بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی طرف لوٹ کرجانا ہے، رب العزت نے انسانی زندگی کی ایک میعاد (عمر) مقررکر رکھی ہے، کیونکہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ انسانی زندگی کا سفر مٹی سے بن کر مٹی ہونے تک کا ہے، جو آیا ہے اس سے جانا بھی ہے۔ اچھے لوگ اور ان کے اچھے کام ان کی دائمی منتقلی فانی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور قلم کی طاقت رکھنے والے اپنی تحریروں میں ہمیشہ کے لیے جاوداں رہتے ہیں اور ان کی تحریروں میں موجود فلاح انسانی کے عناصر کو ان کی اچھائیوں کی طرح ابدی زندگی مل جاتی ہے تاکہ وہ قیامت تک کے لیے ان کے لیے صدقہ جاریہ بن کر ان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتے رہیں۔
زیر مطالعہ تصنیف ’’ نقوش یاد رفتگاں ‘‘ کی مصنفہ نگار سجاد ظہیر ہیں جو تعلیمی اور ادبی دنیا کی ایک نامور شخصیت ہیں، پروفیسر ڈاکٹر نگار نے ستمبر1986میں جامعہ کراچی میں بحیثیت استاد شمولیت اختیار کی اور 19دسمبر2014کو بحیثیت صدر شعبہ تاریخ اسلام، جامعہ کراچی سے سبکدوش ہوئیں۔ آپ چھبیس کتابوں کی مصنفہ ہیں جس میں ایک شعری مجموعہ، تین افسانوں کے مجموعے، تین سفر نامے اور تقریبا انیس کتابیں تاریخ و تحقیق کے حوالے سے ہیں۔ آپ بانی صدر سوسائٹی فار ریسرچ ان اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر کراچی، مدیرہ ششماہی ’’ الایام ‘‘ (علمی و تحقیقی جریدہ) کراچی، بانی ادارہ قرطاس ( اشاعتی ادارہ) کراچی سے منسلک ہیں۔
آپ کا شمار ان لائق فکر شاگردوں میں ہوتا ہے جن کی تعلیمی قابلیت کے باعث ان کی مادر علمی میں ہی انھیں تدریسی سفر میں شمولیت کا موقع ملتا ہے، آپ کو چھ مرتبہ آپ کی کتابوں پر سیرت نیشنل ایوارڈ بھی ملے۔ آپ نے تقریبا چوبیس کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کی اور مقالے بھی پڑھے۔ ’’نقوش یادرفتگاں‘‘ میں ان پینتیس شخصیات کا تذکرہ ہے جو مصنفہ کے تعلق میں کم یا زیادہ وقت کے لیے رہیں اورکچھ مشاہیر ایسے بھی ہیں جن سے آپ کی ملاقات ایک بار بھی نہیں ہوئی۔ اس تصنیف میں شامل مضامین ان متعلقہ شخصیات کے بطور خاکے تصور نہیں کیے جاسکتے، نہ ہی ان کی مکمل سوانح حیات کے طور پر لیے جاسکتے ہیں بلکہ اس تالیف میں ان اکابرین سے اپنی ملاقاتوں یا ملاقات سے متعلق نہ صرف ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے تاثرات قلم بند کیے بلکہ ان کی حیات و خدمات کا بھی ایک طائرانہ جائزہ لیا ہے جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اچھی قدروں کو اجاگر رکھنے کی یہ بھی ایک انمول وضع ہے چونکہ اچھے لوگوں کو یاد کرنا اور ان کی یاد کو قائم رکھنا خوبصورت ترین عمل ہے۔
