UrduPoint:
2025-05-08@16:23:45 GMT

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مئی 2025ء) لیکن ابلاغ اور صحافت بغیر کسی میڈیم کے اپنا وجود نہیں رکھتے بعینہ میڈیم کے بدلتے ساتھ صحافت کے اصول وضوابط بھی بدل جاتے ہیں۔ خبر کا زاویہ، پیش کرنے کا انداز اور طریقہ کار بھی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خبر اور تجزیے کا مواد، الفاظ کا چناؤ اور زبان کا استعمال سب نیا ہو جاتا ہے۔

اخبار کا صحافی، نیوز چینل کے صحافی سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح نیوز چینل کا صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی سے ذرا ہٹ کے ہو گا۔

ایک اور بات جو بڑی مشکل سے سمجھ آئی وہ یہ کہ نئے صحافیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیا میڈیم پرانے میڈیم کو کھا جاتا ہے، زبان کھا جاتا ہے اور اس کا لہجہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ مواد ڈکار جاتا ہے اور کہیں کہیں تو ورکنگ جرنلسٹس کو بھی چبا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر آپ کی عمر تیس سال سے کم ہے تو آپ کو اخبار یا پرنٹ جرنلزم کے چند ایک ناموں کے علاوہ کوئی صحافی یاد نہیں ہو گا۔

آپ کو ''کیپٹل ٹاک‘‘ تو یاد ہو گا مگر ''قلم کمان‘‘ شاید آپ کی یادداشت کا حصہ نہ ہو۔ حالانکہ ''قلم کمان‘‘ کے عنوان سے کالم بھی حامد میر لکھتے ہیں جو ''کیپٹل ٹاک‘‘ کے نام سے ٹاک شو کرتے ہیں۔

اسی طرح ڈیجیٹل جرنلزم کے موجودہ زمانے میں آپ ان صحافتی ناموں کو زیادہ پہچانتے ہیں جو آپ کے موبائل کی سکرین پہ زیادہ آتے ہیں۔ یا آپ جن کو زیادہ لائک یا فالو کر چکے ہیں یا آپ ان کی طویل دورانیے کی کوئی ویڈیو دیکھ چکے ہیں۔گو کہ صحافتی میڈیم تو ہمیشہ سے تبدیل ہوتے آئے ہیں۔ صحافت اخبار سے ریڈیو، ریڈیو سے ٹی وی اور ٹی وی سے ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے تمام تر لوازمات سمیت شفٹ ہوتی چلی گئی۔

مگر اب کی بار ایک باریک مگر بہت واضع فرق نظر آرہا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے جتنے بھی میڈیم موجود تھے، وہ صحافی کے صحافتی وجود کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ صحافی ہی خبر اور تجزیہ کا مالک ہوتا تھا۔ ''ایکسکلوسو‘‘ یا ''سکوپ‘‘ دینا کلی طور پر صحافی کا اختیار ہوتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا نے صحافی سے یہ انفرادیت چھین لی ہے۔

اب یہ ممکن ہے ایک ہی جلسے کی کوریج کرتے وقت ایک پیشہ ور صحافی سے زیادہ ساتھ کھڑے لڑکے یا لڑکی جو کسی صحافتی ادارے سے وابستہ نہیں بلکہ انفرادی طور پر کسی سوشل میڈیاایپلیکیشن پر اپنے اکاؤنٹ سے کوور کر رہا یا رہی ہے کے لائکس یا شیئرز زیادہ ہوں۔ یعنی اس کی خبر زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہو۔ اور تو اور اسے کسی ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز یا پیمرا کی پروا بھی نہیں ہوتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خبر یا اطلاع پہ کسی کی اجارہ داری اصولی طور پر درست ہے یا رائے سازی کسی خاص ادارے کے کنٹرول میں ہی ہونی چاہیے تو ہر ذی شعور کا جواب ہو گا کہ نہیں خبر کیسے کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ آئین تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے نہ کہ صرف صحافیوں کو۔

ایک اور فرق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے صحافیوں کو خبر کے ردعمل کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کیوں کہ عوامی ردعمل کاکوئی طریقہ کار نہیں تھا۔

اور خط بنام مدیر یا لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تنقید چھاپنے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ اب توادھر آپ ٹویٹ کرتے ہیں ادھر کمنٹس میں آپ کا حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے کے میڈیا کو بہت زعم تھا کہ عوام کی رائے سازی انہی کا اختیار ہے۔ عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے حکومتیں ''پی ٹی وی‘‘ جیسے اداروں کو استعمال کرتی تھیں۔

اب تو ہر شخص کے پاس میڈیم ہے۔ کیمرہ ہے، جگہ ہے، لوگوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ سو رائے پر اثر انداز ہونا اب صرف پیشہ ور صحافیوں کا ہی فن نہیں رہا۔آپ کسی بڑے سیاسی لیڈر کو مین سٹریم میڈیا سے بین کروا دیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ اس کی مقبولیت یا عوام تک رسائی میں فرق نہیں آتا۔ اس صورتحال میں صرف وہ صحافی بقاء پا جائیں گے جنہوں نے خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بڑی شخصیات پہلے صرف صحافیوں کو انٹرویو دیتی تھیں اب تو ان کے لیے بھی میدان کھلا ہے۔ یو ٹیوبرز، پاڈ کاسٹرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز، اسٹینڈ اپ کمیڈینز نہ صرف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں بلکہ سیاسی معاملات پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں اور ان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد عام صحافیوں سے زیادہ ہے۔

