حکومت امریکا کیساتھ سندھ طاس معاہدے کی بحالی کا معاملہ اٹھائے، آبی ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا کی مدد سے جنگ بندی پر اتفاق ہونے کے بعد آبی ماہرین نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کا معاملہ اٹھائے، حکومت کو فوری طور پر اس معاملے پر امریکی حکام سے بات کرنی چاہیے تاکہ 24 اپریل کو بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو معطل رکھنے کا غیر قانونی یکطرفہ فیصلہ واپس لیا جائے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سابق رکن جاوید لطیف نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے کو فوری طور پر اٹھانا صحیح وقت ہے، بھارت اپنے فیصلے کو امریکی مداخلت کے دوران پاکستان کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں واپس لے سکتا ہے، کیوں کہ اس طرح وہ عوامی طور پر اس کا اعلان کرنے سے بچ جائے گا۔
1960 کا معاہدہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو منظم کرتا ہے، اس معاہدے کے تحت بھارت کو مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کا پانی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے، معاہدے کے تحت پاکستان کو مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
پاکستان کے سابق کمشنر برائے سندھ طاس سید جماعت علی شاہ نے کہا کہ امریکا سمیت تمام ممالک کی مداخلت صرف جنگ بندی تک محدود نہیں ہے، میرے خیال میں جنگ بندی پہلا قدم ہے، اور مجھے یقین ہے کہ جب (پاکستان اور بھارت امریکی ثالثی کے تحت ایک ساتھ بیٹھیں گے تو انہیں یہ مسئلہ اٹھانا پڑے گا۔
جماعت علی شاہ نے کہا کہ حکومت کو امریکا سے کہنا چاہیے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سندھ طاس کے سابق کمشنر نے کہا کہ اگر مذکورہ مسائل حل کی جانب بڑھتے ہیں تو پاکستان کو امریکی گارنٹی لینی چاہیے تاکہ بھارت مستقبل میں اس کی خلاف ورزی نہ کرے۔
دریں اثنا خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے بھارتی حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ کئی روز کی مہلک لڑائی کے بعد ہفتے کو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچنے کے باوجود پانی کی تقسیم کا معاہدہ معطل ہے۔
’پانی کے بہاؤ میں کوئی خلل نہیں‘
پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق تمام دریا اپنے معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں، بہاؤ میں کوئی خلل نہیں ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے، مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ سمیت تمام دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔
دریائے چناب دریا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 مئی کو بھارت کی جانب سے ڈیم بھرنے کے لیے دریا کی روانی روک دی گئی تھی، جس کے باعث دریا میں پانی کی آمد 3 ہزار ایک سو کیوسک تک رہ گئی تھی، تاہم اگلے دن پانی جاری کیا گیا، مرالہ ہیڈ ورکس پر بھی پانی کی آمد معمول کے مطابق ہے۔
پانی کے ڈیٹا کی تبادلے کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ عام طور پر یہ ڈیٹا بارش یا سیلاب کے موسم میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے، وہ (بھارت) ان دنوں ہمارے ساتھ ڈیٹا شیئر نہیں کر رہے، جیسا کہ وہ عموماً سیلاب یا کسی دوسرے غیر معمولی صورت حال کے تحت انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت کرتے ہیں، لیکن چونکہ دریائے چناب کی روانی ان دنوں معمول کے مطابق ہے، ہم بالکل فکر مند نہیں ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت آنے والے بارش کے موسم میں ڈیٹا شیئر کرے گا۔
واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی طرف سے شیئر کردہ پانی کی یومیہ رپورٹ کے مطابق دریائے چناب میں پانی کی آمد اور اخراج ہیڈ مرالہ پر بالترتیب 29 ہزار 700 کیوسک اور 10ہزار 300 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کی آمد ایک لاکھ 36 ہزار 300 کیوسک اور اخراج 70ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا، دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر پانی کی آمد 52 ہزار 400 کیوسک، اخراج 32 ہزار کیوسک رہا، دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر پانی کی آمد 46 ہزار کیوسک اوراخراج 46 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
دریائے سندھ میں تربیلا، جناح اور چشما کے مقامات پر پانی کی آمد اور اخراج گزشتہ 24 گھنٹوں کے معمول کے مطابق ہے۔
آبی ذخائر پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تربیلا ڈیم میں پانی کی موجودہ سطح ایک ہزار 456 فٹ ہے، جس میں قابل استعمال پانی کا ذخیرہ اک اعشاریہ 289 ملین ایکڑ فٹ ہے، مندرا ڈیم میں پانی کی سطح ایک ہزار 141 فٹ ہے، جس میں قابل استعمال پانی کا ذخیرہ ایک اعشاریہ 377 ملین ایکر فٹ ہے، چشمہ کینال میں پانی کی سطح 646.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: معمول کے مطابق پر پانی کی ا مد میں پانی کی ہزار کیوسک اس معاہدے نے کہا کہ کیا گیا کی جانب کے تحت
پڑھیں:
27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ بل پیش کیے جانے کے بعد یہ ہفتہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترمیم کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کو ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس مجوزہ تبدیلی کے تحت اس نئی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری براہِ راست انتظامیہ کرے گی، جب کہ سپریم کورٹ کو اس کے دائرۂ اختیار کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس بل کو رواں ہفتے کے دوران ہر صورت منظور کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے لفظ پاکستان بھی حذف کر دیا جائے گا، جب کہ چیف جسٹس کا عہدہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت میں تبدیل ہو جائے گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے 12 نومبر کو ترکی کے سرکاری دورے پر روانہ ہونے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔
ماہرینِ قانون کے مطابق اگر اس دوران پارلیمان نے 27ویں ترمیم منظور کر لی، تو حکومت کسی بھی جج کو نیا چیف جسٹس نامزد کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نظریں اب سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اس ترمیم پر کس نوعیت کا ردعمل دیتی ہے۔
قانونی ماہرین اور وکلا برادری میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری آئین کی بنیادی روح ہے، جسے کسی بھی قیمت پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس آفریدی کو فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلا کر ججز کا متفقہ مؤقف سامنے لانا چاہیے تاکہ ادارے کی ساکھ محفوظ رہ سکے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد کے قانونی ماہرین اپنی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ایسی وفاقی آئینی عدالت کی ساکھ پر عوامی اعتماد کیسے قائم رہے گا، جس کے سربراہ کا تقرر خود حکومت کرے۔ سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی مؤقف اپناتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے، تاکہ عدلیہ کی غیر جانب داری اور وقار برقرار رہے۔