UrduPoint:
2025-09-21@20:36:44 GMT

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مئی 2025ء) لیکن ابلاغ اور صحافت بغیر کسی میڈیم کے اپنا وجود نہیں رکھتے بعینہ میڈیم کے بدلتے ساتھ صحافت کے اصول وضوابط بھی بدل جاتے ہیں۔ خبر کا زاویہ، پیش کرنے کا انداز اور طریقہ کار بھی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خبر اور تجزیے کا مواد، الفاظ کا چناؤ اور زبان کا استعمال سب نیا ہو جاتا ہے۔

اخبار کا صحافی، نیوز چینل کے صحافی سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح نیوز چینل کا صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی سے ذرا ہٹ کے ہو گا۔

ایک اور بات جو بڑی مشکل سے سمجھ آئی وہ یہ کہ نئے صحافیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیا میڈیم پرانے میڈیم کو کھا جاتا ہے، زبان کھا جاتا ہے اور اس کا لہجہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ مواد ڈکار جاتا ہے اور کہیں کہیں تو ورکنگ جرنلسٹس کو بھی چبا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر آپ کی عمر تیس سال سے کم ہے تو آپ کو اخبار یا پرنٹ جرنلزم کے چند ایک ناموں کے علاوہ کوئی صحافی یاد نہیں ہو گا۔

آپ کو ''کیپٹل ٹاک‘‘ تو یاد ہو گا مگر ''قلم کمان‘‘ شاید آپ کی یادداشت کا حصہ نہ ہو۔ حالانکہ ''قلم کمان‘‘ کے عنوان سے کالم بھی حامد میر لکھتے ہیں جو ''کیپٹل ٹاک‘‘ کے نام سے ٹاک شو کرتے ہیں۔

اسی طرح ڈیجیٹل جرنلزم کے موجودہ زمانے میں آپ ان صحافتی ناموں کو زیادہ پہچانتے ہیں جو آپ کے موبائل کی سکرین پہ زیادہ آتے ہیں۔ یا آپ جن کو زیادہ لائک یا فالو کر چکے ہیں یا آپ ان کی طویل دورانیے کی کوئی ویڈیو دیکھ چکے ہیں۔گو کہ صحافتی میڈیم تو ہمیشہ سے تبدیل ہوتے آئے ہیں۔ صحافت اخبار سے ریڈیو، ریڈیو سے ٹی وی اور ٹی وی سے ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے تمام تر لوازمات سمیت شفٹ ہوتی چلی گئی۔

مگر اب کی بار ایک باریک مگر بہت واضع فرق نظر آرہا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے جتنے بھی میڈیم موجود تھے، وہ صحافی کے صحافتی وجود کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ صحافی ہی خبر اور تجزیہ کا مالک ہوتا تھا۔ ''ایکسکلوسو‘‘ یا ''سکوپ‘‘ دینا کلی طور پر صحافی کا اختیار ہوتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا نے صحافی سے یہ انفرادیت چھین لی ہے۔

اب یہ ممکن ہے ایک ہی جلسے کی کوریج کرتے وقت ایک پیشہ ور صحافی سے زیادہ ساتھ کھڑے لڑکے یا لڑکی جو کسی صحافتی ادارے سے وابستہ نہیں بلکہ انفرادی طور پر کسی سوشل میڈیاایپلیکیشن پر اپنے اکاؤنٹ سے کوور کر رہا یا رہی ہے کے لائکس یا شیئرز زیادہ ہوں۔ یعنی اس کی خبر زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہو۔ اور تو اور اسے کسی ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز یا پیمرا کی پروا بھی نہیں ہوتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خبر یا اطلاع پہ کسی کی اجارہ داری اصولی طور پر درست ہے یا رائے سازی کسی خاص ادارے کے کنٹرول میں ہی ہونی چاہیے تو ہر ذی شعور کا جواب ہو گا کہ نہیں خبر کیسے کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ آئین تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے نہ کہ صرف صحافیوں کو۔

ایک اور فرق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے صحافیوں کو خبر کے ردعمل کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کیوں کہ عوامی ردعمل کاکوئی طریقہ کار نہیں تھا۔

اور خط بنام مدیر یا لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تنقید چھاپنے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ اب توادھر آپ ٹویٹ کرتے ہیں ادھر کمنٹس میں آپ کا حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے کے میڈیا کو بہت زعم تھا کہ عوام کی رائے سازی انہی کا اختیار ہے۔ عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے حکومتیں ''پی ٹی وی‘‘ جیسے اداروں کو استعمال کرتی تھیں۔

