Islam Times:
2025-09-18@13:44:19 GMT

پیام کربلا کانفرنس 2025ء

اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT

پیام کربلا کانفرنس 2025ء

اسلام ٹائمز: کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجا ناصر جعفری صاحب نے کہا: انسان کبھی کبھی اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ طبیعت اس پر غالب آجاتی ہے۔ وہ اپنی فطری ضروریات جیسے لباس، غذا، رہائش اور اولاد کی پرورش میں اس طرح الجھ جاتا ہے کہ اپنی اصل انسانیت کو بھول جاتا ہے۔ بعض اوقات علم بھی صرف روزی کمانے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سب طبعی میلانات ہیں، انسانی نہیں ہیں۔ انسان تب ہی "انسان" بنتا ہے، جب وہ اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے لیے جینا سیکھے۔ امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ معاشرے میں ظلم، ناانصافی، حقوق کی پامالی ہو، تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہی احساسِ ذمہ داری ہے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان
مرکزی نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان

19 جولائی 2025ء بروز ہفتہ کو جماعت اہل حرم پاکستان کے زیراہتمام جامعہ نعیمیہ اسلام آباد میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ہمیشہ کی طرح مختلف مکاتب فکر کی خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں مقررین نے حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اور تمام شہدائے کربلا کو خراج تحسین پیش کیا۔ راقم نے اپنی گفتگو میں کچھ یوں کہا: جب ہم احادیثِ نبویﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں فضائلِ اہلِ بیت ؑ خصوصاً حضرات حسنین کریمینؓ کے حوالے سے احادیث کا ایک عظیم ذخیرہ ملتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ایسی ہے، جس نے میرے قلب و روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ حدیث نہ صرف اہل سنت بلکہ اہل تشیع کے معتبر مصادر میں بھی موجود ہے۔ رسول اللہﷺ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسی دوران حضرات حسنین کریمینؓ جو اُس وقت نہایت کمسن تھے، کبھی گرتے کبھی اٹھتے، کبھی دوڑتے، کبھی سنبھلتے مسجد میں داخل ہوئے۔

نبی اکرمﷺ نے خطبہ روک دیا، منبر سے نیچے اُترے، دونوں شہزادگان کو اپنی آغوش میں لیا اور ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں طرف منبر پر بٹھا دیا۔ آپﷺ نے یہ کام خود فرمایا، حالانکہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو اشارہ کرکے بھی ایسا ہوسکتا تھا، لیکن آپﷺ نے یہ ذمہ داری کسی اور کے سپرد نہیں کی بلکہ خود ادا فرمائی۔ یہاں درس یہ ہے کہ حسنین کریمینؓ کو صفوں میں نہیں بٹھایا گیا، بلکہ منبر کی زینت بنایا گیا۔ یہ عمل رسولﷺ بتا رہا تھا کہ یہ محض مقتدی نہیں بلکہ مقتدا ہیں، امت کے رہبر و راہنماء ہیں۔ اسی تناظر میں علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا:
در میان امت آں کیواں جناب
ہمچو حرف قل ہو اللہ در کتاب
یعنی امام حسینؓ امت میں ایسے بلند مقام پر فائز ہیں، جیسے "قل ھو اللہ احد" قرآن میں اپنی عظمت لیے ہوئے ہے اور پیر نصیرالدین نصیرؒ کی تفسیر کے مطابق "کیواں" وہ ستارہ ہے، جو تمام ستاروں سے بلند ہوتا ہے اور جس کی روشنی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

رسول اللہﷺ نے ہمیں یہ واضح پیغام دے دیا کہ میرے بعد میرے علم، میری نبوت، میری رہنمائی کے وارث یہی لوگ ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت امام حسینؓ نے یزید جیسے فاسق و فاجر کے مقابل قیام فرمایا تو وہ صرف ایک سیاسی یا وقتی ردعمل نہ تھا، بلکہ نظامِ مصطفیٰﷺ کے تحفظ کی جدوجہد تھی۔ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء کربلا میں ظاہری طور پر شہید ضرور ہوئے، لیکن درحقیقت وہی تاریخ کے حقیقی فاتح بنے۔ یزید کی حکومت جو تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس حکومت کو لات مار کر اس کے اپنے بیٹے معاویہ بن یزید نے تخت سے دستبردار ہو کر اعلان کیا: "مجھے اس تخت سے حسینؓ کے لہو کی بو آتی ہے، میں اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔" یہ تاریخ کا فیصلہ تھا، ظاہری فتح یزید کی تھی، مگر اخلاقی، روحانی اور ابدی فتح امام حسینؓ کی تھی۔ "حلیۃ الاولیاء" میں امام ابو نعیم اصفہانیؒ روایت کرتے ہیں کہ امام حسینؓ نے یزید کی فوج کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: "میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو جرم سمجھتا ہوں۔"

