افواج پاکستان نے پوری قوم کی حمایت کے ساتھ بھارتی جارحیت کا جواب دیا، ترجمان پاک فوج
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
افواج پاکستان نے پوری قوم کی حمایت کے ساتھ بھارتی جارحیت کا جواب دیا، ترجمان پاک فوج WhatsAppFacebookTwitter 0 11 May, 2025 سب نیوز
راولپنڈی (سب نیوز)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا ہے کہ ہم ہر طرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور افواج پاکستان نے پوری قوم کی حمایت کے ساتھ بھارتی جارحیت کا جواب دیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور غیرمتزلزل عزم کا استعارہ ہے۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ پاکستان نے متعدد بار بھارت کو خبردار کیا تھا کہ وہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھے، پاکستان نے واضح کیا تھا کہ بھارت کی جانب سے کوئی جارحیت کی گئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے اوورسیز پاکستانی کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا 13 لاکھ بھارتی فوج ہتھیاروں سے ہمیں ڈرا اور دھمکا نہیں سکتی، ہم پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں اور سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم ہر طرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ملکی سرحدوں اور سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے، فوجی محاذ آرائی کا راستہ بھارت نے چناتو یہ ان کی چوائس ہے، آگے یہ کدھر جاتا ہے یہ ہماری چوائس ہے۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ اگر بھارت نے دوبارہ جارحیت کی تو ہمارا پیغام واضح ہے کہ ہم تیار ہیں آزمانا نہیں، ہم محاذ آرائی شروع نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایک ذمہ دار ریاست ہیں، ہم بھارت کی جارحیت، طاقت اور مکاری سے مرعوب ہونے والی قوم نہیں، ہم ہمیشہ تعمیری بات چیت کے راستے پرعمل کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بزدل بھارت نے پاکستان پر بلااشتعال جارحیت کی اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جبکہ مسلح افواج نے دشمن کی جارحیت کا مکمل اور بھرپور جواب دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ بھارت کو جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، پاکستان کی غیور عوام اور پاکستان کی افواج یہ باور کرانا چاہتی ہے، معصوم شہریوں کے ناحق خون کے آخری قطرے تک کا مکمل حساب لیا جائے گا، انشا اللہ، بھارت نے بزدلانہ طریقے سے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیا، دشمن نے پاکستان کی جری قوم کوللکار ہے بھارت کی اس غلط فہمی کو ٹھیک کردیا جائے گا، ہم جذبہ شہادت سے سرشار ایک مضبوط فوج ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ الحمد اللہ افواج پاکستان نے پوری قوم کی حمایت کے ساتھ بھارتی جارحیت کا جواب دیا اور آگے بھی دیتی رہے گی، کسی کو بھی پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ڈی جی آئی ایس پی آر ملک کی سرحدوں کا دفاع ،اس پاک دھرتی کا دفاع ہمارا نصب العین اور ہماری خوش قسمتی ہے، پاکستان نے صرف اپنا دفاع کیا، یہ بھارت ہے جس نے بزدلانہ حملہ کیا تھا۔
ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ بھارت نے نہتے اور معصوم شہریوں بشمول بچوں اور عورتوں پر بزدلانہ حملہ کیا، پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اس جارحیت کا بھرپور جواب دے گا، پاکستان اپنی مرضی کی جگہ اور وقت کے مطابق اس جارحیت کا بھرپور جواب دے گا، بھارت کی بوکھلاہٹ اور پاگل پن کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، کیا بھارت یہ نہیں جانتا کہ ہم جذبہ شہادت سے سرشار ایک مضبوط فوج ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی ڈی اے ، بارشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے فائر اینڈ ریسکیو یونٹس مکمل طور پر فعال سی