ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی!
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی! WhatsAppFacebookTwitter 0 5 May, 2025 سب نیوز
تحریر: عرفان صدیقی
میں یہ کالم کم وبیش ایک صدی پہلے کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول سے لکھ رہا ہوں۔ کل مجھے ایک پاکستانی کی صد سالہ برسی کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ تُرک قوم اُسے اپنا ہیرو مانتی ، اپنا فرزند کہتی ہے۔ صدر طیّب اردوان جب بھی پاکستان آئے، کسی نہ کسی تقریب میں اُس کا ذکر ضرور کیا۔ ذکر بھی ایسا کہ ایک ایک لفظ گہری محبت کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ کیا قوم ہے کہ ایک سو سال بعد بھی مادرِمشفق کی طرح اُسے سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ اور ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ اپنی تاریخ کے ایک جری کردار کے نام تک سے واقف نہیں۔
مدتوں پہلے تنگ دستی کا ڈسا ایک خاندان، بارہ مولا سے ہجرت کرکے پشاور منتقل ہوگیا، جو اُن دِنوں انگریز فوج کی ایک بڑی چھائونی تھا۔ ہجرت کے بعد پروان چڑھنے والی دوسری نسل کے ایک ہنرمند جوان نے اپنی ہی نہیں پورے خاندان کی قسمت بدل ڈالی۔ یہاں تک کہ اُس کا شمار امیرترین لوگوں میں ہونے لگا۔ اُسے پشاور کا ”رئیس التّجار” یعنی تاجروں کا بادشاہ کہا جانے لگا۔ حاجی غلام صمدانی نے یکے بعد دیگرے چھ شادیاں کیں۔ کثیرالمال بھی ٹھہرے اور کثیرالعیال بھی۔ چھ بیویوں سے تیرہ بیٹے پیدا ہوئے اور پانچ بیٹیاں۔ ایک بیٹے کی پیدائش سے پہلے عجب خواب دیکھا۔ ایک نہایت ہی چمکدار ستارہ، اپنی شعاعیں بکھیرتا طَشتِ فلک سے ٹوٹا اور غلام صمدانی کی دستار میں آٹِکا۔ بزرگوں نے تعبیر بتائی کہ تمہارے ہاں ایک خوش خصال بیٹا پیدا ہوگا جو تمہاری عزت کو چار چاند لگا دے گا۔
دسمبر1886 میں پیدا ہونے والے اِس بچے کا نام عبدالرحمن رکھاگیا۔ قرآن کے چودہ سپارے حفظ کرنے کے بعد وہ مقامی سکول میں داخل کرا دیاگیا۔ ساتویں جماعت پاس کی تھی کہ والد نے مزید اعلی تعلیم کے لئے 1906 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج علی گڑھ بھیج دیا۔ انگریز کی غلامی اور اُمت مسلمہ بالخصوص ترکی کے احوال نے نوجوان عبدالرحمن کے دل میں انقلاب کی چنگاری سُلگا رکھی تھی۔ حسرت موہانی کا قیام بھی اُن دِنوں علی گڑھ میں تھا جو وہاں سے ”اردوئے معلی” کے نام سے ایک رسالہ نکال رہے تھے۔ حسرت موہانی کے ”باغیانہ خیالات” کی وجہ سے علی گڑھ کالج نے اِس رسالے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن عبدالرحمن کے تکیے تلے یہ رسالہ پڑا رہتا۔ وہ اکثر حسرت موہانی سے ملنے بھی چلا جاتا۔ اپریل 1908 کے شمارے میں مِصر میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف ایک زور دار مضمون شائع ہوا۔ مضمون نگار کے نام کی جگہ لکھا تھا __ ”ایک طالب علم”۔ علی گڑھ کالج میں کہرام مچ گیا۔ حسرت موہانی تو گرفتار ہوگئے۔ دو سال قید بامشقت کی سزا پائی اور جیل چلے گئے۔ علی گڑھ کی انتظامیہ ”ایک طالب علم” کا سراغ لگاتے لگاتے عبدالرحمن تک پہنچی۔ اُسے تین سال کے لئے کالج بدر کردیا گیا۔
