Daily Ausaf:
2025-09-25@19:54:00 GMT

آہنی دیوار

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

کبریائی صرف میرے رب کے لئے ہے۔ قرآن نے انبیا علیہم السلام اور غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی عزت و وقار کا وعدہ کیا ہے۔ حدیث پاک کے مطابق جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ مضطرب دلوں کو قرار آیا۔ پاکستان کے بدخواہ ایک بار پھر رسوا ہوئے۔مسلمان امن پسند ہوتا ہے۔ شر پھیلانے کے لیے ہتھیار نہیں اٹھاتا بلکہ شر پسندوں کا ہاتھ روکنے کے لیے شمشیر بکف میدان جہاد میں اترتا ہے۔ ازلی دشمن بھارت کے شر نے بالاخر پاکستان کو جنگی زبان میں جواب دینے پر مجبور کر دیا۔ دنیا شاہد ہے کہ بھارت کا جنگی جنون اور شر تمام حدیں پار کرتا رہا۔ اپنے سیاحوں کو دہشت گردی کے ڈرامے میں مار کر مودی سرکار نے سرحد پار دہشت گردی کا واویلا مچایا۔ نہ کوئی ثبوت نہ تحقیقات! زخمیوں کو طبی امداد دینے سے پہلے الزام پاکستان پہ لگایا۔ پاکستان نے شفاف غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کی تو مودی سرکار نے جھٹلا دی۔ ایک ہی اصرار تھا کہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔ سرعت سے درج کرائی گئی ایف آئی آر نے ڈرامے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ پاکستان نے پلوامہ ڈرامے کے تناظر میں فالس فلیگ آپریشن کو بھانپ لیا ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ چھ اور سات مئی کی درمیانی شب چھ مقامات پر بھارت نے میزائل داغے۔ مساجد، محنت کش افراد اور پھول جیسے کم عمر بچے شہید ہوئے۔ صد افسوس کہ نام نہاد میڈیا اور آر ایس ایس کے نظریاتی حامیوں نے ان شہادتوں کا جشن منایا۔ بھارت کی یہ شقی القلبی دنیا نے دیکھی۔ حملوں کے مقامات پہ جانے والے صحافتی حلقوں کو کسی دہشت گرد کیمپ کے آثار نہیں ملے۔ اس رات ایک معاملہ بے حد انوکھا ہوا ۔پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے آنے والے جدید رافیل طیارے اکھاڑے میں ناکارہ ثابت ہوئے ۔بنا سرحد پار کیے ہوئے ان طیاروں نے خیالی اڈوں پر حملہ کیا تو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے پانچ طیارے گرا کر مودی سرکار کو ششدر کر دیا۔ ستم بالائے ستم ان میں تین جدید ترین رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ یہ غیر متوقع ہزیمت مودی سرکار کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔ میڈیا پر نفسیاتی جنگ چھیڑ کر مودی سرکار نے طیاروں کی تباہی سے توجہ بٹائی۔ تمام کھوکھلے دعوے بے نقاب ہوتے چلے گئے۔ بھارتی دانشور اور حکومتی نمائندے اس اعتراض کا جواب نہیں دے رہے کہ آخر جدید ترین رافیل طیارے پاک فضائیہ کے ہاتھوں کیوں زمین بوس ہوئے؟ ماضی میں یہ سوال گونجتا رہا کہ مودی سرکار نے کمیشن لینے کی خاطر ناقص ماڈل کا طیارہ لیا۔ اس وقت الیکشن کے دوران پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر مودی سرکار نے توجہ پاکستان کے خلاف جنگی جنون کی جانب موڑ دی۔
پہلگام حملے کا ڈرامہ پلوامہ سے ملتا جلتا ہے۔ الزام پاکستان پر دھرنے کے بعد جنگی جنون کی آگ کو ہوا دی گئی۔ پاکستان نے ہر مرحلے پر سنجیدگی اور تحمل کا دامن تھامے رکھا۔ سات مئی سے نو مئی کے درمیان میزائل حملوں، ڈرون کی برسات اور بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے سرحدوں کی پامالی نے پاکستان کے صبر کو آزمایا۔ پانی سر سے اونچا ہو گیا تو بہ امر مجبوری پاکستان نے دندان شکن جواب دے دیا۔پہلے جدید رافیل کی تباہی نے بھارت کی سبکی کروائی اور بعد میں غیر موثر ڈرون حملوں نے بھارت کو مایوس کیا۔ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب ایئر بیسز پر حملے پاکستان کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ قوم کا اضطراب بڑھ گیا۔ وعدے کے مطابق افواج پاکستان نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا ۔جن ایئر بیسز اور عسکری تنصیبات پر پاکستان نے حملے کیے ان کی فہرست طویل ہے۔ بھارت کا مواصلاتی نظام اور سرکاری ویب سائٹس ناکارہ کر دی گئیں۔ 70 فیصد بجلی کے گرڈ اسٹیشن بند ہو چکے۔ عسکری ہیڈ کوارٹرز، میزائل سٹور، چوکیاں اور ایئر بیسز پاکستان کے میزائلوں کا نشانہ بنے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق جدید ترین ایس 400 میزائل سسٹم بھی تباہ ہو چکا۔ بھارت پاکستانی مجاہدین کے حملوں سے سکتے میں آ چکا ہے ۔خطے میں بالادستی کا خواب چکنا چور ہو چکا۔ خیالی دنیا میں تصوراتی کہانیاں گھڑ کر اپنی دہاک بٹھانے والا بھارت کسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہا ہے۔ رب کریم کی نصرت سے اس مرحلے میں پاکستان کا پلہ بھاری رہا۔ آگے کے مراحل پیچیدہ ہوں گے۔ بھارت کا مربی اسرائیل معاونت میں پیش پیش ہے۔ یہ معاملہ سادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ الجھا ہوا ہے۔ اتحاد کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ عیاں ہو چکا ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور جوہری استعداد دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ بنیان مرصوص کا پہلا مرحلہ طے ہوا۔ قوم متحد رہی تو دشمن کے مکروہ عزائم ناکام بنانے میں دشواری نہیں ہوگی۔ تاہم یہ طے ہے کہ پاکستان کا وجود بھارت اور اس کے سرپرستوں کے سینوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کر مودی سرکار مودی سرکار نے پاکستان نے پاکستان کے کے لیے

