بیجنگ :ماسکو کے ریڈ اسکوائر پر سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی فتح کی اسیویں سالگرہ کی شاندار تقریب منعقد ہوئی ۔ چینی صدر شی جن پھنگ اور دنیا کے 20 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنماؤں نے تقریب میں شرکت کی۔ روسی رائے عامہ کا خیال ہے کہ صدر شی کی تقریب میں شرکت کی اہمیت تاریخی ہے اور یہ چین اور روس کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کی فتح کے ثمرات کے مشترکہ تحفظ اور بین الاقوامی عدل و انصاف کو برقرار رکھنے کے پختہ عزم کا اظہار ہے ۔ سال 2025 خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ سال نہ صرف جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ اور سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی فتح کی اسیویں سالگرہ کا سال ہے، بلکہ اقوام متحدہ کے قیام کی بھی اسیویں سالگرہ ہے۔ فاشزم مخالف عالمی جنگ کے دوران، چین اور روس نے بالترتیب جاپانی فوجی آمریت اور جرمن نازی ازم کی مخالفت میں اول صف میں کھڑے ہو کر جنگ کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ کا آغاز سب سے پہلے ہوا، یہ سب سے طویل اور سب سے زیادہ قیمت چکانے والی جنگ تھی۔ غیر مکمل اعدادوشمار کے مطابق، چینی فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعدادنے 35 ملین سے تجاوز کیا تھا جو دوسری جنگ عظیم کےدوران کل ہلاکتوں کا تقریباً ایک تہائی بنتی ہے۔ اس بار چینی صدر شی جن پھنگ کی سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی فتح کی اسیویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت دنیا تک یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ تاریخ کو بھولنا نہیں چاہیے، امن آسانی سے حاصل نہیں ہواا ور چین اور روس کو بین الاقوامی عدل و انصاف کا مشترکہ طور پر دفاع کرنا ہوگا۔آج کچھ ممالک اپنی اجارہ داری اور ذاتی مفاد کے لیے دوسری جنگ عظیم کی فتح کے نتائج میں تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ مختلف غلط تاریخی نظریات لوگوں کی یادداشت کو مسخ کرنے، بعد از جنگ عالمی نظم و نسق کو مٹا نے اور اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 80 سال گزر چکے ہیں۔ آج ہمیں اس لئے دوسری جنگ عظیم کی فتح کے ثمرات کی حفاظت اور اس کے درست تاریخی نظرئیے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تا کہ تاریخ سے سبق سیکھا جائے اور اس طرح کے عالمی سانحات کو دوبارہ رونما ہونے سے بچا کر ایک بہتر مستقبل کا آغاز کیا جا سکے۔ یہی سوچ دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کی بہترین یادگارہے اور یہی انسانیت اور اس کے مستقبل کے لئے حقیقی ذمہ دارانہ رویہ بھی ہے۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دوسری جنگ عظیم کی فتح کے جنگ کی فتح

پڑھیں:

سندھو کنارے (دوسری قسط )

ہم تاریخ کے اس حیرت کدے میں چلتے جا رہے تھے اور میلوں رقبے پر پھیلا ہوا یہ قبرستان ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ چلتے چلتے آخر کار ہم ’’مائی مکلی‘‘ کی قبر پر پہنچ چکے تھے، روایات کے مطابق جس نیک صفت عورت کے نام پہ یہ قصبہ اور قبرستان ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں جہاں آج قبرستان موجود ہے اس مقام کے قریب ہی دریائے سندھ بہتا تھا، کشتیوں میں سوار حجاج کرام حج کے لیے جاتے ہوئے جب دریائے سندھ کے کنارے آباد اس گاؤں کے قریب سے گزرتے تھے تو اس قصبے کی رہنے والی ایک نیک عورت سفرِنور کے مسافروں کو کھانا کھلاتی تھی۔ اس عورت کی نیک نامی کے چرچے پورے سندھ میں تھے۔

جب اس خاتون کی وفات ہوئی تو اسے اس قصبے کی پہاڑی پر سپردِخاک کردیا گیا۔ شیخ حماد جمالی جو سمہ عہدِسلطنت میں مشہور شاعر اور فاضل تھے، انہوں نے مائی مکلی کی قبر کے ساتھ ہی ایک جامع مسجد تعمیر کروائی، بعد میں یہ چھوٹا سا شہر اور قبرستان اسی نیک عورت مائی مکلی کے نام سے مشہور ہوا۔

