(بابر شہزاد)وفاقی وزارتِ قومی صحت نے ملک بھر میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کرتے ہوئے تمام ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور انتظامی عملے کی چھٹیاں منسوخ کردیں۔

 وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال نے وفاق کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ صورتحال میں میری ترجیح عوام کی صحت کا تحفظ ہے،تمام ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور انتظامی عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔

میچ کے دوران بولر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا

 وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال نے تمام طبی عملے کو فوری طور پر ڈیوٹی پر حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے جنیوا اور قطر کے اپنے طے شدہ سرکاری دورے بھی منسوخ کر دیئے۔

مصطفیٰ کمال نے کہاکہ وفاقی ادارۂ صحت میں 24/7 ایمرجنسی کوئیک ریسپانس سینٹر قائم کر دیا گیا ہے، ایمرجنسی سینٹر جنگی حالات سے متعلق فوری ردعمل کیلئے فعال کر دیا گیاہے،تمام صوبائی و ضلعی ہیلتھ اتھارٹیز سے براہِ راست رابطے کا نظام قائم کر دیا ہے،صوبائی صحت سیکرٹریز کو وزارتِ صحت سے مستقل رابطے میں رہنے کی ہدایت کی ہے،اس کے علاوہ  تمام صوبوں کو ایمرجنسی پلان اپ ڈیٹ کرنے کا بھی پابند بنا دیا گیاہے۔

سندرفائرنگ؛ 2 افراد زخمی

  

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی سزا نہیں دی جا سکتی. سپریم کورٹ

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 اگست ۔2025 )سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر یا صفائی کا موقع دیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی بڑی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ فطری انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے رپورٹ کے مطابق جسٹس عقیل احمد عباسی نے اپنے تحریر کردہ 6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ بڑی سزا دینے کی صورت میں فطری انصاف کے اصول تقاضا کرتے ہیں کہ باقاعدہ انکوائری کی جائے اور سرکاری ملازم کو دفاع اور ذاتی سماعت کا مکمل موقع فراہم کیا جائے.

(جاری ہے)

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی فنڈز سے متعلق مقدمات میں خصوصی احتیاط اور مکمل شفافیت کے ساتھ انکوائری کی جانی چاہیے تاکہ اگر کوئی خورد برد یا بدعنوانی ہوئی ہو تو اس سے متعلقہ رقم بازیاب کی جا سکے اور ذمہ دار اہلکار کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے یہ فیصلہ جسٹس مسرت ہلالی کی سربراہی میں قائم بینچ نے سنایاجس میں جسٹس عقیل احمد عباسی بھی شامل تھے بینچ نے ملک محمد رمضان کی پنجاب سروس ٹربیونل لاہور کے 24 جنوری 2022 کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی.

یہ معاملہ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر/ڈسٹرکٹ کلیکٹر میانوالی کی جانب سے ملک محمد رمضان کو پنجاب ایمپلائز ایفیشنسی، ڈسپلن اینڈ اکاﺅنٹیبلٹی ایکٹ 2006 (پیڈا) کے تحت فنڈز کی خورد برد اور جعل سازی کے الزامات میں ملازمت سے برخاست کیے جانے سے متعلق ہے، رمضان پر الزام تھا کہ انہوں نے متعلقہ حکام سے دستخط کروا کر چیکوں کی رقم میں جعل سازی کے ذریعے اضافہ کیا.

انہوں نے پہلے محکمانہ اپیل دائر کی جو 11 نومبر 2016 کو مسترد کر دی گئی، بعد ازاں ان کی نظرثانی کی درخواست بھی 2 مارچ 2018 کو رد کر دی گئی جس کے بعد انہوں نے ٹربیونل سے رجوع کیا ٹربیونل نے ان کی اپیل 24 جنوری 2022 کو مسترد کر دی جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا. سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ چیکوں میں رقوم کی تبدیلی اور فنڈز کی مبینہ خورد برد کے الزامات کو حتمی شواہد کے ساتھ ثابت کرنا ضروری تھا اور اس سلسلے میں مخصوص تفصیلات سامنے لا کر ملزم کا سامنا کرایا جانا چاہیے تھا جسٹس عقیل کے مطابق لیکن نہ تو چیک کسی ہینڈ رائٹنگ ماہر کو تصدیق کے لیے بھیجے گئے نہ ہی انکوائری کے ایسے اقدامات نظر آتے ہیں فیصلے میں نشاندہی کی گئی کہ تحقیقات کرنے والے افسر اور شکایت کنندہ ایک ہی شخص، غلام مصطفیٰ شیخ تھے جو انہی چیکوں کے مصنف اور دستخط کنندہ بھی تھے جن میں تبدیلی کا الزام لگایا گیا عدالت نے نوٹ کیا کہ غلام مصطفیٰ کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی، اس لیے تفتیشی افسر کی جانبداری اور ملک رمضان کو جھوٹے مقدمے میں ملوث کیے جانے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا.

سپریم کورٹ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاملے میں احتیاط اور شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا انکوائری کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی مضبوط یا قابل اعتماد شواہد فراہم کیے گئے اس کے علاوہ، درخواست گزار کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیا گیا جبکہ انہیں ملازمت سے برخاست کرنے جیسی بڑی سزا سنا دی گئی. سپریم کورٹ نے اپیل منظور کرتے ہوئے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور درخواست گزار کو دوبارہ ملازمت پر بحال کرنے کا حکم جاری کیاساتھ ہی کیس کو متعلقہ محکمانہ اتھارٹی کو واپس بھیج دیا گیا تاکہ نئے سرے سے انکوائری کی جا سکے اور ملک رمضان کو پیڈا ایکٹ کی دفعات 9 اور 10 کے تحت صفائی کا مکمل موقع فراہم کیا جائے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسی انکوائری فیصلہ موصول ہونے کے 3 ماہ کے اندر مکمل کی جانی چاہیے.

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں سی ڈی اے کے شعبوں میں کیش لیس نظام نافذ کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام سے بونیر جرگہ وفد جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنما، ماربل انڈسٹری, کسان برادری کے نمائندوں کی ملاقات
  • سرکاری ملازم کو باقاعدہ انکوائری کیے بغیر ملازمت سے برخاست کرنے کی سزا نہیں دی جا سکتی. سپریم کورٹ
  • پنجاب کابینہ کی سرکاری ملازمین کی بیوہ کو تاحیات پینشن دینے کی منظوری
  • بھارت اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، سید مصطفی کمال
  • پنجاب کابینہ نے سرکاری ملازمین کی بیوہ کو تاحیات پینشن دینے کی منظوری دیدی
  • ہم نے کشمیر کی آزادی کی جنگ کراچی کی گلیوں میں لڑی ہے: مصطفیٰ کمال
  • ایران میں گرمی کی شدید لہر، دفاتر بند کرنے کا حکم
  • وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان سے بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کی ملاقات ، تجارت اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • فارن فنڈنگ کیس کو 3سال گزر گئے ،کسی کو سزا دی گئی نہ ہی فیصلہ نافذ ہوا،اکبر ایس بابر