لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 08 مئی 2025ء ) پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کے باعث پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں 2 دن کی چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پاک بھارت جنگی صورتحال کے پیش نظر پنجاب بھر کے تمام تعلیمی ادارے اتوار 11 مئی تک بند کردیئے گئے ہیں، اس حوالے سے وزیرتعلیم پنجاب رانا سکندر حیات کا کہنا ہے کہ صوبے بھر میں تمام تعلیمی ادارے 2 دن کے لیے بند رہیں گے، موجودہ حالات کے پیش نظر تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے 9 اور 10 مئی کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، چھٹیوں کے احکامات تمام سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کے لیے ہیں، 12 مئی سے تدریسی عمل لکا دوبارہ آغاز ہوگا۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں پنجاب میں محکمہ شہری دفاع اور ریسکیو 1122کی فرضی مشقیں شروع کردی گئی ہیں، محکمہ شہری دفاع کو پوری طرح فعال اور مشقوں کا آغاز کردیا گیا ہے تفصیلات کے مطابق پنجاب بھر کے چھوٹے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی ،مری، جہلم ،چکوال سرگودھا ،نارووال ،گوجرانوالہ، حا فظ آباد، سیالکوٹ، ساہیوال،پاکپتن، ملتان، خانیوال ،مظفرگڑھ ، لیہ، وہاڑی، حافظ آباد اور دیگر شہروں میں محکمہ شہری دفاع کی فرضی مشقیں جاری ہیں.

صوبے کے تمام اضلاع میں شہری دفاع کی مشقوں کی مانیٹرنگ اور صوبائی حکومت کے فیصلوں کے بارے میں درست معلومات مہیا کرنے کے لئے ڈی جی پی آر میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیاجس کامقصدمقصد بے بنیاد خبروں اور ڈس انفارمیشن کی روک تھام ہے. ڈی جی پی آر دفترمیں قائم ہونےو الا یہ کنٹرول روم حکومت پنجاب کے فیصلوں اور احکامات کے بارے میں درست اور قابل اعتبار معلومات مہیا کرے گاکنٹرول روم کا مقصد بے بنیاد خبروں اور ڈس انفارمیشن کی روک تھام ہے کنٹرول روم روزانہ 24 گھنٹے کام کرے گا اور یہاں عملہ تین شفٹوں میں فرائض انجام دے گا.

دوسری جانب ریسکیو 1122 نے بھی مختلف شہروں میں موک ایکسرسائز کا آغاز کر دیا ہے ہنگامی حالات سے نمٹنے اور خطرات سے بچا کے لیے ریسکیو 1122 کی فرضی مشقیں کی جارہی ہیں پنجاب حکومت نے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے محکمہ شہری دفاع اور ریسکیو 1122کو ہمہ وقت مستعد رہنے کی ہدایت کی ہے ہنگامی صورتحال میں سول ڈیفنس کے ذریعے شہریوں کی مدد اور رہنمائی کی جائے گی جبکہ لاہور پولیس نے کسی بھی ہنگامی یا دہشت گردی کی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے شہر میں فرضی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے.

قذافی اسٹیڈیم میں منعقدہ مشق کے دوران دہشت گردی کی ایک کارروائی کو ناکام بنانے کا عملی مظاہرہ کیا گیا مشقوں میں لاہور پولیس کے تمام ونگز بشمول آپریشنز، ایلیٹ فورس، ڈولفن اسکواڈ، پٹرولنگ، ٹریفک پولیس، ایس ایچ اوز اور اے ایس پیز نے حصہ لیا جبکہ ریسکیو 1122 اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیموں نے بھی مشق کا حصہ بن کر اپنی تیاریوں کا مظاہرہ کیا.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے محکمہ شہری دفاع پنجاب بھر کے کے لیے

پڑھیں:

امن تعلیم اور صحت کی ریاستی ذمے داری

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ایسی ریاست چاہیے جو امن، تعلیم اور عوامی خدمت کو اپنی ذمے داری سمجھے۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں نوجوانوں کے لیے ’’ بنو قابل‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کے تحت جماعت نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور آیندہ سال دو برس میں دس لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینا چاہتی ہے۔

