روس نے کینسر کی ویکسین کی پہلی انسانی آزمائش کی تاریخ کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
روس میں کینسر کے مریضوں کو ایک نئی، ذاتی نوعیت کی ویکسین آئندہ چند ماہ میں دی جانا شروع ہو جائے گی۔
یہ اعلان روس کے معروف ادارے گمالیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف ایپیڈیمیالوجی اینڈ مائیکروبایالوجی کے ڈائریکٹر الیگزینڈر گِنٹسبرگ نے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور عالمی ادارہ صحت کے درمیان بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کی فراہمی کا معاہدہ
یہ ویکسین mRNA اور مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی ایک انقلابی دوا ہے، جو ہر مریض کے جینیاتی ڈیٹا اور مخصوص رسولی (ٹیومر) کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے، اور صرف اسی مریض پر مؤثر ہوتی ہے۔
گِنٹسبرگ نے روسی خبر رساں ایجنسی ریا نووستی کو بتایا کہ ویکسین کی آزمائشی مرحلہ آئندہ چند ماہ میں ماسکو کے دو بڑے کینسر اداروں، ہیرتسن ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور بلوکھن کینسر سینٹر، کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے۔
ویکسین کی تیاری گمالیا مرکز میں ہو گی، جبکہ مریضوں پر ٹرائلز مذکورہ طبی مراکز کریں گے۔
ذاتی نوعیت کی ویکسین، مخصوص مریض کے لیے تیارگنتسبرگ کے مطابق یہ دوا مکمل طور پر ہر مریض کے لیے مخصوص تیار کی جاتی ہے، اور کسی دوسرے شخص پر استعمال نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی پڑھیں:ناقص آئل میں کباب فرائی، ’چپلی کباب کے ساتھ کینسر فری ہے‘
یہ ویکسین ابتدائی طور پر میلانوما (جلدی کینسر کی ایک قسم) کے مریضوں کے لیے تیار کی گئی ہے، اور اس نے جانوروں اور محدود انسانی تجربات میں حوصلہ افزا نتائج دیے ہیں۔
ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟ویکسین انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو تربیت دیتی ہے کہ وہ مخصوص ٹیومر پروٹینز (نیوانٹیجنز) کو پہچانے اور تباہ کرے۔
یہ عمل سائٹوٹاکسک لمفوسائٹس کے ذریعے پورے جسم میں پھیلے کینسر خلیات کو ختم کرتا ہے۔
ضابطہ جاتی منظوری اور قوانینچونکہ یہ ویکسین ہر مریض کے لیے منفرد ہوتی ہے، اس لیے اس کی منظوری کے لیے روس میں ایک خاص ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے، جو روایتی ادویات کے برعکس ہے۔
دیگر اقسام کے کینسر کے لیے توسیعگمالیا انسٹیٹیوٹ، جو عالمی سطح پر کووِڈ-19 ویکسین Sputnik V کے موجد کے طور پر جانا جاتا ہے، اب پینکریاٹک، گردے اور پھیپھڑوں کے مہلک کینسر جیسی بیماریوں کے لیے بھی AI مدد یافتہ ویکسینز پر کام کر رہا ہے۔
بین الاقوامی دلچسپیروسی وزارت صحت کے مطابق ملک میں اس وقت تقریباً 40 لاکھ کینسر کے مریض موجود ہیں اور سالانہ 6 لاکھ 25 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
اگر یہ ویکسین محفوظ اور مؤثر ثابت ہوتی ہے تو یہ روسی صحت کے نظام میں ایک انقلابی سنگِ میل ہو سکتی ہے۔
گنتسبرگ نے تصدیق کی کہ دنیا کے کئی طبی ادارے روس سے تعاون کے خواہش مند ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
روس کینسر گمالیا انسٹیٹیوٹ گِنٹسبرگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کینسر ویکسین کی یہ ویکسین مریض کے کے لیے
پڑھیں:
تلاش
’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔
غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔
انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔
دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔
ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔
کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔
انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔
خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔
تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔
انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔
تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