WE News:
2025-08-04@09:17:28 GMT

خاموش کیوں ہو بھائی ۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

خاموش کیوں ہو بھائی ۔۔۔

’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں

پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں‘

مہدی حسن کی خوبصورت آواز میں یہ گیت یقیناً آپ نے سنا ہو گا، یہ ہے بھی حقیقت، اکثر انسان کشمکش میں پڑ جاتا ہے کہ کرے  تو کرے کیا، بولے یا خاموش رہے۔

کچھ افراد تو اتنا بولتے ہیں کہ ان کے لیے چپ رہنا مشکل ہوتا ہے، تو دنیا میں ایسے افراد بھی کئی ہیں جو یہ ہی سوچتے ہیں کہ بولیں تو آخر بولیں کیا، ہمارا آج کا موضوع بھی اس سے ملتا جلتا ہے اور وہ ہے خاموشی۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اپنی بات کو خوبصورت اور پراثر الفاظ کا پیراہن پہنا کر پیش کرنا ایک فن ہے، مگر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جو بات الفاظ نہیں کہہ سکتے، وہ خاموشی کہہ دیتی ہے۔

آپ نے یہ گیت ضرور سنا ہو گا، ابھی خوبصورت بول پڑھ کر گزارا کیجئے

’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے‘۔

یہ بات کچھ غلط بھی نہیں، مگر یہ خصوصیت ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں، وہ کہتے ہیں نا کہ  خاموشی ایک ایسا فن ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا۔ خاموشی میں ایک گہرائی اور ایک سکون ہوتا ہے، مگر  کبھی کبھی یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔

سمندر کی لہریں شور مچاتی ہیں، باتیں کرتی ہیں مگر اس کے اندر کتنی خاموشی اور گہرائی ہے، کوئی نہیں جانتا، انسان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اور کچھ انسان خوب بولتے ہیں، مگر ان کے اندر حقیقت میں کیا خاموشی ہے، اسے جانچنا باہر کی دنیا کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

کہتے ہیں شاعر معاشرے کا ایک حساس طبقہ ہوتے ہیں، شعرا نے خاموشی کو کئی خوبصورت رنگوں میں الفاظ کے موتیوں میں پرویا ہے۔

شاعروں کے شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا ہے،

’مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے‘

ندا فاضلی کا خوبصورت خیال پڑھیے

’ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے‘

کئی افراد کے لیے خاموشی کی زبان سمجھنا مشکل نہیں بہت مشکل ہے، اس کا مطلب کوئی کچھ نکالتا ہے تو کوئی کچھ اور ۔ خلیل الرحمن اعظمی کا یہ شعر ہی دیکھ لیجئے

نکالے گئے اس کے معنی ہزار

عجب چیز تھی اک مری خامشی‘

خاموشی صرف اردو شاعری میں ہی نہیں، اسے محاوروں میں بھی خوب استعمال کیا گیا ہے، جیسے’ایک چُپ سو سُکھ‘ اور یہ بات حقیقت بھی ہے، اگر انسان یہ سیکھ لے کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا بہتر ہے تو اس کی زندگی ہی سنور جائے۔

یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا جاتا ہے،

یا پھر یہ بات بھی تو سمجھائی جاتی ہے کہ پہلے تولو پھر منھ سے بولو، یعنی بولیں ضرور مگر بولنے سے پہلے سوچ لیں تو بہتر ہے، ورنہ اکثر نقصان بھی ہوتا ہے۔

چپ کا روزہ رکھنا، یہ محاورہ بھی ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے خاموشی اختیار کرنا اور کچھ نہ بولنا۔

خاموشی پر اس لطیفے سے بھی لطف اندوز ہوں

ماں بچے سے، جب 2 بڑے بات کر رہے ہوں تو تم خاموش رہا کرو،

ایک دن ماں کھانا بنا رہی تھی اور ساتھ موبائل پر کسی سے بات بھی کر رہی تھی کہ اچانک آگ لگ جاتی ہے، قریب کھڑے بچے کو فوراً پتہ چل جاتا ہے لیکن وہ خاموش رہتا ہے، ماں کو آگ کا پتہ چلتا ہے تو وہ فوراً  بجھانے میں کامیابی ہو جاتی ہے، پھر بیٹے سے پوچھتی ہے کہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ آگ لگی ہے۔

بیٹا جواب دیتا ہے کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جب بڑے بات کر رہے ہوں تو  خاموش رہنا سیکھو۔

بالی ووڈ ہو لالی ووڈ یا پھر ہالی ووڈ، خاموشی کا شوبز انڈسٹری سے بھی گہرا تعلق ہے، خاموشی کے نام سے کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

پاکستان میں خاموشی کے نام سے ڈرامے اور ٹیلی فلم بن چکی ہے، بالی ووڈ کی بات کریں تو اس نام سے کئی فلمیں بن چکی ہیں، خاموشی کو انگلش میں کہتے ہیں Silence اور اس نام سے ہالی ووڈ میں بھی کئی فلمیں بن چکی ہیں۔

خاموشی کے کئی فوائد بھی ہیں، تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ صرف 2  منٹ کی خاموشی انسان کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاموشی اور پرسکون ماحول سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے، اعصابی نظام  کو سکون  ملتا ہے، خود کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ صرف دو منٹ کی خاموشی موسیقی سے زیادہ پُرسکون اثر ڈال سکتی ہے، خاموش  رہنے سے دماغ کو سوچنے، سمجھنے اور یاد رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ دماغ پر دباؤ نہ ہو تو ہم زیادہ تخلیقی کام کر سکتے ہیں۔

