24 نومبر کو لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کو ڈھونڈتا رہا لیکن کوئی بھی نہیں نکلا، سلمان اکرم راجا
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ لاکھوں کروڑوں لوگ تیار ہیں کال دیں، کال میں کل دے دوں گا۔ لیکن 24 نومبر (2024) کو میں لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا، میں لوگوں کو ڈھونڈتا رہا لیکن کوئی بھی نہیں نکلا تھا۔
یہ کہنا کہ لاکھوں کروڑوں لوگ تیار ہیں کال دیں، کال میں کل دے دوں گا۔ 24 نومبر کو میں لاہور کی سڑکوں پر موجود تھا، میں لوگوں کو ڈھونڈتا رہا لیکن کوئی بھی نہیں نکلا تھا
بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کی گفتگو ???? pic.
— Faisal Khan (@KaliwalYam) May 4, 2025
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ’ایکس سپیس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 24 نومبر کو میں لاہور کی سڑکوں پر گھومتا رہا لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ لوگوں نے کہا تھا کہ ہم فلاں جگہ آئیں اور پولیس کو چکمہ دے کر اور بیرئیر کو توڑتے ہوئے نکل جائیں گے، مگر میں لوگوں کو ڈھونڈتا رہا۔
مزید پڑھیں: تینوں بہنوں اور سلمان اکرم راجا کو عمران خان سے ملنے سے روک دیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا تھا کہ ایک قافلہ فلاں پوائنٹ سے نکلے گا، پولیس کو انگیج کیا جائے مگر ایسا اس دن کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ کال تو میں کل دے دوں گا مگر ہمیں بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔
یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 13 نومبر 2024 کو اڈیالہ جیل سے ایک پیغام کے ذریعے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاجی مارچ کی ’فائنل کال‘ دی تھی۔ انہوں نے اس احتجاج کو چوری شدہ مینڈیٹ کے خلاف اور آئین میں حالیہ تبدیلیوں کے خلاف تحریک قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اسلام آباد پہنچیں تاکہ حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا عمران خان فائنل کال لاہورذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی سلمان اکرم راجا فائنل کال لاہور لاہور کی سڑکوں پر سلمان اکرم راجا رہا لیکن کوئی بھی نہیں نومبر کو
پڑھیں:
ہونیاں اور انہونیاں
پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔
سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔
ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔
بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔
پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