اب تو ہر شخص کے پاس میڈیم ہے۔ کیمرہ ہے، جگہ ہے، لوگوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ سو رائے پر اثر انداز ہونا اب صرف پیشہ ور صحافیوں کا ہی فن نہیں رہا۔آپ کسی بڑے سیاسی لیڈر کو مین سٹریم میڈیا سے بین کروا دیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ اس کی مقبولیت یا عوام تک رسائی میں فرق نہیں آتا۔ اس صورتحال میں صرف وہ صحافی بقاء پا جائیں گے جنہوں نے خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بڑی شخصیات پہلے صرف صحافیوں کو انٹرویو دیتی تھیں اب تو ان کے لیے بھی میدان کھلا ہے۔ یو ٹیوبرز، پاڈ کاسٹرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز، اسٹینڈ اپ کمیڈینز نہ صرف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں بلکہ سیاسی معاملات پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں اور ان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد عام صحافیوں سے زیادہ ہے۔

اور یہ سب لوگ خبر یا تجزیہ کے مجوزہ اصولوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انہیں یہ صحافتی بے راہ روی کی راہ مین سٹریم میڈیا کے لوگوں نے ہی دکھائی ہے۔

جب بڑے چینلز، اخبارات اور صحافی سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈروں کے بیانیے کے وکیل بن جائیں گے تو ان غیر تربیت یافتہ ''صحافیوں‘‘ کو کون روک سکتا ہے۔ صحافتی اقدار میں ''غیر جانبداری‘‘کے اصول کے پہلے قاتل بڑے بڑے میڈیا گروپس ہیں۔ اب وہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگ غیر پیشہ وارانہ ہیں ہاں وہ آپ کے پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں۔

وہاں آپ کی اجارہ داری ہے جیسے آپ نے میڈیا پڑھانے والے اساتذہ کو کبھی پریس کلب میں داخل ہونے نہیں دیا اسی طرح آپ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں کے لیے بھی گیٹ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن مین سٹریم میڈیا اور صحافیوں کے لیے خبر بلکہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ خبر، تجزیے اور رائے سازی پر اب آپ کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کو صحافی سے کرتے ہیں جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

چیئرمین ایف بی آر کا دوٹوک مؤقف: ملک میں منی بجٹ لانے کا کوئی ارادہ نہیں

اسلام آباد : چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے واضح کیا ہے کہ ملک میں کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔

تفصیلات کے مطابق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ اضافی ٹیکسوں کے لیے منی بجٹ کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نیا منی بجٹ لایا جائے گا۔چیئرمین ایف بی آر کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے تناظر میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا ہے. تاہم سالانہ ٹیکس ریونیو ہدف میں رد و بدل کے حوالے سے حتمی فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا.ایف بی آر ذرائع نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے ٹیکس ہدف میں 300 ارب روپے کمی کی درخواست کرے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے لیے مقررہ ٹیکس ہدف کو 14 ہزار ارب روپے سے نیچے لانے کی کوشش کی جائے گی۔

خیال رہے سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان ہے۔مجوزہ منی بجٹ لگژری گاڑیوں، سگریٹس اور الیکٹرانک سامان پر ٹیکس کی شرح بڑھانے پر غور شروع ہو گیا، درآمدی اشیا پر جون میں کم کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی کے برابر لیوی لگائی جاسکتی ہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ سیلاب کے نقصانات میں تعمیر نو کے لیے فیڈرل فلڈ لیوی عائد کی جا سکتی ہے. ممکنہ منی بجٹ میں منی بل کے ذریعے نیا ٹیکس لگانے اور امپورٹڈ غیر ضروری لگژری آئٹمز پر ٹیکس بڑھنے کا امکان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوچۂ سخن
  • مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
  • دنیا بھر کی رائے: یو این جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے بارے میں جانیے
  • سروائیکل کینسر کیخلاف آگاہی مہم، شہزاد رائے بھی میدان میں آگئے
  • جاز اور نادر (این ٹی ایل) کا شراکت داری معاہدہ
  • ملک کے 2 مشہور سیاحتی مقامات پر برفباری کا آغاز
  • چیئرمین ایف بی آر کا دوٹوک مؤقف: ملک میں منی بجٹ لانے کا کوئی ارادہ نہیں
  • کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی، حصول انصاف سے متعلق سوال پر جسٹس محسن کا جواب
  • ’بُنا‘ سے انضمام: حکومت نے صارفین کو ڈیجیٹل ادائیگیوں میں بڑی سہولت دینے کا فیصلہ کرلیا
  • ڈیجیٹل بینکاری: پاکستان میں کتنے ڈیجیٹل بینک ہیں اور کتنے آنے والے ہیں؟