(گزشتہ سےپیوستہ)
لڑکی جبین طویل ظلم برداشت نہ کر سکی، یہ فروری کے شروع میں فوت ہو گئی اور اس کی لاش 9دن کمرے ہی میں پڑی رہی جب کہ لڑکا زندگی کی سرحد پر بیٹھ کر موت کا انتظار کرتا تھا، یہاں تک میرے نبی محمدالرسول ﷺ کی حدیث مبارکہ ﷺ نے کام کر دکھایا اور گائوں کے کسی شخص کو ان پر رحم آ گیا اور اس نے تھانے میں گمنام خط لکھ دیا، بہن بھائیوں کی دوسری خوش نصیبی یہ رہی کہ نیا ڈی پی او احمد محی الدین ٹرانسفر ہو کر چکوال آ گیا۔
یہ ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکر بھی تھا۔احمد محی الدین کے نوٹس میں جب خط آیا تو اس نے فوری طور پر پولیس ایکشن کا حکم دے دیا۔ ویل ڈن، ڈی ایس پی صاحب! یوں دونوں بہن بھائی مل گئے، بھائی زندہ مل گیا اور بہن کی لاش مردہ میت ملی! اللہ اکبر! یا میرے انسانیت پر رحم فرما۔ ایسے واقعات بھی انسانی معاشرے میں ہو سکتے ہیں اور انسان اتنے بھی سفاک اور درندے ہو سکتے ہیں؟ الحفیظ و الامان!
ڈی پی او صاحب اب علاقے کے بااثر لوگوں کا دبائو برداشت کر رہا ہے، نوجوان حسن رضا پولیس کی حفاظت میں ہے، یہ ٹراما کا شکار ہے، پولیس اس کا علاج بھی کرا رہی ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے، یہ اس واقعے کا واحد گواہ اور مدعی ہے۔ اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو پھر ملزمان بڑی آسانی سے بری ہو جائیں گے، پولیس نے پہلے مرکزی ملزم اور پھر اس کے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرلیا، ملزم اس وقت ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔چکوال کے اس واقعے کے دو ورژن ہیں، پہلا ورژن بیان کر دیا گیا، اور خبر سامنے آ گئی تو میڈیا گھکھ گائوں پہنچ گیا، رپورٹرز اور کیمرے دیکھ کر گائوں کے لوگوں نے گھروں کے دروازوں پر باہر سے تالےلگائے اور چھپ کر اندر بیٹھ گئے، اس کا مطلب ہے لوگ ملزموں کے اثر میں ہیں اور کسی میں ان کے خلاف بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگر ملزموں پر غلط الزام تھا تو لوگوں کو گواہی دینی چاہیے تھی اور اگر الزام سچا تھا تو بھی لوگوں کو بولنا چاہیے تھا لیکن لوگ غائب ہو گئے، ان کا غائب ہو جانا بھی ایک ثبوت ہے۔
دوسرا ورژن یہ دونوں بہن بھائی پاگل ہیں، یہ لوگوں پر حملے کر دیتے تھے، پتھر بھی مارتے تھے اور ڈنڈوں سے بھی لوگوں پر حملہ کرتے تھے۔ لہٰذا ان کے کزنز نے انھیں حویلی میں بند کر کے ان کا علاج شروع کرا دیا، یہ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال بھی کرنے لگے، یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ذہنی مریض تھے تو پھر لڑکی نے میٹرک میں پوزیشن کیسے لے لی اور یہ اچھے نمبروں سے بی ایس سی کیسے کر گئی۔ دوسرا اگر چچا زاد بھائی ان کا علاج کر رہے تھے یا ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے تو پھر یہ کس قسم کا علاج اور نگرانی تھی جس میں دونوں کو حویلی کے کمروں میں بند کر دیا گیا تھا اور انھیں کپڑے اور ضروریات کا سامان تک نہیں دیا جا رہا تھا، یہ کمرے ہی میں رفع حاجت کرتے تھے، دو سال پرانے، گندے اور بدبودار کپڑے پہنتے تھے اور انھیں کھڑکی سے خشک روٹی اور تھوڑا سا سالن ملتا تھا اگر یہ علاج اور کیئر ہے تو پھر ظلم اور زیادتی کیا ہو گی؟