اس تالیف میں جن احباب کا تذکرہ ہے ان میں جگن ناتھ آزاد، مشفق خواجہ، مطلوب الحسن سید، غلام حسین ذوالفقار، شاہ بلیغ الدین،کبیر احمد جائسی،آفاق صدیقی، سرشار صدیقی،حسرت، عطیہ خلیل عرب، انور سدید، ظفر اسحاق انصاری، مختار مسعود، مظہر محمود شیرانی، ابو سلیمان شاہجہاں پوری، رفیع الدین ہاشمی، وحیدہ نسیم، علی محسن صدیقی، اطہر علی ہاشمی، منیر واسطی و دیگر شامل ہیں۔ اس تالیف میں شامل کچھ شخصیات سے راقم پہلے سے واقف تھا پر بہت سی شخصیات سے میں محترم ڈاکٹر صاحبہ کی اس لائق تحسین خدمت کے توسط سے واقف ہو پایا کہ وہ کیسے تھے، انھوں نے اپنی حیات کیسے گزاری اور ان کے کارہائے نمایاں کیا کیا ہیں؟ ان نایاب ہستیوں کی رفاقت بھی کیا انمول شے ہوگی، یہ صرف وہی محسوس کرسکتا ہے، جس سے خدا نے یہ نعمت بخشی ہو اور اس کی یہ بڑائی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے تجربات و مشاہدات فروغ علم کے لیے دوسروں میں بھی منتقل کردینا چاہتا ہو۔
دراصل یہ موضوع راقم کی خاص دلچسپی سے متعلق ہے اس لیے اس حوالے سے میری رائے کچھ یوں ہے جیسا کائنات کا ایک انمول اصول شکر الحمد للہ میں رب تعالیٰ نے رکھا ہے اسی طرح ہر شے کی تخلیق میں بہت ساری اچھائیاں ہوتی ہیں سیکھنے اور سمجھنے کے لیے۔ ہر انسان گزرے ہوئے لمحات کا ایک آئینہ ہے اور اس جہاں بے کراں کا وہ خاص منظر نامہ اور کہیں نہیں ملے گا جو اس کی ذات میں جما لیتا ہے کہ وہ بھی کائنات گزراں کی ایک مخصوص شہادت ہے۔ ہر فرد اسی عالم انسانی کی ایک منفرد گواہی ہے اور اس لیے قابل ذکر بھی ہے، یہی ایک ایسا پیمانہ ہے جو اس کے بیتے ہوئے کل میں حکیمانہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔
تحریر و تحقیق وقت کے ساتھ آگئے بڑھتی ہے اور بڑھنا بھی چاہیے چونکہ انسانی تحقیق کوئی جامد شے نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل آگئے بڑھنے والی تحریک ہے۔ لوگ آتے ہیں چلے جانے کے لیے صرف ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں، انھی کے لیے جو ان کو یاد رکھنا چاہیں، یہ عام لوگوں کی خاص زندگی پر مبنی کتاب ہے جو پورے لگن سے خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی دھن میں لگے رہے۔
بے لوث انسان دوستی کی ایسی نایاب مثالیں باشعور انسانوں کو متاثر کر کے ایک دعوت فکر بھی دیتی ہیں، جس کا مقصد ایک مفید معاشرے کا قیام ہے جس کے زیر اثر وطن عزیز پاکستان ترقی و خوشحالی کی رستے پر گامزن ہوسکے۔ بقول ڈاکٹر نگار سجاد ’’ یادوں کی ایک دھنک رنگ پٹاری ہر شخص کے پاس ہوتی ہے، یادوں کی صورت گری کوئی نئی بات نہیں، یادوں کی دنیا خوابوں جیسی ہوتی ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، یادیں دھندلانے لگتی ہیں، نقوش مدہم پڑنے لگتے ہیں، البتہ وہ یادیں جو الفاظ یا تصویروں میں محفوظ کرلی جائیں، شکستگی سے بچ سکتی ہیں جن لوگوں کو ہم مرنے نہیں دینا چاہتے، ان کی یادوں کو کسی نہ کسی صورت محفوظ کر لیتے ہیں پھر یہ یادیں کسی دور کے تذکرہ نگار یا مورخ کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بن جاتی ہیں۔‘‘
’’نقوش یاد رفتگاں‘‘ ایسی انمول شخصیات کی حیات و خدمات کا احاطہ کرتی ہوئی تصنیف ہے جو اپنے علم اور عمل کے اعتبار سے بلندیوں پر فائز ہوتے ہیں مگر انھیں نام و نمود سے کوئی رغبت نہیں ہوتی۔ اس تالیف میں ان کی بصیرت اور انفرادیت سے متعلق قیمتی مواد ہے جو ایک خاص عہد کی تاریخی طور پر نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کتاب میں شامل تحریریں چلتی پھرتی عام زندگی میں برسرکار شخصیات اور ان کے افکار و کردار کو اجاگر کرتی ہیں، ایسی انمول ہستیوں کی حیات سارے معاشرے کے لیے مثالی ہوتیں ہیں، جس میں آنے والی نسلوں کے لیے سیکھنے سیکھانے سمجھنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔
ایسی زندہ مثالیں قوموں کی تربیت کے لیے انتہائی معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ میں امید واثق رکھتا ہوں کہ علم کے متوالوں کے لیے یہ کتاب دلچسپی غور و فکر کا باعث ہوگی اور انسان دوستی کے انقلاب آفریں سفر کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نقوش یاد کے لیے ا ہیں اور ہے جو ا اور اس کی ایک اور ان
پڑھیں:
لازوال عشق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک نیا فتنہ “لازوال عشق”کے نام سے ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر کی طرح اتارنے کی پلاننگ کی گئی ہے جو کچھ ہی عرصے میں یو ٹیوب پہ لانچ کیاجانے والا ہے۔۔۔۔پہلے ہی معاشرے میں آئے روز غیر اخلاقی واقعات رونما ہو رہے ہیں جنسی ہیجان بڑھ رہا ہے۔۔آئے روز سوشل میڈیا پہ کم عمر بچے اور بچیوں کے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے ۔۔۔والدین سے بغاوت اور پھر انہیں بعد میں اس کے جو برے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں وہ الگ کہانی ہے ۔۔۔نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا پہ بننے والا ہر دوسرا ڈرامہ ایک ہی سبق پڑھاتا نظر آتا ہے کہ زندگی کا مقصد ایک لڑکی یا لڑکے کی محبت میں گرفتار ہونا اور پھر اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں اس کے حصول میں لگانا ہے۔۔۔سوال یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان کی ہماری زندگیاں ایسی بے باکیوں کی متحمل ہیں۔۔؟کیا اسلامی معاشرے کے پنپنے کے یہ ڈھنگ ہوتے ہیں؟؟جونہی ہمارے شاھین بچے کامیابیوں کے آسمان کو چھونے لگتے ہیں مغربی ایجنڈے اور ان ایجنڈوں پہ کام کرنے والے ضمیر فروش جو مسلمان تو ہیں مگر معزرت کے ساتھ وہ مسلمان جنھیں دیکھ کر شرمائیں ہنود ۔۔۔جن کے لیے دنیا کی چمک دھمک اور مال ودولت ہی سب کچھ ہے اور اس کے حصول کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔۔جنہیں آخرت میں جوابدہی کا احساس تک نہیں ۔۔۔جو ہماری نوجوان نسل کو تباہی کے اندھے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو مغرب کے ان ہتھکنڈوں سے بچانا ہو گا انہیں تباہی کی س گہری دلدل سے محفوظ رکھنا ہو گا۔۔۔ہم انہیں ان ایلومیناتی مگرمچھوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔یو ٹیوب بچے، بوڑھے جوان،مرد وعورت سب دیکھتے ہیں خدارا اپنے بچوں کو اس فتنے سے بچانے کے لیے اس شیطانی پروگرام کو روکنے کے لیے آواز اٹھائیں ۔۔۔اس کی مذمت کریں ۔۔۔متعلقہ ادروں سے اپیل کریں انھیں بتا دیں کہ ہمیں یہ بے حیائی منظور نہیں ۔۔۔ہم کسی ایسی سرگرمی کو قبول نہیں کریں گے جو ہماری اسلامی اقدار کے منافی ہو۔۔۔عوام۔کی رائے کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔۔۔آئیں ان فتنوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ۔۔۔اپنی نوجوان نسل کو تحفظ فراہم کرنا ہم سب کا اولین فریضہ ہے۔