Express News:
2025-08-03@00:26:14 GMT

نقوش یاد رفتگاں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی طرف لوٹ کرجانا ہے، رب العزت نے انسانی زندگی کی ایک میعاد (عمر) مقررکر رکھی ہے، کیونکہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ انسانی زندگی کا سفر مٹی سے بن کر مٹی ہونے تک کا ہے، جو آیا ہے اس سے جانا بھی ہے۔ اچھے لوگ اور ان کے اچھے کام ان کی دائمی منتقلی فانی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور قلم کی طاقت رکھنے والے اپنی تحریروں میں ہمیشہ کے لیے جاوداں رہتے ہیں اور ان کی تحریروں میں موجود فلاح انسانی کے عناصر کو ان کی اچھائیوں کی طرح ابدی زندگی مل جاتی ہے تاکہ وہ قیامت تک کے لیے ان کے لیے صدقہ جاریہ بن کر ان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتے رہیں۔ 

 زیر مطالعہ تصنیف ’’ نقوش یاد رفتگاں ‘‘ کی مصنفہ نگار سجاد ظہیر ہیں جو تعلیمی اور ادبی دنیا کی ایک نامور شخصیت ہیں، پروفیسر ڈاکٹر نگار نے ستمبر1986میں جامعہ کراچی میں بحیثیت استاد شمولیت اختیار کی اور 19دسمبر2014کو بحیثیت صدر شعبہ تاریخ اسلام، جامعہ کراچی سے سبکدوش ہوئیں۔ آپ چھبیس کتابوں کی مصنفہ ہیں جس میں ایک شعری مجموعہ، تین افسانوں کے مجموعے، تین سفر نامے اور تقریبا انیس کتابیں تاریخ و تحقیق کے حوالے سے ہیں۔ آپ بانی صدر سوسائٹی فار ریسرچ ان اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر کراچی، مدیرہ ششماہی ’’ الایام ‘‘ (علمی و تحقیقی جریدہ) کراچی، بانی ادارہ قرطاس ( اشاعتی ادارہ) کراچی سے منسلک ہیں۔

آپ کا شمار ان لائق فکر شاگردوں میں ہوتا ہے جن کی تعلیمی قابلیت کے باعث ان کی مادر علمی میں ہی انھیں تدریسی سفر میں شمولیت کا موقع ملتا ہے، آپ کو چھ مرتبہ آپ کی کتابوں پر سیرت نیشنل ایوارڈ بھی ملے۔ آپ نے تقریبا چوبیس کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کی اور مقالے بھی پڑھے۔ ’’نقوش یادرفتگاں‘‘ میں ان پینتیس شخصیات کا تذکرہ ہے جو مصنفہ کے تعلق میں کم یا زیادہ وقت کے لیے رہیں اورکچھ مشاہیر ایسے بھی ہیں جن سے آپ کی ملاقات ایک بار بھی نہیں ہوئی۔ اس تصنیف میں شامل مضامین ان متعلقہ شخصیات کے بطور خاکے تصور نہیں کیے جاسکتے، نہ ہی ان کی مکمل سوانح حیات کے طور پر لیے جاسکتے ہیں بلکہ اس تالیف میں ان اکابرین سے اپنی ملاقاتوں یا ملاقات سے متعلق نہ صرف ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے تاثرات قلم بند کیے بلکہ ان کی حیات و خدمات کا بھی ایک طائرانہ جائزہ لیا ہے جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اچھی قدروں کو اجاگر رکھنے کی یہ بھی ایک انمول وضع ہے چونکہ اچھے لوگوں کو یاد کرنا اور ان کی یاد کو قائم رکھنا خوبصورت ترین عمل ہے۔