ڈی اے ، بارشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے فائر اینڈ ریسکیو یونٹس مکمل طور پر فعال بھارتی فوجی افسران نے ڈھکے چھپے الفاظ میں رافیل کی تباہی کا اعتراف کرلیا بھارتی اپوزیشن کا نریندر مودی سے پہلگام واقعے، آپریشن سندور پر پارلیمان میں جواب دینے کا مطالبہ اپنے سپہ سالار کو پاکستانی ارطغل کا نام دے رہا ہوں،گورنر کامران ٹیسوری نمائندہ خصوصی محمد صادق کی افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات جنرل عاصم منیر کے عزم وہمت اور دلیری نے دشمن کی جارحیت کے پرخچے اڑا دئیے، بلال اظہر کیانیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ترجمان پاک فوج آئی ایس پی آر دیا جائے گا پاکستان کی بھارت نے بھارت کی مزید کہا کریں گے تھا کہ
پڑھیں:
سعودی عرب نے سوڈانی فوج کا ساتھ کیوں دیا؟
اسلام ٹائمز: 2023 میں جدہ مذاکرات کی میزبانی (امریکہ کے تعاون سے)، سوڈان کی بندرگاہ سے ہزاروں غیر ملکیوں کو نکالنا اور انسانی امداد کی فراہمی اس سلسلے میں ریاض کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم، یہ سفارتی کردار آہستہ آہستہ سوڈان کی فوج کی براہ راست حمایت کی طرف منتقل ہوگیا ہے، کیونکہ سعودی عرب ریپڈ ری ایکشن فورسز کی کامیابی کو اپنے اثر و رسوخ کے لئے خطرہ کے طور پر دیکھتا ہے، یہ ایک ایسا موقف ہے جس کی مثال سعودیہ کی جانب سے مصری فوج کی حمایت کی شکل میں موجود ہے، جس سے سعودی عرب کا پلڑا اماراتی مخالف اتحاد کی صورت میں مضبوط ہو سکتا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
متحدہ عرب امارات افریقہ اور بحیرہ احمر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ملیشیاؤں کو ہتھیار اور مالی اعانت فراہم کر رہا ہے لیکن سعودی عرب، جو کبھی متحدہ عرب امارات کا اتحادی تھا، اب اس اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے سوڈانی فوج کی حمایت کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے سوڈان میں ہونے والے تنازعے میں ملک کی فوج کی تیزی سے حمایت کی ہے، یہ تنازعہ اپریل 2023 میں عبدالفتاح البرہان کی سربراہی میں سوڈانی مسلح افواج اور محمد ہمدان دگالو (ہیمیدی) کی سربراہی میں ریپڈ ری ایکشن فورسز کے درمیان شروع ہوا تھا، جس کی جڑیں تزویراتی مفادات، تاریخی تعلقات اور علاقائی دشمنیوں میں پیوست ہیں۔ سعودی عرب کی متحدہ عرب امارات کے برعکس اور بر خلاف سوڈان پالیسی کی اسباب، محرکات اور وجوہات درج ذیل ہیں۔
1۔ سوڈانی فوج کے ساتھ سعودی رجیم کے مضبوط تاریخی اور ذاتی تعلقات:
سعودی عرب نے 2019 میں عمر البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے البرہان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے ہیں۔ سوڈان کی خودمختاری کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے البرہان سوڈان کے روایتی ریاستی ڈھانچے کی نمائندگی کرتے ہیں، جسے سعودی عرب جائز سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس ، ریپڈ ری ایکشن ملیشیا کی جڑیں دارفور کی جنجاوید ملیشیا میں ہیں اور اسے متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے سعودی عرب کو سوڈانی فوج کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مارچ 2025 میں، البرہان نے خرطوم پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب کا سفر کیا، جس میں "سوڈان کے اتحاد اور ملیشیاؤں کے خلاف لڑائی" کے لئے ریاض کی حمایت کی تعریف کی۔ سیاسی مبصرین کے نقطہ نظر سے یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات کی علامت ہے۔
2۔ متحدہ عرب امارات اور سعودیہ کے درمیان پراکسی وار کا آغاز:
