پاک بھارت تصادم: 2019 اور 2025 کے فوجی اور سفارتی ردعمل میں کیا فرق ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
اہم بات یہ ہے کہ 2019 حملے کے بعد بھارت کو بھرپور عالمی حمایت ملی جس کے ذریعے سے اُس نے نہ صرف مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کے دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا بلکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی۔
اس کے برعکس 2025 میں بھارت سفارتی حمایت سے مکمل محروم رہا اور دنیا بھر میں بھارت کے فالس فلیگ آپریشن بیانیے کو تقویت ملی۔
پلوامہ14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ ایک حملہ ہوا جس میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ بھی بعض قرآئن و شواہد کے اعتبار سے ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، لیکن بھارت نے اس حملے کو جواز بنا کر پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر کے علاقے بالاکوٹ میں فوجی جارحیت کی جس کے جواب میں پاکستان نے 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور ایک طیارے کے پائلٹ ابھینندن کو گرفتار بھی کیا۔
پہلگاماپریل 2025 میں بھارت نے ایک بار پھر اُسی تاریخ کو دہراتے ہوئے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد ملک بھر میں میڈیا کے ذریعے جنگی جنون برپا کیا۔ بنا تحقیق اور بنا ثبوت حملے کے ساتھ ہی اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا، لیکن اِس بار اُسے دنیا بھر میں کہیں سے بھی حمایت نہیں ملی، بلکہ 3 بڑی طاقتوں امریکا، روس اور چین نے بھارت مؤقف کی حمایت کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر زور دیا۔
ان 2 واقعات کے ضمن میں فوجی اور سفارتی کاراوئیاں کس طرح سے مختلف تھیں اُس کا جائزہ لیتے ہیں۔
پلوامہ حملہ اور آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ26 فروری 2019 کو بھارت نے پلوامہ حملے کو جواز بنا کر آزاد کشمیر کے علاقے بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ اُس نے پلوامہ حملے کی ذمے دار جیش محمد کے تربیتی کیمپ کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ 1971 کے بعد پہلا موقع تھا کہ بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کو عبور کیا۔
اس کے جواب میں 27 فروری کو پاک فضائیہ نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کر کے 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار بھی کیا۔
26 فروری 2019 کے بعد بھارتی اقداماتاس حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کر دیے، تجارت کو روک دیا گیا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں۔ اس حملے کے بعد بھارت نے عالمی سطح پر بھرپور مہم چلائی کہ پاکستان کو دہشتگردوں کا ساتھی منوایا جائے۔
پاکستان کا ردعملبھارتی جارحیت کے بعد پاکستان نے 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا اور بھارتی پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیا اور ابھینندن کی رہائی کے ذریعے سے جنگ کے خطرے کو ٹال دیا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ رہے۔
سفارتی اقدامات کی ذیل میں پاکستان نے دوستی بس سروس معطل کی۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو معطل کیا، بھارتی سفارتی عملے کی تعداد میں کمی کی اور بھارتی ہائی کمشنر کو وطن واپس بھجوا دیا۔
پلوامہ واقعے پر عالمی ردعملپلوامہ واقعے اور اُس کے بہانے پاکستان پر حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات سخت کشیدہ ہو گئے تھے۔ اُس واقعے کے بعد امریکا، برطانیہ اور فرانس نے بھارتی مؤقف کی حمایت کی اور مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔
اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی لیکن دونوں ملکوں نے اُسے مسترد کر دیا۔
چین نے پاکستان کی حمایت کی لیکن عالمی دباؤ کے تحت مولانا مسعود اظہر کی اقوام متحدہ کی دہشتگردوں کی فہرست میں شمولیت پر رضامندی ظاہر کی۔
اُس واقعے کے بعد 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی جس پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا۔
پہلگام واقعہ22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا جس میں 26 سیاح مارے گئے۔ بھارت نے اس کا الزام فوراً پاکستان پر عائد کر کے میڈیا کے ذریعے اور سیاسی بیانات کے ذریعے سے جنگی جنون پیدا کر دیا۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب بھارتی ریاست بہار میں انتخابات جاری تھے جہاں انتخابی مہم میں اس واقعے کو استعمال کیا گیا۔