اس تالیف میں جن احباب کا تذکرہ ہے ان میں جگن ناتھ آزاد، مشفق خواجہ، مطلوب الحسن سید، غلام حسین ذوالفقار، شاہ بلیغ الدین،کبیر احمد جائسی،آفاق صدیقی، سرشار صدیقی،حسرت، عطیہ خلیل عرب، انور سدید، ظفر اسحاق انصاری، مختار مسعود، مظہر محمود شیرانی، ابو سلیمان شاہجہاں پوری، رفیع الدین ہاشمی، وحیدہ نسیم، علی محسن صدیقی، اطہر علی ہاشمی، منیر واسطی و دیگر شامل ہیں۔ اس تالیف میں شامل کچھ شخصیات سے راقم پہلے سے واقف تھا پر بہت سی شخصیات سے میں محترم ڈاکٹر صاحبہ کی اس لائق تحسین خدمت کے توسط سے واقف ہو پایا کہ وہ کیسے تھے، انھوں نے اپنی حیات کیسے گزاری اور ان کے کارہائے نمایاں کیا کیا ہیں؟ ان نایاب ہستیوں کی رفاقت بھی کیا انمول شے ہوگی، یہ صرف وہی محسوس کرسکتا ہے، جس سے خدا نے یہ نعمت بخشی ہو اور اس کی یہ بڑائی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات فروغ علم کے لیے دوسروں میں بھی منتقل کردینا چاہتا ہو۔

دراصل یہ موضوع راقم کی خاص دلچسپی سے متعلق ہے اس لیے اس حوالے سے میری رائے کچھ یوں ہے جیسا کائنات کا ایک انمول اصول شکر الحمد للہ میں رب تعالیٰ نے رکھا ہے اسی طرح ہر شے کی تخلیق میں بہت ساری اچھائیاں ہوتی ہیں سیکھنے اور سمجھنے کے لیے۔ ہر انسان گزرے ہوئے لمحات کا ایک آئینہ ہے اور اس جہاں بے کراں کا وہ خاص منظر نامہ اور کہیں نہیں ملے گا جو اس کی ذات میں جما لیتا ہے کہ وہ بھی کائنات گزراں کی ایک مخصوص شہادت ہے۔ ہر فرد اسی عالم انسانی کی ایک منفرد گواہی ہے اور اس لیے قابل ذکر بھی ہے، یہی ایک ایسا پیمانہ ہے جو اس کے بیتے ہوئے کل میں حکیمانہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔

تحریر و تحقیق وقت کے ساتھ آگئے بڑھتی ہے اور بڑھنا بھی چاہیے چونکہ انسانی تحقیق کوئی جامد شے نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل آگئے بڑھنے والی تحریک ہے۔ لوگ آتے ہیں چلے جانے کے لیے صرف ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں، انھی کے لیے جو ان کو یاد رکھنا چاہیں، یہ عام لوگوں کی خاص زندگی پر مبنی کتاب ہے جو پورے لگن سے خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی دھن میں لگے رہے۔

بے لوث انسان دوستی کی ایسی نایاب مثالیں باشعور انسانوں کو متاثر کر کے ایک دعوت فکر بھی دیتی ہیں، جس کا مقصد ایک مفید معاشرے کا قیام ہے جس کے زیر اثر وطن عزیز پاکستان ترقی و خوشحالی کی رستے پر گامزن ہوسکے۔ بقول ڈاکٹر نگار سجاد ’’ یادوں کی ایک دھنک رنگ پٹاری ہر شخص کے پاس ہوتی ہے، یادوں کی صورت گری کوئی نئی بات نہیں، یادوں کی دنیا خوابوں جیسی ہوتی ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، یادیں دھندلانے لگتی ہیں، نقوش مدہم پڑنے لگتے ہیں، البتہ وہ یادیں جو الفاظ یا تصویروں میں محفوظ کرلی جائیں، شکستگی سے بچ سکتی ہیں جن لوگوں کو ہم مرنے نہیں دینا چاہتے، ان کی یادوں کو کسی نہ کسی صورت محفوظ کر لیتے ہیں پھر یہ یادیں کسی دور کے تذکرہ نگار یا مورخ کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بن جاتی ہیں۔‘‘ 

