خوراک ہماری بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر ہمارا جینا محال ہے۔ کھانا خواہ کچھ بھی ہو اور کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو بِن کھائے زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔دنیا میں قسم قسم کے کھانے موجود ہیں اور وہاں کے لوگ انھیں شوق سے کھاتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے پاکستانی کھانوں کا تعلق ہے تو یہ بہت چٹ پٹے اور لذیذ ہوتے ہیں۔ ان میں قورمہ، نہاری اور پلاؤ شامل ہیں لیکن ان میں سب سے مرغوب بریانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ بریانی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب مغربی ممالک کے لوگ ہمارے کھانوں سے محض اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ ان کے مصالحہ جات انھیں راس نہیں آتے تھے لیکن اب تو حال یہ ہے کہ غیر ملکوں کے لوگ بھی ان کھانوں کا لطف اٹھانے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔
کراچی پاکستانی کھانوں کا مرکز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لذیذ کھانوں کو متعارف کرانے کا سہرا مغل بادشاہوں کے سر ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھر سے باہر کھانے کو عیب سمجھا جاتا تھا جب کہ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ کھانوں کی اتنی ورائٹی دستیاب ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کھائے تو کیا کھائے۔ ایک پرانی کہاوت یاد آرہی ہے کہ’’ آدمی پہنے جگ بھاتا اور کھائے من بھاتا۔‘‘ کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں جب کہ دوسرے پیدا ہی کھانے کے لیے ہوتے ہیں۔
کھانوں کی لذت کا انحصار ان میں استعمال کیے جانے والے اجزائے ترکیبی پر ہے جن میں کھانے میں استعمال ہونے والا گھی یا تیل بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔آپ نے یہ کہاوت بھی سنی ہوگی کہ گھی پکائے سالنا نام بڑی بہو کا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب باورچی لوگ کھانوں میں استعمال ہونے والی اشیاء کو راز کی طرح چھپاتے تھے۔ اسی طرح سگھڑ خواتین بھی کھانا پکانے کی ترکیبوں کو اس طرح چھپاتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو لیکن جب سے ٹیلی وژن عام ہوا ہے کوئی راز، راز نہیں رہا۔
شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈش شامل کی جاتی ہے تا کہ لوگ خوب واہ واہ کریں۔ ادھر مہمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے اس کے بعد کبھی کھانا میسر ہی نہیں آئے گا اور وہ اپنی زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ کھانا اپنی اپنی پلیٹوں میں نکال رہے ہوتے ہیں۔ مقابلہ بازی کی اس فضا میں ہر کوئی سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سا کھانا ضایع ہوجاتا ہے جو جھوٹا ہونے کے سبب استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ ہمارے معاشرے میں یہ برائی کم ہونے کے بجائے روز بروز زور بڑھتی جارہی ہے۔یہ صورتحال انتہائی قابلِ مذمت ہے۔
دنیا میں اس وقت خوراک کی شدید قلت ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں جب کہ دوسری جانب خوراک کا بے دریغ ضیاع ہورہا ہے۔ حال ہی میں میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا کروڑوں بار شکر ادا کیا کیونکہ اس نے مجھے کھانے کی بیشمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کچرے میں کھانا تلاش کر رہا تھا۔ قریب ہی ایک کتا بھی کچرے کے اُسی ڈھیر میں کھانے کا متلاشی تھا۔
اس پر مجھے وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب جرمنی میں کچھ پاکستانی دوست مل کر برلن کے ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے اور انھوں نے کھانے کا آرڈر دیا جو کہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھا جیسا کہ ہم لوگوں کی عادت ہے۔ انھوں نے کھانا کھایا اور باقی کھانا پلیٹ میں چھوڑ کر فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے کھانے کا بل طلب کیا۔ قریب ہی ایک جرمن کھانا کھا رہا تھا اس نے یہ دیکھ کر فوراً پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس آفیسرنے انھیں یہ باور کرایا کہ یہ جرمنی ہے اور یہاں کھانا ضایع کرنے کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ریستوران نے انھیں کھانا ضایع کرنے پر جرمانہ وصول کیا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ چالیس فی صد کھانا ضایع ہوجاتا ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے یہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور دوسری جانب کھانے کی ایک بہت بڑی مقدار ضایع ہورہی ہے۔ 2024 میں % 25.