یوں سوڈان کا تنازعہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پراکسی جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات افریقہ اور بحیرہ احمر میں، خاص طور پر سوڈان کی سونے کی کانوں اور بندرگاہوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے رد عمل پذیر ملیشیاؤں کو مالی مدد، اسلحہ، اور یہاں تک کہ کرائے کے فوجیوں کی بھرتی (اماراتی کمپنیوں کے ذریعے) حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب، جو کبھی متحدہ عرب امارات کا اتحادی تھا، اب اس اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے سوڈانی فوج کی حمایت کر رہا ہے۔ یمن جنگ (2015) کے بعد سے دشمنی میں شدت آئی ہے ، جہاں دونوں ممالک نے سوڈانی افواج (بشمول ریپڈ ری ایکشن ملیشیا) کو استعمال کیا، لیکن اب سعودی عرب ریپڈ ری ایکشن ملیشیاؤں پر قابو پانے کے لئے سوڈانی افواج کو اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر ترجیح دیتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے فوج کی مدد کے لیے مصر اور اریٹیریا کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔
3۔ بحیرہ احمر میں سلامتی کے مسائل اور سعودیہ کا وژن 2030:
سوڈان مغربی ایشیا اور افریقہ کے درمیان ایک اسٹریٹجک پل ہے اور اس کا استحکام سعودی عرب کے لیے ناگزیر ہے۔ سوڈان میں عدم استحکام مہاجرین کے بحران، اسلحے کی اسمگلنگ اور بحیرہ احمر کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے (سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا ایک اہم راستہ)۔ سعودی عرب سوڈان کے انتشار کو روکنے کے لئے ملک کی فوجی اور متحد خودمختاری کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ ریپڈ ری ایکشن فورسز علیحدگی پسندی کی طرف جھک سکتی ہیں (جیسے دارفور میں "امن اور اتحاد کی حکومت" کی تشکیل)۔ اپنے "وژن 2030" کے ایک حصے کے طور پر، سعودی عرب سوڈان کو اپنے لئے زرعی اور خوراک کی سرمایہ کاری (خوراک کی حفاظت کے لئے) ضروری سمجھتا ہے، اور فوج کے لئے اس کی حمایت ان مفادات کی ضمانت دیتی ہے۔
4. علاقائی بالادستی کے لئے سفارتی کردار اور کوششیں:
سعودی عرب نے خود کو سوڈان میں امن کے قیام کے لئے موثر ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔ 2023 میں جدہ مذاکرات کی میزبانی (امریکہ کے تعاون سے)، سوڈان کی بندرگاہ سے ہزاروں غیر ملکیوں کو نکالنا اور انسانی امداد کی فراہمی اس سلسلے میں ریاض کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم، یہ سفارتی کردار آہستہ آہستہ سوڈان کی فوج کی براہ راست حمایت کی طرف منتقل ہوگیا ہے، کیونکہ سعودی عرب ریپڈ ری ایکشن فورسز کی کامیابی کو اپنے اثر و رسوخ کے لئے خطرہ کے طور پر دیکھتا ہے، یہ ایک ایسا موقف ہے جس کی مثال سعودیہ کی جانب سے مصری فوج کی حمایت کی شکل میں موجود ہے، جس سے سعودی عرب کا پلڑا اماراتی مخالف اتحاد کی صورت میں مضبوط ہو سکتا ہے۔
5۔ یمن جنگ اور سوڈان اور عربوں کے فوجی اور اقتصادی تعاون کی تاریخ:
غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق سوڈان نے یمن جنگ میں سعودی اتحاد میں 10 ہزار سے زائد فوجی بھیجے تھے جس کی وجہ سے سعودی عرب فوج کے ساتھ زیادہ قریب ہو گیا ہے۔ اس کے بدلے میں ریپڈ ری ایکشن ملیشیا نے اس شراکت داری کو آمدنی (کم از کم 3 بلین ڈالر) بڑھانے اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا۔ سعودی عرب نے جنوبی سوڈان کی علیحدگی (2011) کے بعد قرضوں کے ذریعے بھی سوڈان کی معیشت کی حمایت کی، جس نے سوڈانی فوج کو اپنا معاشی شراکت دار بنا دیا۔ سوڈان کی خودمختار کونسل کے لئے سعودی عرب کی حمایت نہ صرف متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے بلکہ سیکیورٹی، معیشت اور سفارت کاری میں طویل مدتی مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے بھی اہم ہے۔ تاہم، ان مداخلتوں نے جنگ کو طول دیا ہے اور انسانی بحران کو بڑھا دیا ہے (جس میں 10 ملین سے زیادہ بے گھر اور قحط کے خطرے سے دوچار ہیں)۔ کواڈ (امریکہ، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات) جیسی ثالثی کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، کیونکہ دونوں متحارب فریق مذاکرات کی میز پر برتری حاصل کرنے کے لیے فوجی فتح کے خواہاں ہیں۔