امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا ۔کیا آزمائشیں آپ کو راستے سے روکتی نہیں ہیں؟انہوں نے فرمایا، اللہ کی قسم اگر آزمائش نہ ہو تو راستہ مشکوک ہوجائے، بے شک اللہ جس چیز کے ساتھ آزماتا ہے تو اس میں خیر ہوتی ہے اگرچہ ہم اس کے برعکس سوچیں۔اپنے دل کو اس بات سے راحت دو کہ اگر آزمائش نہ ہوتی تو یوسف علیہ السلام اپنے والد کی گود میں ہی رہتے ۔آزمائشوں نے ہی انہیں عزیز مصر بنایا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب ’ ’مقام انسانیت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’آج دنیا کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ جماعتیں موجود ہیں، قومیں موجود ہیں، تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں، لیکن صالح افراد نایاب ہیں اور دنیا کے بازار میں سب سے زیادہ اسی جنس کی کمی ہے، خطرناک بات یہ ہے کہ ان کی تیاری کی فکر بھی نہیں ہے اور سچ پوچھئے تو اگر تیاری کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو اس کے لیے صحیح راستہ اختیار نہیں کیا جاتا، اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ یقین پیدا کیا جائے اور سب سے پہلے انسان کو انسان بنایا جائے، اس کے بغیر جرائم بند نہیں ہوسکتے، خرابیاں دور نہیں ہو سکتیں، آپ ایک چور دروازہ بند کریں گے، دس چور دروازے کھل جائیں گے۔ افسوس ہے کہ جن کو اس بنیادی کام کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور جن کے توجہ کرنے سے اثر ہو سکتا ہے، ان کو دوسرے مسائل سے فرصت نہیں، اگر وہ اس مسئلہ پر توجہ کرتے، تو اس سے پوری زندگی پر اثر پڑتا، اور سیکڑوں مسائل اس سے حل ہوجاتے، جن پر علیحدہ علیحدہ کوشش کی جا رہی ہے، اور خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔‘‘
حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری نے فرمایا، اللہ تعالیٰ لکھنے والا ہے ، کتاب اللہ مکتوب ہے اور بندے مکتوب الیہ ہیں،ہر شخص اس چیز کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر کسی عزیز یا دوست یا بزرگ یا حاکم کا مکتوب آئے اور آدمی خود اس کی تحریر کو نہ سمجھ سکے تو اس زبان کےجاننے والے کے پاس جاتا ہے ان سے مطلب سمجھ کر جو فرمائش یا حکم ہو اس کی تعمیل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور یہی اس مکتوب کی عزت ہے اور اگر اس مکتوب کو لے کر اتنا سن لے کہ یہ فلاں استاد یا بزرگ کا خط ہے۔ سر آنکھوں پر رکھے ، سینے سے لگائے ، پیار اور محبت سے چومتا رہے اور ریشمی غلاف میں لپیٹ کر کسی عزت کی جگہ پر رکھ دے اور تحریر شدہ حکم کی تعمیل نہ کرے تو کیا وہ بزرگ یا استاد یا حاکم اس کے اس فعل پر خوش ہوسکتا ہے؟ اور کیا وہ اس شخص کو بے وقوف اور نادان دوست خیال نہیں کرے گا؟ بس اس مثال پر قیاس کر لیجیے کہ مسلمانوں میں کتنے آدمی ایسے ہیں جو مکتوب اللہ تعالیٰ (قرآن مجید) کی عزت اور قدر کرتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو زبان سے تو عزت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ سمجھنے کے باعث اس کی توہین اور بے عزتی کرتے ہیں۔
