Express News:
2025-05-13@06:26:38 GMT

کھانے کا ضیاع

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

خوراک ہماری بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر ہمارا جینا محال ہے۔ کھانا خواہ کچھ بھی ہو اور کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو بِن کھائے زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔دنیا میں قسم قسم کے کھانے موجود ہیں اور وہاں کے لوگ انھیں شوق سے کھاتے ہیں۔

جہاں تک ہمارے پاکستانی کھانوں کا تعلق ہے تو یہ بہت چٹ پٹے اور لذیذ ہوتے ہیں۔ ان میں قورمہ، نہاری اور پلاؤ شامل ہیں لیکن ان میں سب سے مرغوب بریانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ بریانی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب مغربی ممالک کے لوگ ہمارے کھانوں سے محض اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ ان کے مصالحہ جات انھیں راس نہیں آتے تھے لیکن اب تو حال یہ ہے کہ غیر ملکوں کے لوگ بھی ان کھانوں کا لطف اٹھانے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔

کراچی پاکستانی کھانوں کا مرکز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لذیذ کھانوں کو متعارف کرانے کا سہرا مغل بادشاہوں کے سر ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھر سے باہر کھانے کو عیب سمجھا جاتا تھا جب کہ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ کھانوں کی اتنی ورائٹی دستیاب ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کھائے تو کیا کھائے۔ ایک پرانی کہاوت یاد آرہی ہے کہ’’ آدمی پہنے جگ بھاتا اور کھائے من بھاتا۔‘‘ کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں جب کہ دوسرے پیدا ہی کھانے کے لیے ہوتے ہیں۔

کھانوں کی لذت کا انحصار ان میں استعمال کیے جانے والے اجزائے ترکیبی پر ہے جن میں کھانے میں استعمال ہونے والا گھی یا تیل بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔آپ نے یہ کہاوت بھی سنی ہوگی کہ گھی پکائے سالنا نام بڑی بہو کا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب باورچی لوگ کھانوں میں استعمال ہونے والی اشیاء کو راز کی طرح چھپاتے تھے۔ اسی طرح سگھڑ خواتین بھی کھانا پکانے کی ترکیبوں کو اس طرح چھپاتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو لیکن جب سے ٹیلی وژن عام ہوا ہے کوئی راز، راز نہیں رہا۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈش شامل کی جاتی ہے تا کہ لوگ خوب واہ واہ کریں۔ ادھر مہمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے اس کے بعد کبھی کھانا میسر ہی نہیں آئے گا اور وہ اپنی زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ کھانا اپنی اپنی پلیٹوں میں نکال رہے ہوتے ہیں۔ مقابلہ بازی کی اس فضا میں ہر کوئی سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سا کھانا ضایع ہوجاتا ہے جو جھوٹا ہونے کے سبب استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ ہمارے معاشرے میں یہ برائی کم ہونے کے بجائے روز بروز زور بڑھتی جارہی ہے۔یہ صورتحال انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

دنیا میں اس وقت خوراک کی شدید قلت ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں جب کہ دوسری جانب خوراک کا بے دریغ ضیاع ہورہا ہے۔ حال ہی میں میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا کروڑوں بار شکر ادا کیا کیونکہ اس نے مجھے کھانے کی بیشمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کچرے میں کھانا تلاش کر رہا تھا۔ قریب ہی ایک کتا بھی کچرے کے اُسی ڈھیر میں کھانے کا متلاشی تھا۔

اس پر مجھے وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب جرمنی میں کچھ پاکستانی دوست مل کر برلن کے ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے اور انھوں نے کھانے کا آرڈر دیا جو کہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھا جیسا کہ ہم لوگوں کی عادت ہے۔ انھوں نے کھانا کھایا اور باقی کھانا پلیٹ میں چھوڑ کر فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے کھانے کا بل طلب کیا۔ قریب ہی ایک جرمن کھانا کھا رہا تھا اس نے یہ دیکھ کر فوراً پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس آفیسرنے انھیں یہ باور کرایا کہ یہ جرمنی ہے اور یہاں کھانا ضایع کرنے کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ریستوران نے انھیں کھانا ضایع کرنے پر جرمانہ وصول کیا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ چالیس فی صد کھانا ضایع ہوجاتا ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے یہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور دوسری جانب کھانے کی ایک بہت بڑی مقدار ضایع ہورہی ہے۔ 2024 میں % 25.

