WE News:
2025-08-03@05:26:27 GMT

’چاہ یوسف سے صدا‘ دینے والے گیلانی کی خاموشی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

یوسف رضا گیلانی کی سیاسی زندگی کی معراج وزیراعظم بننا تھا، ان کی وزارتِ عظمیٰ کا زمانہ بڑا ہنگامہ خیز رہا۔ اس میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے پاکستانی سیاست کا دھارا بدل گیا، اس لیے سیاست کے طالب علم چاہتے ہیں کہ کاش وہ ان حالات کے بارے میں خامہ فرسائی کریں اور بتائیں کہ ’درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا‘، لیکن ابھی تو دور دور تک اس کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ اس وقت سیاست میں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔

آپ چئیرمین سینیٹ ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ حالیہ بجٹ میں تنخواہ میں ہونے والے بھاری اضافے پر شاداں و فرحاں ہیں جس کے لیے صنعت کاروں کے دباؤ پر مزدور کی کم از کم تنخواہ مقرر نہ کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والے وزیر خزانہ میڈیا کے سامنے عذر تراش رہے تھے۔

وزیر دفاع نے اسے مالی فحاشی قرار دیا، ایک محترم صحافی نے ٹی وی پروگرام میں سیّد یوسف رضا گیلانی اور سردار ایاز صادق سے دست بستہ درخواست کی کہ وہ اپنی تنخواہ میں 600 فیصد اضافہ مسترد کردیں جس کا اعادہ انہوں نے اپنے اخباری کالم میں یوں کیا:

’یوسف رضا گیلانی اور سردار ایاز صادق کا فرض ہے کہ وہ سیاست دانوں کی عزت و ساکھ بحال کروانے میں پہل کریں، تاریخ نے انہیں یہ فریضہ ادا کرنے کا سنہری موقع دیا ہے، اپنی تنخواہوں میں اضافے کو وصول کرنے سے انکار کردیں، تانکہ عوام تک یہ پیغام پہنچے کہ ہر سیاستدان دولت کی حرص میں مبتلا نہیں۔‘

لیکن بقول فیضؔ:

یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں

یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے اسپیکر اور وزیراعظم کے بعد چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر براجمان ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی فرد کے ان تینوں عہدوں پر پہنچنے کی دوسری مثال نہیں ہے۔

ادھر سیاسی میدان میں ان کے فرزند بھی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں، ماشااللہ سے تین بیٹے قومی اسمبلی اور ایک بیٹا پنجاب اسمبلی کا رکن ہے۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ قوم کو یہ بتاتے پھریں کہ ان کی حکومت میں پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کس طرح ناکام بنائی گئی؟ ایبٹ آباد آپریشن اور میمو گیٹ کی سچائی کیا ہے؟ قومی اسمبلی میں ریاست کے اندر ریاست والے بیان کی شرح کیا ہے؟ سپریم کورٹ سے ان کی نااہلی کس کے اشارہ ابرو پر ہوئی؟ اٹھارویں ترمیم کا آئینی معرکہ کیسے سر ہوا؟ اور سیاسی حکومت کو کس طرح بلیک میل کیا جاتا ہے؟ وغیرہ۔

اس طرح کے نازک معاملات پر لکھنے کا بار تو فرحت اللہ بابر جیسے جری اٹھا سکتے ہیں، گیلانی صاحب کو اس کا یارا کہاں۔ خیر، پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے جرنلزم یوسف رضا گیلانی جب تک اپنی وزارت عظمیٰ کی تاریخ بیان نہیں کرتے ہم ان کی کتاب ’چاہ یوسف سے صدا‘ پر تکیہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اس میں ضیاالحق کے دور سے 2005 تک کے سیاسی حالات بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن پھر بھی اس کتاب کی اہمیت برقرار ہے اور اس میں ایسی کئی باتیں ہیں جنہیں دلچسپی سے پڑھا جا سکتا ہے اور ان سے سیاست دوراں کی تفہیم میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

گزشتہ دنوں گھر میں کتابوں کو ترتیب دیتے وقت یوسف رضا گیلانی کی کتاب نظر سے گزری تو میں نے اسے برسوں بعد دوبارہ پڑھا اور اس میں درج کچھ واقعات قارئین سے سانجھا کرنے کا خیال آیا کیونکہ 19 برس پہلے شائع ہونے والی اس کتاب کا ذکر اب کم کم ہی ہوتا ہے۔