عبدالرحمن تعلیم جاری رکھنے کی جدوجہد میں شملہ چلا گیا۔ اُس کی عمر بہ مشکل بیس برس تھی لیکن اچانک وہ دِل کی کسی پیچیدہ اور کربناک بیماری کا شکار ہوکر طبیبوں، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا ہوکے رہ گیا۔ 1911 میں تین سالہ کالج بدری کا دور ختم ہوا تو وہ علی گڑھ کالج واپس آگیا ۔ انقلاب کی تڑپ، اب کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ پہلے طرابلس کا معرکہ درپیش ہوا پھر 1912 میں بلقان کی جنگ چھڑ گئی تو عبدالرحمن نے ایک دوٹوک فیصلہ کیا۔ ”کچھ بھی ہو میں بلقان جائوں گا اور ترک بھائیوں کے شانہ بہ شانہ اُن کے دشمنوں سے لڑوں گا۔” اُدھر پگھلتی ہوئی خلافتِ عثمانیہ اور ترکوں کے خلاف یورپ کی یلغار نے مسلمانانِ ہند کے دِلوں میں بھی تنور دہکا دیے تھے۔ عبدالرحمن کے عشق نے اُسے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے اُس ستائیس رُکنی طبّی مشن کا حصہ بنا دیا جو سرکردہ مسلم راہنمائوں کی کوششوں سے، زخمی ترکوں کے علاج معالجے کے لئے استنبول جا رہا تھا۔ مشن میں شمولیت کے لئے زادِ راہ کے طورپر ایک ہزار روپے مطلوب تھے۔عبدالرحمن اپنے مشن کو خاندان سے چھپائے ہوئے تھا۔ سو اپنی کتابیں، اپنے کپڑے، قیمتی سازوسامان، نادر تصویریں، کالج کے پروفیسروں اور ساتھیوں کے ہاتھ فروخت کرکے ایک ہزار روپے جمع کئے۔ استنبول اُسے بلا رہا تھا۔
طبّی مشن تو اپنا کام مکمل کرکے 1913 میں واپس آگیا لیکن عبدالرحمٰن وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اب وہ ترکوں میں عبدالرحمٰن پیشاوری’ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور پشاور میں اُس کا خاندان، ہزاروں میل دور جابسنے والے عبدالرحمن کو ” تُرک لالہ” کے نام سے یاد کرنے لگا تھا۔
1914 میں ‘تُرک لالہ’ نے فوج میں شامل ہونے کی ٹھانی۔ قسطنطنیہ اور بیروت میں فوجی تربیت پائی۔ جنگ ِعظیم کا طبل بجا تو لیفٹیننٹ عبدالرحمن کو ایک دَستے کی کمان سونپ کر سب سے اہم جنگی محاذ درّہ دانیال بھیج دیاگیا۔ اُسکے جری معرکوں اور جانبازی کی داستان خاصی طویل ہے۔ وہ تین بار شدید زخمی ہوا۔ تینوں بار موت کو شکست دے کر سرِمیدان آ گیا۔ مختلف زبانوں پر عبور کے باعث اُسے جرمنی اور بغداد میں سفارتی مہمات پربھی بھیجا گیا۔ استنبول پر اتحادی افواج کے قبضے کے بعد عبدالرحمٰن نے باضابطہ طورپر اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کی سپاہِ آزادی میں شمولیت اختیار کرلی۔ عثمانی فوج اور سپاہِ آزادی میں نمایاں کردار کے باعث، عبدالرحمن کی تُرک بحریہ کے سربراہ، رئوف بے سے گہری دوستی قائم ہوگئی۔ رئوف کی والدہ عبدالرحمن کو اپنا بیٹا کہا کرتی تھیں۔ یہی رئوف بے جدید ترکی کے وزیراعظم بھی رہے۔
انقرہ میں اتا ترک نے حکومت قائم کی تو عبدالرحمٰن پیشاوری کو 1921 میں افغانستان کا سفیر تعینات کردیا گیا۔ تقریباً دو سال اِس منفرد منصب پر قائم رہتے ہوئے بھی عبدالرحمن، اپنے گھر پشاور نہیں آیا البتہ اُس کے والد، حاجی غلام صمدانی اپنے بیٹے سے ملنے کابل گئے۔
عبدالرحمن استنبول واپس آیا تو سیاسی فضا بدلی ہوئی تھی۔ رئوف بے نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنالی۔ عبدالرحمن بھی اس جماعت میں شامل ہوگیا۔ انہی دنوں اس کے گہرے رابطے مولانا عبیداللہ سندھی سے ہوئے جو استنبول میں قیام پزیر تھے۔ مشکلات سے دوچار عبیداللہ سندھی کی مدد کے لئے عبدالرحمن نے بھرپور کردار ادا کیا۔
آج سے ایک سو سال پہلے20 اور 21 مئی 1925 کی درمیانی شب عبدالرحمن اپنے گھر جارہا تھا کہ استنبول کی ایک سڑک پر گولیاں برسا کر شدید زخمی کردیا گیا۔ ایک ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد عبدالرحمن پشاوری، 39 سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کرگیا۔ اُسے استنبول کے قدیم تاریخی قبرستان میں پورے سیاسی اور عسکری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیاگیا۔
عبدالرحمٰن پیشاوری کی داستان، ایک عشق، ایک دیوانگی اور ایک جنوں کی داستاں ہے۔ اِسے عقل وخرد کے پیمانوں سے ماپا اور جانچا نہیں جاسکتا۔ اسے سودوزیاں کے ترازو میں بھی تولا نہیں جاسکتا۔ ایک پچیس سالہ نوجوان کے جی میں کیا سمائی کہ اُس نے علی گڑھ چھوڑا، اپنے والدین اور بھرے پُرے خاندان سے ناتا توڑا، اپنے وطن سے ہجرت کی، عثمانیوں پر ٹوٹنے والے کوہِ غم سے آزادی کی صبحِ خوش جمال تراشنے کے لئے درجنوں معرکوں کو اپنا لہو دیا اور پھر ایک شب اُس کا لہو حضرت ابو ایوب انصاری کی مرقدِ پُرنور کے نواح میں خاکِ قسطنطنیہ کی نذر ہوگیا۔