میں نہایت زوردار الفاظ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی ہر مصیبت کا علاج قرآن مجید میں موجود ہے بشرط یہ کہ اس کی ہدایت پر عمل کریں۔مثلا ًاگر کسی قصبہ یا شہر کے مسلمان اپنی اقتصادی بدحالی کو دور کرنا چاہیں۔ان کی خواہش ہو کہ کوئی نام کا مسلمان بھی تنگ دست ، فاقہ مست ، بھوکا پیاسا اور ننگا نظر نہ آئے تو کسی عالم قرآن سے اس اقتصادی بدحالی کا نسخہ تجویز کرکے اس پر عمل کرکے دیکھ لیں اور اگر میری خدمت کی ضرورت ہوتو بندہ وہ نسخہ عرض کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہے۔مسلمانوں میں خود اعتمادی کی روح ، اسلام کی طرف بازگشت کا جذبہ اور جوش عمل پیدا کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو اپنا مقام یاد دلایاجائے اور بتلایا جائے کہ وہ دنیا کی تعمیر و تشکیل کے اہم اور مقدس کام میں ایک موثر و فعال عنصر ہیں۔ کسی چلتی ہوئی مشین کا پرزہ اور کسی اسٹیج کے بازی گر اور نقال نہیں ہیں۔حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ ’’آج عالم اسلام کے قائدین و مفکرین اور اس کی جماعتوں اور حکومتوں کے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کا تخم دوبارہ بونے کی کوشش کریں، جذبہ دینی کو پھر متحرک کریں اور پہلی اسلامی دعوت کے اصول و طریق کار کے مطابق مسلمانوں کو ایمان کی دعوت دیں اور اللہ و رسول اور آخرت کے عقیدہ کی پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ تبلیغ و تلقین کریں، اس کے لئے وہ سب طریقے استعمال کریں جو اسلام کے ابتدائی داعیوں نےاختیار کئے تھے، نیز وہ تمام وسائل اور طاقتیں کام میں لائیں جو عصر جدید نے پیدا کردی ہیں ’’ مولانا مفتی شفیع عثمانی لکھتے ہیں، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ارشاد فرمایا کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے جب دہلی میں نظار المعارف قائم فرمایا تو تھانہ بھون آئے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں علامہ شبلی نعمانی سے ملا ، تو مسلمانوں کی عام بے راہ روی اور پریشانی اور مبتلائے آفات ہونے کا تذکرہ ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی نظر میں قوم کی اصلاح کی تدبیر کیا ہے ؟
علامہ شبلی نے کہا کہ قوم کی اصلاح ، صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں، جن کا قوم پر مکمل اثر ہو اور یہ اثر بغیر تقدس کے نہیں ہوسکتا اور تقدس ، بغیر تقویٰ اور کثرت عبادت و ذکر اللہ کے حاصل نہیں ہوسکتا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ’’پا جا سراغ زندگی‘‘میں لکھتے ہیں کہ آج مدارس کا سب سے بڑا فتنہ اور سب سے بڑا ذہنی طاعون بڑھتا ہوا احساس کمتری ہے جو گھن کی طرح اس درخت کو کھاتا چلا جارہا ہے۔ کسی ادارہ کو اگر یہ گھن لگ جائے تو پھر اس کی زندگی محال ہے، آپ کے پاس جو دولت ہے ، اس سے دنیا کا دامن خالی ہے۔ آپ کے سینہ میں علومِ نبوت ہیں اور وہ حقائق ہیں جو دنیا سے گم ہوچکے ہیں ، جن کے گم ہونے سے آج عالم میں اندھیرا ہے ، اضطراب اور انتشار ہے۔ آپ اپنے ان سادہ کپڑوں ، ان حقیر جسموں اور اس خالی جیب و دامن پر نظر نہ کریں ، آپ یہ دیکھیں کہ آپ کا سینہ کن دولتوں سے معمور اور آپ کے اندر کیسا بدرِ کامل مستور ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں ہو ہیں اور ہے اور