اور یہ سب لوگ خبر یا تجزیہ کے مجوزہ اصولوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انہیں یہ صحافتی بے راہ روی کی راہ مین سٹریم میڈیا کے لوگوں نے ہی دکھائی ہے۔

جب بڑے چینلز، اخبارات اور صحافی سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈروں کے بیانیے کے وکیل بن جائیں گے تو ان غیر تربیت یافتہ ''صحافیوں‘‘ کو کون روک سکتا ہے۔ صحافتی اقدار میں ''غیر جانبداری‘‘کے اصول کے پہلے قاتل بڑے بڑے میڈیا گروپس ہیں۔ اب وہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگ غیر پیشہ وارانہ ہیں ہاں وہ آپ کے پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں۔

وہاں آپ کی اجارہ داری ہے جیسے آپ نے میڈیا پڑھانے والے اساتذہ کو کبھی پریس کلب میں داخل ہونے نہیں دیا اسی طرح آپ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں کے لیے بھی گیٹ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن مین سٹریم میڈیا اور صحافیوں کے لیے خبر بلکہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ خبر، تجزیے اور رائے سازی پر اب آپ کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کو صحافی سے کرتے ہیں جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ہوگا   ، خواجہ آصف کا بھارت کو دو ٹوک پیغام

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت اور مودی سرکار کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ اگر ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ہوگا اور ہماری سلامتی کو خطرہ ہوا تو پوری جارحیت سے مقابلہ کریں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقسیم نہ ہونے پر سیاستدانوں کو عوام کا شکر گزار ہونا چاہیے، بھارت میں تقسیم ہے لیکن ہمارے یہاں تقسیم نہیں اور یہ خوش قسمتی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم قومی مسئلے پر بیٹھنے کو تیار ہیں لیکن پی ٹی آئی ہر چیز کو مشروط کر رہی ہے، پی ٹی آئی گزشتہ روز بریفنگ میں شریک نہیں ہوئی اور وہ اپنا ذاتی مسئلہ لے کر بیٹھے ہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھارتی پائلٹ ابھینندن کو چائے پلا کر راتوں رات بھیج کر ظلم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکا کے دباؤ میں کئی مواقع گنوا دیئے، افغان جنگ سے ہمارا کیا تعلق تھا؟، آج ہم ماضی کی غلطیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں، ضیاء الحق ، یحییٰ خان ، پرویز مشرف، ایوب خان کے فیصلوں سے ملک کو نقصان ہوا، ماضی میں کہا جاتا تھا ایوب خان نے پاکستان کا پانی بیچا ہے، میرے نزدیک ایوب خان پاکستان کیلئے کام نہیں کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی بھارت کی پراکسی وار ہے، ہماری سرحدوں کے دونوں طرف دشمن موجود ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کا مذہب سے تعلق نہیں ، یہ کرائے کے لوگ ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی اور بی ایل اے بھارت کی پراکسیز ہیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہادر فوج ہے جس نے ماضی میں قربانیاں دیں اور اب بھی دے رہی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جنگ کے مترادف ہوگی، بھارت نے پانی روکنے کیلئے کوئی اسٹرکچر بنایا تو اسے تباہ کر دیں گے، آئندہ جنگیں پانی پر ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور نیتن یاہو میں کوئی فرق نہیں، مودی نے کوئی غلطی کی تو ایسا جواب دیں گے جو تاریخ میں لکھا جائے گا، نیتن یاہو جیسے اقدامات کئے تو پاکستان ایسا جواب دےگا کہ تاریخ یاد رکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اندازے ہیں کہ جنگ ایل او سی تک محدود رہے گی لیکن جنگ شروع ہوتی ہے تو اس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، نریندرمودی اس وقت ذاتی انا اور ووٹوں کی جنگ لڑ رہا ہے اور بھارت نے حملہ کیا تو ہمارا جواب اس سے زیادہ سخت ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مئی کے آخر میں ندی نالوں اور نہروں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے، اگر اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ بھارت نے پانی کا بہاؤ روکا ہے تو ہم اس مسئلے پر آواز اٹھائیں گے ،2 مئی تک پانی کا بہاؤ 87 ہزار کیوسک ریکارڈ ہوا تھا، اگر پانی کے بہاؤ میں کمی آئی تو اس پر حکومتی سطح پر کمیٹی بلانی چاہیے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • جب بھی شیر آتا ہے سب کچھ کھا جاتا ہے
  • پاک بھارت کشیدگی؛ بھارتی صحافی آگ میں گھی ڈالنے لگے
  • سیکریٹری تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ندیم محبوب کو سیکرٹری قومی صحت کا اضافی چارج بھی تفویض
  •  بھارتی حملے، پاکستان ایئرفورس نے دشمن کو ایک چانس دیاتھا، آئندہ کچھ گھنٹوں یا دنوں میں ردعمل دیکھیں گے اور موثر جواب دیا جائے گا:لیفٹیننٹ جنرل (ر)عامر ریاض
  • دنیا کی صلیب پر لٹکی ہوئی انسانیت
  • ججز ٹرانسفر کے حق میں ہوں، ابھی رائے نہیں دوں گا، معاملہ زیر سماعت ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • پاکستان مخالف بیان دینے سے انکار، بھارتی نوجوان نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دیا
  • بھارت میں آزادی صحافت پر قدغن، 36 صحافی قید، درجنوں دہشتگردی کے مقدمات
  • ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ہوگا   ، خواجہ آصف کا بھارت کو دو ٹوک پیغام