میں اس قبرستان کی تاریخ کے بارے کوئی زیادہ معلومات نہیں رکھتا ہوں لیکن جو بھی تھا اس دس میل کے قبرستان میں مائی مکلی کی قبر پر فاتحہ خوانی جاری تھی۔ شاید عقیدت مند آج بھی کسی آس کی ڈوری میں بندھے یہاں چلے آتے ہیں۔ میں نے مزار کے احاطے کے باہر سے ہی فاتحہ خوانی کی اور جامع مسجد کے پہلو میں نظر آتے ایک پر شکوہ مقبرے کی طرف چل دیا جہاں اورنگ زیب اپنے ویڈیو وی لاگ کے لیے عکس بندی کر رہا تھا۔

مائی مکلی کی آخری آرام گاہ کے قریب ہی ایک ایسا عالی شان مقبرہ ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ مقبرہ سانس لیتا ہے۔ زرد پتھروں سے بنا یہ مقبرہ دور سے ہی اپنی جانب متوجہ کرتا نظر آتا ہے۔ اس مقبرے کا پس منظر جاننے کے لیے تاریخ کے چند اوراق پلٹتے ہیں۔

سندھ پر سمہ خاندان کا آخری حکمران جام نظام الدین کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک رحم دل حکم راں تھا جس نے رعایا کے دلوں پر راج کیا اور عوام اپنے اس راجا کو پیار سے ’’جام نِندو‘‘ کہہ کر پکارتے پکارتے تھے تھا۔ جام نظام کا عرصہ حکم رانی سنہ 1460سے 1508 یعنی ان کی وفات تک رہا۔ مغل حکمرانوں کی طرح سندھ کے اس راجا کو بھی تعمیرات کا بہت شوق تھا، خاص کر زرد پتھروں سے تعمیر شدہ عمارات کا۔ جام نظام الدین نے اپنی زندگی میں ہی اپنے مقبرے کی تعمیر شروع کروا دی تھی جو ان کی وفات کے ایک سال بعد مکمل ہوئی۔ جام نظام الدین کے مقبرے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ مقبرہ بغیر چھت کے تعمیر ہوا ہے۔

مقبرے کی تعمیر میں زرد پتھر استعمال کیا گیا ہے، جسے چوکور اینٹوں کی صورت ڈھالا گیا ہے۔ مقبرے کی عمارت پہ اندر اور باہر کی سمت پتھروں پر خطاطی کے دل کش نمونے ہیں جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ مقبرے میں جام اور دیگر مدفون افراد کی قبریں انتہائی سادہ ہیں لیکن مقبرے کے درودیوار پر خوبصورت نقش و نگار سے کیا گیا کام موجود ہے۔

واضح رہے کہ جام نظام الدین کا مقبرہ مکلی میں موجود ان چند مقبروں میں سے ایک ہے جن کی اہمیت کے باعث یونیسکو نے اسے اپنی عالمی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہ مقبرہ ایک پہاڑی کے کنارے پر تعمیرشدہ ہے اور اب گردشِ ایام کی وجہ سے ایک جانب کو جھک چکا ہے۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق، جام نظام الدین کے مقبرے کی بحالی کے دوران اس پر کام کرنے والے عملے میں موجود سائٹ انچارج نے ایک دل چسپ انکشاف کیا کہ مقبرے میں دراڑوں کو مانیٹر کرنے کے لیے دیواروں میں ’’ڈیجیٹل کریک مانیٹر‘‘ لگائے گئے تھے جو خصوصاً مقبرے کے اوپر والے حصے میں لگائے گئے تھے۔ سائٹ انچارج کے بقول جب ہم نے ریڈنگ لی تو ہمارے ساتھ ایک خاصے سنیئر آرکیٹیک کنزرویٹر تھے، وہ بوکھلا کر کہنے لگے کہ ’’یہ مقبرہ سانس لیتا ہے۔‘‘ شاید پہاڑی پر ہونے کے باعث اس میں ارتعاش زیادہ تھا اور اس ارتعاش میں دن اور رات کے اوقات میں فرق دیکھا گیا۔

