چین اور روس کے تعلقات نے اعلیٰ سطح ترقی کے رجحان کو برقرار رکھا ہے، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
چین اور روس کے تعلقات نے اعلیٰ سطح ترقی کے رجحان کو برقرار رکھا ہے، چینی صدر
چین اور روس کو باہمی فائدہ مند تعاون کو بڑھانا چاہئے، شی جن پھنگ
ما سکو () روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پھنگ نے ماسکو کریملن میں بات چیت کی۔ جمعرات کے روز دونوں سربراہان مملکت نے چین روس تعلقات اور اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور اسٹریٹجک کوآرڈینیشن کو مزید گہرا کرنے اور چین روس تعلقات کی مستحکم، صحت مند اور اعلیٰ سطحی ترقی کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ فریقین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کے بارے میں صحیح نقطہ نظر کو فروغ دینے، اقوام متحدہ کے اختیار اور حیثیت کی حفاظت اور بین الاقوامی شفافیت اور انصاف کو برقرار رکھنے کے لئے مل کر کام کریں گے۔
پیوٹن نے جارج ہال میں شی جن پھنگ کے لئے شاندار استقبالیہ تقریب منعقد کی۔اس کے بعد دونوں سربراہان مملکت نے یکے بعد دیگرے چھوٹے اور وسیع پیمانے پر بات چیت کی۔
شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ حالیہ برسوں میں دونوں فریقوں کی مشترکہ کوششوں سے چین اور روس کے تعلقات نے مستحکم، صحت مند اور اعلیٰ سطح ترقی کے رجحان کو برقرار رکھا ہے اور طویل مدتی اچھی ہمسائیگی، دوستی اور باہمی فائدہ مند تعاون دوطرفہ تعلقات کی مخصوص خصوصیات بن چکے ہیں۔ تاریخ اور حقیقت نے پوری طرح ثابت کیا ہے کہ چین اور روس کے تعلقات میں پائیدار ترقی اور گہرائی دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نسلوں سے دوستی کی وراثت کا صحیح مطلب ہے، اپنی اپنی ترقی اور احیاء کو فروغ دینے کے لئے ناگزیر انتخاب ہے ، اور بین الاقوامی شفافیت اور انصاف کا دفاع کرنے اور عالمی حکمرانی کے نظام کی اصلاح کو فروغ دینے کے لئے وقت کا تقاضا ہے۔
شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ اس سال جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ، سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ اور عالمی فاشسٹ مخالف جنگ کی فتح کی 80 ویں سالگرہ ہے۔ 80 سال قبل چینی اور روسی عوام نے بےپناہ قربانیاں دی تھیں، عظیم فتوحات حاصل کی تھیں اور عالمی امن اور انسانی ترقی کے مقصد کی تکمیل کے لیے شاندار تاریخی خدمات انجام دی تھیں۔ اس وقت بین الاقوامی برادری میں یکطرفہ اور بالادستی کی غنڈہ گردی کی منفی لہروں کے سامنے چین روس کے ساتھ مل کر ایک عالمی طاقت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی خصوصی ذمہ داریاں نبھانے، چین ، روس اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے دفاع کرنے اور دنیا کی مساوی، منظم، کثیر قطبی، جامع اور اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گا۔
دونوں سربراہان مملکت نے مختلف شعبوں میں تعاون کے حوالے سے دونوں ممالک کے متعلقہ محکموں کے ذمہ داران کی رپورٹس سنیں۔
شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین اور روس کو معیشت اور تجارت، توانائی، زراعت، ایرو اسپیس اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں اعلی معیار اور باہمی فائدہ مند تعاون کو بڑھانا چاہئے۔ ہم بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور یوریشین اکنامک یونین کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک اعلیٰ معیار کے رابطے کا نمونہ تشکیل دیں گے۔ اسکے علاوہ تعلیم، فلم، سیاحت اور کھیلوں کے شعبہ جات اور مقامی حکومتوں کے مابین تعاون کو مضبوط بنایا جائے گا ، اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے کثیر الجہتی پلیٹ فارمز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قریبی تعاون کو مضبوط بنایا جائے گا اور عالمی گورننس میں اصلاحات کو صحیح سمت میں آگے بڑھانے کے لیے کوشش کی جائے گی ۔