 ’’نقوش یاد رفتگاں‘‘ ایسی انمول شخصیات کی حیات و خدمات کا احاطہ کرتی ہوئی تصنیف ہے جو اپنے علم اور عمل کے اعتبار سے بلندیوں پر فائز ہوتے ہیں مگر انھیں نام و نمود سے کوئی رغبت نہیں ہوتی۔ اس تالیف میں ان کی بصیرت اور انفرادیت سے متعلق قیمتی مواد ہے جو ایک خاص عہد کی تاریخی طور پر نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کتاب میں شامل تحریریں چلتی پھرتی عام زندگی میں برسرکار شخصیات اور ان کے افکار و کردار کو اجاگر کرتی ہیں، ایسی انمول ہستیوں کی حیات سارے معاشرے کے لیے مثالی ہوتیں ہیں، جس میں آنے والی نسلوں کے لیے سیکھنے سیکھانے سمجھنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔

ایسی زندہ مثالیں قوموں کی تربیت کے لیے انتہائی معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ میں امید واثق رکھتا ہوں کہ علم کے متوالوں کے لیے یہ کتاب دلچسپی غور و فکر کا باعث ہوگی اور انسان دوستی کے انقلاب آفریں سفر کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نقوش یاد کے لیے ا ہیں اور ہے جو ا اور اس کی ایک اور ان

پڑھیں:

حضورۖ کا خراجِ تحسین

جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔۔
زریں اختر

 