اس کے بعد یہ مشہور ہو گیا کہ جام نظام الدین کا مقبرہ سانس لیتا ہے۔

مکلی قبرستان کے اختتام پر عبداللّہ شاہ اصحابی کا مزار ہے، جو شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد میں سے ہیں۔ اس بزرگ ہستی کی جائے پیدائش بغداد ہے اور ان کی وفات 1650ء میں ٹھٹھہ میں ہوئی، جن کا مدفن مکلی قبرستان بنا۔ سینکڑوں عقیدت مند مزار کے اندر آ جا رہے تھے اور میں مزار کے باہر کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ کچھ تو ایسا ہے جو انسانی عقل کے پردوں سے پرے ہے۔ شاید یہ دنیا ایسی بھی نہیں ہے جیسی ہمیں نظر آتی ہے۔ مزار پہ فاتحہ خوانی کرنے کے بعد ہم ٹھٹھہ کی جانب چل دیے۔ اس مزار کے ساتھ ہی ایک پتلی سی سڑک تھی جو ہمیں ٹھٹھہ شہر کے مرکزی چوک تک لے گئی۔

 ٹھٹھہ شہر سے میری دیرینہ شناسائی ہے یہ شہر میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ میں اس کی فضاؤں میں آج سے پیشتر بھی کچھ عرصہ گزار چکا تھا اور یہ شہر میرے ہجر و فراق کے لمحوں کا گواہ بھی رہ چکا تھا، لیکن آج میں سندھو دھرتی کا مہمان تھا۔ یہ شہر آج مجھے ایک آوارہ گرد کی حیثیت سے خوش آمدید بول رہا تھا جس کی دھول اڑاتی سڑکوں کے اُس پار ہماری منزل تھی۔ آج اس شہر کو میں بھی کسی اور نظر سے دیکھ رہا تھا۔ دن کے چار بجنے والے تھے اور اب ہم ضلع سجاول کی جانب جانے والی سڑک پر ایک ہوٹل میں بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ ہماری منزل شاہ جہاں مسجد اس ہوٹل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر تھی۔ اورنگ زیب نیلے، پیلے اور ہرے کپڑوں میں ملبوس منہ سے گٹکا تھوکتے ہوئے سندھ واسیوں کو بڑی حیرت بھری نظروں سے دیکھتا تھا۔ یہ میرے ہم وطن سادگی میں اپنی مثال آپ تھے اور مہمان نواز تھے۔

 ٹھٹھہ جو کبھی ماضی میں ایک شان دار شہر رہ چکا ہے لیکن اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہم شاہ جہاں مسجد کی جانب چل دیے جہاں مسجد کے عبوری گیٹ کے باہر پان، گٹکا اور ربڑی کی ریڑھیوں کی بھرمار تھی۔ مسجد کی حدود میں داخل ہوتے ہی کھجور اور ناریل کے درختوں میں گھرے ہوئے خوب صورت سبزہ زار نظر آتے ہیں جن کے درمیان خوبصورت فوارے لگے ہوئے ہیں۔ فواروں کا پانی اب خشک ہو چکا ہے اور سبزہ زاروں میں بچے اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔

گو کہ مغلوں نے زیادہ تر تعمیرات کا مسکن لاہور اور دلی کو ہی بنائے رکھا لیکن سندھ کے اس قدیم شہر میں موجود یہ مسجد مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے دورِ حکومت کی ایک خوب صورت عبادت گاہ اور یاد گار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں شاہ جہاں نے ٹھٹھہ شہر میں جلاوطنی کاٹی تھی اور جب شاہ جہاں تخت نشین ہوا تو مغل شہنشاہ نے اس شہر میں ٹھیک اسی جگہ ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی جہاں ایک چھوٹی سے مسجد میں وہ نماز ادا کیا کرتا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر 1647ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی جس میں بیس ہزار افراد کی نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔

