غزہ: امداد پر اسرائیلی بندش کو 9 ہفتے سے زائد ہوگئے، ورلڈ سینٹرل کچن
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے امداد پر بندش 9 ہفتے سے زائد سے جاری ہے۔
خبر ایجنسی کے مطابق ورلڈ سینٹرل کچن کا امدادی سامان ختم ہونے پر غزہ میں کام روکنے کا اعلان سامنے آیا ہے۔
ورلڈ سینٹرل کچن کا اپنے جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ امدادی سامان ختم ہونے پر غزہ میں کام روک رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ناکہ بندی ختم کیے بغیر غزہ میں امداد نہیں لاسکتے۔
خبرایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ہر قسم کی امداد 2 مارچ سے روک رکھی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی غزہ کے پناہ گزین اسکول اور مارکیٹ پر بمباری سے دو صحافیوں سمیت 40 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے۔
خان یونس میں اسرائیلی فوج پر حماس کی مارٹر گولوں سے شیلنگ سے کئی اسرائیلی فوجیوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بلوچستان، اسرائیلی دلچسپی کا اگلا ہدف؟
اسلام ٹائمز: اسرائیل نے السویدا میں قائم کردہ نیٹ ورک کے ذریعے شامی حکومت کی عسکری بحالی کو روکنے، حزب اللہ کے جنوبی اثر کو محدود کرنے اور اردن کی سرحد کے قریب اپنی موجودگی کو اسٹریٹیجک تحفظ دینے میں کامیابی حاصل کی۔ شام کی طرح، بلوچستان میں بھی مذہبی و نسلی جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ یہاں ہدف ایران اور پاکستان دونوں ہیں اور بالواسطہ طور پر چین بھی۔ گوادر اور چاہ بہار، دو اسٹریٹیجک بندرگاہیں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے قلب میں واقع ہیں۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
21ویں صدی کی جنگیں صرف ٹینکوں اور بموں سے نہیں، بلکہ بیانیوں، پراکسی نیٹ ورکس، شناختی سیاست، اور جغرافیائی کمزوریوں کو ہدف بنا کر لڑی جا رہی ہیں۔ اسرائیل ان جدید طریقہ ہائے جنگ کا ماہر بن چکا ہے، اور اب اس کا نیا تجربہ گاہ بن رہا ہے، پاکستانی بلوچستان۔ یہ محض ایک علاقائی معاملہ نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کو جنوبی ایشیا میں ریپلیکٹ کرنے کی منظم کوشش ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں اسرائیل نے شام، لبنان اور کردستان جیسے خطوں میں مذہبی و لسانی اقلیتوں کو اسٹریٹیجک اثاثے بناکر استعمال کیا۔ اب انہی تجربات کو بلوچستان کے تناظر میں لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ، مڈل ایسٹ آئی، انٹرسیپٹ اور ہیومین رائٹس واچ جیسی باوثوق بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی ادارہ میمری (MEMRI) اور اس سے منسلک نیٹ ورکس نے "بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ" کے نام سے ایک نیا تحقیقی فریم ورک جون 2025ء میں قائم کیا، جس کا بانی سابق اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کرنل یگال کرمون ہے۔
میمری کا پسِ منظر کوئی خالص تحقیقی یا تعلیمی ادارے جیسا نہیں۔ 1998ء سے قائم یہ ادارہ خالصتاً اسرائیلی پالیسی ساز اداروں اور مغربی میڈیا کو "ترجمہ شدہ" عرب، ترک اور فارسی مواد فراہم کرتا ہے، مگر اس کا مقصد صرف معلومات دینا نہیں بلکہ مخصوص بیانیہ تراشنا ہے۔ اس کے پیچھے کام کرنے والی ٹیم کا اکثر تعلق اسرائیلی ڈیفنس فورسز، سائبر یونٹ 8200 اور نیشنل سیکیورٹی کونسل سے رہ چکا ہے۔ امریکی نیشنل پبلک ریڈیو (NPR) اور پرو پبلکا نے 2022ء میں اپنی ایک تحقیق میں MEMRI کو اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کا soft propaganda arm قرار دیا تھا۔ بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ کے ذریعے جاری بیانیے میں دعویٰ کیا گیا کہ "بلوچ قوم" پاکستان اور ایران کی ریاستوں سے نالاں ہے، اور وہ عالمی برادری، خاص طور پر مغرب، کی حمایت سے ایک خودمختار وجود قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس پروجیکٹ میں “میر یار بلوچ” جیسے کرداروں کو "مقبول ترین بلوچ اسکالر" ظاہر کیا گیا ہے، حالانکہ بلوچ نیشنل موومنٹ سمیت دیگر حقیقی بلوچ قوم پرست تنظیمیں اسے ایک "جعلی ڈیجیٹل کردار" قرار دیتی رہی ہیں۔ 2025ء میں خود BNM کے ایک اہم رکن نیاز بلوچ نے اس کردار کو بھارت اور اسرائیل کے سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے تیار کردہ بیانیہ ساز ہتھیار کہا۔
