Daily Ausaf:
2025-06-21@05:23:52 GMT

حرص اور لالچ کا دلسوز واقعہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
لڑکی جبین طویل ظلم برداشت نہ کر سکی، یہ فروری کے شروع میں فوت ہو گئی اور اس کی لاش 9دن کمرے ہی میں پڑی رہی جب کہ لڑکا زندگی کی سرحد پر بیٹھ کر موت کا انتظار کرتا تھا، یہاں تک میرے نبی محمدالرسول ﷺ کی حدیث مبارکہ ﷺ نے کام کر دکھایا اور گائوں کے کسی شخص کو ان پر رحم آ گیا اور اس نے تھانے میں گمنام خط لکھ دیا، بہن بھائیوں کی دوسری خوش نصیبی یہ رہی کہ نیا ڈی پی او احمد محی الدین ٹرانسفر ہو کر چکوال آ گیا۔
یہ ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکر بھی تھا۔احمد محی الدین کے نوٹس میں جب خط آیا تو اس نے فوری طور پر پولیس ایکشن کا حکم دے دیا۔ ویل ڈن، ڈی ایس پی صاحب! یوں دونوں بہن بھائی مل گئے، بھائی زندہ مل گیا اور بہن کی لاش مردہ میت ملی! اللہ اکبر! یا میرے انسانیت پر رحم فرما۔ ایسے واقعات بھی انسانی معاشرے میں ہو سکتے ہیں اور انسان اتنے بھی سفاک اور درندے ہو سکتے ہیں؟ الحفیظ و الامان!
ڈی پی او صاحب اب علاقے کے بااثر لوگوں کا دبائو برداشت کر رہا ہے، نوجوان حسن رضا پولیس کی حفاظت میں ہے، یہ ٹراما کا شکار ہے، پولیس اس کا علاج بھی کرا رہی ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے، یہ اس واقعے کا واحد گواہ اور مدعی ہے۔ اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو پھر ملزمان بڑی آسانی سے بری ہو جائیں گے، پولیس نے پہلے مرکزی ملزم اور پھر اس کے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرلیا، ملزم اس وقت ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔چکوال کے اس واقعے کے دو ورژن ہیں، پہلا ورژن بیان کر دیا گیا، اور خبر سامنے آ گئی تو میڈیا گھکھ گائوں پہنچ گیا، رپورٹرز اور کیمرے دیکھ کر گائوں کے لوگوں نے گھروں کے دروازوں پر باہر سے تالےلگائے اور چھپ کر اندر بیٹھ گئے، اس کا مطلب ہے لوگ ملزموں کے اثر میں ہیں اور کسی میں ان کے خلاف بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگر ملزموں پر غلط الزام تھا تو لوگوں کو گواہی دینی چاہیے تھی اور اگر الزام سچا تھا تو بھی لوگوں کو بولنا چاہیے تھا لیکن لوگ غائب ہو گئے، ان کا غائب ہو جانا بھی ایک ثبوت ہے۔
دوسرا ورژن یہ دونوں بہن بھائی پاگل ہیں، یہ لوگوں پر حملے کر دیتے تھے، پتھر بھی مارتے تھے اور ڈنڈوں سے بھی لوگوں پر حملہ کرتے تھے۔ لہٰذا ان کے کزنز نے انھیں حویلی میں بند کر کے ان کا علاج شروع کرا دیا، یہ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال بھی کرنے لگے، یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ذہنی مریض تھے تو پھر لڑکی نے میٹرک میں پوزیشن کیسے لے لی اور یہ اچھے نمبروں سے بی ایس سی کیسے کر گئی۔ دوسرا اگر چچا زاد بھائی ان کا علاج کر رہے تھے یا ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے تو پھر یہ کس قسم کا علاج اور نگرانی تھی جس میں دونوں کو حویلی کے کمروں میں بند کر دیا گیا تھا اور انھیں کپڑے اور ضروریات کا سامان تک نہیں دیا جا رہا تھا، یہ کمرے ہی میں رفع حاجت کرتے تھے، دو سال پرانے، گندے اور بدبودار کپڑے پہنتے تھے اور انھیں کھڑکی سے خشک روٹی اور تھوڑا سا سالن ملتا تھا اگر یہ علاج اور کیئر ہے تو پھر ظلم اور زیادتی کیا ہو گی؟
آپ لڑکی کی لاش کو بھی اس سوال میں شامل کر لیں، لڑکی کو مرے ہوئے سات سے نو دن ہو گئے تھے لیکن کیئر اور علاج کرانے والوں نے اس کی تدفین مناسب سمجھی اور نہ انھیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔ان بے چاروں کو غسل تک نہیں کرایا جاتا تھا اور ان کے بال اور ناخن بھی نہیں تراشے جاتے تھے، کیا اس کو کیئر کہا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا سوال علاج اور اس کیئر کے دوران ان کی جائیداد اور زمین کس کے قبضے میں رہی، وہ کون تھا جس نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بیچ دیئے اور ان کی 950 کنال زمین پر کاشت کاری کرتا رہا۔میرا خیال ہے اگر ان سوالوں کے جواب تلاش کر لئے جائیں تو کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک اور بات کا اضافہ ضروری ہے، آپ کسی بھی نارمل شخص کو سال چھ ماہ کسی کمرے میں بند کر دیں تو وہ پاگل ہو جائے گا۔ لہٰذا ملزمان کے لئے حسن رضا کو پاگل ثابت کرنا بہت آسان ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اچھا وکیل کر کے اس 1بے چارے مظلوم کو عدالت میں پاگل ثابت کر کے رہا ہو سکتے ہیں۔
ہم اگر اس واقعہ کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں، اول ہم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہیں یہاں انسانی شکل میں ایک سے بڑھ کر ایک درندہ پھر رہا ہے اور جب اس کے اندر سے جانور باہر آتا ہے تو یہ جنگلوں کو بھی شرما دیتا ہے۔ دوم، والدین صاحب جائیداد اور رئیس ہوں تو پھر انھیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی تگڑا بنانا چاہئے، حسن رضا اور جبین کے والد کو اگر احساس ہوتا تو یہ ان کے سروں پر کوئی ایسا آسرا چھوڑ جاتا جو ان کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہو سکتا ہے کہ والد اپنے بھتیجوں کے عزائم کا ادراک نہیں کر سکا ہو گا جس کے نتیجے میں اس کی اولاد کزنز کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہ گئی اور سوم ہماری پولیس اور حکومت کے سسٹم میں بے شمار خرابیاں ہیں، ہم آج تک کوئی ایسی ہیلپ لائین، پورٹل یا کوئی ایسا ایڈریس تخلیق نہیں کر سکے جہاں لوگ گمنام خط لکھ کر دائیں بائیں ہونیوالے مظالم یا جرائم کی اطلاع دے سکیں۔
میں اس کالم کے توسط سے پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہچانے کے لئے اس کیس کی خود نگرانی کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر جبین کے نام سے ایک ہیلپ لائین قائم کر دیں اور تمام موبائل فون کمپنیوں کو پابند کر دیں کہ یہ ہیلپ ایپ ان کے پیکیج کا حصہ ہو گی، حکومت یہ بھی ڈکلیئر کر دے کہ اس ہیلپ لائین پر فون کرنے والے شخص کا نام، نمبر اور پتہ ہمیشہ راز میں رہے گا، اسے کسی جگہ گواہی کے لئے بھی نہیں بلایا جائے گا تاکہ لوگ ظلم کے خلاف بے خوف ہو کر کھڑے ہو سکیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کا علاج اور اس تو پھر اور ان

پڑھیں:

سابق ایم پی اے سلطانہ شاہین کینسر کے مرض میں مبتلا؛ علاج کی اپیل

سٹی 42: سابق مسلم لیگ ن کی  ایم پی اے سلطانہ شاہین کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئیں

سلطانہ شاہین گلے کے کینسر کا شکار ہوگئیں ،سلطانہ شاہین نے کہا ہے کہ ساری زندگی پارٹی کے پرچم تلے گزاری۔وزیراعلی پنجاب سرکاری سطح پر علاج کروائیں،پارٹی کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔تاحال پارٹی میں سے کسی سینیئر رہنما نے عیادت نہیں کی ۔سلطانہ شاہین مسلم لیگ ن ملتان خواتین ونگ کی صدر بھی رہ چکی ہیں

ریپ کے مجرم کو 25 سال قید کی سزا

سابق ایم پی اے نے وزیر اعلیٰ سے علاج کے لیے مدد کی اپیل کردی 

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی میں عجیب و غریب واقعہ، قبر سے بزرگ کی میت غائب
  • پہلگام واقعہ کے بھارت کے پاس کوئی ثبوت نہیں، امرجیت سنگھ
  • پہلگام واقعہ  انٹیلی جنس ناکامی ، خطے میں پاکستان کا کردار اہم ہے،بھارتی سابق انٹیلی جنس چیف کابرملااعتراف
  • ثمینہ پیرزادہ نے جنات سے متعلق خوفناک واقعہ سُنا دیا، اداکارہ نے کیا دیکھا؟ 
  • ثمینہ پیرزادہ نے جنات سے متعلق خوفناک واقعہ سُنا دیا، اداکارہ نے کیا دیکھا؟
  • خیبرپختونخوا :جنازے پر فائرنگ،2خواتین سمیت 3 افراد جاں بحق ،15 زخمی
  • خیبر پختونخوا: صحت کارڈ پلس کا بجٹ 35 ارب کر دیا گیا
  • کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں تین افراد زخمی
  • سابق ن لیگی رہنما کینسر کے مرض میں مبتلا
  • سابق ایم پی اے سلطانہ شاہین کینسر کے مرض میں مبتلا؛ علاج کی اپیل