Islam Times:
2025-09-23@12:03:34 GMT

یمن میں ناکام اور غزہ میں سرگردان

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

یمن میں ناکام اور غزہ میں سرگردان

اسلام ٹائمز: غزہ جنگ اور صیہونی رژیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی نہ روک پانا نیز روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کروانے میں ناکامی امریکہ کی ناکامیوں کی دو مثالیں ہیں۔ امریکہ نے گذشتہ چند ماہ کے دوران یمن پر وسیع فضائی حملے انجام دے کر غاصب صیہونی رژیم کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حملے روکنے کا اعلان کر کے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ صیہونی سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ یمن کی میزائل اور ڈرون طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو امریکہ کی اس ناکامی کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ صیہونی سیکورٹی ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ انصاراللہ یمن بدستور سینکڑوں بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے برخوردار ہے اور اس کے پاس اپنے ملک میں ہی یہ ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ تحریر: مہدی سیف تبریزی
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مغربی ایشیا خطے کے دورے سے چند دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں یمن کے خلاف فضائی حملے روک دینے کا اعلان کیا کہ انہیں انصاراللہ یمن پر اعتماد ہے کہ وہ مزید امریکی بحری جہازوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے یمن پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یمن پر امریکہ کے فضائی حملے روک دینے کا اعلان علاقائی اور عالمی سطح پر مختلف قسم کے تجزیات اور قیاس آرائیوں کا باعث بنا ہے۔ انصاراللہ یمن کے ترجمان محمد عبدالسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ معاہدہ صرف یمن اور امریکہ کے درمیان ہے اور اس میں غزہ کی حمایت میں یمن کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر انجام پانے والے ڈرون اور میزائل حملے شامل نہیں ہیں۔ اس سے انصاراللہ یمن کی تزویراتی گہرائی اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹ جانے کا اظہار ہوتا ہے۔
 
انصاراللہ یمن نے نہ صرف اس معاہدے کو اپنی فوجی طاقت بڑھانے کا سنہری موقع قرار دیا ہے بلکہ اسے خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اہم رکن کے طور پر یمن کی پوزیشن مزید مضبوط ہونے کا باعث بھی گردانا ہے۔ اس بارے میں امریکی نیوز چینل سی این این نے اپنی رپورٹ میں یمن سے جنگ بندی معاہدے کو امریکہ کی جانب سے ایران سے جوہری مذاکرات آگے بڑھانے کی خواہش سے مربوط جانا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے حالات کس قدر پیچیدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ انصاراللہ کے ترجمان اور امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان تیمی بروس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یمن اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس سے متعدد علاقائی اور عالمی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے واشنگٹن کی کوششیں ظاہر ہوتی ہیں۔
 
غزہ جنگ اور صیہونی رژیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی نہ روک پانا نیز روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کروانے میں ناکامی امریکہ کی ناکامیوں کی دو مثالیں ہیں۔ امریکہ نے گذشتہ چند ماہ کے دوران یمن پر وسیع فضائی حملے انجام دے کر غاصب صیہونی رژیم کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حملے روکنے کا اعلان کر کے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ صیہونی سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ یمن کی میزائل اور ڈرون طاقت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو امریکہ کی اس ناکامی کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ صیہونی سیکورٹی ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ انصاراللہ یمن بدستور سینکڑوں بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے برخوردار ہے اور اس کے پاس اپنے ملک میں ہی یہ ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
 
انصاراللہ اور فلسطین کی حمایت کا عہد
موجودہ حالات کا ایک انتہائی اہم اور بنیادی عنصر انصاراللہ یمن کی جانب سے فلسطین کی حمایت کا عزم اور عہد ہے۔ یمن کی سپریم سیاسی کونسل کے رکن محمد علی الحوثی نے امریکہ کی جانب سے یمن پر فضائی حملے روک دینے کے اعلان کو نہ صرف یمن کے لیے ایک فتح بلکہ غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کے لیے شکست بھی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں یمن کی فوجی کاروائیاں غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنے کے لیے انجام پا رہی ہیں تاکہ وہ غزہ میں جاری وحشیانہ جارحیت اور انسان سوز مظالم بند کر دے۔ یہ موقف ایک بار پھر یمن میں اسلامی مزاحمت اور فلسطین کاز کے درمیان گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے یمن پر وحشیانہ فضائی حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بے بس اور مایوس ہو چکا ہے۔
 
امریکی فیصلے پر صیہونیوں کی بوکھلاہٹ
صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی جانب سے یمن پر فوجی جارحیت روک دینے کے اعلان نے صیہونی حکمرانوں کو شدید صدمے اور بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب امریکہ کے اس فیصلے سے آگاہ نہیں تھا اور وہ انصاراللہ یمن کے مقابلے میں امریکہ کی حمایت کھو دینے پر شدید تشویش کا شکار ہے۔ یوں علاقائی سطح پر موجود بحرانوں سے نمٹنے میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان دوریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے وقت جب صیہونی رژیم امریکہ سے انصاراللہ یمن کے خلاف مزید شدت سے فوجی اقدامات انجام دینے کی توقع کر رہی تھی ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن پر فوجی کاروائی روک دینے کا اعلان کر دیا جس کا مطلب یمن کے مقابلے میں ناکامی اور انصاراللہ پر دباو میں کمی ہے۔
 