آج عالمِ اسلام کے اکثر حکمران اُسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، جسے امام حسینؓ نے زندگی کا سب سے بڑا گناہ قرار دیا تھا، یعنی ظالموں کے ساتھ جینا ان کے نظام کو سہارا دینا۔ ہمیں آج پھر وہی حسینی فکر اپنانا ہوگی، جو ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا سکھاتی ہے اور باطل کو للکارنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہمیں حسنین کریمینؓ کے مقام کو سمجھنا ہوگا اور اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کرنا ہوگا کہ اہل بیت اطہارؑ ہماری امت کے لیے رہبر و رہنماء ہیں نہ کہ صرف قابلِ احترام شخصیات۔ وہ قیادت کے اہل ہیں، کیونکہ وہ منبر رسولﷺکے وارث ہیں۔ اسی پیامِ کربلا کے ساتھ اس فکری محفل میں شرکت کرنے والے تمام احباب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ ہمیں حق کے ساتھ کھڑے ہونے اور باطل کے خلاف جہاد کا حوصلہ عطاء فرمائے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجا ناصر جعفری صاحب نے کہا: انسان کبھی کبھی اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ طبیعت اس پر غالب آجاتی ہے۔ وہ اپنی فطری ضروریات جیسے لباس، غذا، رہائش اور اولاد کی پرورش میں اس طرح الجھ جاتا ہے کہ اپنی اصل انسانیت کو بھول جاتا ہے۔ بعض اوقات علم بھی صرف روزی کمانے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سب طبعی میلانات ہیں، انسانی نہیں ہیں۔ انسان تب ہی "انسان" بنتا ہے، جب وہ اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے لیے جینا سیکھے۔ امام حسین علیہ السلام کی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ معاشرے میں ظلم، ناانصافی، حقوق کی پامالی ہو، تو ہمارا فرض ہے کہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ یہی احساسِ ذمہ داری ہے۔

اگر کوئی نظام لوگوں کی آزادی اور ان کے بنیادی انسانی و دینی حقوق چھین لے، انہیں غلام بنائے، تو یہ ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اس نظام کے خلاف آواز بلند کریں۔ آج ایک نئی جاہلیت ہمارے معاشرے میں سر اٹھا رہی ہے۔ اس جاہلیت کا منبع دو چیزیں ہیں: شہوت اور غضب۔ جب شہوت غالب آتی ہے تو انسان بے غیرت ہو جاتا ہے اور جب غضب حد سے بڑھتا ہے تو انسان فرعون بن جاتا ہے۔ یہی جاہلیت جب سیاست میں داخل ہوتی ہے تو اقتدار کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے، جیسے فرعون نے موسیٰؑ کے ڈر سے معصوم بچوں کو قتل کروایا، یا جیسے یزید نے اقتدار کی خاطر امام حسینؑ پر ظلم کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے اس "منافقت زدہ جاہلیت" کے خلاف قیام کیا، جس نے اسلام کا لباس تو پہن رکھا تھا، مگر حقیقت میں وہ اسلام کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ اذانیں دیتے تھے، قرآن پڑھتے تھے، مگر خانہ کعبہ کو آگ بھی انہی کے ہاتھوں لگائی گئی۔