سب سے پہلے ہم روحانیت کی بات کرتے ہیں جس پر ہمارے اکثر حکمرانوں کا اعتقاد رہا لیکن عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی روحانیت سے وابستگی نے اسے گزشتہ چند برسوں سے ہماری سیاست اور صحافت کا مستقل موضوع بنا رکھا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی روحانیت سے وابستگی راز کی بات نہیں، اس کے بارے میں کئی لوگوں نے لکھا ہے۔

ایک واقعہ یوسف رضا گیلانی نے بھی بیان کیا ہے:

’وہ( بینظیر بھٹو) ہمیں دربار حضرت سید محمد شاہ دولہا سبزواری پر لے گئیں اور کہاکہ انہیں اس دربار سے بے حد عقیدت ہے، انہیں کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ دعا کے لیے اس دربار پر حاضری دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ جب وہ وزیراعظم بنیں تو انہوں نے اس مزار پر مقبرہ بنوایا تھا۔ ہمارے دربار پہنچنے پر کسی عقیدت مند نے انہیں دھاگے پیش کیے تاکہ وہ منت کے طور پر مزار پر باندھ سکیں۔ انہوں نے دھاگے کھولنے شروع کردیے اور اپنی گفتگو جاری رکھی اور کہاکہ میں فاروق لغاری کو صدر بنانے سے قبل اس مزار پر لائی تھی۔ انہوں نے مزید کہاکہ انہوں نے جو میرے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہے، اس دوران دھاگے کھل گئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر چند دھاگے میرے ہاتھ میں تھما دیے اور کہاکہ اب آپ بھی منت کے طور پر مزار پر باندھیں، جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔‘

یوسف رضا گیلانی نے اپنے ایک دوست ممتاز میمن کا ذکر کیا ہے جس کی پیش گوئیوں پر انہیں بڑا یقین تھا۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے پہلے اس نے پیش گوئی کی کہ ملک میں خون خرابہ ہونے والا ہے اور وہ وزیراعظم کو ننگے پاؤں اور ننگے سر گھومتا ہوا دیکھ رہا ہے۔

یوسف رضا نے یہ بات محترمہ کو بتائی تو انہوں نے کہاکہ ممتاز میمن سے پوچھ کر بتائیں اس سے کیا مراد ہے؟ اس استفسار پر اس نے بتایا کہ محترمہ کا کوئی بہت قریبی عزیز قتل ہوگا، اس بات کے چند ہی دن بعد مرتضیٰ بھٹو کراچی میں قتل ہوگئے۔

سیاسی وفاداری تبدیل کرنا ہمارے سیاست دانوں کا شیوہ ہے، اس کے لیے انہیں مجبور بھی کیا جاتا ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس قبیح سیاسی رسم کو بڑا فروغ ملا جنہوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے مسلم لیگ ق کی صورت میں کنگز پارٹی بنائی۔ 2002 کے الیکشن میں دھاندلی کے بعد پیپلز پارٹی میں نقب لگا کر اس میں سے پیٹریاٹ نکالی۔ سیاسی انجینیئرنگ کے لیے ایجنسیوں اور نیب کا بے محابا استعمال کیا۔ آمریت کے اس دور میں جو سیاست دان شدید دباؤ کے باوجود پارٹی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے، ان میں ایک نمایاں نام یوسف رضا گیلانی کا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح جیل میں انہیں ’توڑنے‘ کی کوشش ہوتی رہی۔ دورانِ اسیری وہ اسپتال گئے تو ہمایوں اختر خان ان سے ملنے آئے اور بتایا کہ ہم پارٹی بنا رہے ہیں جس میں جیتنے والے امیدوار( الیکٹ ایبلز) شامل ہوں گے اور اس فہرست میں ان کا بھی نام شامل ہے۔ یہ خبر بھی دی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی کے کئی رہنما پرویز مشرف کا ساتھ دیں گے۔

ہمایوں اختر نے ان سے کہا ’میں آپ کا دوست اور کلاس فیلو ہوں اور یہ نہیں چاہتا کہ آپ اسمبلی سے باہر رہیں۔۔۔اگر آپ شامل نہیں ہوں گے تو ہمیں مجبوراً آپ کے سیاسی حریف ملک سکندر بوسن کو شامل کرنا پڑے گا۔‘

پرویز مشرف کے پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز بھی گیلانی سے ملے تھے۔

ایک واقعہ جس سے نیب کے احتساب کا کھوکھلا پن ظاہر ہوتا ہے وہ ارباب غلام رحیم کی جیل میں یوسف رضا سے ملاقات ہے۔ یہ 2002 کے انتخابات کے بعد کی بات ہے۔ یوسف رضا کے بقول ’ارباب غلام رحیم نے آتے ہی کہاکہ مجھے حکومت نے وزیراعلیٰ سندھ نامزد کر دیا ہے، میں آپ کو لینے آیا ہوں کیونکہ میرا دوست جیل میں ہو یہ مجھے پسند نہیں۔ میں نے کہاکہ مجھے عدالت سے 5 سال سزا ہو چکی ہے، آپ مجھے کیسے لے جاسکتے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ اگر میں اتوار کے روز جیل کھلوا کر آپ سے ملاقات کر سکتا ہوں تو کیا آپ کو باہر نہیں نکلواسکتا؟‘

اسپیکر کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے 10 اراکین نے پارٹی سے بے وفائی کی اور پیپلز پارٹی پٹریاٹ کے نام سے فارورڈ بلاک بنا لیا جس کی حمایت سے چوہدری امیر حسین ایک ووٹ کی برتری سے اسپیکر بن گئے۔ وفاداری تبدیل کرنے والوں میں یوسف رضا گیلانی کا بھانجا اسد مرتضیٰ بھی شامل تھا۔

ان کے بقول ’مجھے جیل میں 2 سال رہنے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا اسد مرتضیٰ کے پارٹی بدلنے کا، میرے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا جس کی وجہ سے مجھے ساری رات نیند نہ آئی۔‘

اسپیکر کا عہدہ آئینی ہوتا ہے، منصب سنبھالنے کے بعد اس سے توقع یہی ہوتی ہے کہ وہ حکومت کا نہیں سب پارٹیوں کا اسپیکر ہوگا لیکن ہمارے یہاں اسپیکر پارٹی لیڈر کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے جس کی مثالیں ہم مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے دور میں دیکھ چکے ہیں۔

یوسف رضا نے اسپیکر کی حیثیت سے پارٹی پالیسی کے بجائے اپنے منصب کے تقاضے پیش نظر رکھے۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو کی ناراضی مول لے کر اپوزیشن کے مطالبے پر اسیر اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔

ایک دوسرے موقعے پر بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری ان کے پاس آئے اور جام معشوق علی کو اسمبلی سے مسلسل غیرحاضری کی بنا پر رولز آف بزنس کے سہارے نااہل کرنے کا تقاضا کیا جسے انہوں نے رد کردیا۔

ان سے کہا گیا کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر انہی رولز کے تحت جام معشوق کے کزن کو نااہل کر چکے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ صوبائی اسمبلی کے غلط کام کی پیروی قومی اسمبلی کو نہیں کرنی چاہیے۔

اسپیکر کی حیثیت سے انہوں نے نواب اکبر بگٹی کو بلوچی زبان میں تقریر کرنے کی اجازت دی تو انہیں اپنے چیمبر پہنچنے پر فون پر کسی نے گرج دار آواز میں کہا ’اسپیکر صاحب! آپ نے نواب اکبر بگٹی کو بلوچی زبان میں تقریر کرنے کی اجازت کیوں دی، اس کا فوج نے بہت برا منایا ہے۔‘

یوسف رضا گیلانی کے جواب دینے سے پہلے ہی فون بند ہوگیا۔

سنہ 2024 کے انتخابات سے پہلے اسحاق ڈار کے نگراں وزیراعظم بننے کی خبریں نکلی تھیں۔ یہ خبریں حقیقت تو ثابت نہیں ہوئیں لیکن یہ نام زیر غور آنا بھی قابل افسوس تھا۔ کیوں کہ ایسا کوئی بھی اقدام نگراں حکومت کے آئینی تصور کی خلاف ورزی ہوتا۔ اس تصور کے مطابق نگراں وزیراعظم ایسے شخص کو ہونا چاہیے جو غیرجانبدار ہو اور اسحاق ڈار کا معاملہ یہ ہے کہ شریف برادران کے بعد مسلم لیگ ن میں سب سے مضبوط پوزیشن انہی کی تھی اور وہ اس وقت وزیرخزانہ تھے۔

یوسف رضا کی کتاب سے معلوم ہوا کہ اس ضمن میں پیپلز پارٹی 1993 میں ایک غلط مثال قائم کر چکی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ٹھن گئی تھی۔ صدر نے اٹھاون ٹو بی کے جس اختیار کے تحت 1990 میں پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کی تھی، اسی کے تحت نواز شریف کی حکومت ختم کر کے میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیراعظم بنایا اور کابینہ میں پیپلزپارٹی کے فاروق لغاری، آصف علی زرداری، آفتاب شیر پاؤ، اعتزاز احسن اور یوسف رضا گیلانی کو شامل کرلیا۔