آپ لڑکی کی لاش کو بھی اس سوال میں شامل کر لیں، لڑکی کو مرے ہوئے سات سے نو دن ہو گئے تھے لیکن کیئر اور علاج کرانے والوں نے اس کی تدفین مناسب سمجھی اور نہ انھیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔ان بے چاروں کو غسل تک نہیں کرایا جاتا تھا اور ان کے بال اور ناخن بھی نہیں تراشے جاتے تھے، کیا اس کو کیئر کہا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا سوال علاج اور اس کیئر کے دوران ان کی جائیداد اور زمین کس کے قبضے میں رہی، وہ کون تھا جس نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بیچ دیئے اور ان کی 950 کنال زمین پر کاشت کاری کرتا رہا۔میرا خیال ہے اگر ان سوالوں کے جواب تلاش کر لئے جائیں تو کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک اور بات کا اضافہ ضروری ہے، آپ کسی بھی نارمل شخص کو سال چھ ماہ کسی کمرے میں بند کر دیں تو وہ پاگل ہو جائے گا۔ لہٰذا ملزمان کے لئے حسن رضا کو پاگل ثابت کرنا بہت آسان ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اچھا وکیل کر کے اس 1بے چارے مظلوم کو عدالت میں پاگل ثابت کر کے رہا ہو سکتے ہیں۔
ہم اگر اس واقعہ کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں، اول ہم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہیں یہاں انسانی شکل میں ایک سے بڑھ کر ایک درندہ پھر رہا ہے اور جب اس کے اندر سے جانور باہر آتا ہے تو یہ جنگلوں کو بھی شرما دیتا ہے۔ دوم، والدین صاحب جائیداد اور رئیس ہوں تو پھر انھیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی تگڑا بنانا چاہئے، حسن رضا اور جبین کے والد کو اگر احساس ہوتا تو یہ ان کے سروں پر کوئی ایسا آسرا چھوڑ جاتا جو ان کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہو سکتا ہے کہ والد اپنے بھتیجوں کے عزائم کا ادراک نہیں کر سکا ہو گا جس کے نتیجے میں اس کی اولاد کزنز کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہ گئی اور سوم ہماری پولیس اور حکومت کے سسٹم میں بے شمار خرابیاں ہیں، ہم آج تک کوئی ایسی ہیلپ لائین، پورٹل یا کوئی ایسا ایڈریس تخلیق نہیں کر سکے جہاں لوگ گمنام خط لکھ کر دائیں بائیں ہونیوالے مظالم یا جرائم کی اطلاع دے سکیں۔
میں اس کالم کے توسط سے پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہچانے کے لئے اس کیس کی خود نگرانی کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر جبین کے نام سے ایک ہیلپ لائین قائم کر دیں اور تمام موبائل فون کمپنیوں کو پابند کر دیں کہ یہ ہیلپ ایپ ان کے پیکیج کا حصہ ہو گی، حکومت یہ بھی ڈکلیئر کر دے کہ اس ہیلپ لائین پر فون کرنے والے شخص کا نام، نمبر اور پتہ ہمیشہ راز میں رہے گا، اسے کسی جگہ گواہی کے لئے بھی نہیں بلایا جائے گا تاکہ لوگ ظلم کے خلاف بے خوف ہو کر کھڑے ہو سکیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا علاج اور اس تو پھر اور ان
پڑھیں:
زندگی اور موت کی جنگ: بھارتی ویزا منسوخی سے 10 ماہ کی مشکوٰۃ فاطمہ کا علاج معطل
بھارت کی جانب سے پاکستانی مریضوں کے میڈیکل ویزے اچانک منسوخ کیے جانے کے بعد 10 ماہ کی معصوم مشکوٰۃ فاطمہ کی زندگی خطرے میں پڑگئی۔
دل کی پیدائشی پیچیدہ بیماری میں مبتلا اس بچی کا آپریشن چنئی کے معروف ایم جی ایم اسپتال میں ہونا تھا، جہاں ایک بھارتی سرجن نے رعایتی فیس پر علاج کی پیشکش کی تھی، لیکن ویزا منسوخی نے سب کچھ ختم کردیا۔
یہ بھی پڑھیں کوئٹہ کے رہائشی آریان شاہ کی میت بھارت سے پاکستان پہنچ گئی