اب ذرا ہٹ کے سوچتے ہیں، موجودہ دور میں اکثریت کے پاس موبائل فون ضرور ہوتے ہیں، اکثر یوں بھی ہوتا ہے، کمرے میں یا کہیں باہر، دوست یا عزیز بیٹھے ہوں تو باتیں کم ہوتی ہیں اور ہاتھوں کی انگلیاں موبائل پر زیادہ چلتی ہیں، ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ موبائل کی اس دنیا نے بھی لوگوں کی باتیں چھین لی ہیں۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اکثر مواقع پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے، مگر بہت زیادہ خاموشی کبھی کبھی نقصان دہ بھی ہوتی ہے، خاص طور پر اپنے حق کے لیے ضرور بولنا چاہیے، اگر کوئی اپنا ناراض ہے تو منانے میں دیر  بھی نہ کریں اور اگر ممکن ہو تو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے، سب گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کریں، تنہائی  اور خاموشی  انسان کے لیے کسی زخم سے کم نہیں ہوتی۔

اور چلتے چلتے منیر نیازی کی اس  شاہکار نظم سے لطف اٹھائیے

’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

 

اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘

اور اگر آپ کے پاس اس بات کا جواب ہے تو ضرور دیں

’خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے

مگر یہ تو بتائیں، کہاں ہوتی ہے‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد کاشف سعید

احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کہتے ہیں میں بھی نہیں کہ جاتا ہے ہوتا ہے بن چکی کے لیے ہیں کہ بھی ہو بھی نہ

پڑھیں:

لیجنڈز لیگ، اگلے سال پاکستان کا نام استعمال نہیں ہوگا، پی سی بی نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے لیجنڈز لیگ فائنل کے ممکنہ بائیکاٹ کی تجویز مسترد کر دی ہے۔

بورڈ کے گورننگ بورڈ کے ہنگامی ورچوئل اجلاس میں کھیل کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:لیجنڈ لیگ، کیا بھارت کے خلاف سیمی فائنل میں کپتان شاہد آفریدی ہوں گے؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے امریکا سے ویڈیو کال کے ذریعے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس کا واحد ایجنڈا لیجنڈز ورلڈ چیمپئن شپ سے متعلق تھا۔

بعض اراکین نے لیگ کے فائنل میچ کے بائیکاٹ کی تجویز دی تھی، اس بنیاد پر کہ ایونٹ کے مالکان اور اسپانسرز بھارتی ہیں اور بھارت، میدانِ جنگ اور ایشین کرکٹ کونسل (ACC) میں ناکامی کے بعد کھیل کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اراکین نے کہا کہ ایک ٹیم نے ’پاکستان چیمپئنز‘ کے خلاف دونوں میچز کھیلنے سے انکار کیا، پہلا میچ چھوڑنے کے بعد ان کو کوئی پوائنٹ نہیں ملنا چاہیے تھا، مگر منتظمین نے انہیں سیمی فائنل تک پہنچانے کے لیے ایک پوائنٹ دے دیا۔

چونکہ ’پاکستان چیمپئنز‘ نام میں ملک کا نام شامل ہے، اس لیے اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صرف پاکستان کے پاس ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:لیجنڈز لیگ، پاکستان کا فائنل میں کس سے مقابلہ ہوگا؟ فیصلہ ہوگیا

تاہم سابق کپتان ظہیر عباس اور دیگر کئی اراکین نے بائیکاٹ کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان نے کبھی کھیل کو سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا اور اسی مؤقف پر قائم رہنا چاہیے۔

تمام اراکین نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا اور ایشین کرکٹ کونسل کے حالیہ اجلاس کی کامیاب میزبانی پر ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔

تصویر: ٹوئٹر

زیادہ تر اراکین نے ٹیم کے فائنل کھیلنے پر اتفاق کیا، تاہم آئندہ اس ایونٹ سے متعلق فیصلے صرف پی سی بی گورننگ بورڈ کرے گا۔

اجلاس کے دوران اراکین نے محسن نقوی کو ACC اجلاس کی کامیاب میزبانی پر مبارکباد دی، جس پر انہوں نے اس کامیابی کو ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت پی سی بی ظہیر عباس لیجنڈ لیگ محسن نقوی

متعلقہ مضامین

  • چین: تمام تر حکومتی سہولیات کے باوجود چینی مزید بچے پیدا کرنے کو تیار نہیں، کیوں؟
  • ’نقل میں بھی عقل چاہیے‘، شادی کے بعد پہلی بار کھانا بنانے پر پرینیتی چوپڑا کے شوہر نے تنقید کیوں کی؟
  • خوبصورتی کے راز پر اداکارائیں کیوں خاموش رہتی ہیں؟ تمنا بھاٹیا کا انکشاف
  • ’’موٹی لڑکیوں کے رشتے کیوں نہیں ملتے؟‘‘ مسز خان کے سخت الفاظ پر صارفین برہم
  • ’چاہ یوسف سے صدا‘ دینے والے گیلانی کی خاموشی
  • راجوں مہاراجوں کا نظام بھارتی اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو ناپسند کیوں؟
  • علیمہ خان کو بھی اپنے بھائی کی طرح جھوٹ بولنے کی عادت پڑ گئی ہے، عظمیٰ بخاری
  • لیجنڈز لیگ، اگلے سال پاکستان کا نام استعمال نہیں ہوگا، پی سی بی نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟
  • پڑھی لکھی شہری لڑکیاں جلد شادی سے کیوں گریزاں ہیں؟