امام حسینؑ نے ہمیں سکھایا کہ ہمارا کام صرف اپنی ڈیوٹی پوری کرنا ہے، حق کا ساتھ دینا ہے، ظلم سے ٹکرانا ہے۔ نتائج اللہ پر چھوڑ دیں، کیونکہ انجام ہمیشہ خدا کے اختیار میں ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ضمیر اختر خان نے کہا: حضرت امام حسینؓ کو جو مقام عطاء کیا گیا، وہ ایک عظیم سعادت ہے، نہ کہ کوئی قابلِ افسوس واقعہ۔ شہادت کا یہ رتبہ اللہ تعالیٰ نے صرف چنیدہ بندوں کو عطاء فرمایا، جن میں انبیاءؑ کے بعد صدیقین اور پھر شہداء شامل ہیں۔ قرآنِ مجید میں شہداء کو مردہ نہ کہنے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ انہیں "زندہ" قرار دیا گیا ہے، جو اپنے رب کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔ یہ وہی مرتبہ ہے، جس کی تمنا خود نبی کریمﷺ نے کئی بار فرمائی۔ حقیقی مؤمن مشکلات سے نہیں گھبراتا، یہی پیغامِ حسینؓ ہے۔ اگر کل قیامت کے دن امام حسینؓ ہم سے سوال کریں کہ "میرے نانا کا دین مٹایا جا رہا تھا اور تم خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے!" تو ہمارا کیا جواب ہوگا؟ آج وقت ہے بیداری کا، وقت ہے کہ ہم حسینی کردار اپنائیں اور باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں۔ یہی ہماری نجات کا راستہ ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حبیب الرحمان عاصم نے کہا: جب ہم ظلم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اُن لوگوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیئے، جو ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے۔ یہ کوئی رسمی ذکر نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور دینی تقاضا ہے کہ ہم ظالم کے مقابلے میں مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اگر آج ہم اپنی آنکھیں کھولیں تو دنیا کے کونے کونے میں ظلم کی کئی شکلیں ہمیں نظر آئیں گی۔ ان کے لیے کسی تقریر یا بیانیے کی ضرورت نہیں، سوشل میڈیا، اخبارات، میگزین، تعلیمی ادارے، عدالتی نظام اور انسانی سوسائٹی خود چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ حالات کس قدر سنگین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان مظالم پر کچھ کرسکتے ہیں؟ اگر زیادہ کچھ نہ بھی کرسکیں، تو کم از کم اپنے ضمیر کی گواہی دے سکتے ہیں۔ ایک لفظ، ایک تحریر، ایک ووٹ، یا کسی مظلوم کی حمایت یہی تو وہ عمل ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اگر ہم اتنا بھی نہ کریں تو پھر حسینؑ کا تذکرہ صرف زبان تک محدود رہ جاتا ہے، عمل سے خالی ہو جاتا ہے اور جب تذکرہ، عمل کے بغیر ہو، تو پھر وہ پیغام کربلا کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔

سیدنا امام حسینؑ کی صداقت پر کوئی شک باقی نہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "الحسن والحسین سَیِّدا شبابِ اہل الجنۃ" (حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں) یہ حدیث کافی ہے، ہر اس سوال کا جواب دینے کے لیے جو حق و باطل کے درمیان فرق کو مشکوک کرنے کی کوشش کرے۔ کیا جنت کے سردار جھوٹ کی حمایت کرسکتے ہیں۔؟ ہرگز نہیں۔ نبیﷺ کا دوسرا فرمان مزید واضح کرتا ہے: "میں اس سے محبت کرتا ہوں، جو حسن و حسین سے محبت کرے اور اس سے دشمنی رکھتا ہوں، جو ان سے دشمنی کرے۔" یعنی جو شخص جان بوجھ کر حق کو پہچاننے کے باوجود باطل کا ساتھ دے، وہ دراصل حسینؑ کے راستے کی مخالفت کر رہا ہے اور جو حسینؑ کے راستے سے ہٹ جائے، اسے قیامت کے دن لازماً جواب دہ ہونا ہوگا۔ آج غزہ اور فلسطین کی سرزمین ہو یا کشمیر، شام، عراق یا یمن ہر طرف مظلوموں کا خون بہہ رہا ہے۔ مظلوم بچوں کی چیخیں، ماؤں کی آہیں اور بے گناہ جوانوں کی لاشیں، سب کربلا کی یاد دلاتی ہیں۔ ان کے زخم، حسینؑ کی سکینہؑ کے زخموں جیسے ہیں۔ آج بھی دنیا کے فرعون، نمرود اور یزید، نئے چہروں اور جھنڈوں کے ساتھ زندہ ہیں اور ان کے ساتھ دینے والے بعض مسلم حکمران بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔

افسوس کہ دنیا میں امن کے ٹھیکیدار کہلانے والے طاقتور ممالک صرف جنگ بیچتے ہیں۔ ان کے کاروبار کا دار و مدار انسانوں کے خون پر ہے۔ وہ ایک ہاتھ سے اسلحہ بیچتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے امن کی قراردادیں۔ عراق کو ملیا میٹ کر دینے کے بعد ایک "سوری" کہہ دینا کیا ان کا جرم دھو سکتا ہے۔؟ ایسے تمام افراد، ادارے اور حکمران جو ظلم پر خاموش ہیں یا کسی نہ کسی شکل میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں، جان لیں کہ وہ یزیدی صف میں کھڑے ہیں، حسینی نہیں۔ اور یاد رکھیں، نبیﷺ کا فرمان ہے: "اللہ تعالیٰ ظالم سے ضرور انتقام لیتا ہے، چاہے فوراً یا دیر سے اور اس شخص سے بھی انتقام لے گا جو مظلوم کو دیکھ کر بھی خاموش رہا، جبکہ وہ ظالم کا ہاتھ روک سکتا تھا۔" اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے: یا تو خاموشی کی سزا کے لیے تیار رہیں، یا حسینؑ کے راستے پر چل کر عزت اور غیرت کی زندگی گزاریں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر بشریٰ فرقان صاحبہ نے کہا کہ آج کی اس عظیم الشان کانفرنس میں مجھے جس عنوان پر اظہارِ خیال کا موقع دیا گیا ہے، وہ ہے: "حقیقی اسلامیت کی بیداری کے لیے سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نظامِ فکر۔" امام حسینؓ نے نہ صرف اپنی شہادت بلکہ اپنی پوری زندگی کے ذریعے امتِ مسلمہ کو ایک فکری نظام عطا کیا، جو ہمیں حقیقی اسلام کی شناخت، بیداری اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ اس نظام کی جڑیں اس وقت سے جڑی ہوئی ہیں، جب نبی کریمﷺ نے اپنی چادرِ مبارک کے سائے میں اہلِ کساء کو جمع فرمایا، جن میں حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ شامل تھے۔ یہ چاروں ہستیاں انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں اور ان کے کردار ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ ثناء فاطمہ نعیمی، پرنسپل جامعہ نعیمیہ للبنات اسلام آباد نے کہا کہ سانحہ کربلا میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کے معرکہ میں جو کردار ادا کیا، یزیدی فوجوں کے سامنے جس دلیری سے خطاب کیا اور یزید کے دربار میں جس طرح خطبہ ارشاد فرمایا، سب یزیدی خوفزدہ ہوگئے اور سیدہ نے خطبات مولا علی علیہ السلام کی یاد تازہ کر دی۔ یہ کانفرنس اپنے پیغام اور معنویت کے اعتبار سے بہت اہم تھی، یہ کانفرنس اتحاد امت کے حوالہ سے بھی اہل پاکستان کے لیے ایک اہم پیغام تھا۔ کانفرنس سے سید ناصر عباس شیرازی مرکزی رہنماء مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے بھی خطاب کیا اور نقابت کے فرائض ڈاکٹر محمد شیر سیالوی نے انجام دیئے۔ کمال ثانی اور علی رضا ارشد نے شہدائے کربلا کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔ کانفرنس کے اختتام پر ملک و ملت کے لیے دعائیں کی گئیں اور یوں کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام جاتا ہے کہ ہو جاتا ہے اور ان کے کھڑے ہوں ہے کہ ہم کے خلاف رہے ہیں ہیں اور وہ اپنی کے ساتھ نے کہا ہے اور کے لیے امت کے اپنی ا

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈی کیٹ 2025ء: 1 لاکھ 40 ہزار سے زائد امیدواروں کی رجسٹریشن
  • اگست کے دوران ٹیکسٹائل، خوراک، پیڑولیم اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز کی ایکسپورٹ میں کمی
  • دوحہ کانفرنس اور فیصلے
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • 16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس