اسلام ٹائمز: کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجا ناصر جعفری صاحب نے کہا: انسان کبھی کبھی اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ طبیعت اس پر غالب آجاتی ہے۔ وہ اپنی فطری ضروریات جیسے لباس، غذا، رہائش اور اولاد کی پرورش میں اس طرح الجھ جاتا ہے کہ اپنی اصل انسانیت کو بھول جاتا ہے۔ بعض اوقات علم بھی صرف روزی کمانے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سب طبعی میلانات ہیں، انسانی نہیں ہیں۔ انسان تب ہی "انسان" بنتا ہے، جب وہ اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے لیے جینا سیکھے۔ امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ معاشرے میں ظلم، ناانصافی، حقوق کی پامالی ہو، تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہی احساسِ ذمہ داری ہے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان
مرکزی نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان
19 جولائی 2025ء بروز ہفتہ کو جماعت اہل حرم پاکستان کے زیراہتمام جامعہ نعیمیہ اسلام آباد میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ہمیشہ کی طرح مختلف مکاتب فکر کی خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں مقررین نے حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور تمام شہدائے کربلا کو خراج تحسین پیش کیا۔ راقم نے اپنی گفتگو میں کچھ یوں کہا: جب ہم احادیثِ نبویﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں فضائلِ اہلِ بیت ؑ خصوصاً حضرات حسنین کریمینؓ کے حوالے سے احادیث کا ایک عظیم ذخیرہ ملتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ایسی ہے، جس نے میرے قلب و روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ حدیث نہ صرف اہل سنت بلکہ اہل تشیع کے معتبر مصادر میں بھی موجود ہے۔ رسول اللہﷺ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسی دوران حضرات حسنین کریمینؓ جو اُس وقت نہایت کمسن تھے، کبھی گرتے کبھی اٹھتے، کبھی دوڑتے، کبھی سنبھلتے مسجد میں داخل ہوئے۔
نبی اکرمﷺ نے خطبہ روک دیا، منبر سے نیچے اُترے، دونوں شہزادگان کو اپنی آغوش میں لیا اور ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں طرف منبر پر بٹھا دیا۔ آپﷺ نے یہ کام خود فرمایا، حالانکہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو اشارہ کرکے بھی ایسا ہوسکتا تھا، لیکن آپﷺ نے یہ ذمہ داری کسی اور کے سپرد نہیں کی بلکہ خود ادا فرمائی۔ یہاں درس یہ ہے کہ حسنین کریمینؓ کو صفوں میں نہیں بٹھایا گیا، بلکہ منبر کی زینت بنایا گیا۔ یہ عمل رسولﷺ بتا رہا تھا کہ یہ محض مقتدی نہیں بلکہ مقتدا ہیں، امت کے رہبر و راہنماء ہیں۔ اسی تناظر میں علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:
در میان امت آں کیواں جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب
یعنی امام حسینؓ امت میں ایسے بلند مقام پر فائز ہیں، جیسے "قل ھو اللہ احد" قرآن میں اپنی عظمت لیے ہوئے ہے اور پیر نصیرالدین نصیرؒ کی تفسیر کے مطابق "کیواں" وہ ستارہ ہے، جو تمام ستاروں سے بلند ہوتا ہے اور جس کی روشنی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
رسول اللہﷺ نے ہمیں یہ واضح پیغام دے دیا کہ میرے بعد میرے علم، میری نبوت، میری رہنمائی کے وارث یہی لوگ ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت امام حسینؓ نے یزید جیسے فاسق و فاجر کے مقابل قیام فرمایا تو وہ صرف ایک سیاسی یا وقتی ردعمل نہ تھا، بلکہ نظامِ مصطفیٰﷺ کے تحفظ کی جدوجہد تھی۔ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء کربلا میں ظاہری طور پر شہید ضرور ہوئے، لیکن درحقیقت وہی تاریخ کے حقیقی فاتح بنے۔ یزید کی حکومت جو تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس حکومت کو لات مار کر اس کے اپنے بیٹے معاویہ بن یزید نے تخت سے دستبردار ہو کر اعلان کیا: "مجھے اس تخت سے حسینؓ کے لہو کی بو آتی ہے، میں اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔" یہ تاریخ کا فیصلہ تھا، ظاہری فتح یزید کی تھی، مگر اخلاقی، روحانی اور ابدی فتح امام حسینؓ کی تھی۔ "حلیۃ الاولیاء" میں امام ابو نعیم اصفہانیؒ روایت کرتے ہیں کہ امام حسینؓ نے یزید کی فوج کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: "میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو جرم سمجھتا ہوں۔"