پاکستان میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانا ضایع ہونا ایک عام سی بات ہے خصوصاً بوفے میں جس میں لوگ اپنی بھوک سے زیادہ کھانا نکال لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تاثر عام ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا مہمان نوازی میں شمار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کھانے کی مقدار کو سخاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ میزبان کو تنقید سے بچنے کے لیے زیادہ کھانا پکانا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے یہاں لوگوں میں خوراک کے ضیاع کے ماحول اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوئیڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں اسکول کے بچوں کو شروع ہی سے کھانا ضایع نہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جسے عوامی مہم کے ذریعہ لاگو کیا جاتا ہے تا کہ عوام الناس میں خوراک کے ضیاع کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا ہو سکے۔ سوئیڈن میں‘‘زیرو ویسٹ’’اقدام کا مقصد بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ہے جس کی وجہ سے سوئیڈن کا شمار دنیا کے سب سے کم خوراک ضایع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ فرانس میں سوپر مارکیٹس کو غیر فروخت شدہ خوراک کو عطیہ کرنے کی ہدایت ہے جب کہ اٹلی میں خوراک عطیہ کرنے پر ٹیکس پر رعایت ہے۔
جاپان میں شادیوں میں میزبان اپنے مہمانوں کو کھانا ایک مخصوص مقدار میں پیش کرتے ہیں اور بچے ہوئے کھانے کو ضایع کرنے کے بجائے تعظیماً اس کا‘‘ To-go box’’بنا کر تقسیم کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی سورت الاعراف میں رزق کے ضیاع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے بڑے واضح احکامات ہیں کہ‘‘کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل نہیں کرتے۔
ایک طرف خوراک کی قلت ہے اور دوسری طرف اتنی فراوانی کے باوجود اس کا ضیاع عام ہے، اگر ہمیں ایک دن بھی فاقہ کرنا پڑے یا بھوکا رہنا پڑے تو ہمیں لگ پتا جائے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ کھانا ضایع کریں یا کسی بھوکے کو کھلائیں؟
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زیادہ کھانا کھانا ضایع ضایع کرنے کھانے کا سے زیادہ ہے جس کے جاتا ہے ہوتا ہے ہے اور
پڑھیں:
لاعلمی یا کچھ اور؟
اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کے عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جو اہداف لے کر ایران پر حملہ آور ہوئے تھے وہ تین تھے۔ پہلا: ایران کو جوہری پروگرام کو بند کروانا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ دوسرا: ایران میں رجیم کو تبدیل کرنا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ تیسرا: ایران کی سپریم قیادت کا خاتمہ۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ اب جناب کالم نویس خود غور فرمائیں کہ آپ کا کالم پیشوائیت کے حوالے سے لاعلمی پر مبنی تھا یا کوئی دانستہ کاوش؟ تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی
لا علمی کہاں تک جا پہنچی ہے اس کا اندازہ مورخہ 25 جون 2025ء کو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے میں وجاہت مسعود صاحب کے ایران سے متعلق لکھے گئے مضمون سے ہوا۔ موصوف نے خوبصورتی سے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ایران کی سرزمین پر برطانوی سامراج کیخلاف علم بغاوت بلند کرنیوالے بھی ایک مجتہد آیت اللہ شیرازی تھے جنہوں نے 1888ء میں سامراجی معاہدوں کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی۔ جو ’’تحریک تحریم تمباکو‘‘ کے نام سے تاریخ میں موجود ہے اور اس وقت بھی ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے کھڑی تھی پھر دوسری تحریک 1940ء کے عشرے میں آیت اللہ شہید حسن مدرس نے برطانوی پٹھو رضا شاہ پہلوی کے خلاف چلائی تھی اور انہیں قتل کردیا گیا تھا۔ پھر ایک تحریک شمالی ایران یعنی مازندران اور گیلان میں روسی قبضے کے خلاف مرزا کوچک خان جنگلی نے چلائی تھی کیونکہ یہ تحریک جنگلی علاقوں میں تھی لہٰذا اسے نہضت جنگل یعنی تحریک جنگل کا نام دیا گیا۔ یہ بھی ایک عالم دین تھے اور روسیوں نے ان کا سر قلم کر دیا تھا۔ گیلان کے دارالحکومت رشت میں ان کا مزار اور گھر دونوں آج بھی روحانی طاقت کا مظہر ہیں۔