ملاقات کے موقع پر صدر پیوٹن نے کہا کہ وہ صدر شی جن پھنگ کے روس کے سرکاری دورے اور عظیم حب الوطنی کی جنگ میں فتح کی 80 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کا گرمجوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے نہ صرف روس اور چین کے تعلقات کو فروغ ملے گا بلکہ مشترکہ طور پر دوسری جنگ عظیم میں فتح کی کامیابیوں کا تحفظ بھی کیا جائے گا ۔
پیوٹن نے کہا کہ روس اور چین کے تعلقات باہمی مساوات اور باہمی احترام پر مبنی ہیں، ان کا مقصد کسی تیسرے فریق کو نشانہ بنانا نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی واقعے سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ روس کا تزویراتی انتخاب ہے کہ روس چین تعلقات کی ترقی کو فروغ دیا جائے اور باہمی فائدہ مند تعاون کو وسعت دی جائے ۔ روس ایک چین کے اصول پر سختی سے کاربند ہے اور تائیوان کے معاملے پر ہمیشہ چین کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: باہمی فائدہ مند تعاون چین اور روس کے تعلقات بین الاقوامی شی جن پھنگ نے کو فروغ دینے اور عالمی کو برقرار اور باہمی تعاون کو اور چین ترقی کے کے لئے چین کے
پڑھیں:
دنیا بھر میں مطالعے کا تیزی سے کمزور ہوتا ہوا رجحان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان جیسے معاشروں میں مطالعے کا رجحان بہت کمزور ہے بلکہ باقی دنیا سے موازنہ کیا جائے تو ہم اِس معاملے میں کہیں کھڑے ہی نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مطالعے کا رجحان صرف ہمارے ہاں کمزور ہے یا ہمیں ہی کتابوں سے زیادہ محبت اور دلچسپی نہیں رہی۔ دنیا بھر میں لوگ کتابوں سے منہ موڑ رہے ہیں۔ کتب خانے موجود ہیں مگر اُن سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔
دنیا بھر میں کتابوں کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اہلِ علم و فن اِس صورتِ حال سے بہت پریشان ہیں اور تشویش میں مبتلا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مقامی، صوبائی اور مرکزی سطح کی حکومتوں کو اس رجحان کے خاتمے کے لیے متوجہ ہونا پڑے گا۔ اہلِ علم کی ایک تجویز یہ ہے کہ بچوں کو اسکول کی سطح پر مطالعے کا رجحان پروان چڑھانے کی تحریک دی جانی چاہیے۔
دنیا بھر میں مطالعے کا رجحان پروان چڑھانے کے لیے حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں مختلف انداز سے کام کر رہی ہیں۔ لکھنے والوں کو ایسا لکھنے کی تحریک دی جارہی ہے جو انتہائی معیاری ہو اور کم سے کم وقت میں پڑھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرسکے۔ تعلیمی اداروں میں مطالعے کا رجحان پروان چڑھانے کے لیے مختلف پروگرام چلائے جارہے ہیں۔ بچوں میں کتابوں سے محبت پیدا کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں معاملات ابھی تک بیک سیٹ لیے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں اسکولوں، کالجوں اور جامعات کی سطح پر مطالعے کو ایک مضبوط قدر کی حیثیت سے اپنانے پر اُتنا زور نہیں دیا جارہا جتنا دیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں اگر اسکول کی سطح پر بچوں کو کتابوں سے محبت کرنا سکھایا جائے، مطالعے کی عادت اُن میں پروان چڑھائی جائے تو تھوڑی بہت تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں بہت سے سرکاری کتب خانے اب تک موجود تو ہیں مگر بہت حد تک غیر فعال ہیں اور یہ کیفیت اس لیے ہے کہ لوگ دلچسپی ہی نہیں لے رہے۔ نوجوان ہوٹلوں پر بیٹھ کر وقت ضایع کرتے ہیں مگر کسی سرکاری کتب خانے کے دارالمطالعہ میں بیٹھ کر کچھ پڑھنے کو ترجیح نہیں دیتے۔