مسجد میں خوب صورت باغیچوں کو عبور کرنے کے بعد مرکزی دروازہ آتا ہے۔ مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو پانچ سو سال گزرنے کے باوجود بھی یہ مسجد اپنی خوب صورتی کا منہ بولتا ثبوت نظر آ رہی تھی۔ مسجد پر پہلی نگاہ پڑتے ہی اس کی تعمیر میں نیلا رنگ نمایاں ہونے کی وجہ سے یہ ایرانی طرزتعمیر کا اعلیٰ شاہ کار نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن کسی کے ہاتھوں خوب صورتی سے ترتیب دیا گیا کام صدیوں بعد بھی روئے زمین پر موجود رہتا ہے جو آنے والی نسلوں کو ورطہَ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ شاہجہانی مسجد کی خوب صورتی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں سرخ رنگ کے ساتھ ساتھ نیلے رنگ کا ٹائل ورک عمدہ کاشی کاری کا نمونہ ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی میں اور اورنگ زیب الگ الگ ہوچکے تھے اور اب خاموشی سے اس عبادت گاہ کے حُسن کو دیکھ رہے تھے۔ ایک پاکیزہ خاموشی تھی جو اس عبادت گاہ کے درو دیوار سے لپٹی ہوئی تھی۔ میں بھی ایک سحر میں ڈوبا ہوا مسجد کی راہداریوں میں چل رہا تھا۔

 مسجد کی خوب صورتی اس کے وہ چھوٹے بڑے گنبد ہیں جن کی تعداد 100 ہے۔ مسجد کے اندر سے ان گنبدوں کو دیکھا جائے تو ان کے در ایک لائن میں اور ترتیب کے اعتبار سے بہت دل کش لگتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہر در پہلے در سے چھوٹا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ گنبد سرخ اور سفید پتھروں سے بنائے گئے ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی لائنیں ایک خوب صورت ڈیزائن ترتیب دیتی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے گنبد چھوٹے چھوٹے ستاروں سے جگمگا رہے ہوں۔

مسجد میں خوب صورتی سے کی گئی کاشی کاری میں نیلا، فیروزی، بینگنی اور سرخ رنگ ایک سماں باندھ دیتا ہے یہ خوبصورت رنگ چاروں جانب بکھرے نظر آتے ہیں۔

گنبدوں کی ترتیب اور ہوا کی آمد و رفت کا انتظام کچھ اس خوبی سے رکھا گیا ہے کہ اذان و خطبے کی آواز پوری مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کے بغیر بہ آسانی سنائی دیتی ہے۔ مسجد میں ہوا اور روشنی کے لیے دیواروں میں نہایت کشادہ اور جالی دار روشن دان بنائے گئے ہیں۔ ان روشن دانوں کی ترتیب بھی ایک خاص انداز میں رکھی گئی ہے۔ اس کی بدولت مسجد کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں ہوا اور روشنی کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔

سندھ کی دھرتی پر شام کے سائے ڈھل رہے تھے اور میں مسجد کے صحن میں بیٹھا تھا، ایک حیرت اور احترام کا احساس چہار سو پھیلتا تھا، میرے الفاظ اس مسجد کی خوب صورتی کو بیان کرنے سے قاصر تھے، اورنگ زیب کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے اور ہم واپسی کے سفر کے لیے مسجد کے مرکزی دروازے کی جانب چل دیتے ہیں۔

……………

سفر میں کچھ جگہیں یا مناظر ایسے ہوتے ہیں جو اچانک نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر آپ کے قدم خودبخود تھم جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ قدرت کی جانب سے کسی بھی آوارہ گرد کے سفر کا انعام ہوتے ہیں۔ ٹھٹھہ سے نکلتے ہوئے ایک ایسا ہی سفری بونس ہمارے بھی حصے میں آیا۔ جب ہم ٹھٹھہ کے مضافات میں پہنچے تو مکلی قبرستان سے جو مندر ہمیں سڑک کنارے نظر آ رہا تھا، اب وہ اچانک ہماری نگاہوں کے سامنے تھا۔ ہم نے مندر کے گیٹ کے ساتھ جیسے ہی موٹر سائیکل روکی تو حفاظتی ڈیوٹی پر معمور پولیس اہل کار فوراً ہماری جانب بڑھا۔ ہم نے پولیس والے سے کہا کہ ہم مندر دیکھنا چاہتے ہیں، پولیس اہل کار نے نفی میں جواب دیا۔ ہم نے دوبارہ تھوڑی لجاجت سے منت سماجت کی اور کہا کہ ہم پنجاب سے سندھ دیکھنے آئے ہیں لہٰذا ہمارے ساتھ تھوڑی رعایت برتی جائے۔ ہماری منت سماجت پر پولیس والا مندر کے نگراں کے پاس گیا جو چند لمحوں بعد گیٹ پر موجود تھا۔ ہمارا پورا انٹرویو کرنے کے بعد مندر کے نگراں جے رام داس نے ہمیں اندر جانے کی اجازت اس شرط پر دی کہ ہم مندر کے اندر جا کر تصاویر نہیں بنائیں گے۔ نگراں جے رام داس کے ساتھ وعدہ کرکے ہم مندر کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔

اس مندر کا نام ماتا شنگھبھوانی مندر ہے جس کی تاریخ سیکڑوں سال پرانی ہے۔ میں زندگی میں پہلی بار باقاعدہ کسی مندر کو اندر سے دیکھ رہا تھا۔ مندر کے داخلی دروازے پر بڑی سی گھنٹی نصب تھی جس کے بارے میں جے رام داس نے بتایا کہ جب کوئی بھگت مندر میں آتا ہے تو آنکھیں بند کر کے جب وہ گھنٹی بجاتا ہے تو گھنٹی کی گونج سے پیدا ہونے والی آواز کی بدولت اُس کے دماغ میں سے منفی خیالات نکل جاتے ہیں جس کے بعد بھگت پاک صاف ذہن کے ساتھ مندر میں داخل ہوتا ہے۔ مندر کی گھنٹی بجانے کے بعد ہم بھی جے رام داس کی معیت میں مندر کے اندرونی حصے کے جانب بڑھ چکے تھے۔ شام کا وقت تھا اور ہندو برادری کے لوگ کافی تعداد میں پوجا کے لیے یہاں پہنچ رہے تھے۔ بھگوانوں کی بڑی بڑی مورتیوں کے سامنے پجاری بیٹھے پوجا میں مشغول تھے۔ ان مورتیوں میں، کالی ماتا، شیرانوالی ماتا اور بھولے ناتھ کی مورتیاں تھیں۔ بھولے ناتھ ہندو مذہب میں سانپوں کے بھگوان کو کہا جاتا ہے۔ مندر میں موجود ایک بھٹی نما جگہ تھی جس کی چمنی میں سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ہمارے استفسار پر جے رام داس نے بتایا کہ اس بھٹی میں سوکھے ہوئے گوبر کی دھونی جلائی جاتی ہے جو بھولے ناتھ بھگوان کی پوجا کا ایک حصہ ہے۔

جے رام داس کے بقول کے معاشرے میں وہ عام شہریوں کی طرح ہی رہتے ہیں مقامی آبادی سے انہیں کسی بھی قسم کا خوف نہیں ہے اور تمام مذاہب کے لوگ اُن کے ساتھ ہر قسم کا لین دین کرتے ہیں۔ نگراں جے رام داس نے پاکستان میں ہندو دھرم کی رسومات کے متعلق مزید بتایا کہ ان کے دھرم میں بھی دو طرح کے فرقے ہیں ایک طبقہ مردے کو دفن کرتا ہے اور دوسرا مردے کو جلاتا ہے، ہندو دھرم کا ایک شمشان گھاٹ بھی ٹھٹھہ میں موجود ہے۔

ابھی چند لمحے قبل میں اپنے مذہب کی ایک عظیم عبادت گاہ کے سحر میں سے نکل کر آ رہا تھا اور اب میں یکسر ایک مختلف دھرم کی عبادت گاہ میں موجود تھا۔ ہر عبادت گاہ کا اپنا اپنا تقدس ہوتا ہے، میری

 سمجھ نہیں آتا کہ ہم ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو ہمیشہ اپنے اپنے مذہبی نظریے سے ہی کیوں دیکھتے ہیں۔ ان عبادت گاہوں کو ہم کسی کے پاکیزہ جذبات کی نظر سے بھی تو دیکھ سکتے ہیں یا پھر مجھے لگتا ہے کہ ایک سیاح کے اندر موجود آوارہ گرد کی روح ایسی جگہ پر جا کر ان عبادت گاہوں کو فقط ایک انسان کی نظر سے ہی دیکھتی ہے۔ شاید میں بھی کسی ایسے ہی لمحے کے زیرِاثر اس عبادت گاہ کو دیکھ رہا تھا۔