عبدالرحمٰن پیشاوری، آج بھی ترکوں کا ہیرو ہے۔گزشتہ روز استنبول یونیورسٹی کے ایک بڑے اجتماع میں اُس کی سو سالہ برسی منائی گئی۔ شاید اُس کے خاندان کے بچے کھچے افراد کو بھی ‘ تُرک لالہ ‘ کی کچھ خبر ہو۔
لیکن پاکستان بھر کی عالی مرتبت درس گاہوں میں جاکر نوجوانوں سے پوچھیے__ اُن کے اساتذہ سے پوچھیے__ ”عبدالرحمٰن پیشاوری کون تھا؟” سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے آپ کو دیکھتے رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجناح ہاؤس حملے میں غفلت برتنے پر فوج کے 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن و مراعات ریٹائر کیا گیا، اٹارنی جنرل پہلگام کاخونیں ناٹک !! سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر اور ماں چلی گئی ماں کے بغیر پہلی عید کا کرب محکمہ موسمیات کی عید سے قبل بادل برسنے کی خوشخبری پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اپنے گھر
پڑھیں:
بھارتی جنگی جنون اور ایٹمی پاکستان
اسلام ٹائمز: وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے پاکستان کا پانی روکنے کیلئے کسی بھی ڈھانچے کی تعمیر کو تباہ کرنے کا اعلان بھی قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کیلئے سفارتی رابطے بھی کامیابی کیساتھ جاری ہیں۔ افغانستان نے بھی پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، جو کہ خوش آئند ہے۔ لیکن ساتھ کس حد تک دیتا ہے، یہ بعد کی بات ہے۔ ہم ان شاء اللہ توقع رکھتے ہیں کہ قوم کے تعاون کیساتھ افواج پاکستان یہ جنگ جیتیں گے اور اب تک کا ماحول بتا رہا ہے کہ پاکستان نفسیاتی حوالے سے اپنا ماحول بنانے اور اپنا کیس عالمی سطح پر لے جانے میں کامیاب ہوا ہے۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی
برصغیرمیں باہر سے آنیوالی قوتوں نے ایک لمبا عرصہ یہاں حکمرانی کی ہے۔ مختلف ادوار میں یہاں کے عوام مسلط حکومتوں کو گرا کر اپنے باسیوں کی حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ سوری، مغل، تغلق اور رنجیت سنگھ کی حکومتیں یہاں قائم رہیں، جبکہ آخر میں برطانوی سامراج، جس کا پوری دنیا میں طوطی بولتا تھا، نے بھی ظلم و ستم کے ذریعے لمبا عرصہ اپنا اقتدار برقرار رکھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی حکمران کمزور ہوئے تو برصغیر میں بھی ان کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ برطانوی حکومت نے آزادی برصغیر کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے خلفشار کو ختم کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کر دیا۔ اسی طرح ہندووں کے متعصبانہ اقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وجود اور مذہب خطرے میں محسوس ہوا، تو ان کے اندر بھی ’لا الہ الا اللہ ‘ کی بنیاد پر ایک خود مختار مسلم مملکت کا جذبہ امڈ آیا، تو پاکستان 1947ء میں معرض وجود میں آگیا۔ اس کے سرحدی اور نظریاتی خطوط بھی واضح کر دیئے گئے۔