آج عالمِ اسلام کے اکثر حکمران اُسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، جسے امام حسینؓ نے زندگی کا سب سے بڑا گناہ قرار دیا تھا، یعنی ظالموں کے ساتھ جینا ان کے نظام کو سہارا دینا۔ ہمیں آج پھر وہی حسینی فکر اپنانا ہوگی، جو ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا سکھاتی ہے اور باطل کو للکارنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہمیں حسنین کریمینؓ کے مقام کو سمجھنا ہوگا اور اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کرنا ہوگا کہ اہل بیت اطہارؑ ہماری امت کے لیے رہبر و رہنماء ہیں نہ کہ صرف قابلِ احترام شخصیات۔ وہ قیادت کے اہل ہیں، کیونکہ وہ منبر رسولﷺکے وارث ہیں۔ اسی پیامِ کربلا کے ساتھ اس فکری محفل میں شرکت کرنے والے تمام احباب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ ہمیں حق کے ساتھ کھڑے ہونے اور باطل کے خلاف جہاد کا حوصلہ عطاء فرمائے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجا ناصر جعفری صاحب نے کہا: انسان کبھی کبھی اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ طبیعت اس پر غالب آجاتی ہے۔ وہ اپنی فطری ضروریات جیسے لباس، غذا، رہائش اور اولاد کی پرورش میں اس طرح الجھ جاتا ہے کہ اپنی اصل انسانیت کو بھول جاتا ہے۔ بعض اوقات علم بھی صرف روزی کمانے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سب طبعی میلانات ہیں، انسانی نہیں ہیں۔ انسان تب ہی "انسان" بنتا ہے، جب وہ اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے لیے جینا سیکھے۔ امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ معاشرے میں ظلم، ناانصافی، حقوق کی پامالی ہو، تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہی احساسِ ذمہ داری ہے۔
اگر کوئی نظام لوگوں کی آزادی اور ان کے بنیادی انسانی و دینی حقوق چھین لے، انہیں غلام بنائے، تو یہ ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اس نظام کے خلاف آواز بلند کریں۔ آج ایک نئی جاہلیت ہمارے معاشرے میں سر اٹھا رہی ہے۔ اس جاہلیت کا منبع دو چیزیں ہیں: شہوت اور غضب۔ جب شہوت غالب آتی ہے تو انسان بے غیرت ہو جاتا ہے اور جب غضب حد سے بڑھتا ہے تو انسان فرعون بن جاتا ہے۔ یہی جاہلیت جب سیاست میں داخل ہوتی ہے تو اقتدار کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے، جیسے فرعون نے موسیٰؑ کے ڈر سے معصوم بچوں کو قتل کروایا، یا جیسے یزید نے اقتدار کی خاطر امام حسینؑ پر ظلم کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے اس "منافقت زدہ جاہلیت" کے خلاف قیام کیا، جس نے اسلام کا لباس تو پہن رکھا تھا، مگر حقیقت میں وہ اسلام کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ اذانیں دیتے تھے، قرآن پڑھتے تھے، مگر خانہ کعبہ کو آگ بھی انہی کے ہاتھوں لگائی گئی۔
امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ ہمارا کام صرف اپنی ڈیوٹی پوری کرنا ہے، حق کا ساتھ دینا ہے، ظلم سے ٹکرانا ہے۔ نتائج اللہ پر چھوڑ دیں، کیونکہ انجام ہمیشہ خدا کے اختیار میں ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ضمیر اختر خان نے کہا: حضرت امام حسینؓ کو جو مقام عطاء کیا گیا، وہ ایک عظیم سعادت ہے، نہ کہ کوئی قابلِ افسوس واقعہ۔ شہادت کا یہ رتبہ اللہ تعالیٰ نے صرف چنیدہ بندوں کو عطاء فرمایا، جن میں انبیاءؑ کے بعد صدیقین اور پھر شہداء شامل ہیں۔ قرآنِ مجید میں شہداء کو مردہ نہ کہنے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ انہیں "زندہ" قرار دیا گیا ہے، جو اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔ یہ وہی مرتبہ ہے، جس کی تمنا خود نبی کریمﷺ نے کئی بار فرمائی۔ حقیقی مؤمن مشکلات سے نہیں گھبراتا، یہی پیغامِ حسینؓ ہے۔ اگر کل قیامت کے دن امام حسینؓ ہم سے سوال کریں کہ "میرے نانا کا دین مٹایا جا رہا تھا اور تم خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے!" تو ہمارا کیا جواب ہوگا؟ آج وقت ہے بیداری کا، وقت ہے کہ ہم حسینی کردار اپنائیں اور باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں۔ یہی ہماری نجات کا راستہ ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حبیب الرحمان عاصم نے کہا: جب ہم ظلم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اُن لوگوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیئے، جو ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے۔ یہ کوئی رسمی ذکر نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور دینی تقاضا ہے کہ ہم ظالم کے مقابلے میں مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگر آج ہم اپنی آنکھیں کھولیں تو دنیا کے کونے کونے میں ظلم کی کئی شکلیں ہمیں نظر آئیں گی۔ ان کے لیے کسی تقریر یا بیانیے کی ضرورت نہیں، سوشل میڈیا، اخبارات، میگزین، تعلیمی ادارے، عدالتی نظام اور انسانی سوسائٹی خود چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ حالات کس قدر سنگین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان مظالم پر کچھ کرسکتے ہیں؟ اگر زیادہ کچھ نہ بھی کرسکیں، تو کم از کم اپنے ضمیر کی گواہی دے سکتے ہیں۔ ایک لفظ، ایک تحریر، ایک ووٹ، یا کسی مظلوم کی حمایت یہی تو وہ عمل ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اگر ہم اتنا بھی نہ کریں تو پھر حسینؑ کا تذکرہ صرف زبان تک محدود رہ جاتا ہے، عمل سے خالی ہو جاتا ہے اور جب تذکرہ، عمل کے بغیر ہو، تو پھر وہ پیغام کربلا کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔
سیدنا امام حسینؑ کی صداقت پر کوئی شک باقی نہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "الحسن والحسین سَیِّدا شبابِ اہل الجنۃ" (حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں) یہ حدیث کافی ہے، ہر اس سوال کا جواب دینے کے لیے جو حق و باطل کے درمیان فرق کو مشکوک کرنے کی کوشش کرے۔ کیا جنت کے سردار جھوٹ کی حمایت کرسکتے ہیں۔؟ ہرگز نہیں۔ نبیﷺ کا دوسرا فرمان مزید واضح کرتا ہے: "میں اس سے محبت کرتا ہوں، جو حسن و حسین سے محبت کرے اور اس سے دشمنی رکھتا ہوں، جو ان سے دشمنی کرے۔" یعنی جو شخص جان بوجھ کر حق کو پہچاننے کے باوجود باطل کا ساتھ دے، وہ دراصل حسینؑ کے راستے کی مخالفت کر رہا ہے اور جو حسینؑ کے راستے سے ہٹ جائے، اسے قیامت کے دن لازماً جواب دہ ہونا ہوگا۔ آج غزہ اور فلسطین کی سرزمین ہو یا کشمیر، شام، عراق یا یمن ہر طرف مظلوموں کا خون بہہ رہا ہے۔ مظلوم بچوں کی چیخیں، ماؤں کی آہیں اور بے گناہ جوانوں کی لاشیں، سب کربلا کی یاد دلاتی ہیں۔ ان کے زخم، حسینؑ کی سکینہؑ کے زخموں جیسے ہیں۔ آج بھی دنیا کے فرعون، نمرود اور یزید، نئے چہروں اور جھنڈوں کے ساتھ زندہ ہیں اور ان کے ساتھ دینے والے بعض مسلم حکمران بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔
افسوس کہ دنیا میں امن کے ٹھیکیدار کہلانے والے طاقتور ممالک صرف جنگ بیچتے ہیں۔ ان کے کاروبار کا دار و مدار انسانوں کے خون پر ہے۔ وہ ایک ہاتھ سے اسلحہ بیچتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے امن کی قراردادیں۔ عراق کو ملیا میٹ کر دینے کے بعد ایک "سوری" کہہ دینا کیا ان کا جرم دھو سکتا ہے۔؟ ایسے تمام افراد، ادارے اور حکمران جو ظلم پر خاموش ہیں یا کسی نہ کسی شکل میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں، جان لیں کہ وہ یزیدی صف میں کھڑے ہیں، حسینی نہیں۔ اور یاد رکھیں، نبیﷺ کا فرمان ہے: "اللہ تعالیٰ ظالم سے ضرور انتقام لیتا ہے، چاہے فوراً یا دیر سے اور اس شخص سے بھی انتقام لے گا جو مظلوم کو دیکھ کر بھی خاموش رہا، جبکہ وہ ظالم کا ہاتھ روک سکتا تھا۔" اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے: یا تو خاموشی کی سزا کے لیے تیار رہیں، یا حسینؑ کے راستے پر چل کر عزت اور غیرت کی زندگی گزاریں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر بشریٰ فرقان صاحبہ نے کہا کہ آج کی اس عظیم الشان کانفرنس میں مجھے جس عنوان پر اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا ہے، وہ ہے: "حقیقی اسلامیت کی بیداری کے لیے سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظامِ فکر۔" امام حسینؓ نے نہ صرف اپنی شہادت بلکہ اپنی پوری زندگی کے ذریعے امتِ مسلمہ کو ایک فکری نظام عطا کیا، جو ہمیں حقیقی اسلام کی شناخت، بیداری اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ اس نظام کی جڑیں اس وقت سے جڑی ہوئی ہیں، جب نبی کریمﷺ نے اپنی چادرِ مبارک کے سائے میں اہلِ کساء کو جمع فرمایا، جن میں حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ شامل تھے۔ یہ چاروں ہستیاں انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں اور ان کے کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ ثناء فاطمہ نعیمی، پرنسپل جامعہ نعیمیہ للبنات اسلام آباد نے کہا کہ سانحہ کربلا میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کے معرکہ میں جو کردار ادا کیا، یزیدی فوجوں کے سامنے جس دلیری سے خطاب کیا اور یزید کے دربار میں جس طرح خطبہ ارشاد فرمایا، سب یزیدی خوفزدہ ہوگئے اور سیدہ نے خطبات مولا علی علیہ السلام کی یاد تازہ کر دی۔ یہ کانفرنس اپنے پیغام اور معنویت کے اعتبار سے بہت اہم تھی، یہ کانفرنس اتحاد امت کے حوالہ سے بھی اہل پاکستان کے لیے ایک اہم پیغام تھا۔ کانفرنس سے سید ناصر عباس شیرازی مرکزی رہنماء مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے بھی خطاب کیا اور نقابت کے فرائض ڈاکٹر محمد شیر سیالوی نے انجام دیئے۔ کمال ثانی اور علی رضا ارشد نے شہدائے کربلا کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔ کانفرنس کے اختتام پر ملک و ملت کے لیے دعائیں کی گئیں اور یوں کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام جاتا ہے کہ ہو جاتا ہے اور ان کے کھڑے ہوں ہے کہ ہم کے خلاف رہے ہیں ہیں اور وہ اپنی کے ساتھ نے کہا ہے اور کے لیے امت کے اپنی ا
پڑھیں:
چوہدری شجاعت حسین سیاسی وضع داری میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ چوہدری سالک حسین،چوہدری شافع حسین خاندانی روایات کو بہترین انداز میں نبھا رہے ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 29 جولائی2025ء) مسلم لیگ ق کے رہنما خواجہ رمیض حسن نے پریس ریلیز میں کہا کہ پاکستانی سیاست میں شائستگی اور مہذب پن کی انتہائی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین سیاسی وضع داری میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔(جاری ہے)
سیاسی اکابرین چوہدری شجاعت حسین کی نرم گفتار اور مفاہمت کے معترف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری سالک حسین،چوہدری شافع حسین خاندانی روایات کو بہترین انداز میں نبھا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز و ہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ چوہدری سالک سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے دن رات کوشاں ہیں