پڑھیں:
دماغ کی بتی روشن کریں
پہلگام واقعے کے بعد بھارت میں جس انداز سے جنگی بیانات کا سیلاب آیا اور پاکستان میں جس بے فکری و بے حسی کے ساتھ جنگ کی دھمکیوں کو سوشل میڈیا پر طنز، میمز اور جملے بازی کا نشانہ بنایا گیا وہ اس خطے کے اجتماعی شعور پر ایک تلخ سوالیہ نشان ہےـ کیا ہم نے پچھلی ناکام جنگوں اور ایڈونچرز سے واقعی کچھ نہیں سیکھا؟ کیا ہم اب بھی جنگ جیسے ہولناک انسانی سانحے کو قومی غیرت کی کسوٹی یا تفریحی موضوع ہی سمجھتے رہیں گے؟
بھارت اور بالخصوص بھارتی میڈیا میں جنگی مائنڈ سیٹ نئی بات نہیں۔ ہر واقعے کے بعد جوابی کارروائی، سرجیکل اسٹرائیک، یا دشمن کو سبق سکھانے جیسے بیانیے میڈیا اور سیاستدانوں کے منہ سے گونجنے لگتے ہیں۔ قوم پرستی کا یہ جنون ’امن‘ کو بزدلی، سمجھتا ہے۔
پہلگام کے دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد، بھارتی میڈیا، جو پہلے ہی عقل و شعور کی دھند میں لپٹا بیٹھا تھا، یکدم انگاروں پر لوٹنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
ادھر سانحہ ہوا ادھر الزام کا تیر سرحد پار چھوڑ دیا اور ہم بے چارے اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کھل کر اس کی تردید کر سکیں کیونکہ ہم نے خود کو پرائی جنگوں میں ملوث کیا اور کئی برسوں سے دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن چلیے، یہ الزام تراشی تو اب برصغیر کا ایک ثقافتی ورثہ ہے ہم بھی اپنی روایت نبھاتے ہوئے ہر دھماکے کا سرا اپنے سیکیورٹی نظام کی ناکامی میں ڈھونڈنے کے بجائے را اور انڈیا سے ہی جوڑتے ہیں۔
البتہ، اس بار نریندر مودی جی نے سندھ طاس معاہدے پر بھی دھونسو بیان دے ڈالا۔
یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ مودی سرکار کو پانی بند کرنا ہے یا دماغ کی کھڑکیاں کھولنی ہیں؟
ادھر بھارتی میڈیا اسی انتظار میں بیٹھا تھا کہ شروع ہو گئی سارے چینلز کے اینکرز اور میزبانوں کی قلابازیاں …..بھارتی میزبانوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید مودی سرکار نے ان تمام کو میزبانی کے فرائض کے بجائے بھانڈ پن، سنسنی خیزی، ڈرامہ بازی، اور بدتمیزیوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مفت میں عنایت کی ہوئی ہیں ـ
بھارتی نیوز چینلوں پر جنگی طبل کیا بجنا شروع ہوئے یوں لگا کہ جیسے ہر اینکر رام لیلا کا راون بن بیٹھا ہے، جو ہر لفظ پر آگ اگل رہا ہو۔ سرحد پار کوئی میزبان گویا کسی دکھی ساس کی طرح چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے تو کوئی کسی میلے میں نوسرباز کی طرح بانس پر بندر نچوا رہا ہے۔