عمان، خطے کا نیا کھلاڑی
انصاراللہ یمن اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے سے عمان بھی خطے کے حالات پر اثرانداز ہونے والے ایک کھلاڑی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ عمان کی وزارت خارجہ نے مسقط مذاکرات انجام پانے اور ان کے نتیجہ خیز ہونے کا اعلان کیا ہے اور فریقین کی جانب سے مثبت رویہ اپنانے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ خطے کے دیگر مسائل بھی اسی طرح پرامن طریقے سے حل کیے جائیں گے۔ دوسری طرف عمان، ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ جوہری مذاکرات میں بھی مرکزی کردار ادا کر رہا ہے جس کے باعث خطے میں ایک سفارتکار کھلاڑی کے طور پر اس کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ دوسری طرف انصاراللہ کی جانب سے غزہ جنگ جاری رہنے تک اسرائیل پر میزائل حملے جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے حالات کافی پیچیدہ ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اور امریکہ کے درمیان کی جانب سے یمن پر غاصب صیہونی رژیم انصاراللہ یمن ڈونلڈ ٹرمپ نے فضائی حملے اعلان کیا امریکہ کی کیا ہے کہ روک دینے حملے روک کی حمایت کا اعلان کرنے کی دیا ہے کے لیے ہے اور اور اس خطے کے یمن کے یمن کی

پڑھیں:

ٹرمپ کے علاوہ دنیا میں ہمارا کوئی مددگار نہیں، صیہونی میڈیا

صیہونی ٹیلی ویژن کے چینل 13 نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ جنگ کی قیمت بہت زیادہ چکانا پڑ رہی ہے، ہم اس دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں، یورپی یونین بھی، جو اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں سالانہ تقریباً 70 بلین یورو کی سرمایہ کاری کرتی ہے، جلد یہ حمایت ختم کر دے گی۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد دنیا بھر میں عوامی نفرت اور حکومتوں اور ریاستوں کی بدلتی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل تنہائی کا شکار ہے۔ صیہونی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کوئی بھی صیہونی رجیم کا حامی نہیں اور اسرائیل یورپی یونین کی حمایت کھو رہا ہے۔ صیہونی ٹیلی ویژن کے چینل 13 نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ جنگ کی قیمت بہت زیادہ چکانا پڑ رہی ہے، ہم اس دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں، ٹرمپ کے علاوہ کوئی ہمارے ساتھ نہیں ہے، یورپی یونین بھی، جو اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں سالانہ تقریباً 70 بلین یورو کی سرمایہ کاری کرتی ہے، جلد یہ حمایت ختم کر دے گی، اسرائیل کے خلاف سب کچھ بدل جائے گا اور صیہونی حکومت دنیا سے الگ تھلگ ہو جائے گی۔

دریں اثنا، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے اتوار 21 ستمبر 2025 کو ایک تاریخی اقدام میں فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کیا جو مغرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر ایک اہم ترین علاقائی پیش رفت "دو ریاستی حل" اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی تشکیل پر کانفرنس کا انعقاد ہے، جو آج (پیر، 22 ستمبر، مقامی وقت کے مطابق، 22 ستمبر کو) نیویارک میں منعقد ہوگی۔ اس اقدام کی مشترکہ قیادت فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایف بی آر 3.6 کھرب کا سیلز ٹیکس خسارہ ختم کرنے میں ناکام
  • حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے‘سردار عبدالرحیم
  • ٹرمپ کے علاوہ دنیا میں ہمارا کوئی مددگار نہیں، صیہونی میڈیا
  • بھارت سے مسلسل چوتھی شکست، پاکستانی بولرز ناکام، دبئی میں گرما گرمی کا ماحول، انڈین کھلاڑیوں نے پھر ہاتھ نہ ملایا
  • اقوام متحدہ سلامتی کونسل اپنے مقاصد میں ناکام نظر آتی ہے: اختر اقبال ڈار
  • لاہور ایئرپورٹ پر اے ایس ایف کی کارروائی، منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی
  • جنگ کے 716ویں دن، فلسطینی مجاہدین کا شمالی غزہ سے راکٹ حملہ
  • غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنانے کا اصل مقصد کیا ہے؟ عبرانی اخبار نے فاش کر دیا
  • مغربی کنارے میں فلسطینی نوجوانوں اور صیہونی قابض فوج کے درمیان مسلح تصادم
  • صیہونی اپنے قیدیوں کو بھول جائیں، القسام کا پیغام