UrduPoint:
2025-08-07@16:27:05 GMT

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مئی 2025ء) لیکن ابلاغ اور صحافت بغیر کسی میڈیم کے اپنا وجود نہیں رکھتے بعینہ میڈیم کے بدلتے ساتھ صحافت کے اصول وضوابط بھی بدل جاتے ہیں۔ خبر کا زاویہ، پیش کرنے کا انداز اور طریقہ کار بھی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خبر اور تجزیے کا مواد، الفاظ کا چناؤ اور زبان کا استعمال سب نیا ہو جاتا ہے۔

اخبار کا صحافی، نیوز چینل کے صحافی سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح نیوز چینل کا صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی سے ذرا ہٹ کے ہو گا۔

ایک اور بات جو بڑی مشکل سے سمجھ آئی وہ یہ کہ نئے صحافیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیا میڈیم پرانے میڈیم کو کھا جاتا ہے، زبان کھا جاتا ہے اور اس کا لہجہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ مواد ڈکار جاتا ہے اور کہیں کہیں تو ورکنگ جرنلسٹس کو بھی چبا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر آپ کی عمر تیس سال سے کم ہے تو آپ کو اخبار یا پرنٹ جرنلزم کے چند ایک ناموں کے علاوہ کوئی صحافی یاد نہیں ہو گا۔

آپ کو ''کیپٹل ٹاک‘‘ تو یاد ہو گا مگر ''قلم کمان‘‘ شاید آپ کی یادداشت کا حصہ نہ ہو۔ حالانکہ ''قلم کمان‘‘ کے عنوان سے کالم بھی حامد میر لکھتے ہیں جو ''کیپٹل ٹاک‘‘ کے نام سے ٹاک شو کرتے ہیں۔

اسی طرح ڈیجیٹل جرنلزم کے موجودہ زمانے میں آپ ان صحافتی ناموں کو زیادہ پہچانتے ہیں جو آپ کے موبائل کی سکرین پہ زیادہ آتے ہیں۔ یا آپ جن کو زیادہ لائک یا فالو کر چکے ہیں یا آپ ان کی طویل دورانیے کی کوئی ویڈیو دیکھ چکے ہیں۔گو کہ صحافتی میڈیم تو ہمیشہ سے تبدیل ہوتے آئے ہیں۔ صحافت اخبار سے ریڈیو، ریڈیو سے ٹی وی اور ٹی وی سے ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے تمام تر لوازمات سمیت شفٹ ہوتی چلی گئی۔

مگر اب کی بار ایک باریک مگر بہت واضع فرق نظر آرہا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے جتنے بھی میڈیم موجود تھے، وہ صحافی کے صحافتی وجود کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ صحافی ہی خبر اور تجزیہ کا مالک ہوتا تھا۔ ''ایکسکلوسو‘‘ یا ''سکوپ‘‘ دینا کلی طور پر صحافی کا اختیار ہوتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا نے صحافی سے یہ انفرادیت چھین لی ہے۔

اب یہ ممکن ہے ایک ہی جلسے کی کوریج کرتے وقت ایک پیشہ ور صحافی سے زیادہ ساتھ کھڑے لڑکے یا لڑکی جو کسی صحافتی ادارے سے وابستہ نہیں بلکہ انفرادی طور پر کسی سوشل میڈیاایپلیکیشن پر اپنے اکاؤنٹ سے کوور کر رہا یا رہی ہے کے لائکس یا شیئرز زیادہ ہوں۔ یعنی اس کی خبر زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہو۔ اور تو اور اسے کسی ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز یا پیمرا کی پروا بھی نہیں ہوتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خبر یا اطلاع پہ کسی کی اجارہ داری اصولی طور پر درست ہے یا رائے سازی کسی خاص ادارے کے کنٹرول میں ہی ہونی چاہیے تو ہر ذی شعور کا جواب ہو گا کہ نہیں خبر کیسے کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ آئین تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے نہ کہ صرف صحافیوں کو۔

ایک اور فرق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے صحافیوں کو خبر کے ردعمل کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کیوں کہ عوامی ردعمل کاکوئی طریقہ کار نہیں تھا۔

اور خط بنام مدیر یا لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تنقید چھاپنے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ اب توادھر آپ ٹویٹ کرتے ہیں ادھر کمنٹس میں آپ کا حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے کے میڈیا کو بہت زعم تھا کہ عوام کی رائے سازی انہی کا اختیار ہے۔ عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے حکومتیں ''پی ٹی وی‘‘ جیسے اداروں کو استعمال کرتی تھیں۔