پہلگام واقعے کے بعد بھارتی اقداماتپہلگام واقعے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا۔ واہگہ اٹاری بارڈر کو بند کیا، پاکستان کے سفیروں کو ملک بدر کیا، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کیے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارتی مسلح افواج کو پاکستان پر حملے کی اجازت دی۔
پاکستان کے جوابی اقداماتپاکستان نے جوابی اقدامات کرتے ہوئے بھارتی سفارتی عملے کو محدود کر کے ملٹری اتاشیوں اور سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ واہگہ بارڈر بند کر دیا گیا، شملہ معاہدہ معطل اور بھارت کے لیے فضائی حدود بند کر دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود بھارتی شہریوں کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔
بھارت کی فوجی کارروائی7 مئی کو بھارت نے 6 مختلف مقامات پر 24 میزائل حملے کیے، جن میں پاکستان کے 26 سویلین شہری شہید ہوئے۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سویلین آبادیوں اور مساجد کو نشانہ بنایا۔
پاکستان کی فوجی کارروائیپاکستان نے کامیاب فوجی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے 5 جنگی جہاز جن میں 3 جدید رفائل طیارے بھی شامل تھے تباہ کر دیے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے بھارت کے ڈرونز بھی تباہ کیے اور لائن آف کنٹرول کے پار بھارت میں کئی چوکیاں بھی تباہ کر دیں۔
بھارت کی سفارتی ناکامیپاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کو بھارت کے اپنے سٹریٹجک اتحادی امریکا نے شرمناک قرار دیا۔ چین نے بھی اس عمل کو شرمناک قرار دیا اور دنیا کے کئی ممالک نے دونوں ملکوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔
اس سے قبل پہلگام حملے کے بعد جب بھارت نے بغیر ثبوت پاکستان پر الزام عائد کر دیا تو دنیا اور بین الاقوامی میڈیا میں اُس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور خاص طور پر اِس وجہ سے بھی کہ ماضی میں بھارت اس طرح کے غیر سنجیدہ الزامات لگاتا چلا آیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس واقعے کو نظرانداز کیا گیا، حتیٰ کہ بھارت کی مشہور صحافی برکھا دت نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ میں اس وقت نیویارک میں ہوں اور ٹی وی اسکرینوں پر کہیں یہ واقعہ دکھائی نہیں دیتا، جی کرتا ہے کہ ٹی وی توڑ دوں۔
بھارت کا بیانیہ اِس لیے بھی ناکام ہوا کہ اُس کے اپنے حکام جیسا کہ سابق ’را‘ چیف امرجیت سنگھ اور دیگر فوجی حکام نے اُسے سیکیورٹی ناکامی قرار دیا۔
بھارت کی جانب سے ایک بین الاقوامی سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور سفیروں کی بے دخلی نے اُس کی جانب سے اُٹھائے گئے اقدامات کو مزید بے اثر کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کشمیر کے علاقے فوجی کارروائی بین الاقوامی کے بعد بھارت واقعے کے بعد دونوں ملکوں حملے کے بعد پاکستان پر پاکستان نے نے پاکستان پاکستان کے بھارت نے ا میں بھارت اور بھارت بھارت کی نے بھارت کے ذریعے بھارت کے کو بھارت س واقعے کر دیا کے لیے
پڑھیں:
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
ریاض احمدچودھری
انڈین اٹاامک انرجی ریگولیشن بورڈ نے براہموس میزائلوںکی سٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد وہاں سے جوہری مواد سے تابکاری کا الرٹ جاری کیا ہے۔بھارتی حکومت نے انڈین نیشنل ریڈیولاجیکل سیفٹی ڈویژن کے ذریعے، بیاس، پنجاب کے قریب 10مئی کو برہموس میزائل اسٹوریج سائٹ پر پاکستان کے حملے کے بعد 3سے 5کلومیٹر کے دائر ے میں مقیم لوگوں کو تابکاری کے اخراج کی وجہ سے فوری طورپر انخلاء کرنے گھرسے باہر نہ نکلنے ، کھڑکیاں بند کرنے، زیر زمین پانی کے استعمال سے گریز کرنے اور باہر نکلنے کی صورت میں حفاظتی ماسک پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال سے واضح ہوتاہے کہ بھارت کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے جس سے خطے میں ماحولیاتی خرابی پیداہونے کے ساتھ ساتھ تابکاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔
بھارت کے جوہری پروگرام کو فوری طور پر بند کیاجانا چاہیے۔ پاکستان اب قانونی طور پر اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا سکتا ہے، آئی اے ای اے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے اداروں پر زور دے سکتا ہے کہ وہ بھارت کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھیں اور پابندیوں پر غور کریں۔بھارت کا ٹریک ریکارڈ، بشمول مارچ 2022میں پاکستان پر برہموس میزائل کی حادثاتی فائرنگ، لاپرواہی کے خطرناک رحجان کی عکاسی کرتا ہے۔