میزبان حضرات مائیک تھامے ایسے جست بھرتے ہیں جیسے ابھی مہمان کی گردن دبوچ لیں گے ـ ادھر کوئی بد نصیب پاکستانی مہمان دو لفظ بولنے کی کوشش کرے، ادھر میزبان ٹپک کے اس پر یوں حملہ آور ہوتا ہے جیسے پہلوان اکھاڑے میں چِت کرنے لپکتا ہے ـ بیچارہ مہمان کیا کہے، نہ نو من تیل، نہ رادھا کا ناچ۔ بات بیچ میں ہی دم توڑ دیتی ہے ـ مباحثے کا حال تو یہ ہے کہ ’جو زیادہ چیخے وہی سچا‘۔
انڈین چینلز کے نیوز رومز کم، اکھاڑے زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور ہر میزبان ایک زورآور پہلوان نظر آ رہا ہے۔
خبر تو کب کی مصلوب ہو چکی اب تو اسٹوڈیوز میں صرف ’آر پار‘ کا تماشہ ہے ’نہ اپنی خبر نہ غیر کی خیر‘۔
آپ بے شک سنائیں پاکستان کو کھری کھری اور اپنے مہمان کو بھی لیں آڑے ہاتھوں ـ لیکن ذرا دھیرج ! پہلے
بیچارے سچ، کو تو مکمل سامنے آنے دیں ـ وہ توکسی کونے میں سر پکڑے بیٹھا ہے ـ
مزید پڑھیے: گرداس پور سے وزیرآباد
جبکہ جھوٹ، سر پر سہرا باندھے ناچ رہا ہے۔ دوسرے پہلو پر بھی نظر رکھیے کہ جب پہلگام کا واقعہ ہوا تو کشمیر کے مقامی لوگ ہی مدد کو آئے اور ایک کشمیری تو جان سے بھی گیا ـ سب نے اپنے گھر سیاحوں کے لیے کھول دیے اور ہوٹل مالکان نے ہر طرح اپنے گاہکوں کو بنا رقم لیے ساری سروسز مہیا کیں لیکن زرد صحافت کا یہ حال رہا کہ
’نہ پوچھو حال زار اپنا، نہ سنو فسانہ غیر کا‘ ایسے میں اصل خبر؟ وہ تو کہیں گم ہی ہو گئی۔ پوری قوم کو جذباتی طوفان میں بہا کر اور آئندہ نسلوں کو نفرت کا زہر پلا کر ریٹنگ کا جنتر منتر چلاتے رہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف …. گو کہ حس مزاح ایک خوب صورت چیز ہے لیکن ایسے خوفناک واقعے اور جنگ کے منڈلاتے سائے تلے ایسی نرالی انتہا پسندی کا جنم ہونا ایسے ہی ہے جیسے جنگ ایک فکاہیہ موضوع ہوـ میمز، ٹرینڈز، جگت بازی ایسا لگتا ہے جیسے قوم جنگ کو ایک فلمی سین یا کسی پرانے ڈرامے کا مکالمہ سمجھ بیٹھی ہو۔ یہ رویے ہماری سنجیدگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
میمز اور حس لطافت سے بھرپور ہماری نئی نسل غالباً اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ ’71 کی جنگ میں آخری دنوں تک عوام ریڈیو پر میڈم نور جہاں کے گانے ’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘ سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور پھر سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔
مشکل حالات میں طنز و مزاح اور حس لطافت کو برقرار رکھنا ایک اچھا عمل ہے لیکن جس طرح بھارتی میڈیا نے غیر ذمہ دارانہ جذباتیت سے پورے خطے کو یرغمال بنایا ہوا ہے بالکل اسی طرح پاکستانیوں نے سوشل میڈیا پر جنگ کو حس مزاح اور رومانویت کا لبادہ اُڑھا دیا ہے۔ نہ بھارت میں جنگ کی قیمت کا سچ سننے کی ہمت ہے، نہ پاکستان میں اس کی ہولناکیوں کا ادراک کرنے کی فرصت۔