اب تو ہر شخص کے پاس میڈیم ہے۔ کیمرہ ہے، جگہ ہے، لوگوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ سو رائے پر اثر انداز ہونا اب صرف پیشہ ور صحافیوں کا ہی فن نہیں رہا۔آپ کسی بڑے سیاسی لیڈر کو مین سٹریم میڈیا سے بین کروا دیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ اس کی مقبولیت یا عوام تک رسائی میں فرق نہیں آتا۔ اس صورتحال میں صرف وہ صحافی بقاء پا جائیں گے جنہوں نے خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بڑی شخصیات پہلے صرف صحافیوں کو انٹرویو دیتی تھیں اب تو ان کے لیے بھی میدان کھلا ہے۔ یو ٹیوبرز، پاڈ کاسٹرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز، اسٹینڈ اپ کمیڈینز نہ صرف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں بلکہ سیاسی معاملات پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں اور ان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد عام صحافیوں سے زیادہ ہے۔

اور یہ سب لوگ خبر یا تجزیہ کے مجوزہ اصولوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انہیں یہ صحافتی بے راہ روی کی راہ مین سٹریم میڈیا کے لوگوں نے ہی دکھائی ہے۔

جب بڑے چینلز، اخبارات اور صحافی سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈروں کے بیانیے کے وکیل بن جائیں گے تو ان غیر تربیت یافتہ ''صحافیوں‘‘ کو کون روک سکتا ہے۔ صحافتی اقدار میں ''غیر جانبداری‘‘کے اصول کے پہلے قاتل بڑے بڑے میڈیا گروپس ہیں۔ اب وہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگ غیر پیشہ وارانہ ہیں ہاں وہ آپ کے پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں۔

وہاں آپ کی اجارہ داری ہے جیسے آپ نے میڈیا پڑھانے والے اساتذہ کو کبھی پریس کلب میں داخل ہونے نہیں دیا اسی طرح آپ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں کے لیے بھی گیٹ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن مین سٹریم میڈیا اور صحافیوں کے لیے خبر بلکہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ خبر، تجزیے اور رائے سازی پر اب آپ کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کو صحافی سے کرتے ہیں جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔

تحریر: روشین عاقب

کسی بیٹی کے لیے اپنے جان سے عزیز والد کی جدائی سہنا اور پھر اس کرب و صدمے کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک ایسا کٹھن مرحلہ ہے جسے بیان کرنے کے لیے کسی بھی  زبان میں کوئی مکمل لغت موجود نہیں۔ وہ دکھ جو روح کی گہرائیوں میں سرایت کر جائے، اسے کاغذ پر اتارنا ممکن نہیں۔

پاپا کی ذات ایک انجمن تھی۔ اتنے پہلو، اتنے رنگ کہ اگر ہر پہلو پر الگ سے لکھا جائے تو دفتر درکار ہوں۔ وہ ایک بے مثل انسان، صاحبِ طرز تخلیق کار، بہترین دوست اور بے پناہ محبت کرنے والے باپ اور شوہر تھے۔ بچپن میں ہمیں شاید اس نسبت کا احساس نہ تھا مگر جیسے جیسے شعور کی آنکھ کھلی، یہ احساس راسخ ہوتا گیا کہ ہم ایک غیرمعمولی انسان کی اولاد ہیں وہ جو انسانیت کا کامل نمونہ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’’بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے‘‘ امجد اسلام امجد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے

اگر ان کی تخلیقات کی بات کی جائے تو نظم، نثر، کالم، ڈراما، سفرنامہ، تنقید۔ ادب کی ہر صنف میں ان کا کام  گویا  موتیوں میں تولنے لائق ہے۔ ان کی تحریریں سچائی اور بے ساختگی کا ایسا آئینہ تھیں کہ پڑھنے والا خود کو ان میں موجود پاتا۔

اور یہی سچائی اور صاف گوئی ان کی ہر تحریر میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ان کے ڈرامے اٹھائیے، کردارنگاری کا مطالعہ کیجیے، ہر کردار زمینی ہے، ہمارے آس پاس کا ۔۔۔ ہماری ہی باتیں کرتا ہے ہمارے ہی مسائل بیان کرتا ہے ہماری ہی زبان بولتا ہے ہم ان سب کرداروں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہم خود ہیں۔

شاعری میں ان کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ خواب، بارش، سمندر، وقت اور محبت جیسے استعارے ان کے قلم سے ایک نئی جہت پاتے۔ ان کی نظم ’محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے‘ ایک ابدی خوشبو کی طرح دل میں اترتی ہے، اور ’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘ جیسی نظمیں تلخ حقیقتوں کو اس انداز میں بیان کرتی ہیں کہ قاری تادیر سوچتا رہ جائے۔