مندر سے نکلنے کے بعد ہم مرکزی شاہراہ پر ہو لیے اور پھر سفر طے کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے شہر ’’گجو‘‘ پہنچ گئے۔ گجو سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کی مسافت پر ’’ہالے جی جھیل‘‘ ہے، کراچی سے ٹھٹھہ جاتے ہوئے گجو شہر کے نواح میں مرکزی سڑک سے الٹے ہاتھ ایک سڑک نکلتی ہے جو ہالیجی کی جانب جاتی ہے۔ ہمارے موٹر سائیکل کا رخ بھی ہالیجی جھیل کی جانب ہو چکا تھا۔ ٹوٹی ہو سڑک پر ہمارا سفر جاری تھا جس کے ارد گرد جھونپڑیاں آباد تھیں، ان جھونپڑیوں میں رہنے والے ننگ دھڑنگ بچے بلا خوف و خطر سڑک پر گھوم رہے تھے۔

تقریباً پندرہ منٹ بعد ہم ہالیجی جھیل کے کنارے کھڑے تھے۔ تاحد نگاہ ہر طرف پانی ہی پانی تھا یہ جھیل بہت بڑے پانی کے ذخیرے کا مجموعہ ہے۔ اس جھیل کے کناروں پر ایستادہ بلندو بالا درخت اور سرکنڈے اسے مزید خوب صورت بناتے ہیں۔ جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ پختہ سڑک ہے اور جھیل کے کنارے بیٹھنے کے لیے سرکار کی جانب سے جا بجا خوب صورت لکڑی کے ہٹ بنائے گئے ہیں۔ یہاں سندھ حکومت کی جانب سی ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس بھی بنایا گیا ہے جہاں آپ رات رک سکتے ہیں۔

 یہاں مانگنے والوں کی بھی بہتات تھی، ہمیں بھی دیکھتے ہی چار پانچ مانگنے والے فوراً ہماری جانب لپکے۔ کسی بھی سیاحتی مقام پر مانگنے والوں سے جان چھڑانے کے لیے میرے پاس ایک نسخہ ہے کہ میں اُس مانگنے والے سے موجودہ سیاحتی مقام کے متعلق بات چیت شروع کردیتا ہوں۔ اس طرح سیاحتی مقام کے بارے اچھی خاصی معلومات بھی مل جاتی ہیں اور مانگنے والے کو یاد بھی نہیں رہتا کہ میں اِس بندے کے پاس آیا کیوں تھا۔ آج بھی میں نے کچھ اسی طرح کیا، جب ایک ادھیڑ عمر شخص اور دو عورتیں ہمارے ارد گرد جمع ہوگئیں۔ اورنگ زیب تو ویڈیوز اور تصاویر بنانے میں مصروف ہوگیا اور میں نے اپنی عادت کے مطابق اس ادھیڑ عمر شخص سے سوالات کرنے شروع کردیے جسے اس جھیل کی معلومات ازبر تھیں۔ چند لمحوں بعد ایک سنگی بینچ پر میں اُن مانگنے والوں کے درمیان بیٹھا تھا اور وہ میرے ساتھ ایسے معلومات کا تبادلہ کر رہے تھے جیسے میں بھی انہیں کے گروپ کا حصہ ہوں۔ اس ساری گفتگو کے دوران میں ان کی روزانہ کی کمائی کے بارے میں بھی پوچھ چکا تھا جو کہ کافی تسلی بخش تھی۔ خیر مجھے جھیل کے بارے کافی معلومات مل چکی تھیں اور اتنی دیر میں وہ تینوں بھی جھیل پر پہنچنے والی ایک چمچماتی بڑی گاڑی کی جانب لپک چکے تھے۔

ہالیجی جھیل کراچی سے تقریباً 85 کلومیٹر دور ہے۔ اس جھیل کا حدود ارب تقریباً آٹھ کلومیٹر ہے۔ یہ جھیل کسی زمانے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کا ذریعہ تھی۔

