Express News:
2025-05-06@02:12:12 GMT

خاموشی کی قیمت کب تک چُکائیں؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

ہمارے معاشرے میں جو تربیت بچے یا بچی کو بچپن سے دی جاتی ہے، پھر وہ ان کی شخصیت میں اچھی طرح رچ بَس جاتی ہے۔

یہی وہ تربیت ہوتی ہے، جو لہوبن کر پھر ہماری رگوں میں مرتے دم تک دوڑتی ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، وہاں عورت کو گھر کی عزت مانا جاتا ہے، جو کہ حقیقت بھی ہے۔ بلا شبہ قوموں کی عزت ’ہم‘ ماؤں بہنوں بیٹیوں سے ہی ہے، لیکن عزت کے نام پر کبھی کبھی اس مان سمان کی آڑ میں خاندان کی ’جھوٹی عزت، نام، شہرت اور مقام‘ کو بچانے کی خاطر عورت کو خاموش رہ کر ظلم اورذلت سہنا بھی سکھایا جاتا ہے۔

ہمارے کی معاشرے کی عورت سالہا سال اس امید پر کہ شاید ہمارا خاوند ’اب‘ سدھر جائے یا بچوں کی پیدائش یا بچوں کے بڑے  ہونے کے بعد بدل جائے گا کی امید لیے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اور دل میں غم اور تکالیف کا بوجھ لیے اپنے اوپر ہونے والا گھریلو تشدد، ظلم اور ذلت برداشت کرتی رہتی ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلنے دیتیں۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اکثر خواتین کی قربانیوں، صلاحیتوں اور کردار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، خاص طور پر جب بات اُن پر ہونے والے گھریلو تشدد کی ہو۔ یہ تشدد صرف جسمانی زخم نہیں دیتا، بلکہ ذہنی، جذباتی اور معاشی زخموں کا سبب بنتا ہے، جن کا اثر محض فردِ واحد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورے معاشرے اور ملک کی معیشت تک پھیل جاتا ہے۔

اکثر خواتین، جو تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور خودمختار بننے کی خواہاں ہوتی ہیں، گھریلو تشدد کے باعث یا تو اپنے خواب ترک کر دیتی ہیں یا ان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ بعض اوقات انھیں روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں، مگر وہ اپنے شوہر، سسرال یا خاندان کے دباؤ اور خوف کے باعث ان موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔ ایسی خاموشی نہ صرف انفرادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے، بلکہ ملک کی معاشی ترقی بھی اس سے بہت متاثر ہوتی ہے۔

جب خواتین کو باعزت، محفوظ اور بااختیار ماحول دیا جاتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کو خوش حال بناتی ہیں، بلکہ ملک کی پیداوار، برآمدات، صنعتوں اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، وہاں خواتین کی شمولیت ایک لازمی امر ہے، لیکن جب وہ خوف اور تشدد کے ماحول میں رہتی ہیں، تو ان کی شرکت محدود ہو جاتی ہے۔

گھریلو تشدد کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے خواتین کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوتی ہے، جس کے باعث وہ کام پر توجہ نہیں دے پاتیں یا بار بار نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اس طرح اداروں کو بار بار نئی افرادی قوت کی تلاش کرنی پڑتی ہے، جس سے پیداواری صلاحیت کم اور مالی اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔

یہ ایک خاموش مگر گہرا نقصان ہے، جو ہماری معیشت کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خواتین تشدد کا شکار ہونے کے باوجود خاموش کیوں رہتی ہیں؟ وہ اپنے حق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟ کیا وہ خود اس ظلم کو سہنے کی اجازت دیتی ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں، لیکن اس کا تعلق اْس معاشرتی ڈھانچے سے ہے جس میں لڑکی کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ برداشت کرنا ہی اس کی خوبی ہے، زبان کھولنا بدتمیزی ہے، اور عزت خاموشی میں ہے۔

خواتین اکثر اس لیے خاموش رہتی ہیں کہ وہ اپنے رشتے بچانا چاہتی ہیں، اپنے بچوں کے لیے قربانی دیتی ہیں، یا انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ آواز اٹھائیں گی، تو سسرال، خاندان، یا معاشرہ انھیں ہی قصوروار ٹھیرائے گا۔ کبھی کبھی مالی انحصار، تعلیم کی کمی، یا والدین کا سہارا نہ ہونا بھی ان کے لیے تشدد برداشت کرنے کی مجبوری بن جاتا ہے۔