پڑھیں:

ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔!

الحمدﷲ! ہم ہر سال ربیع الاول میں بڑی شان و شوکت، محبّت و عقیدت اور عشقِ رسالتؐ کے جذبے سے سرشار ہو کر جشن آمد رسول ﷺ مناتے ہیں۔ مساجد، شاہ راہوں، گھروں اور عمارتوں کو خوب سجایا جاتا ہے۔ شان دار چراغاں کیا جاتا ہے۔ گلی، محلوں میں رنگ و نور کے دریا بہا دیتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺ کے عظیم الشان جلسے منعقد کرتے اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔ ان محافل میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں، درود و سلام کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی ذرّہ برابر بھی شک نہیں کہ آمد رسول ﷺ کی یاد میں جشن میلاد منانا، جلسے کرنا، جلوس نکالنا، خوشی منانا صرف ذات رسالت مآب ﷺ سے عشق و محبت کا اظہار کا ذریعہ، کارِ ثواب اور باعثِ نجات ہی نہیں بل کہ ہمارے ایمان کی پہچان اور جان بھی ہے یہ سب کچھ امتی ہونے کا تقاضا بھی ہے۔

غور کیجیے! کیا نبی امیّ حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ اس والہانہ عقیدت و محبت کے اظہار سے ہم آپ ﷺ کی دنیا میں آمد کے مقصد اور اپنے امتی ہونے کا حق پورا کردیتے ہیں۔ ذرا سوچیے! کیا نبی آخر الزماں ﷺ صرف اسی لیے انھی کاموں کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ کیا ایمان اور عشق رسالتؐ کا تقاضا صرف اسی قدر ہے ؟ کیا اﷲ و رسول ﷺ، دین و ایمان، قرآن و سنت ہم سے صرف اتنا ہی مطالبہ کرتے ہیں یا کچھ اور بھی چاہتے ہیں۔