یہ اسلام کے نام اور نظریات پر مشتمل نئی مملکت ہے، جس کے سرحدی تحفظ کی ذمہ داری افواج پرعائد ہوتی ہے۔ جبکہ نظریاتی سرحدوں کی ذمہ داری دینی طبقے کی ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے 21 تا 24 جنوری 1951ء چار روزہ اجلاس میں سنی شیعہ اہل حدیث دیوبندی مکاتب فکر کے 31 علماء نے 22 نکات پر اتفاق کرکے اسلامی مملکت کے خدوخال پیش کردیئے۔ مگر ایک مملکت جو اسلام کے نام پر بنی سامراجی سازش کے تحت مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ خاص طور پر مارشل لاء حکومتوں کے دوران ہر مسلک نے مشترکہ میراث اسلام کی بجائے اپنے اپنے فرقے کا نقطہ نظر نمایاں کرنا شروع کر دیا اور نئی تشریحات میں اپنے علاوہ کسی کو مسلمان سمجھنے سے گریزاں ہونے لگے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں فرقہ واریت اور نفرت نے جگہ بنانا شروع کر دی۔ میری توجہ اس پر نہیں کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کیوں بن گیا اور باقی ماندہ ملک انتشار کی اماجگاہ کیوں بن گیا۔ مجھے ان دنوں کے حالات کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کیونکہ افواج پاکستان اپنی ذمہ داری کو اپنے نوجوانوں کی شہادتوں کی صورت میں پیش کر رہی ہیں۔
ہمارا ازلی دشمن بھارت ہماری سرحدوں کو پامال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ الحمدللہ ! افواج پاکستان ہر قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی اور آمادہ ہیں۔ یہ بھی ایک خوشگوار حقیقت ہے کہ جب بھی ملکی سلامتی پر کوئی مشکل آن پڑی تو مختلف فرقوں اور برادریوں میں تقسیم قوم ہندو سامراج کیخلاف یکجا ہوئی اور سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مکاتب فکر کے علماء، دانشور، صحافی، تاجر، صنعتکار اور سیاستدان یکسوئی کیساتھ افواج پاکستان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ جب بھی کبھی بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو عوام نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر اپنی فوج کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیا۔ مجھے وہ وقت یاد ہے کہ جب 1965ءکی جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی عوام خصوصا ًزندہ دلان لاہور نے فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان دنوں میں نے عملی طور پر لاہور میں تنظیم شہری دفاع کے پلیٹ فارم سے اپنی استطاعت کے مطابق کردار ادا کیا۔ گارڈن ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن کا علاقہ میری ذمہ داری میں تھا۔ ہم نے جنگ میں ’’ایل‘‘ اور ’’ڈبلیو‘‘ شکل کی خندقیں بنائیں تاکہ کسی فضائی حملے کی صورت میں شہری محفوظ پناہ گاہ حاصل کر سکیں۔
میں پہلے وارڈن، پھر ہیڈ وارڈن اور ڈویژنل ہیڈ وارڈن میاں اسحاق نرسری والے کیساتھ ڈپٹی ڈویژنل ہیڈ وارڈن بھی مقرر ہوا۔ اس دوران بھارتی جہازوں نے گولہ باری کی تو کلمہ چوک کے پاس بڑا گولہ بھی گرایا گیا، جبکہ کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن سول ڈیفنس کے جوانوں نے جواں مردی کیساتھ عوام کو ذہنی طور پر خوفزدہ ہونے سے بچایا اور قومی تحفظ میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ اسی طرح افواج پاکستان کے جوان جہاں بارڈر پر جنگ لڑتے تھے تو لاہور کے جوان گوداموں سے اسلحہ نکال کر آرمی کے ٹرکوں میں لوڈ کر کے فوج کے مددگار بنتے رہے۔ بھارتی فوج نے شکرگڑھ کے علاقے میں آگے بڑھنے کی کوشش کی تو بارڈر کے دونوں اطراف بڑی جنگ ہوئی۔ اس میں ہمارے فوجی جوانوں نے سینے پر بم باندھ کربھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر انہیں تباہ کیا اور حملے کو روکا۔ پھر قصور کی طرف دریائے ستلج کے کنارے انڈیا کا بڑا رقبہ جو کہ کھیم کرن تک پھیلا ہوا تھا پاکستان نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ میں بذات خود سول ڈیفنس کے نوجوانوں کو لے کر کھیم کرن تک پہنچا۔ ظاہر ہے جنگوں میں تباہی ہوتی ہے اور وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھی بھی ہے۔ لیکن ہم خود قوم کو کتنا بچا سکتے ہیں مد نظر رہنا چاہیے۔
