آئندہ مالی سال کا بجٹ 2جون کو پیش ہوگا، درآمدی گاڑیاں سستی ہونے کا امکان WhatsAppFacebookTwitter 0 11 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)آئندہ مالی سال کا بجٹ 2 جون کو پیش ہوگا، درآمدی گاڑیاں سستی ہونے کا امکان ہے ۔تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت آئندہ مالی سال 2025-26کا بجٹ 2 جون 2025 کو قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

ذرائع کے مطابق بجٹ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے مطالبے پر درآمدی گاڑیاں سستی کیے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت درآمدی گاڑیوں پر ٹیکسزمیں کمی پر غور کر رہی ہے ،اس حوالے سے 850سی سی تک کی چھوٹی اور 1801سی سی تک کی بڑی گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی میں 5سے 30 فیصد تک کمی کی تجویزدی گئی ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان پرزور دیا ہے کہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کو بحال کیا جائے اور درآمدی شعبے پر بھاری ٹیکسز میں نرمی لائی جائے، تاکہ معیشت میں توازن پیدا ہو۔بجٹ میں ان تجاویز کی منظوری کی صورت میں گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع ہے، جس سے صارفین کو براہ راست ریلیف مل سکتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریو این سیکرٹری جنرل کا پاک بھارت جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم یو این سیکرٹری جنرل کا پاک بھارت جنگ بندی کے اعلان کا خیر مقدم پاک بھارت جنگ بندی پر اسلامی تعاون تنظیم کا بیان آگیا امریکی صدر ٹرمپ کی شکل میں پاکستان کو بہترین شراکت دار مل گیا، وزیراعظم چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی سرکاری دورے پر روس پہنچ گئے دوٹوک موقف اپنانے پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کا فیس بک پیج بھارت میں بلاک سیز فائر کے بعد آخر کار نواز شریف منظرِ عام پر آ ہی گئے، بیرسٹر سیف کا طنز TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: درآمدی گاڑیاں سستی آئندہ مالی سال کا امکان کا بجٹ

پڑھیں:

امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!

واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد  تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔

شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟

یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔

شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔

کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔

شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز

شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔ 

شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔

فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔

کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ 

امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔

امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان

امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔

شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟

ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔

حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟

ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔

تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔

متعلقہ مضامین

  •  پنجاب کےکماؤ پت محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی سنی گئی
  • فوج کی حمایت کا الزام، 90 ہزار فالوورز والی ٹک ٹاکر اغوا کے بعد قتل
  • شام‘ سرکاری ملازمین سے مہنگی گاڑیاں واپس لے لی گئیں
  • شام‘ سرکاری ملازمین مہنگی گاڑیوں سے محروم
  • امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
  • کراچی: ہیوی ٹریفک کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد
  • ہانگ کانگ سکسز، بھارت کو مسلسل تیسری شکست، نیپال کیخلاف 45 رنز پر ڈھیر
  • بجلی 48 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری
  • پنجاب میں صوبائی محکموں اورکمپنیوں کو ’’فنڈز کی خودمختاری‘‘ختم
  • بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام