی وجوہات اور سکیورٹی فیلیئر پر کوئی بات ہی نہیں کرتا، بھارتی میڈیا بس یہی بتا رہا ہے کہ ہندوؤں کو مار دیا اور مودی یہ کہہ رہا ہے، مودی وہ کہہ رہا ہے۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے کسی وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے، اور یہ منفرد تجربہ جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں سامنے آیا ہے۔
دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈال کر یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نیپال میں سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو چیٹنگ ایپ ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے عوامی ووٹنگ سے عبوری وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ عوامی احتجاج اور حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جب اقتدار کا بحران پیدا ہوا تو نوجوان مظاہرین نے فیصلہ کیا کہ قیادت خود چنی جائے اور اس مقصد کے لیے ڈسکارڈ کو انتخابی پلیٹ فارم بنایا گیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، نیپال میں نوجوانوں نے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ڈسکارڈ سرور بنایا جس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ سرور احتجاجی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا، جہاں اعلانات، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور خبریں شیئر کی جاتی رہیں۔ جب وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا تو نوجوانوں نے 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی۔ اس میں 7713 افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے 3833 ووٹ سشیلا کارکی کے حق میں پڑے، یوں وہ تقریباً 50 فیصد ووٹ کے ساتھ سب سے آگے نکلیں۔
ووٹنگ کے نتائج کے بعد سشیلا کارکی نے صدر رام چندر پاوڈیل اور آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدی سے ملاقات کی اور بعد ازاں عبوری وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2026 میں عام انتخابات کرائے جائیں گے اور 6 ماہ میں اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اولین ترجیح شفاف الیکشن اور عوامی اعتماد کی بحالی ہوگی۔
خیال رہے کہ ڈسکارڈ 2015 میں گیمرز کے لیے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا، مگر آج یہ ایک بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر جنریشن زیڈ میں مقبول ہے کیونکہ یہ اشتہارات سے پاک فیڈ، ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو چیٹ کے فیچرز فراہم کرتا ہے۔ نیپال میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب جمہوری تاریخ میں ایک نیا اور حیران کن باب ہے جو مستقبل میں عالمی سیاست کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