خاموشی کی قیمت کب تک چُکائیں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ہمارے معاشرے میں جو تربیت بچے یا بچی کو بچپن سے دی جاتی ہے، پھر وہ ان کی شخصیت میں اچھی طرح رچ بَس جاتی ہے۔
یہی وہ تربیت ہوتی ہے، جو لہوبن کر پھر ہماری رگوں میں مرتے دم تک دوڑتی ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، وہاں عورت کو گھر کی عزت مانا جاتا ہے، جو کہ حقیقت بھی ہے۔ بلا شبہ قوموں کی عزت ’ہم‘ ماؤں بہنوں بیٹیوں سے ہی ہے، لیکن عزت کے نام پر کبھی کبھی اس مان سمان کی آڑ میں خاندان کی ’جھوٹی عزت، نام، شہرت اور مقام‘ کو بچانے کی خاطر عورت کو خاموش رہ کر ظلم اورذلت سہنا بھی سکھایا جاتا ہے۔
ہمارے کی معاشرے کی عورت سالہا سال اس امید پر کہ شاید ہمارا خاوند ’اب‘ سدھر جائے یا بچوں کی پیدائش یا بچوں کے بڑے ہونے کے بعد بدل جائے گا کی امید لیے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے اور دل میں غم اور تکالیف کا بوجھ لیے اپنے اوپر ہونے والا گھریلو تشدد، ظلم اور ذلت برداشت کرتی رہتی ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلنے دیتیں۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اکثر خواتین کی قربانیوں، صلاحیتوں اور کردار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، خاص طور پر جب بات اُن پر ہونے والے گھریلو تشدد کی ہو۔ یہ تشدد صرف جسمانی زخم نہیں دیتا، بلکہ ذہنی، جذباتی اور معاشی زخموں کا سبب بنتا ہے، جن کا اثر محض فردِ واحد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورے معاشرے اور ملک کی معیشت تک پھیل جاتا ہے۔
اکثر خواتین، جو تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور خودمختار بننے کی خواہاں ہوتی ہیں، گھریلو تشدد کے باعث یا تو اپنے خواب ترک کر دیتی ہیں یا ان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ بعض اوقات انھیں روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں، مگر وہ اپنے شوہر، سسرال یا خاندان کے دباؤ اور خوف کے باعث ان موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔ ایسی خاموشی نہ صرف انفرادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے، بلکہ ملک کی معاشی ترقی بھی اس سے بہت متاثر ہوتی ہے۔
جب خواتین کو باعزت، محفوظ اور بااختیار ماحول دیا جاتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کو خوش حال بناتی ہیں، بلکہ ملک کی پیداوار، برآمدات، صنعتوں اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے، وہاں خواتین کی شمولیت ایک لازمی امر ہے، لیکن جب وہ خوف اور تشدد کے ماحول میں رہتی ہیں، تو ان کی شرکت محدود ہو جاتی ہے۔
گھریلو تشدد کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے خواتین کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوتی ہے، جس کے باعث وہ کام پر توجہ نہیں دے پاتیں یا بار بار نوکری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اس طرح اداروں کو بار بار نئی افرادی قوت کی تلاش کرنی پڑتی ہے، جس سے پیداواری صلاحیت کم اور مالی اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
یہ ایک خاموش مگر گہرا نقصان ہے، جو ہماری معیشت کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خواتین تشدد کا شکار ہونے کے باوجود خاموش کیوں رہتی ہیں؟ وہ اپنے حق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟ کیا وہ خود اس ظلم کو سہنے کی اجازت دیتی ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں، لیکن اس کا تعلق اْس معاشرتی ڈھانچے سے ہے جس میں لڑکی کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ برداشت کرنا ہی اس کی خوبی ہے، زبان کھولنا بدتمیزی ہے، اور عزت خاموشی میں ہے۔
خواتین اکثر اس لیے خاموش رہتی ہیں کہ وہ اپنے رشتے بچانا چاہتی ہیں، اپنے بچوں کے لیے قربانی دیتی ہیں، یا انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ آواز اٹھائیں گی، تو سسرال، خاندان، یا معاشرہ انھیں ہی قصوروار ٹھیرائے گا۔ کبھی کبھی مالی انحصار، تعلیم کی کمی، یا والدین کا سہارا نہ ہونا بھی ان کے لیے تشدد برداشت کرنے کی مجبوری بن جاتا ہے۔
کچھ خواتین واقعی اس سوچ کو مان چکی ہوتی ہیں کہ مرد کو غصہ آنا ایک ’فطری’ عمل ہے اور عورت کا کام ہے کہ وہ برداشت کرے۔ یہ سوچ دراصل صدیوں پرانے جابرانہ نظام کی پیداوار ہے، جہاں عورت کو کمزور، خاموش اور تابع بننے کی تربیت دی گئی ہے۔ جب یہی تربیت نسل در نسل چلتی ہے، تو ایک وقت آتا ہے جب ظلم کو ظلم سمجھنے کی صلاحیت بھی دب جاتی ہے، اور عورت خود کو الزام دینے لگتی ہے۔
لیکن یہاں ہمیں ایک اہم بات سمجھنی ہوگی۔ خاموشی کبھی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات یہ خاموشی بے بسی، خوف، اور تنہائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عورت اپنے دل میں چیختی ہے، لیکن زبان بند رکھتی ہے، کیوں کہ اسے کوئی ایسا سسٹم نظر نہیں آتا جو اس کی مدد کرے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم نہ صرف تشدد کرنے والے کو روکیں، بلکہ ظلم سہنے والوں کی سوچ بھی بدلیں۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ وہ صرف ’برداشت‘ کے لیے پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ وہ برابر کی انسان ہیں جنھیں عزت، تحفظ اور خود مختاری کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمیں ان کے لیے ایک ایسا معاشرہ بنانا ہوگا، جہاں ظلم سہنے کو ہمت نہ سمجھا جائے، بلکہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کو اصل بہادری مانا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم گھریلو تشدد کو صرف ’نجی مسئلہ‘ نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک قومی مسئلہ تسلیم کریں۔ ایسی خواتین جو خاموش ہیں، اْن کی آواز بنیں۔ قانون سازی، آگاہی مہمات، خواتین کے لیے محفوظ جائے روزگار اور ’معاون نظام‘ جیسے اقدامات کے ذریعے ہی ہم ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔
خواتین صرف ماں، بیٹی، بہن یا بیوی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک مکمل انسان، ایک باصلاحیت شہری، اور ملکی معیشت کا اہم ستون بھی ہیں۔ جب ہم ان پر ہونے والے تشدد پر خاموش رہتے ہیں، تو ہم نہ صرف ایک فرد کو کھو دیتے ہیں بلکہ ایک پوری نسل اور ایک معاشی سرمایہ بھی ضائع کر دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گھریلو تشدد جاتی ہے ہوتی ہے جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