کچھ خواتین واقعی اس سوچ کو مان چکی ہوتی ہیں کہ مرد کو غصہ آنا ایک ’فطری’ عمل ہے اور عورت کا کام ہے کہ وہ برداشت کرے۔ یہ سوچ دراصل صدیوں پرانے جابرانہ نظام کی پیداوار ہے، جہاں عورت کو کمزور، خاموش اور تابع بننے کی تربیت دی گئی ہے۔ جب یہی تربیت نسل در نسل چلتی ہے، تو ایک وقت آتا ہے جب ظلم کو ظلم سمجھنے کی صلاحیت بھی دب جاتی ہے، اور عورت خود کو الزام دینے لگتی ہے۔

لیکن یہاں ہمیں ایک اہم بات سمجھنی ہوگی۔ خاموشی کبھی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات یہ خاموشی بے بسی، خوف، اور تنہائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عورت اپنے دل میں چیختی ہے، لیکن زبان بند رکھتی ہے، کیوں کہ اسے کوئی ایسا سسٹم نظر نہیں آتا جو اس کی مدد کرے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم نہ صرف تشدد کرنے والے کو روکیں، بلکہ ظلم سہنے والوں کی سوچ بھی بدلیں۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ صرف ’برداشت‘ کے لیے پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ وہ برابر کی انسان ہیں جنھیں عزت، تحفظ اور خود مختاری کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمیں ان کے لیے ایک ایسا معاشرہ بنانا ہوگا، جہاں ظلم سہنے کو ہمت نہ سمجھا جائے، بلکہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کو اصل بہادری مانا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم گھریلو تشدد کو صرف ’نجی مسئلہ‘ نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک قومی مسئلہ تسلیم کریں۔ ایسی خواتین جو خاموش ہیں، اْن کی آواز بنیں۔ قانون سازی، آگاہی مہمات، خواتین کے لیے محفوظ جائے روزگار اور ’معاون نظام‘ جیسے اقدامات کے ذریعے ہی ہم ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔

خواتین صرف ماں، بیٹی، بہن یا بیوی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک مکمل انسان، ایک باصلاحیت شہری، اور ملکی معیشت کا اہم ستون بھی ہیں۔ جب ہم ان پر ہونے والے تشدد پر خاموش رہتے ہیں، تو ہم نہ صرف ایک فرد کو کھو دیتے ہیں بلکہ ایک پوری نسل اور ایک معاشی سرمایہ بھی ضائع کر دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گھریلو تشدد جاتی ہے ہوتی ہے جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

امددای کٹوتیاں بحران زدہ علاقوں میں دائیوں کی خدمات میں کمی کا سبب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 مئی 2025ء) امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کو بحران زدہ علاقوں میں دائیوں (مڈوائف) کے لیے ضروری مدد کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر کمی کرنا پڑی ہے۔

ادارہ رواں سال بحرانی حالات سے دوچار آٹھ ممالک میں 3,521 دائیوں میں سے 47 فیصد کے لیے ہی وسائل مہیا کر سکے گا جس سے وہاں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کی صحت و زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

Tweet URL

'یو این ایف پی اے' کے مطابق، رواں سال امدادی وسائل کی قلت کے پیش نظر افغانستان میں 974 میں سے 565، بنگلہ دیش میں (روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے امدادی اقدام کے تحت) 288 میں سے 241، کیمرون میں 49 سے 17 اور مالی میں 133 میں سے 88 دائیوں کے لیے مدد دستیاب ہو گی۔

(جاری ہے)

اسی طرح، فلسطین میں 93 میں سے 63 اور یمن میں 1,492 میں سے 700 دائیوں کو ہی مدد میسر آئے گی۔ وسطی جمہوریہ افریقہ میں 22 اور سوڈان میں 470 دائیوں کو مدد دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن ان دونوں جگہوں کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ امدادی وسائل بند ہو جانے سے چاڈ، نائجیریا، مڈغاسکر اور صومالیہ میں بھی اس مدد کی فراہمی ممکن نہیں رہی۔