اسی سلسلے میں جماعت اسلامی مالاکنڈ ڈویژن کے تحت سیدو شریف میں بنو قابل پروگرام کے تحت 1200 نوجوانوں کے گریجویشن کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ تعلیم خیرات نہیں بلکہ قوم کا آئینی حق اور ریاستی ذمے داری ہے مگر افسوس کہ ملک میں دو کروڑ 82 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں 55 لاکھ بچے صرف کے پی میں ہیں۔ تعلیم کی آؤٹ سورسنگ حکومتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔

ملک میں جماعت اسلامی کے علاوہ سیلانی انٹر نیشنل فاؤنڈیشن نے بھی کراچی میں نوجوانوں کو آئی ٹی کی تعلیم دینے کا پروگرام شروع کیا تھا جو ملک بھر میں چل رہا ہے اور مرکزی مسلم لیگ کے تحت بھی نوجوانوں کے لیے متعدد پروگرام چل رہے ہیں اور لاہور میں اخوت فاؤنڈیشن ایک اہم ادارہ بن چکا ہے جو ملک میں نہ صرف تعلیمی ادارے چلا رہا ہے بلکہ مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے مالی وسائل نہ رکھنے والے قابل اور شوقین طلبا کو مفت تعلیم سمیت تمام تعلیمی سہولیات بھی فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ملک کے ایک سابق چیف جسٹس، بعض ریٹائرڈ ججز و فلاحی شخصیات و رفاہی ادارے بھی تعلیمی ترقی اور نئی نسل کی خواندگی کی کوشش کر رہے ہیں۔

مگر ملک بھر میں کوئی حکومت اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کر رہی جس کی یہ آئینی ذمے داری ہے مگر ہر حکومت صرف دعوے کرتی ہے جس کے وزرائے تعلیم کا کام اس سلسلے میں عوام کو خواب دکھانا، بے بنیاد وعدے اور صرف آسرے دینا اور اپنی ذاتی شہرت تک محدود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کو قوم کا آئینی حق نہیں بلکہ عوام پر اپنا احسان سمجھتی ہیں۔

یوں تو اب تعلیم صوبوں کے حوالے کی جا چکی ہے اور وفاقی حکومت کا تعلق برائے نام اور ہائر ایجوکیشن تک محدود کر دیا گیا ہے اور صوبوں کو اپنے صوبوں میں تعلیم کی ترقی یا بیڑا غرق کرنے کا مکمل اختیار ملا ہوا ہے کہ وہ اپنے صوبے میں تعلیمی اداروں کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے اسے کوئی پوچھنے یا جواب طلبی کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں اور وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم بادشاہ بنے ہوئے ہیں وہ جو چاہیں کریں۔

نصف صدی قبل تک ملک میں تعلیم کی اتنی بری حالت نہیں تھی جتنی اب ہے۔ نجی ادارے بھی اسکول چلاتے تھے جہاں فیس مناسب اور سہولتیں زیادہ تھیں اور نجی تعلیمی ادارہ صرف وہی تعلیم کے ماہرین کھولتے تھے جو نئی نسل کے اچھے تعلیمی مستقبل کی بہتری کے خواہاں ہوتے تھے اور سرکاری اسکولوں کے حصول تعلیم کے اساتذہ اپنے طلبا کو اپنے گھر بلا کر انھیں مفت تعلیم دیتے تھے اور امتحان کی تیاری کراتے تھے تاکہ ان کی کلاس کے بچے امتیازی نمبروں سے پاس ہو سکیں۔ اس وقت تعلیم کاروبار نہیں خدمت سمجھی جاتی تھی۔ اسکولوں میں پرانے اساتذہ اپنے طلبا کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے۔