مشکوٰۃ کے والد فرحان علی نے بتایا کہ انہوں نے مہینوں کی جدوجہد کے بعد ویزا حاصل کیا تھا اور چنئی روانگی کی تیاریاں مکمل تھیں، مگر پہلگام حملے کے بعد بھارت نے تمام پاکستانی مریضوں کے ویزے منسوخ کردیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آغا خان اسپتال ہنگامی علاج تو کر دیتا ہے لیکن آپریشن سے انکار کر چکا ہے کیونکہ اس آپریشن میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔
بچی کے والد کا مزید کہنا تھا کہ ایس آئی یو ٹی سمیت کئی بڑے اسپتالوں نے بھی کیس دیکھنے کے بعد بیرونِ ملک علاج کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے پاس ایسی پیچیدہ بیماری کے علاج کی سہولت موجود نہیں۔
مشکوٰۃ اکیلی نہیں، دل، جگر اور کینسر کے مریضوں سمیت درجنوں پاکستانی شہری بھارت میں علاج کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ دہلی کے ایک اسپتال نے شاہد علی کے بچوں کو سرجری سے چند گھنٹے پہلے نکال باہر کیا، جبکہ کراچی اور سیالکوٹ کے مریض بھی ویزا منسوخی کا شکار ہوئے۔
بھارتی ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر بالا کرشنن جو کئی پاکستانی مریضوں کا مفت یا رعایتی علاج کرچکے ہیں، نے مشکوٰۃ کی سرجری 5 لاکھ بھارتی روپے میں کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی، جبکہ باقی اخراجات ایک این جی او برداشت کرنے والی تھی۔
ڈاکٹر کرشنن نے پاکستانی سرجنز کو تربیت دینے کی پیشکش بھی کی، لیکن کہاکہ ٹرانسپلانٹ کلچر تبھی ممکن ہے جب پاکستان میں مردہ افراد کی اعضا عطیہ کرنے کی روایت فروغ پائے۔
وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے بھارتی رویے پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہاکہ بھارت نے مرنے والے بچوں کو باہر نکال کر گھٹیا پن دکھایا، ہمیں ایسے ہمسائے سے علاج کی امید ختم کر دینی چاہیے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سرکاری اور کئی نجی اسپتال ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے کی نہ صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہی تیاری۔ پرائیویٹ اسپتالوں کے اخراجات بھی عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہیں، اسی لیے لوگ بھارت کا رخ کرتے ہیں جہاں خیراتی ادارے علاج میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں وزارت صحت کے ایک سینیئر افسر نے اس صورت حال کو ’قومی ہیلتھ سیکیورٹی‘ کا بحران قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بیرون ملک سے مریضوں کو لانے کی بات کرتے ہیں جبکہ ہمارے اپنے شہری دشمن ملک میں زندگی کی بھیک مانگتے ہیں، یہ ہماری ناکامی ہے۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چین، ترکیہ، امریکا، کینیڈا، مشرقِ وسطیٰ میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ پاکستان میں بچوں کے دل کے امراض اور ٹرانسپلانٹ کا مؤثر نظام قائم ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں ہمارے شہریوں کو کچھ ہوا تو بھارتی شہری بھی محفوظ نہیں رہیں گے، وفاقی وزرا
پاکستانی ماہرین امراض قلب کے مطابق دل کے پیدائشی امراض میں مبتلا درجنوں بچوں کو بچانے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بھارتی ڈاکٹر پاک بھارت کشیدگی پاکستان بھارت جنگ دل کے امراض علاج معطل قومی ہیلتھ ایمرجنسی محکمہ صحت مشکوٰۃ فاطمہ وی نیوز ویزا منسوخ