ادھر جب مودی جی نے پانی بند کرنے کی للکار کیا لگائی، ادھر پاکستانیوں کی حسِ مزاح نے ایسی انگڑائی لی اور کر ڈالے تبصرے، قہقہے اور مذاق اڑاتے میمز اور ایسے ٹک ٹاک کہ دیکھنے والا حیرت زدہ رہ جائے کہ 2 ایٹمی ملکوں کے بیچ جنگ کیا واقعی کوئی مذاق ہے؟
جہاں ایک جانب پانی بند کرنے اور جنگ کی دھمکیوں پر پاکستانی ہنسی کے بخار میں مبتلا ہوئے وہیں سرحد پار بھارتی بھائیوں کی زبان ایسی بپھری کہ ماں بہن کی گالیاں اور بلتکار کی دھمکیاں بارش کی طرح برسنے لگیں۔
برصغیر میں بات بات پر ’ماں بہن‘ کو سڑک پر گھسیٹ لانے اور بلتکار کی دھمکی دینے کا رواج ایک سا ہی ہے؟
صدیوں کی تہذیب، سنسکار رخصت ہوتا دیکھ کر سرحد کے دونوں پار بھلے مانس لوگوں نے منہ میں انگلیاں داب لیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے شوروغوغا اور ہنسی ٹھٹا کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو آڑے ہاتھوں لینے پر زور دیا۔ دونوں ملکوں کے سمجھدار افراد نے سوشل میڈیا پر سب سے پہلے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں پر کئی سوالات اٹھا دیے جنھیں عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کی مد میں اربوں روپیہ پچھلے 75 سال سے حفاظت کے نام پر دان کر رہی ہے۔ اندوہناک واقعات چاہے اے پی ایس یا جعفر ایکسپریس کے ہوں یا پلوامہ یا پہلگام کے، سوال چوکیدار سے ہی پوچھا جائے گا کہ گھر کا دروازہ کھلا کیسے چھوڑا؟
اب دل کی گہرائیوں سے عرض ہے کہ ہم پہلگام کے سانحے پر اتنے ہی دل گرفتہ ہیں جتنا پاکستان میں دہشتگردی میں معصوم انسانوں کی ناحق موت پر تھے۔
دکھ اور صدمہ انسانیت کا درد ہے، جو سرحدوں میں قید نہیں ہوتا۔
محمد بخش نے فرمایا؛
’ﺩﺷﻤﻦ ﻣﺮﮮ ﺗﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﺋﯿﮯ ﺳﺠﻨﺎﮞ ﻭﯼ ﻣﺮ ﺟﺎﻧﺎ‘
جنگ حقیقت میں انسانیت کی ذلت اور شکست ہوتی ہے۔ جنگ ماؤں سے بیٹے، بیویوں سے شوہر، بچوں سے باپ اور بہنوں سے بھائی چھین لیتی ہے۔ عورتوں کی عصمت دری کو جواز مہیا کرتی ہے۔ جنگ معیشت کو زمین بوس اور نفسیات کو تباہ کر دیتی ہے۔ پھر بھی ہم اسے اپنی حب الوطنی یا مزاح کا مرکز بنائے بیٹھے ہیں۔
سو اپنی دماغوں کی بتی روشن کیجیے۔
جنگ کی تپتی خواہشات میں الزام تراشیاں اور جنگ کو مذاق سمجھنا بے وقوفی ہے۔
محبت اور بھائی چارہ ہی وہ دیا ہے جس کی روشنی نفرت کی رات کو چیر سکتی ہے۔ ہمارا دکھ سانجھا ہے کہ ہم بھی دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہیں ـ یہ وقت جنگی جنون کو ہوا دینے یا مزاح کے پہلو میں چھپانے کا نہیں کیونکہ یہ دونوں انتہاپسندی ہمیں ایک ہی دائرے میں گھماتی رہیں گی۔
مزید پڑھیں: بدمست ہاتھی اور ایڈونچرازم
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جنگ کو جیتنے کا نہیں، بچنے کا عمل سمجھیں۔ امن کوئی کمزوروں کا راستہ نہیں، یہ وہ اخلاقی جرات ہے جو طاقت کے نشے سے بلند ہوتی ہے۔ اور یہی وہ جرات ہے جو اس خطے کو واقعی عظیم بنا سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
بھارتی میڈیا پاک بھارت کشیدگی پہلگام حملہ جعفر ایکسپریس حملہ