گلگت بلتستان کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کی چھٹیاں منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
اجلاس میں تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت دی گئی کہ وہ ہمہ وقت ہائی الرٹ رہیں اور حکومتی مشینری کو مکمل فعال رکھیں۔ مواصلاتی نظام کی بلا تعطل فعالیت کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ خطے میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریوں کو مزید مؤثر بنانے کے لیے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس گلگت میں منعقد ہوا۔ اس اہم اجلاس میں تمام متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران بشمول صوبائی سیکرٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور ڈائریکٹر جنرل جی بی ڈی ایم اے نے شرکت کی، جس میں موجودہ سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ سکریٹری داخلہ نے حالیہ بھارتی فضائیہ کی جارحیت کے تناظر میں ممکنہ خطرات پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے واضح کیا کہ حکومت ہر قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار اور فعال ہے اور ہنگامی حالات میں فوری طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے محکمہ صحت کو ہدایت دی گئی کہ تمام ہسپتالوں کو الرٹ رکھا جائے اور مکمل فعالیت کو یقینی بنایا جائے۔ تمام طبی عملہ بشمول ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکس کی چھٹیاں منسوخ کرتے ہوئے انہیں بھی ہائی الرٹ رکھا جائے۔ خون کے ذخائر کو محفوظ رکھا جائے اور فوری طور پر خون عطیہ کرنے کی مہم شروع کی جائے۔
اجلاس میں تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت دی گئی کہ وہ ہمہ وقت ہائی الرٹ رہیں اور حکومتی مشینری کو مکمل فعال رکھیں۔ مواصلاتی نظام کی بلا تعطل فعالیت کو یقینی بنایا جائے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ خوراک اور اناج کے ذخائر کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت دی گئی تاکہ کسی بھی ممکنہ ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری ایکسائز کو پی او ایل ڈپو کا معائنہ کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ایندھن کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ اس اہم اجلاس میں ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی گئی کہ وہ تمام برادریوں، خصوصاً سرحدی علاقوں سے قریبی رابطے میں رہیں اور انہیں تازہ ترین صورتحال سے بروقت آگاہ کرتے رہیں۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حکومت گلگت بلتستان تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کسی بھی ممکنہ صورتحال سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، اور عوام کی سلامتی و تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان ہدایت دی گئی ڈپٹی کمشنرز صورتحال سے اجلاس میں کو ہدایت گئی کہ کے لیے
پڑھیں:
گلگت بلتستان کا یوم آزادی اور درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-4
راجا ذاکرخان
گلگت بلتستان کے عوام یکم نومبرکو یوم آزادی گلگت بلتستان بھرپور انداز سے مناتے ہیں، یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے ڈوگرہ فوج سے 28 ہزار مربع میل کا علاقہ جہاد سے آزاد کرایا، گلگت بلتستان کے بچوں، بوڑھوں، مرد اور خواتین نے آزادی کے لیے اپنے سب کچھ قربان کرکے آزادی کی نعمت حاصل کی، تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق مسلم اکثریت والے علاقوں نے پاکستان بننا تھا اور ہندو اکثریتی علاقوں نے ہندوستان میں شامل ہونا تھا مگر انگریزوں اور ہندووں کی ملی بھگت سے وہ مسلم علاقے پاکستان میں شامل نہ ہوسکے جس میں کشمیر بھی شامل ہے، کشمیر پر مسلط ڈوگرہ نے ہندوستان سے جعلی اعلان الحاق کیا جس کی وہ سے تنازع پیدا ہوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے جہاد سے یہ خطے آزاد کرالیے مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر کشمیرکے علاقوں پر ہندوستان نے جبری فوجی قبضہ کرلیا جو آج تک قائم ہے۔
گلگت بلتستان کا یہ آزاد علاقہ آج دس اضلاع پر مشتمل ہے دنیا کی بڑی اونچی چوٹیاں یہاں ہیں، دنیا کا بلند ترین سطح پر میدان دیوسائی یہاں موجود ہے، دریا پہاڑ جنگلات ریگستان یہاں پائے جاتے ہیں، اس حوالے سے یہ دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح یہاں آتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاح جو دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی نظر میں وہ سارے منظر دیکھ لیتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کردیتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بیس کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم نے ان آزاد خطوں کے عوام کے لیے انقلابی حکومت قائم کرائی تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل حل بھی ہوں اور بقیہ کشمیرکی آزادی کے لیے حقیقی بیس کیمپ کا کردار ادا کریں، بیس کیمپ کی یہ حکومت قائد اعظم کے وژن کا نتیجہ ہے۔ لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ایک ہی حکومت زیادعرصہ نہ چل سکی، پھر معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام پاکستان کے حوالے کیا گیا، اگرچہ عوام چاہتے تھے کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں مگر کسی وجہ سے ان دونوں خطوں کا نظام حکومت الگ کیا گیا۔ نظام حکومت الگ کرانے میں گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیرکی قیادت نے زیادہ کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان کے نظام حکومت میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں، اس وقت عبوری صوبے کا اسٹیٹس ہے، گورنر اور ویزرا علیٰ ہیں مگر یہ عبوری ہیں جب تک کشمیر آزاد ہوتا یہاں کے عوام پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں نظام حکومت کافی کمزور تھا ابھی کافی حد تک نظام حکومت میں بہتری آئی ہے اور ابھی بھی ارتقائی عمل جاری ہے۔ اس حساس خطے پر دشمن کی نظریں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ فرقہ واریت کا شکار رہا ہے مگر یہاں کے تمام ہی مکاتب فکر کے علماء اور عوام نے سوچا کہ ہمیں تقسیم کرو اور حکومت کرو کا عمل کارفرما ہے اس لیے یہاںکے عوام نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کو مل کر رہنا ہے اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور ترقی کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس سوچ اور فکر کو پذیرائی ملی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں امن ہے۔ اس خطے میں سنی، اہل تشیع، نوربخشی، اسماعیلی سمیت دیگر مذاہت کے لوگ آباد ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں پاکستان کی جماعتوں کی شاخیں موجود ہیں مگر جماعت اسلامی، لبریشن فرنٹ سمیت دیگر ریاستی جماعتیں بھی موجود ہیں جو فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ ریاستی جماعتوں میں جماعت اسلامی بڑی اور فعال جماعت ہے جو پورے گلگت بلتستان میں موجود ہے عوام کے کام کررہی ہے، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور اچھا مقابلہ کرتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کئی دورے کیے ہیں۔
گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے اور بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے، یہ پاکستان کا قدرتی حصار ہے، گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنی آزادی کا دن منانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے لیے بھی دعائوں کرتے ہیں کہ وہ بھی آزادی ہوں حقیقی آزادی وہ ہوگی جب پور ا کشمیرآزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے گا۔