کسی زمانے میں یہ جھیل ہجرت کرنے والے پرندوں کی پسندیدہ آماج گاہ تھی۔ 1972 میں اس جھیل کو سینکچوری (جنگلی حیات کی مکمل پناہ گا) کا درجہ دیا گیا تھا۔ اَسی اور نوے کی دہائی میں یہ جھیل سندھ وائلڈ لائف بورڈ کی زیرانتظام تھی۔ اس سے زمانے میں جھیل پر پرندوں کی آمد اپنے عروج پر رہتی تھی۔ ایک سروے کے مطابق اُس وقت ہالے جی جھیل پر تقریباً 250 کے قریب پرندوں کی اقسام پائی جاتی تھیں۔ اس جھیل کو پرندوں کی جنت کہا جاتا تھا۔ دلدلی مگر مچھوں کی موجودگی کی وجہ سے اسے خونی جھیل بھی کہا جاتا رہا اور اس جھیل میں نہانے پر بھی پابندی تھی۔

خیر اس وقت مجھے جھیل پر سوائے اکا دکا بگلے کے کوئی اور آبی پرندہ نظر نہیں آیا۔ جھیل کے وسط میں سرکنڈوں میں گھری ایک پہاڑی چٹان بھی نظر آ رہی تھی۔ ادھیڑ عمر فقیر کے بقول اس پہاڑی پر بھی کسی کا مرقد ہے جہاں زائرین کشتی کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ میں جو ہمیشہ پہاڑوں میں موجود خوب صورت جھیلوں کے سراب میں مبتلا رہتا ہوں، آج اس میدانی علاقے میں موجود اس پانی کے ذخیرے کو بھی بڑے سکون سے تک رہا تھا کیوںکہ کراچی جیسے کنکریٹ کے سمندر کے بغل میں یہ جھیل ایک گوشئہ عافیت ہے جو اپنے بچے کھچے قدرتی حسن کے ساتھ موجود ہے۔ اس جھیل میں کچھ تو ایسا ہے جو تھوڑے وقت کے لیے تو آپ کو روکے رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

میرے سامنے ہالیجی جھیل کے پانیوں پر ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری کرنیں تھیں جو اس کے پانیوں کو مزید خوب صورت بنارہی تھیں۔ ہوائیں سرکنڈوں سے سرسراتی ہوئی گزرتی تھیں اور جھیل کا پانی لہروں کی صورت کناروں پر سر پٹختا تھا۔ شاید یہ اپنی بے قدری پر نوحہ کناں تھا۔ شام ڈھل چکی تھی اور مؤذن اللّہ کی بڑائی کی آواز بلند کر رہا تھا۔ ہمارا ہالیجی کے پانیوں کو الوداع کہنے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ یادوں کے آسمان میں ایک اور خوب صورت ستارے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک آخری نظر جھیل پر ڈالنے کے بعد ہم واپسی کے راستے پہ قدم بڑھا چکے تھے۔

 ہر سفر میں بہت کچھ باقی رہ جاتا ہے، یہ تشنگی ہی دوبارہ پھر سے سفر پر اکساتی ہے۔ میرے اندر بھی سندھ دھرتی کو جاننے کے متعلق ابھی تجسس باقی ہے، شاید اس تجسس کی بدولت مجھے مسقبل میں پھر سے سندھ دھرتی کی جانب سفر کا اِذن دے دیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • چین پاک انسداد آفات سرگرمیوں نے جنوب- جنوب تعاون کے لیے “چین پاک حل” پیش کیا ، چینی میڈیا
  • سندھو کنارے (دوسری قسط )
  • پاکستان نے دفاع، سفارتکاری اور عالمی میڈیا میں بھرپور پذیرائی حاصل کی: شازیہ مری
  • امریکہ کے مقابلے میں چین کے ساتھ تجارت زیادہ فائدہ مند ہے، چینی میڈیا سروے
  • پاک بھارت کشیدگی میں چینی ساختہ لڑاکا طیارے جے 10 سی نے اپنا لوہا منوا لیا
  • چین اور روس نے دنیا کے لئے “خصوصی ذمہ داریاں” نبھائی ہیں، چینی میڈیا
  • پاکستان نے بھارت کا ایک اور طیارہ مار گرایا، پائلٹ گرفتار ، چینی میڈیا کا بڑا دعویٰ
  • چین بھی رافیل طیاروں کی تباہی کا مذاق اڑانے لگا، گانا ریلیز
  • بھارت کے 3 فوجی اڈوں پر حملہ؟ وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان آگیا