’چاہ یوسف سے صدا‘ کے مصنف کو محترمہ بینظیر بھٹو نے بتایا کہ صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ یوسف رضا گیلانی اور سندھ کے آفتاب شعبان میرانی ہوں گے لیکن اب وہ اپنے وعدے سے پھر رہے ہیں اور وزیراعلیٰ کے بجائے گورنر کا عہدہ دینے کی بات کررہے ہیں۔

بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا نگراں حکومت میں وزارتیں لینا اور دو صوبوں کی وزارت اعلیٰ مانگنا غیرجمہوری تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔ گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے معذرت بھی اصول نہیں سیاسی بنیاد پر کی کہ اس سے وہ دوسال تک عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے، البتہ وفاقی وزیر بننا قبول کر لیا۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی اسمبلی بحال کردی اور یہ سارا نگراں سیٹ اپ تحلیل ہوگیا۔ اس کے بعد جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کی چھٹی کروائی تو نگراں وزیراعظم کے لیے جس ہیرے معین قریشی کو چنا گیا اس کے پاس وطن عزیز کا شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ یہ بوالعجبی پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ اس سے پہلے 1990 میں پیپلز پارٹی کے مخالف اور آئی جے آئی کے رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کا نگراں وزیراعظم بننا بھی ایک غلط ریت تھی۔ موصوف نگراں وزیراعظم بننے پر ہی قانع نہ ہوئے بلکہ انتخابات کے بعد وزیراعظم کی کرسی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے رہے۔

’چاہِ یوسف سے صدا‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1996 میں محترمہ کو سپریم کورٹ سے اسمبلی کی بحالی کا یقین بھی دلایا گیا تھا۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے اعتزاز احسن کو گورنر پنجاب بنانے کے لیے یوسف رضا گیلانی سے وعدہ کیا۔ یہ خوش خبری اعتزاز احسن تک پہنچا دی گئی لیکن پھر ایک دن بینظیر نے ان سے کہا: ’’یوسف! میں معذرت خواہ ہوں کہ میں اعتزاز احسن کو گورنر پنجاب نہیں بنا سکی مجھ پر خاصا دباؤ تھا اور مجھے یقین ہے کہ آپ میری مجبوری کو سمجھ چکے ہوں گے، انہوں نے جنرل سروپ خان کو گورنر پنجاب بنا دیا۔‘

یوسف رضا گیلانی نے اس مجبوری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جو محترمہ کے بقول وہ سمجھ چکے ہوں گے اور دوسرا یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ دباؤ کس طرف سے تھا۔

نوے کی دہائی پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی سے عبارت ہے لیکن اس کے بیچ بیچ کبھی کبھار حکومت اور اپوزیشن میں باہمی رابطے کی صورت بھی پیدا ہوتی تھی جبکہ 2018 سے اب تک حکومت اور اپوزیشن کی مخاصمت میں روشنی کی کوئی لکیر نظر نہیں آتی۔

یوسف رضا گیلانی نے لکھا ہے کہ 1991 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے محترمہ بینظیر بھٹو کو حزب اختلاف کی نمائندگی کے لیے دہلی ساتھ چلنے کا کہا جس پر انہوں نے آمادگی ظاہر کی اور اپنے وفد میں یوسف رضا گیلانی، سلمان تاثیر اور افتخار حسین گیلانی کو شامل کیا تھا۔

بھارت کے اس دورے میں اشوکا ہوٹل میں یاسر عرفات نے پیپلز پارٹی کے وفد کو کہوٹہ پر اسرائیلی حملے کے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ ہندوستانی وزیراعظم نے پاکستانی حزب اختلاف کے رہنماؤں کو اجمیر شریف جانے کے لیے اپنا خصوصی طیارہ بھی فراہم کیا۔

یوسف رضا گیلانی کی کتاب سے اب تک جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی کے زمانے سے ہے۔ قومی سیاست میں ان کا ورود محمد خان جونیجو کے دورِ حکومت میں وفاقی وزیر بن کر ہوا تھا۔ اس لیے کتاب میں اس عہد کے بارے میں بھی خاصی معلومات ملتی ہیں۔