3 پاکستانی خطے غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جو کہ اس سے گزشتہ سال کے مقابلہ میں پورے % 7 اضافہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ خوراک کے عالمی بحران کی نشاندہی کرتی ہے جس کے مطابق ایک ٹرلین ڈالر کھانا سالانہ ضایع کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں تقریباً 800 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں۔

پاکستان میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانا ضایع ہونا ایک عام سی بات ہے خصوصاً بوفے میں جس میں لوگ اپنی بھوک سے زیادہ کھانا نکال لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تاثر عام ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا مہمان نوازی میں شمار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کھانے کی مقدار کو سخاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ میزبان کو تنقید سے بچنے کے لیے زیادہ کھانا پکانا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے یہاں لوگوں میں خوراک کے ضیاع کے ماحول اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

سوئیڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں اسکول کے بچوں کو شروع ہی سے کھانا ضایع نہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جسے عوامی مہم کے ذریعہ لاگو کیا جاتا ہے تا کہ عوام الناس میں خوراک کے ضیاع کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا ہو سکے۔ سوئیڈن میں‘‘زیرو ویسٹ’’اقدام کا مقصد بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ہے جس کی وجہ سے سوئیڈن کا شمار دنیا کے سب سے کم خوراک ضایع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ فرانس میں سوپر مارکیٹس کو غیر فروخت شدہ خوراک کو عطیہ کرنے کی ہدایت ہے جب کہ اٹلی میں خوراک عطیہ کرنے پر ٹیکس پر رعایت ہے۔

جاپان میں شادیوں میں میزبان اپنے مہمانوں کو کھانا ایک مخصوص مقدار میں پیش کرتے ہیں اور بچے ہوئے کھانے کو ضایع کرنے کے بجائے تعظیماً اس کا‘‘ To-go box’’بنا کر تقسیم کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی سورت الاعراف میں رزق کے ضیاع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے بڑے واضح احکامات ہیں کہ‘‘کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل نہیں کرتے۔

ایک طرف خوراک کی قلت ہے اور دوسری طرف اتنی فراوانی کے باوجود اس کا ضیاع عام ہے، اگر ہمیں ایک دن بھی فاقہ کرنا پڑے یا بھوکا رہنا پڑے تو ہمیں لگ پتا جائے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ کھانا ضایع کریں یا کسی بھوکے کو کھلائیں؟

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیادہ کھانا کھانا ضایع ضایع کرنے کھانے کا سے زیادہ ہے جس کے جاتا ہے ہوتا ہے ہے اور

پڑھیں:

آرگینک خوراک ، مصنوعات ،جڑی بوٹیوں کو سی پیک کے زرعی منصوبوںمیں شامل کیا جائے، نجم مزاری

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مئی2025ء) آرگینک خوراک اور مصنوعات پر ریسرچ کرنے والے ادارے کے سربراہ نجم مزاری نے چین سے جوائنٹ ونچر کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آرگینک خوراک ، مصنوعات اور جڑی بوٹیوں کو برآمدی تناظر میں غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے سی پیک کے تحت زرعی منصوبوںمیں شامل کرنے کیلئے بھی پیشرفت کرے ،چینی ماہرین کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لیے دونوں ممالک کے زرعی ماہرین کی مشترکہ ورکنگ گروپس تشکیل دئیے جائیں۔

اپنے بیان میں انہوںنے کہا کہ دنیا میں آرگینک خورا ک اور مصنوعات کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے ،ہمیں عالمی منڈیوں میں برآمدات کے ذریعے اپناحصہ لینے کیلئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے ،عالمی منڈیوں میں مسابقت کے لیے ہمیں بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریاں قائم کرنا ہوں گی جو تجزیہ کر کے برآمدی سرٹیفکیٹ جاری کریں،یہ منصوبہ پاکستان کی برآمدات کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ تمام صوبوں میں آرگینک زراعت کی کاشتکاری کی تربیت کے لیے کسان دوست پروگرام شروع کئے جائیں،زرعی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو کسانوں سے جوڑنے کے لیے مقامی سطح پر تربیتی ورکشاپس منعقد کی جائیں،ہر صوبے میں کم از کم ایک ریسرچ مرکز قائم کیا جائے جو مقامی حالات کے مطابق تحقیق کرکے اسے کسانوں سے شیئر کرے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت چھوٹے کسانوں کے لیے خصوصی قرضہ اسکیمیں متعارف کرائے،اگر مذکورہ تجاویز پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو پاکستان نہ صرف آرگینک خوراک کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے قیمتی زرِ مبادلہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں بدترین بھوک کا راج، کچھ نہیں بچا جسے بیچ کر کھانا لیا جاسکے، اقوام متحدہ
  • اسرائیلی امدادی پابندیوں سے غزہ میں قحط کا بڑھتا خطرہ
  • پڑوسن کے بلے کو کھانا کھلانے پر تھانہ کچہری، غیرمعمولی کیس کا عجیب انجام
  • بلیک ہول کی خوراک بنتا سورج پہلی بار کیمرے میں قید، خوفناک منظر
  • پھلوں کو بعد میں کھانے کیلئےفریز کیسے کریں؟ صحیح، آسان اور کم خرچ طریقہ طریقہ جانئے
  • بچوں کی طرح کھائیں، صحتمند زندگی جییں
  • کھانے کا سیاسی و سماجی مکالمہ
  • آپریشن بُنیان مّرصُوص؛ پاکستان سے منہ کی کھانے کے بعد بھارت نے گھٹنے ٹیک دیئے
  • آرگینک خوراک ، مصنوعات ،جڑی بوٹیوں کو سی پیک کے زرعی منصوبوںمیں شامل کیا جائے، نجم مزاری