”جہینہ (قبیلے ) کی ایک عورت حضرت محمد ۖ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے ۔اور وہ حاملہ بھی تھی ،لہٰذا آپ نے اس عورت کو اس کے ولی کے سپرد کیا اور فرمایا:’اس سے حسن سلوک کرنا ۔جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا’ ۔جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے لے کر آیا۔۔۔۔۔(دیگر روایات میں ہے کہ جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہوگیا تو روٹی کھانے لگا)۔آپ نے اس کے رجم کا حکم دیا، پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : آ پ اس کا جنازہ پڑھتے ہیں جب کہ اس نے تو زنا کیاہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا :’اللہ کی قسم ! اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر وہ مدینے والوں میں سے ستر اشخاص پر تقسیم کردی جائے تو ان سب کو پوری آجائے۔”
حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیاجاسکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کردیتی ہے ،اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔ (ترجمہ سنن نسائی حدیث ١٩٥٩)
خبر ہے کہ بانو کو پتا تھا کہ اب لوگ اسے لینے آرہے ہیں ، خبر ہے کہ بانو بھاگ سکتی تھی ؛ ان دونوں خبروں کی صداقت پر اگر شک سر اٹھائے تو اسے بانو کا ثابت قدمی سے آگے چل کر جانے پر شرم سے جھک جانا چاہیے ،اس کے ہاتھ میں قرآن تھا، یہ کہنا کہ بس گولی مارنے کی اجازت ہے ،اور آگے بڑھتے ہوئے منہ پر اس طرح ہاتھ پھیرنا جیسے دعا کرنے کے بعد پھیرتے ہیں اورپھر ۔۔۔۔ گولی بلکہ گولیاں کھانے سے قبل وہ چند لمحے ۔۔۔
اس حدیث کے مطابق نفرت سے سزا دینا نہیں بنتا،عدالت عدل کرتی ہے اور سزاپر عمل درآمد کے تمام اخلاقی تقاضے پورے کرتی ہے ،ریاست انتقام نہیں لیتی انصاف کرتی ہے ،یہاں مارنے والے انصاف کرنے نہیں جارہے تھے ،وہ تو اپنی غیرت کا انتقام لے رہے تھے ، غصے کا اظہار کررہے تھے ،ایسا غصہ جس کو غم و غصہ نہیں کہاجاسکتا ، اے کاش کہ کہا جاسکتاکہ ہم سزا دے رہے ہیں کیوں کہ یہ ہماراقانون ہے لیکن ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہمیں یہ کرنا پڑ رہاہے ،کاش تو ایسا نہ کرتی ، افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں تھا، یہاں ہر سننے دیکھنے والے کا دل خون کے آنسورویا اور وہ آنکھ جن سے ایک آنسوبھی نہ ٹپکا وہ شاید بانو کی ماں اور بھائی ہی کی تھیںکہ اس معاشرے میں مرد کا رونا بھی بزدلی کی علامت ہے اور وہ تو اپنی غیرت کا سر بلند کرکے لوٹے تھے۔ رونے کو بزدلی سمجھنے والے مردوں کو کوئی بتائے کہ حضور ۖ کس موقع پر اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوئو ں سے ترگئی۔
مجھے اس دماغ ،ان ذہنی و نفسیاتی کیفیات ،اس کے پس ِ پردہ سماجی و تاریخی وجوہات کو سمجھنا تھا جو مرد کو ایسے عمل پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی بہن بیٹی بیوی کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے طاہرہ ایس خان کی دقیق تحقیقی کتاب ”عزت کے نام پر ”جسے ٢٠٠٦ء میں اختر حمید خان میموریل ایوارڈ دیاگیا،مترجم صبیح محسن ، ناشر اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، پڑھنا شروع کی اور ان سب سوالوں کے جوابات ملنا شروع ہوگئے ۔
مرد کو یہ سمجھنا ہے کہ عورت اس کی ملکیت نہیں ہے ، نہ ہی وہ اس کی عزت کی چوکیدار ہے اور نہ ہی خاند ان بھر کی عزت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہے ۔وہ خبریں کہ جب پولیس گرفتاری کے لیے گئی تو وہاں کی عورتوں نے پولیس والوں کو پتھر مارے ، اس کا حوالہ بلوچستان کے وزیر ِ اعلیٰ نے بھی دیا اگرچہ کہ جہالت بھی کہا یعنی ان قبائلی رواج کا رکھوالا مرد ہی نہیں ہے کہ اسے ظالم سمجھا جائے بلکہ خود عورتیں بھی ان روایات کی امین ہیں، فہم جہاں مرد و زن میں تفریق کا مطالبہ کرے وہاںتفریق اور جہاں برابر کہے وہاں برابر،یعنی یہاں مردو زن برابر جاہل ثابت ہوتے ہیں۔
طاہرہ ایس خان کی کتاب سے چیدہ چیدہ جملے و اقتباسات ، صفحۂ اوّل :