نواز شریف اس زمانے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جنہیں ایک بار یہ زعم باطل ہوگیا کہ ان کا عہدہ ضیاالحق کے رہین منت نہیں بلکہ اسمبلی اراکین کی اکثریت کی حمایت کی وجہ سے ہے۔ اپنے پروردہ سیاست دان کی یہ بات ضیاالحق کو ہضم نہ ہوئی۔ ان کے معتمدِ خاص پیر پگاڑا نے نواز شریف کو سبق سکھانے کے لیے وفاقی وزیر یوسف رضا گیلانی کو استعمال کیا، وہ لاہور گئے اور اراکین اسمبلی سے رابطہ کیا۔

ان کے بقول ’میں نے چمبہ ہاؤس لاہور کو متبادل وزیراعلیٰ ہاؤس بنا لیا۔‘

نواز شریف کے خلاف اس مہم میں چوہدری پرویز الٰہی بھی ان کے ساتھ آن ملے تھے، 102 اراکین کی حمایت انہیں حاصل ہوگئی تو وزیراعلیٰ پنجاب کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ انہیں یہ سبق حاصل کرتے دیر نہ لگی کہ ان کے پاس جو طاقت ہے وہ ڈکٹیٹر کی عطا کردہ ہے۔ انہوں نے صدر، وزیراعظم اور پیر پگاڑا سے الگ الگ ملاقات کی۔ اس کے بعد ضیاالحق نے ان کے حق میں یہ مشہور بیان دیا کہ نواز شریف کا کلہ بڑا مضبوط ہے۔

14 اگست1985 کو مینار پاکستان سے جلسے میں خطاب میں وزیراعظم نے یہ اہم بیان دیا تھا: ’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘ جس سے پاکستانی سیاست کے ٹھہرے پانی میں لہریں پیدا ہوگئی تھیں۔

اس سے پہلے جونیجو نے وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد ضیاالحق سے پہلی ملاقات میں یہ پوچھ کرکہ وہ مارشل لا کب اٹھا رہے ہیں؟ انہیں پریشان کردیا تھا۔ جونیجو عوامی لیڈر نہیں تھے، وہ ضیا کی منشا سے وزیراعظم بنے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سویلین بالادستی قائم کرنے اور وزیراعظم کی حیثیت سے خود کو منوانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کئی موقعوں پر ضیاالحق کو ٹف ٹائم دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی حکومت چلی گئی، یوسف رضا گیلانی نے کتاب میں ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے:

’محمد خان جونیجو مدبر، منتظم، کم گو، خوش پوش اور پُراعتماد وزیراعظم تھے۔ انہوں نے اپنی کابینہ کے دو وفاقی وزرا کو بدعنوانی کی بنیاد پر سبکدوش کیا اور گورنر سے محض اس بنیاد پر استعفیٰ طلب کیا کہ ان کا بیٹا منشیات کے مقدمے میں ملوث تھا۔‘

جونیجو نے بجٹ کے موقعے پر اپنی تقریر میں اعلان کیاکہ جرنیل اور بیوروکریٹس جو بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے ہیں انہیں ہزار سی سی کی سوزوکی میں بٹھائیں گے تو اس کا سول و ملٹری بیوروکریسی نے برا مانا اور بقول یوسف رضا ’اسی دن سے وزیراعظم کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں۔‘

اوجڑی کیمپ کے سانحے کے وقت یوسف رضا گیلانی سی ڈی اے کے آفیسرز ہاسٹل میں تھے، جس وقت دھماکا ہوا وہ نہا رہے تھے۔ بعد میں جب وہ لابی میں پہنچے تو ’عجیب کیفیت دیکھی کہ لوگ سیڑھیوں کے نیچے چھپے ہوئے تھے اور خوف سے ان پر لرزہ طاری تھا۔ میرے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔‘

یوسف رضا گیلانی نے اس سانحے کے ذمے داروں کا نام لینے کے بجائے اپنا مدعا ایک اخباری رپورٹ کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے، انہیں چاہیے تھا کہ اس واقعے کے اسباب و علل اور ذمے داران کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے اور بتاتے کہ اس سانحہ میں ملوث کرداروں کے خلاف کارروائی پر اصرار ہی جونیجو حکومت کو لے ڈوبا تھا۔

اس سے بہتر طریقے سے تو انہوں نے کارگل آپریشن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ منصوبہ محترمہ بینظیر بھٹو کے سامنے بھی رکھا گیا تھا جسے انہوں نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس سے پاکستان کو سفارتی سطح پر مشکلات کا سامنا ہوگا۔