صحت و زندگی کی ضمانت

'یو این ایف پی اے' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکتر نتالیا کینم نے کہا ہے کہ دائیاں زندگیاں بچاتی ہیں اور مشکل ترین حالات میں ان کی مدد زچہ بچہ کے لیے صحت و زندگی کی ضمانت ہوتی ہے۔ جب بحرانوں میں طبی نظام کو نقصان ہوتا ہے تو زچگی کی خدمات تک رسائی ختم ہو جاتی ہے اور ایسے حالات میں دائیاں ہی حاملہ خواتین کی مدد کو آتی ہیں۔

'یو این ایف پی اے' ضرورت مند علاقوں میں دائیوں کو تربیت کی فراہمی کے ساتھ ضروری طبی سازوسامان بھی مہیا کرتا ہے اور بعض حالات میں انہیں نقل و حمل میں بھی سہولت دی جاتی ہے تاکہ وہ دور دراز اور خطرناک علاقوں میں بھی کام کر سکیں۔

بحران زدہ خواتین کا سہارا

دائیاں بچوں کی پیدائش میں معاونت کے علاوہ جنسی تشدد کی متاثرین کو بھی مدد فراہم کرتی ہیں اور 90 فیصد تک جنسی و تولیدی خدمات اور زچہ بچہ کی صحت کے لیے درکار نگہداشت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

جب ان خدمات کی فراہمی بند ہو جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ افغانستان اس کی نمایاں مثال ہے جہاں 409 دائیوں کے لیے مدد کی فراہمی بند ہونے سے تقریباً پانچ لاکھ خواتین کے لیے ایسی خدمات تک رسائی میں شدید مشکلات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

نتالیہ کینم نے کہا ہے کہ بحرانی ادوار میں بچوں کی پیدائش بند نہیں ہو جاتی لیکن جب بحران آتے ہیں تو حاملہ خواتین تولیدی صحت اور ہنگامی زچگی کی خدمات سے محروم ہو جاتی ہیں۔

بحران زدہ علاقوں میں خواتین کے حمل اور زچگی کے دوران موت کے منہ میں جانے کا خدشہ دو گنا بڑھ جاتا ہے۔امدادی وسائل کے لیے اپیل

ہر طرح کے حالات میں حسب ضرورت اور تربیت یافتہ دائیوں کی خدمات یقینی بنانے کے لیے 'یو این ایف پی اے' اور اس کے شراکت داروں نے 'گلوبل مڈ وائفرئ ایکسیلیریٹر' نامی اقدام شروع کیا ہے جس کا مقصد ایسے ممالک میں دائیوں کے زیرنگرانی زچہ بچہ کی نگہداشت کو بہتر بنانا ہے جہاں زچگی میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اس اقدام کے ذریعے زندگیوں کو تحفظ دینے اور ملکی سطح پر نظام ہائے صحت کو مضبوط بنانے کے لیے کم خرچ لائحہ عمل بنایا گیا ہے جسے پہلے ہی عطیہ دہندگان سے مدد مل رہی ہے لیکن مزید بڑی مقدار میں مالی وسائل کی ضرورت برقرار ہے۔

نتالیا کینم نے کہا ہے کہ امدادی مقاصد کے لیے دائیوں کی خدمات کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بند ہونے سے خواتین اور ان کے نومولود بچوں کی زندگی کو نقصان ہو گا جسے روکنے اور دائیوں کے ضروری کام میں مدد کی فراہمی جاری رکھنے کی طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امددای کٹوتیاں بحران زدہ علاقوں میں دائیوں کی خدمات میں کمی کا سبب
  • یہ وقت کسی کی آزادی کا نہیں بلکہ قومی اتفاق و اتحاد کا ہے. آفتاب شیرپاﺅ
  • پاری کا سیب سسپلو، قدرت کا خوشبودار تحفہ!
  • یہ وقت کسی کی آزادی کا نہیں بلکہ قومی اتفاق و اتحاد کا ہے، آفتاب خان شیرپاؤ
  • گوجرانوالہ کے پہلوان دفاع وطن کے لیے پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ سینہ سپر
  • شاہراہ قراقرم کو حقیقت بنانے والے چینی محنت کشوں کا خاموش قبرستان
  • واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی ولولہ انگیز تقریب، ’ہر پاکستانی خود کو سپاہی محسوس کرتا ہے‘
  • فلسطین پر خاموشی ناقابل معافی جرم ہے، علامہ جواد نقوی
  • اولیا اللہ