کیا عاشقِ رسولؐ اور نبی ﷺ کے امتی کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں صرف اسی حد تک ہیں یا مزید کچھ اس سے آگے بھی، کیا صرف یہی کچھ کرکے ہم اپنے مسلمان ہونے کے فرائض اور امتی ہونے کے فرض سے عہدہ براہ ہوجاتے ہیں یا رسول اکرم ﷺ سے تعلق کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں کچھ اور بھی ہیں۔۔۔ ؟ کیا ہم نے جشن میلاد مناتے ہوئے کبھی اس بات پر بھی غور کیا خالقِ کائنات نے باعثِ تخلیق کائنات اور اپنے محبوب ﷺ کو آخر دنیا میں کس لیے رسولؐ بنا کر بھیجا ؟ نبی اکرم ﷺ کا مقصد بعثت کیا تھا۔

وہ کیا نظامِ خداوندی اور الہامی لائحہ عمل تھا کہ جس کے لیے کائنات تخلیق کی گئی، اس کائنات میں ’’احسنِ تقویم‘‘ کی خلعتِ الہیہ اور ’’کرمّنا بنی آدم‘‘ کے خداوندی شرف و اعزاز کے ساتھ انسان کو نیابت اﷲ کے منصب پر فائز کر کے زمین پر بھیجا اور اس پروگرام کے آغاز کے لیے رب الافلاک نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام کی کہکشاں جگ مگائی اور صاحبِ لولاک ﷺ کے سر پر ختم نبوت کا تاج سجا کر آپ ﷺ کو دنیا میں بھیجا اور آپ ﷺ کی بعثت کے مقاصد اور نظام کو قیامت تک جاری رکھنے کے لیے تاج دار ختم نبوت ﷺ کی امت کو ’’بہترین امت‘‘ کے ابدی اعزاز سے سرفراز فرمایا۔

آج بہ حیثیت امت مسلمہ ہم اپنے عالمی اور ملکی حالت پر غور فرمائیں تو عالمی سطح پر عالمِ اسلام ذلت آمیز اور رسوا کُن حالات سے دوچار ہے۔ ان حالات میں اگر آج ہم خود ہی سے یہ سوال کریں کہ جشن آمد رسول ﷺ مناتے ہوئے اس وقت پاکستان اور عالمِ اسلام کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ تو ہم میں سے ہر شخص اس نتیجے پر پہنچے گا اور یہی جواب دے گا کہ انقلابِ محمدی ﷺ ہماری پوری امت اور عالم اسلام کی سب سے بڑی اور شدید ضرورت ہے۔ یہ اس لیے کہ رسول اﷲ ﷺ کو اﷲ نے جن مقاصد کے حصول اور تکمیل کے لیے اس زمین پر نبی و رسول بنا کر بھیجا۔ وہ مقاصد ’’انقلابِ محمدی ﷺ‘‘ ہی میں پوشیدہ ہیں۔

اپنی اس خواہش، آرزو، حسرت یا ضرورت کے حصول کے پسِ منظر میں ہم دنیا کی تاریخ ِ انقلاب پر ایک نظر ڈالیں تو یہ تاریخی حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے وہ جزوی نامکمل اور انسانی زندگی کے کسی ایک آدھ شعبہ یا حصے تک محدود تھے، مکمل اور ہمہ جہت انقلاب کوئی نہیں تھا۔ لیکن دنیا کا واحد جامع ترین، کامل و اکمل، ہمہ جہت انقلاب تاریخ میں صرف تاج دارِ ختم نبوت جناب ِ محمد رسول اﷲ ﷺ کا لایا ہُوا ’’انقلابِ محمدی ﷺ‘‘ ہے۔

انقلابِ محمدیؐ انسانی زندگی کے کسی ایک گوشے یا شعبۂ حیات تک محدود نہیں بل کہ پوری انسانی زندگی کو محیط اور زندگی کے ہر ایک گوشے کو بدل دینے والا، ہر شعبۂ حیات پر اثر انداز ہونے والا اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہر دور اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس میں ہر چیز بدل گئی۔ مذہب بھی بدل گیا اور عقائد بھی بدل گئے، مذہب تبدیل ہو کر دین بن گیا اور عقائد تواہمات سے بدل کر حقائق بن گئے۔ رسومات بھی بدل گئیں، سیاسی اور معاشی نظام بھی بدل گیا۔ معاشرت بھی تبدیل ہوگئی اور عدالت و انصاف کے اصول و قوانین بھی تبدیل ہوگئے۔ انقلابِ محمدی ﷺ نے صرف انسانی دنیا ہی کو نہیں بدلا بل کہ خود انسان کو اندر سے بدل دیا۔ جو لوگ جانوروں کو پانی پلانے پر ایک دوسرے کی جان لے لیتے اور انسانی خون کی دریا بہا دیتے تھے وہ ایسے بدل گئے کہ اپنے بھائی کو پانی پلانے کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے بن گئے۔