یوسف رضا کے خیال میں کارگل آپریشن ’نہایت ہی متنازع اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر تھا۔‘ وہ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ پاکستان کو سفارتی سطح پر نواز شریف کی بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں اور ان کے خیال میں کارگل کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے استوار ہوتے تعلقات خراب ہوئے اور مسئلہ کشمیر کا حل اور بھی دور ہوگیا۔

غرض یہ کہ ’چاہ یوسف سے صدا‘ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی پس پردہ واقعات کو آواز ملی تھی۔ یوسف رضا گیلانی کی صدائے دگر کئی اور رازوں سے پردہ اٹھا سکتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews آصف زرداری بینظیر بھٹو شہید وی نیوز یوسف رضا گیلانی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بینظیر بھٹو شہید وی نیوز یوسف رضا گیلانی محترمہ بینظیر بھٹو یوسف رضا گیلانی کی یوسف رضا گیلانی نے میں پیپلز پارٹی چاہ یوسف سے صدا پیپلز پارٹی کے اور وزیراعظم نواز شریف کی قومی اسمبلی کے بارے میں تو انہوں نے سے پاکستان اسمبلی کے کی حکومت جیل میں کرنے کا کی کتاب رہے ہیں ہوتا ہے سے پہلے کا عہدہ کے بقول کے ساتھ کی تھی ہوں گے اور اس کے دور کی بات کیا ہے کے بعد کے لیے اور ان

پڑھیں:

ابھیشیک بچن سے تعلقات کی افواہیں، نمرت کور نے خاموشی توڑ دی

بالی ووڈ کی اداکارہ نمرت کور نے ابھشیک بچن سے منسوب افواہوں پر ردعمل دے دیا۔ 

اداکارہ نمرت کور نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران ان افواہوں پر خاموشی توڑ دی جن میں انہیں اداکار ابھشیک بچن کے ساتھ تعلقات کیلئے جوڑا جارہا تھا۔ گزشتہ برس ابھیشیک کیساتھ فلم دسوی کے بعد یہ چہ مگوئیاں کی جارہی تھیں کہ نمرت اور ابھشیک کے درمیان تعلقات ہیں۔

خاص طور پر جب ابھشیک اور ایشوریا رائے بچن کی شادی ٹوٹنے متعلق قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی تھیں تاہم نمرت کور نے ان افواہوں پر اس وقت کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی ابھیشیک کی جانب سے کوئی تردید سامنے آئی۔ 

تاہم اب ایک ایونٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا نمرت نے ان افواہوں پر خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا ایک "امیبا" کی مانند ہے جو بغیر کسی وجہ کے کچھ بھی پھیلا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ممبئی اپنے کیریئر کے لیے آئی تھیں، نہ کہ ان افواہوں پر وقت ضائع کرنے کے لیے۔

نمرت نے ان تبصروں پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع نہیں کرنے چاہئیں مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی اجنبی کی فضول بات پر وہ برا نہیں مناتیں، اور سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے بھی ان کے لیے بےمعنی ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل نمرت کا نام اداکار روی شاستری اور رانا دگگوبتی سے بھی جوڑا گیا تھا، جن افواہوں کی انہوں نے تردید کردی تھی۔ 

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کا بچوں سے رابطہ ؛ علی امین گنڈا پور کو استعفیٰ دینے کا کہہ دیا
  • غیرملکی شہریوں کے لیے ایئرپورٹس پر علیحدہ امیگریشن کاؤنٹرز قائم کرنے کا فیصلہ
  • پی پی پی کے علاوہ کسی جماعت نے خواتین کو گھروں کی ملکیت دینے کا قدم نہیں اٹھایا، آصفہ بھٹو
  • وزیراعظم کا سیلاب سے متاثرہ گلگت بلتستان کیلئے امدادی پیکیج دینے کا اعلان
  • چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کا مرحوم ارشد وحید چوہدری کے بیٹے روشان وحید کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • ابھیشیک بچن سے تعلقات کی افواہیں، نمرت کور نے خاموشی توڑ دی
  • ’خودکشی کے خیالات آتے تھے‘، یوزویندر چاہل نے طلاق پر خاموشی توڑ دی
  • یوسف رضا گیلانی کے چچا زاد بھائی سید تنویر الحسن گیلانی انتقال کر گئے
  • پی ٹی آئی رہنماء عمیر نیازی کا قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا عندیہ