اسکولوں میں پڑھائی پر توجہ کم اور ٹیوشن گھروں پر پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے اب ٹیوشن سینٹروں تک پہنچ گیا ہے جو ایسے لوگ بھی چلا رہے ہیں جنھوں نے خود کبھی اسکولوں میں نہیں پڑھایا اور مختلف ماہرین تعلیم کو ملازم رکھ کر ٹیوشن سینٹر چلا رہے ہیں۔ بعض نجی اسکولوں اور ٹیوشن سینٹروں والے جن میں شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے کم ہیں ایڈمنسٹریٹر بن کر یہ ادارے چلا رہے ہیں اور محکمہ تعلیم کے مبینہ کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے شرطیہ پاس ہونے کی گارنٹی دیتے ہیں اور طلبا کو پوزیشن بھی دلواتے ہیں۔نجی تعلیمی ادارے اب اپنی یونیورسٹیاں اور میڈیکل، انجینئرنگ اور لا کالجز بھی بنا چکے ہیں جب کہ پہلے نجی اسکول مڈل تک ہوتے تھے۔

سرکاری اسکولوں میں اکثر کا تعلیم کا معیار تباہ کیا جا چکا ہے جو اب صرف غریب بچوں کی تعلیم کے لیے رہ گئے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تو کیا معقول تعلیم دلانے کے لیے بھی ان سرکاری اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتا اور اپنے بچوں کو کم فیس والے نجی اسکول میں پڑھانے کو ہی ترجیح دیتا ہے اور موجودہ مہنگائی اور سرکاری اسکولوں کے حالات سن کر اپنے بچوں کو پڑھاتا ہی نہیں۔ سرکاری تعلیم سستی ہے مگر معیار بالکل نہیں۔ نجی اسکولوں میں پڑھانا آسان نہیں اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کو اپنے ان سرکاری اسکولوں سے دلچسپی ہے اور اچھے سرکاری اسکول ملک بھر میں برائے نام رہ گئے ہیں اور نجی تعلیمی اداروں کا کاروبار عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم نے اسکولوں کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے نااہل لوگ رشوت دے کر بھرتی کیے جاتے ہیں۔

گھوسٹ اساتذہ بلکہ اسکولوں کی بھرمار ہے اور سندھ اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ تعلیم اب اسکولوں کا مقصد نہیں جہاں اب کرپشن عروج پر ہے۔ ایجوکیشن افسران ہوں یا سرکاری اساتذہ وہ بھی اپنے بچوں کو اپنے اسکولوں میں پڑھانا پسند نہیں کرتے اور تعلیم حکومتوں کی ترجیح ہی نہ رہی ہو تو کیسی آئینی ذمے داری، کیسا بچوں کا مستقبل۔ تعلیم صرف حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے صرف کاروبار ہے۔ تعلیم کو آئینی ذمے داری سمجھنے والی حکومت تو اب خواب میں بھی ممکن نہیں، ایسی باتیں صرف سیاست کے لیے رہ گئی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امن تعلیم اور صحت کی ریاستی ذمے داری
  • امریکا بھارت کشیدگی: نریندر مودی کا 7 برس بعد چین کا دورہ کرنے کا فیصلہ
  • امریکا کیساتھ کشیدگی میں اضافہ، مودی 7سال بعد چین کا دورہ کریں گے
  •  انتظار ختم! لاہور میں جدید ترین اربن الیکٹرک ٹرین "SRT" کا آغاز
  • سندھ حکومت کی تعلیمی بورڈز کے اختیارات محدود کرنے کی تیاری؛ اسٹیئرنگ کمیٹی کا ڈھانچہ منظور
  • چھٹی کااعلان ہوگیا
  • 14 اگست کو عام تعطیل کا اعلان
  • عام تعطیل کا اعلان، اہم ادارے بند ہونگے
  • پنجاب میں مزید طوفانی بارشوں کا الرٹ جاری، سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ کا خطرہ
  • مودی سرکار کا جنگی جنون: 224 کروڑ روپے کے ہتھیار خریداری معاہدے سے خطے میں کشیدگی کا خدشہ