مودی حکومت جوہری مواد کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، جس کے باعث یورینیم چوری، اسمگلنگ اور ایٹمی مواد کی بدانتظامی بھارت کی تاریخ کی سنگین مثال بن چکی ہے۔یہ تمام صورتحال بھارتی سیکیورٹی کی ناکامی اور مودی کی نااہلی و غفلت کو بے نقاب کرتی ہے، بین الاقوامی میڈیا مشرقی جھارکھنڈ ریاست میں تین سرکاری کانوں سے نکلنے والے تابکاری فضلے کو صحت کے لیے سنگین خطرہ قرار دے چکا ہے۔ انتہا پسند مودی کا جوہری جنون عوام کی صحت اور زندگیوں کو تابکاری کے سنگین خطرات سے دوچار کر رہا ہے، جھارکھنڈ کے یورینیم ذخائر کو جوہری ہتھیاروں سے جوڑنا مودی حکومت کے سیاسی ہتھکنڈوں اور غیر ذمہ داری کا واضح ثبوت ہے۔ مودی حکومت کا جوہری ایجنڈا خطے میں کشیدگی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔امریکہ کے دارا لحکومت واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل تھریٹ انڈیکس کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔جو دنیا کے170ممالک کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت، ان کے پھیلاؤ اور عدم پھیلاؤ پر تحقیق کرتا ہے۔بعد از تحقیقات یہ ادارہ ایک رپورٹ شائع کرتا ہے،جس میں اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ کس ملک کے ایٹمی ہتھیار زیادہ محفوظ ہیں اور کس ملک کا حفاظتی انتظام ناقص ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کی جوہری، تابکاری سلامتی کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان جوہری مواد کی سکیورٹی امور میں 19ویں نمبر پر براجمان ہے۔پاکستان کے بعد ہندوستان، ایران اور شمالی کوریا کا درجہ ہے۔ پاکستان کا رواں سال 3 مزید پوائنٹس حاصل کرکے جوہری مواد کی سلامتی میں اسکور 49پر پہنچا، پاکستان نے 2020ء کے مقابلے میں 3پوائنٹس، 2012ء کے مقابلے میں 18 پوائنٹس بہتری دکھائی۔ ہندوستان میں جوہری سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث سکور جوں کا توں یعنی 40 رہا، جوہری تنصیبات کی سلامتی میں پاکستان 47میں سے 32 ویں نمبر پر رہا ہے۔
بھارتی صحافی اور سماجی کارکن کاویہ کرناٹیک نے کہا ہے کہ بھارت کے جوہری طاقت ہونے کی اصل قیمت جھارکھنڈ کے بھولے بھالے لوگ اور تباہ شدہ دیہات ادا کررہے ہیں جہاں جوہری فضلہ پھینکنے کی وجہ سے لوگوں کو جلتی ہوئی زمین، زہر آلود پانی اور آہستہ آہستہ موت کا سامنا ہے۔ کاویہ نے انکشاف کیا کہ جھارکھنڈ جو بھارت کے یورینیم اور کوئلے کا سب سے بڑا حصہ پیدا کرتا ہے، بنجر زمین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ہم نے انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے معذوری دی ہے۔ جادو گورا نامی گائوں کی حالت المناک ہے کہ وہاں ہرپانچ میں سے ایک عورت اسقاط حمل سے گزرتی ہے کیونکہ ہم نے اپنا ایٹمی فضلہ وہاں پھینک دیا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر تیسرا آدمی کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہے جبکہ لوگ اپنے پورے جسم پر دھبوں اور پگھلے ہوئے چہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ آدھے بچوں کو ذہنی کمزوری کا سامنا ہے۔ کوئلہ پیدا کرنے والے ایک علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کی وجہ سے مٹی خود بخودجل رہی ہے اور لوگ آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
کاویہ نے حکومت کے ترقی کے دعوئوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ بھارت وشوا گرو بن گیا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ممبئی میں بڑی فلک بوس عمارتیں ہیں لیکن اس میں دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی بھی ہے جہاں تقریبا بیس لوگ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں جو بارش میں پانی سے بھر جاتا ہے۔ دارالحکومت نئی دہلی میں لوگوں کو ایسا پانی پلایا جاتا ہے جو پیٹرول کی طرح دکھتا ہے۔آپ باقی بھارت کی صورتحال کا تصور اسی سے کر سکتے ہیں۔شہری خوشحالی کے سرکاری دعوئوںکی مذمت کرتے ہوئے کاویہ نے کہاکہ ہماری فلموں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ممبئی اور دہلی رہنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ بھارتی شہر دنیا میں سب سے بدترین ہیں ، چاہے وہ آلودگی کا معاملہ ہو یا قدرت سے ہم آہنگی کا۔کچی آبادیوں میں بھی وائٹنر جیسی منشیات پہنچ چکی ہیں۔جب ہم باہر نکلتے ہیں، خاص طور پر خواتین کے طور پر، ہمیں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ صحافی ایسی چیزوں کو رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ اسے بے نقاب نہیں کرنا چاہتے۔کاویہ کے انکشافات بھارت کی نام نہاد اقتصادی ترقی کے دعوئوں اور ماحولیاتی تباہی کی قلعی کھول دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب ترین علاقے کس طرح بھارت کے جوہری اور صنعتی طاقت کے حصول کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