جناب، ڈاکٹر مصدق کی تحریک پوری پڑھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ کبھی شاہ کیخلاف کامیابی، چاہے وقتی ہی سہی، حاصل نہیں کرسکتا تھا اگر آیت اللہ کاشانی اس کیساتھ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کی ناکامی کے بعد مصدق کو صرف قید ہوئی جبکہ نواب مجتبٰی صفوی سمیت درجنوں علماء کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کیا گیا۔ 1963ء ءمیں جب شاہ ایران نے امریکہ اور اسرائیل سے ذلت آمیز معاہدے کئے تو امام خمینیؒ کی تحریک وجود میں آئی اور سب سے پہلے قربانی دینے والا طبقہ علماء کا تھا۔ اس تحریک کے آغاز میں ہی سینکڑوں علماء اور دینی طلبا کا قتل عام کیا گیا، پھر ساری ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے ہر شہر میں نکل آئی۔ تاہم شاہ کی افواج نے درندگی کے ساتھ چالیس سے پچاس ہزار لوگوں کا قتل عام کیا اور 1964ء کے اس قتل عام کے بعد امام خمینی کو ملک بدر کردیا گیا۔ امام خمینی ترکی سے ہوتے نجف پہنچے وہاں سے انکی تقاریر اور پیغامات ایران پہنچتے رہے اور یہ تحریک جڑیں پکڑتی رہی، اس دوران ساواکیوں (ساواک، شاہ کی خفیہ ایجنسی) نے نجف میں امام خمینی کے بڑے بیٹے آیت اللہ مصطفیٰ خمینی کو قتل کروا دیا۔ اسی دوران ڈاکٹر شریعتی کو لندن میں قتل کر دیا جاتا ہے۔
ادھر ایران میں کیونکہ بائیں بازو کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں اس لئے تودہ پارٹی سمیت تمام بائیں بازو کے دھڑوں نے اسی امام خمینی کی تحریک کے پردے میں پناہ لی اور تحریک کے دھارے میں شامل ہوگئے، اس امید پر کہ ملاؤں سے تو نظام نہیں چلے گا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب پر ہمارا قبضہ ہوگا۔ امام خمینی انقلاب سے پہلے ہی بعد کا نظام بھی ترتیب دے چکے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں نظام چلانے والوں کا لشکر بنا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے بعد بہشتی اور مطہری جیسوں کا قتل بھی انقلاب کو نہ گرا سکا۔ آپ نے ان خیانتکاروں اور غداروں کی موت کا ذکر کیا لیکن آپ یہ بھول گئے کہ انہی غداروں کی وجہ سے اوائل انقلاب ہی میں ایران کا صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم جواد باہنر کو شہید کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے 72 ارکان شہید کئے جاتے ہیں لیکن انقلاب قائم رہتا ہے۔ انہی خیانت کاروں کی وجہ سے ایران پر جنگ مسلط کی جاتی ہے اور صدر بنی صدر اور وزیر خارجہ صادق قطب زادہ جیسے امریکی ایجنٹوں کے سبب آغازِ جنگ میں ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن ان دونوں خیانت کاروں کے فرار اور انجام کے بعد ایران کی جنگ میں کامیابیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ نے جن ترقی پسندوں کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے وہ ترقی پسند نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ تھے۔
تودہ کے پارٹی سربراہ نورالدین کیانوری سمیت کسی بھی ایسے شخص کو پھانسی نہیں دی گئی جو نظام کا مخالف ضرور تھا لیکن کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ نہیں تھا، ان میں سے اکثر صرف نظر بند کئے گئے اور اکثریت آزاد رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں تودہ پارٹی کے بچے کچھے افراد نے اپنی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور آخر میں آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کے عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جو اہداف لے کر ایران پر حملہ آور ہوئے تھے وہ تین تھے۔ پہلا: ایران کو جوہری پروگرام کو بند کروانا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ دوسرا: ایران میں رجیم کو تبدیل کرنا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ تیسرا: ایران کی سپریم قیادت کا خاتمہ۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ اب جناب کالم نویس خود غور فرمائیں کہ آپ کا کالم پیشوائیت کے حوالے سے لاعلمی پر مبنی تھا یا کوئی دانستہ کاوش؟