مجھے خوشی ہوئی کہ وزیر داخلہ محسن نقوی سول ڈیفنس کے مرکز میں انتظامیہ کو کچھ احکامات جاری کرتے ہوئے ٹی وی پر دکھائی دیئے۔ اس واقعہ کو دیکھ کر 82 سال کا بزرگ منیرحسین گیلانی، دفاع وطن کیلئے آج بھی اسی جذبہ کے ساتھ تیار ہے۔ میں کوئی بڑی بات نہ کہتے ہوئے عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی عمر، قد اور بڑھاپے کی صورت میں ہمہ وقت تیار آمادہ ہوں۔ میں شکر گزار ہوں تمام مکاتب فکر کے علماء اور سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کا کہ وہ انڈیا کی دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلئے آمادہ اور یکسو ہیں اور قوم میں جذبہ حب الوطنی پیدا کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردی کے واقعہ کو بنیاد بنا کر گجرات کے قصائی نریندر مودی اپنی بری خصلت سے باز نہیں آ رہا، حالانکہ اب تک انڈیا کو کوئی بھی ثبوت پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے واقعہ میں شمولیت کا پیش نہیں کر سکا، جبکہ دوسری طرف ایران اور سعودی عرب نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کروانے کی پیش بھی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے لیکن سب سے بڑی بات چین کی طرف سے دوستی کے عزم کا اظہار ہے، کہ اس نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ کھڑا ہے۔ بھارتی میڈیا کا کردار انتہائی بھیانک ہے جو جنگ کا ماحول بنانے کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔ اسی طرح سے کشمیری عوام کا ردعمل جب بھارتی میڈیا لینا شروع کرتا ہے، تو اپنے مطلب کی بات نہ پا کر مایوس ہو جاتا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے پاکستان کا پانی روکنے کیلئے کسی بھی ڈھانچے کی تعمیر کو تباہ کرنے کا اعلان بھی قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کیلئے سفارتی رابطے بھی کامیابی کیساتھ جاری ہیں۔ افغانستان نے بھی پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے جوکہ خوش آئند ہے۔ لیکن ساتھ کس حدتک دیتا ہے یہ بعد کی بات ہے۔ ہم ان شاءاللہ توقع رکھتے ہیں کہ قوم کے تعاون کیساتھ افواج پاکستان یہ جنگ جیتیں گے اور اب تک کا ماحول بتا رہا ہے کہ پاکستان نفسیاتی حوالے سے اپنا ماحول بنانے اور اپنا کیس عالمی سطح پر لے جانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ہماری دعائیں اپنی افواج کیساتھ ہیں۔ ایک بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کسی صورت ہونی چاہیے لیکن ایٹمی قوت کو جب للکاریں گے اور جھوٹے الزامات لگائے گئے تو ایٹمی ہتھیار ہم نے بھی کوئی شوکیس میں سجانے کیلئے نہیں، بلکہ اپنے دفاع کیلئے رکھے ہیں۔ جب کبھی اپنے وطن کی سالمیت اور وجود کو خطرہ ہوا تو ہم یقیناً اپنے ایٹمی اثاثے استعمال کریں گے۔
یہاں مجھے بہت یاد آرہے ہیں ذوالفقارعلی بھٹو شہید، جنہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، بے نظیر بھٹو شہید جنہوں نے میزائل سسٹم کو مضبوط کیا اور سب سے بڑھ کر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان رحمتہ اللہ علیہ کہ جنہوں نے اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم کے توسط سے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ کس طریقے سے ایٹم بم بنا سکتے ہیں۔ جب ایٹم بم پاکستان نے بنایا تو اس میں بہت تسلسل اور رازداری رہی، چاہے پاکستان میں مختلف حکومتیں آئیں لیکن ہر حکومت نے ایٹمی پروگرا م کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام شخصیات کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے کہ جن کے مخلصانہ کردار کی وجہ سے آج ہم فخر کیساتھ سر اٹھا کر چل سکتے ہیں کہ ہم ایک ناقابل تسخیر پاکستان کے باسی ہیں۔