‘۔۔۔ ایسے کچھ مصنفین کا وجود ہمیشہ انتہائی ضروری ہوتاہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے ،سچائی کو ڈھونڈ نکالنے اور اسے سامنے لانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہوں، اگرچہ انہیں کامیابی کی کچھ زیادہ امید بھی نہ ہو، انہیں یہ خوش فہمی بھی نہ ہوکہ وہ حالات کارخ فوری طور پر بدل دیں گے اور جب کوئی یقینی نتیجہ سامنے آتا ہوا نظرنہ آئے ،تو وہ نہ تو بددل ہوں اور نہ شکست تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔’ ٹی ایس ایلیٹ
١۔ ایک عرب اسکالر اور ماہر قانون ،لامہ ابوعودہ کا ایک تفصیلی اور بصیرت افروز مضمون Feminism and Islam: legal & Literary Perspective نامی کتاب میں شامل ہے ۔ اس مضمون جس کا عنوان ”Crimes of Honour and the Construction of Gender in Arab Societies”(٩٩٦ائ)ہے،۔۔۔ابوعودہ نے اپنے مطالعے میں ایک اور نکتہ اٹھایا کہ وفورِ جذبات کے تحت کیے جانے والے جرائم اور عزت کی خاطر جرائم میں واضح فرق کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ (ص ٩)
(وضاحت : اصطلاحاََعورت کا وہ قتل جو شوہر یا دوست کرے وفورِ جذبات کے تحت اور جو باپ ،بھائی یا بیٹا کرے وہ غیرت کے نام پر قتل کہاجائے گا )
٢۔ یہ سارا نظام یہ فرض کرلیتاہے کہ مرد کی عزت اس کی بہن ،بیٹی ، ماں یا بیوی کے جسم کے اندر پنہاں ہے۔۔۔۔ہلاکت کا شکار ہونے والیوں کی مائیںخود ان کے قتل میں شریک ہوجاتی ہیں،بہت سی مائیں اس خوف سے بھی خاموش رہتی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو خود انہیں اور ان کی دوسری اولادوں کو بھی قتل کردیاجائے گا۔(ص١٩)
٣۔ تارک وطن مسلم برادریوں میں عزت کی خاطر تشدد میں اضافے کے پیش نظر سوئیڈن کی ایک تنظیم کوینوفوم (Kvinnofoum)نے ٢٠٠٣ء میں ایک پراجیکٹ شروع کیا ۔۔۔۔پراجیکٹ کے لیے یورپین کمیشن ،بلغاریہ، فن لینڈ، قبرص،برطانیہ اور نیدرلینڈ نے رقومات فراہم کیں۔یہ کثیر الریاستی پراجیکٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی عورتوں کے خلاف مسلمان مردوں کا رویہ ،اس کے باوجود کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں اس کے شہریوں کی حیثیت سے رہ رہے ہیںاور اس کے بھی باوجود کہ اس مختلف کلچر میں کئی عشروں سے رہ رہے ہیں،نہ تو بدلا ہے اور نہ اس کی سختی میں کوئی کمی آئی ہے۔ (ص٢٥)
٤۔ ایک ترک عورت خاتون سروجو ٨ ِ مارچ ٢٠٠٥ء برلن میں قتل ہوگئی تھی ۔۔۔وہ جرمنی میں پلی بڑھی تھی مگر جب وہ ١٥ ِ برس کی ہوئی تو اسے ایک کزن سے شادی کے لیے ترکی واپس بھیج دیا گیا۔۔۔وہ دوسال بعد جرمنی واپس آئی ،اپنے شوہر سے طلاق حاصل کی اورپھر اس نے دوسرے مردوں سے میل جول بڑھانا شروع کردیا۔اسے مبینہ طور پر اس کے بھائیوں نے گولی مار کر ہلاک کیاتھا۔عورتوں کے حقوق کی ایک کارکن راحیل وولز کا ردعمل تھا”ایساپہلی دفعہ تو نہیں ہواتھا، لیکن سب سے بڑا دھچکا تو اس رد عمل سے لگا جس کا اظہار اسکول کے چند بچوں نے کیا ۔انہوں نے اپنے استادو ںسے کہا کہ وہ ان بھائیوں سے متفق تھے جنہوں نے (مبینہ طورپر) سروجو کو قتل کیاتھا۔(ص٢٥)
صد شکر کے اسی قبائلی نظام کے پروردہ بانو کے بیٹے نے اپنی ماں پر( بجا طور) پر فخر کیا ،اس نے تو شایدحضور ۖ کے دور کا وہ واقعہ بھی سنا یا پڑھانہیں ہوگا،جرگے کے سردار اپنے قبیلے کے ان ستر مردوں کا انتخاب کرلیں جن پر بانو کی توبہ تقسیم ہوگی،لیکن فیض تو واقف ہی ہوں گے اور نہیں ہوسکتا کہ یہ نظم لکھتے وقت ان کے ذہن میں حضور ۖ کے دور کی وہ عورت نہ ہو:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
#

متعلقہ مضامین

  • سات سچائیاں
  • جس روز قضا آئے گی
  • بلوچستان، سیاسی شخصیات، افسروں اور لینڈ مافیا کا 11 ہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ
  • عمران خان کی کئی ماہ بعد بیٹوں سے فون پر بات کروا دی گئی
  • ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عہدے سے مستعفی
  • بلوچستان: سیاسی شخصیات، افسروں اور لینڈ مافیا کا 11 ہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ
  • بچے دانی فورا نکلوا دیں!
  • حضورۖ کا خراجِ تحسین
  • اسلام آباد کی ممتاز کاروباری شخصیات کے نمائندہ وفد کی گروپ لیڈر چکوال چیمبر قاضی محمد اکبر مرحوم کی قبر پرحاضری ، پھولوں کی چادر چڑھائی