مگر کسی بھی شخصیت کی اصل عظمت اس کی تخلیقات سے زیادہ اس کے کردار میں ہوتی ہے۔ اور اگر یہ میزان ہو، تو پاپا اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے ان سے بڑھ کر شفاف دل، درگزر کرنے والا اور خالص انسان کوئی نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’اپنی نیکی کبھی یاد نہیں رکھنی اور دوسرے کی کبھی بھولنی نہیں‘۔

اور یہ محض زبان سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ خود مجسم مثال تھے۔

مزید پڑھیے: محبتوں کے شاعر امجد اسلام امجد ہمیں چھوڑ گئے

اگر کوئی ان سے زیادتی بھی کر جاتا تو وہ  نہ صرف اسے معاف کر دیتے بلکہ معاف کرتے ہی فوراً بھول جاتے تھے۔ دوبارہ ذکر آتا تو اس شخص کی طرف سے وکیل بن کر اس کا دفاع کرتے۔ ان کے لیے سب سے مشکل کام کسی کو تکلیف میں دیکھنا  تھا۔ وہ تو دوسروں کا دکھ بانٹتے کے عادی تھے۔ کوئی بھی  دنیاوی نقصان ان کے لیے کبھی صدمہ نہ بنا۔ ان کا اپنا مصرع تھا:

’وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا‘

اور یہ فقط ایک مصرعہ نہیں بلکہ ان کی پوری زندگی کا خلاصہ تھا۔

انہوں نے زندگی بھر ہماری آسائش کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ بہن بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، سب کے لیے وہ ایک سایہ دار شجر تھے۔ اگر کسی نے ان کے سامنے اپنی پریشانی ظاہر کر دی تو وہ  خود بھول جائے تو بھول جائے لیکن پاپا سکون سے نہ بیٹھتے جب تک اسے حل نہ کر لیں۔

وہ شوہر کیسے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دنیا سے جانے کے بعد میری ماما ایک برس بھی جی نہیں پائیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائیں کہ ساری دنیا سے زیادہ ان سے محبت کرنے والا، ہر مشکل میں ان کی ڈھال بن جانے والا اور ان کی ایک مسکراہٹ کے صدقے ہونے والا شخص انہیں کیسے چھوڑ گیا۔ اسی بے یقینی میں وہ بھی رخصت ہو گئیں۔ میں سوچتی ہوں پاپا نے بھی یہ ایک سال ماما کے بغیر نہ جانے کیسے گزارا ہوگا تب ہی تو انہیں فوراً بلوا لیا۔۔۔

مزید پڑھیں: معروف شاعر امجد اسلام امجد مرحوم کی اہلیہ بیگم فردوس امجد چل بسیں

پاپا نے پوری زندگی کسی کو تکلیف نہیں دی۔ انہیں عادت ہی نہیں تھی کہ کوئی ان کے لیے بھی کچھ کرے۔ وہی سب کی فکر کیا کرتے تھے اسی لیے جاتے ہوئے بھی چپکے سے نیند میں چلے گئے۔

وہ صرف ہمارے والد ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسی  روشنی تھے جو اب بھی دل کے نہاں خانوں میں جلتی رہتی ہے اور ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوتی۔

(امجد اسلام امجد کی صاحبزادی روشین عاقب کی خصوصی تحریر جس کو ایکسپریس نے چھاپا)

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ویب ڈیسک

وی نیوز کا آفیشل ویب ڈیسک اکاؤنٹ

امجد اسلام امجد بیگم فردوس روشین عاقب

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا خوف دیکھیں کل اڈیالہ پر 400 اہلکار آنسو گیس شیل کے ساتھ کھڑے تھے، علیمہ خان
  • پاکستانی طلبا کے لیے شیوننگ اسکالرشپس کا اعلان، کون اور کیسے اپلائی کرسکتا ہے؟
  • بھارتی میڈیا کو بھارتی سرکار نے ہی جھوٹا قرار دے دیا
  • سینئر صحافی اجمل جامی نے عمران خان انتہائی دلچسپ واقعہ سنا دیا 
  • واہ کیا بات ہے!
  • ظلم کی کوئی عمر نہیں ہوتی، وہ دن ضرور آئے گا جب جموں و کشمیر کے مظلوم عوام آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گے، وفاقی وزیر پروفیسراحسن اقبال کا یوم استحصال کشمیر پر پیغام
  • کوچۂ سخن
  • ’’کام یابی‘‘ کو دیکھیں نئے نقطۂ نظر سے
  • پہلگام واقعہ، بھارت نے پاکستان کے ملوث ہونے کے دعوے سے راہ فرار اختیار کرلی
  • آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