صبغتہ اﷲ کا ایک ہی رنگ مسجد سے بازار تک، مدرسے سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدانِ جنگ تک چھا گیا، ذہن بدل گئے، خیالات کی رو بدل گئی، نگاہ کا زاویہ بدل گیا، خیر و شر کے معیار بدل گئے، حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئیں اور تمدن کے ہر ایک ادارے اور ہر شعبے کی کایا پلٹ ہوگئی۔

اس پوری انقلابی تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ کسی گوشے میں شر نہیں۔ کسی کونے میں فساد نہیں، کسی جانب بگاڑ نہیں۔ ہر طرف بناؤ ہی بناؤ ، تعمیر اور ارتقاء ہی ارتقاء ہے۔ درحقیقت رحمت للعالمین ﷺ کے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی اور حضور ﷺ نے ایک نظام حق کی صبح درخشاں سے مطلع تہذیب کو روشن کر کے دورِ تاریخ کا افتتاح فرمایا، یہ اتنا بڑا کارنامہ اور اتنا عظیم الشان انقلاب ہے کہ اس کی دوسری مثال دوسری جگہ نہیں ملتی۔ (بہ حوالہ: محسنِ انسانیتؐ، نعیم صدیقی) یہی مقصد بعثتِ رسالتؐ ہے۔ اﷲ نے اسی مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے آخری رسول اﷲ ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔

ماہ ربیع الاول کی آمد اور اس ماہِ مبارک میں جشن آمد رسول ﷺ مناتے ہوئے پوری امت کو بعثت محمدی ﷺ کا یہ مقصد خداوندی پیشِ نظر رکھنا از بس ضروری اور ہر حال میں لازم ہے کہ یہی امت کی ذمے داری اور اولین فریضہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے رسول ﷺ کا یہ مقصد بعثت بیان فرمایا ہے۔ سب سے پہلے سورۃ توبہ میں مقصدِ بعثتِ رسالتؐ کو یوں بیان فرمایا، مفہوم: ’’وہی اﷲ ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیانِ (باطلہ) پر غالب کر دے چاہے یہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔‘‘ (توبہ)

اسی مقصد بعثتِ رسالتؐ کو سورۃ فتح میں دہراتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے ہر ایک دین پر غالب کر دے۔ اور اﷲ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (سورۃ فتح) اور اس کے بعد دنیا میں رسول اﷲ ﷺ کو رسول بنا کر بھیجنے کے مقصد کا اعادہ کرتے ہوئے سورۃ صف میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے اگرچہ یہ مشر کیں کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ ‘‘ (سورۃ صف)

بعثتِ رسول اﷲ ﷺ کا یہی مقصد جشنِ آمد رسول ﷺ بھی ہونا چاہیے۔ یہی ماہ ربیع الاول کا پیغام ہے یہی جشن عید میلاد النبی ﷺ کا جوہر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔!
  • مودی سرکار کی ضد نے ہزاروں سکھوں کو بابا گرونانک کی تقریبات سے دور کر دیا
  • بھارت میں 67 علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم
  • گرین شرٹس بنگلا دیشی دیوار گرانے کے لیے بے تاب
  • بھارت: جھارکھنڈ یورینیم ذخائر جنگی جنون کی نذر، عوام تابکار خطرات سے دوچار
  • بھارت، جھارکھنڈ یورینیم ذخائر مودی کے جنگی جنون کی نذر، عوام تابکار خطرات سے دوچار
  • لداخ میں بی جے پی کا دفتر اور بھارتی فوجی گاڑی نذرِ آتش؛ 4 مظاہرین ہلاک، 70 زخمی
  • مودی کی خارجہ پالیسی پر اپوزیشن کا کڑا وار، ’شائننگ انڈیا‘ عالمی تنہائی کا شکار
  • مودی حکومت کی تصویری سفارتکاری پر مبنی خارجہ پالیسی تنقید کی زد میں
  • ٹرمپ کا ویزہ وار۔۔ مودی کی سفارتی شکست