یہی حربہ اسرائیل شام کے جنوبی صوبے السویدا میں آزماء چکا ہے۔ وہاں دروزی اقلیت کو بشار الاسد حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرنے کے نام پر اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس نے بفر زون قائم کیا۔ "انٹرنیشنل کرائسس گروپ" کی اپریل 2025ء کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے السویدا میں قائم کردہ نیٹ ورک کے ذریعے شامی حکومت کی عسکری بحالی کو روکنے، حزب اللہ کے جنوبی اثر کو محدود کرنے اور اردن کی سرحد کے قریب اپنی موجودگی کو اسٹریٹیجک تحفظ دینے میں کامیابی حاصل کی۔ شام کی طرح، بلوچستان میں بھی مذہبی و نسلی جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ یہاں ہدف ایران اور پاکستان دونوں ہیں اور بالواسطہ طور پر چین بھی۔ گوادر اور چاہ بہار، دو اسٹریٹیجک بندرگاہیں، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے قلب میں واقع ہیں۔ چین کی اسٹریٹیجک موجودگی کو محدود کرنے کے لیے اسرائیل اور بھارت بلوچستان کو نرم بطن (soft underbelly) سمجھتے ہیں۔
2024ء میں امریکی کانگریس کی ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے ذیلی اجلاس میں بھی بلوچستان کے "ہیومن رائٹس ایشوز" پر علیحدہ سیشن رکھا گیا، جس میں "بلوچ قوم کے حق خودارادیت" پر بحث ہوئی۔ یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ مغرب اس خطے کو کس طرح عالمی تزویراتی کھیل میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ریاست فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو فوجی جارحیت سے کچلتی رہی ہے، وہی ریاست بلوچستان، کردستان، اور دروزی اقلیتوں کے حق خودارادیت کے لیے زبردست ہمدردی کا اظہار کر رہی ہے۔ یہ ہمدردی حقیقی نہیں، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ فلسطینی جدوجہد کسی دوسری تحریک سے فکری یا سیاسی اتحاد نہ بنا سکے۔ اگر بلوچ یا کرد فلسطینیوں سے نظریاتی ہم آہنگی پیدا کر لیں، تو اسرائیل کے لیے یہ ایک اسٹریٹیجک دھچکا ہوگا۔ اسی لیے ہر تحریک کو علیحدہ رکھا جاتا ہے، اور الگ الگ ایجنڈوں پر چلایا جاتا ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ نہیں کہ اسرائیل بلوچستان میں کیا کر رہا ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کیا نہیں کر رہے۔
اگر یہ ریاستیں اپنے محروم اور حساس علاقوں میں داخلی اصلاحات، سیاسی شمولیت، شفاف وسائل کی تقسیم اور انسانی حقوق کی پاسداری کو اپنا لائحہ عمل نہ بنائیں، تو بیرونی مداخلت محض ایک "عذر" سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ تحریکوں کی قیادت کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہر مسکراتا ہمدرد درحقیقت ایک موقع پرست ہو سکتا ہے۔ مصافحہ کرتے وقت دیکھنا ہوگا کہ ہاتھ نرم ہے یا خنجر پوشیدہ ہے۔ اور اگر قیادت محض بیانیے اور فنڈنگ کے فریب میں آگئی، تو ان تحریکوں کا مقدر وہی ہوگا جو کیمپ ڈیوڈ کے بعد عرب قوم پرستی کا ہوا۔ منتشر، معزول، اور تاریخ کے حاشیے پر۔ اگر مشرقِ وسطیٰ کی تباہی سے کچھ سیکھنا ہے تو یہی کہ اصل آزادی اور خودمختاری داخلی خود احتسابی، شراکت داری، اور عوامی شمولیت سے آتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اسرائیل جیسے ریاستی فنکار خاموشی سے ایسے علاقے اور بیانیے ہتھیا لیتے ہیں جن کی جڑیں پہلے ہی کھوکھلی کر دی گئی ہوں۔