Express News:
2025-09-27@01:17:04 GMT

کھانے کا ضیاع

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

خوراک ہماری بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر ہمارا جینا محال ہے۔ کھانا خواہ کچھ بھی ہو اور کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو بِن کھائے زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔دنیا میں قسم قسم کے کھانے موجود ہیں اور وہاں کے لوگ انھیں شوق سے کھاتے ہیں۔

جہاں تک ہمارے پاکستانی کھانوں کا تعلق ہے تو یہ بہت چٹ پٹے اور لذیذ ہوتے ہیں۔ ان میں قورمہ، نہاری اور پلاؤ شامل ہیں لیکن ان میں سب سے مرغوب بریانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ بریانی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب مغربی ممالک کے لوگ ہمارے کھانوں سے محض اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ ان کے مصالحہ جات انھیں راس نہیں آتے تھے لیکن اب تو حال یہ ہے کہ غیر ملکوں کے لوگ بھی ان کھانوں کا لطف اٹھانے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔

کراچی پاکستانی کھانوں کا مرکز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لذیذ کھانوں کو متعارف کرانے کا سہرا مغل بادشاہوں کے سر ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھر سے باہر کھانے کو عیب سمجھا جاتا تھا جب کہ اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ کھانوں کی اتنی ورائٹی دستیاب ہے کہ جس کا کوئی شمار نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کھائے تو کیا کھائے۔ ایک پرانی کہاوت یاد آرہی ہے کہ’’ آدمی پہنے جگ بھاتا اور کھائے من بھاتا۔‘‘ کچھ لوگ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں جب کہ دوسرے پیدا ہی کھانے کے لیے ہوتے ہیں۔

کھانوں کی لذت کا انحصار ان میں استعمال کیے جانے والے اجزائے ترکیبی پر ہے جن میں کھانے میں استعمال ہونے والا گھی یا تیل بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔آپ نے یہ کہاوت بھی سنی ہوگی کہ گھی پکائے سالنا نام بڑی بہو کا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب باورچی لوگ کھانوں میں استعمال ہونے والی اشیاء کو راز کی طرح چھپاتے تھے۔ اسی طرح سگھڑ خواتین بھی کھانا پکانے کی ترکیبوں کو اس طرح چھپاتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو لیکن جب سے ٹیلی وژن عام ہوا ہے کوئی راز، راز نہیں رہا۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈش شامل کی جاتی ہے تا کہ لوگ خوب واہ واہ کریں۔ ادھر مہمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے اس کے بعد کبھی کھانا میسر ہی نہیں آئے گا اور وہ اپنی زندگی کا آخری کھانا کھا رہے ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ کھانا اپنی اپنی پلیٹوں میں نکال رہے ہوتے ہیں۔ مقابلہ بازی کی اس فضا میں ہر کوئی سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سا کھانا ضایع ہوجاتا ہے جو جھوٹا ہونے کے سبب استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ ہمارے معاشرے میں یہ برائی کم ہونے کے بجائے روز بروز زور بڑھتی جارہی ہے۔یہ صورتحال انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

دنیا میں اس وقت خوراک کی شدید قلت ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں جب کہ دوسری جانب خوراک کا بے دریغ ضیاع ہورہا ہے۔ حال ہی میں میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا کروڑوں بار شکر ادا کیا کیونکہ اس نے مجھے کھانے کی بیشمار نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کچرے میں کھانا تلاش کر رہا تھا۔ قریب ہی ایک کتا بھی کچرے کے اُسی ڈھیر میں کھانے کا متلاشی تھا۔

اس پر مجھے وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب جرمنی میں کچھ پاکستانی دوست مل کر برلن کے ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گئے اور انھوں نے کھانے کا آرڈر دیا جو کہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھا جیسا کہ ہم لوگوں کی عادت ہے۔ انھوں نے کھانا کھایا اور باقی کھانا پلیٹ میں چھوڑ کر فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے کھانے کا بل طلب کیا۔ قریب ہی ایک جرمن کھانا کھا رہا تھا اس نے یہ دیکھ کر فوراً پولیس کو اطلاع کردی۔ پولیس آفیسرنے انھیں یہ باور کرایا کہ یہ جرمنی ہے اور یہاں کھانا ضایع کرنے کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ریستوران نے انھیں کھانا ضایع کرنے پر جرمانہ وصول کیا۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ چالیس فی صد کھانا ضایع ہوجاتا ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہمارے یہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اور دوسری جانب کھانے کی ایک بہت بڑی مقدار ضایع ہورہی ہے۔ 2024 میں % 25.

3 پاکستانی خطے غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جو کہ اس سے گزشتہ سال کے مقابلہ میں پورے % 7 اضافہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ خوراک کے عالمی بحران کی نشاندہی کرتی ہے جس کے مطابق ایک ٹرلین ڈالر کھانا سالانہ ضایع کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں تقریباً 800 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں۔

پاکستان میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانا ضایع ہونا ایک عام سی بات ہے خصوصاً بوفے میں جس میں لوگ اپنی بھوک سے زیادہ کھانا نکال لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ تاثر عام ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانا مہمان نوازی میں شمار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کھانے کی مقدار کو سخاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ میزبان کو تنقید سے بچنے کے لیے زیادہ کھانا پکانا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے یہاں لوگوں میں خوراک کے ضیاع کے ماحول اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

سوئیڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں اسکول کے بچوں کو شروع ہی سے کھانا ضایع نہ کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جسے عوامی مہم کے ذریعہ لاگو کیا جاتا ہے تا کہ عوام الناس میں خوراک کے ضیاع کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا ہو سکے۔ سوئیڈن میں‘‘زیرو ویسٹ’’اقدام کا مقصد بچے ہوئے کھانے کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ہے جس کی وجہ سے سوئیڈن کا شمار دنیا کے سب سے کم خوراک ضایع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ فرانس میں سوپر مارکیٹس کو غیر فروخت شدہ خوراک کو عطیہ کرنے کی ہدایت ہے جب کہ اٹلی میں خوراک عطیہ کرنے پر ٹیکس پر رعایت ہے۔

جاپان میں شادیوں میں میزبان اپنے مہمانوں کو کھانا ایک مخصوص مقدار میں پیش کرتے ہیں اور بچے ہوئے کھانے کو ضایع کرنے کے بجائے تعظیماً اس کا‘‘ To-go box’’بنا کر تقسیم کرتے ہیں۔

قرآن کریم کی سورت الاعراف میں رزق کے ضیاع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے بڑے واضح احکامات ہیں کہ‘‘کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل نہیں کرتے۔

ایک طرف خوراک کی قلت ہے اور دوسری طرف اتنی فراوانی کے باوجود اس کا ضیاع عام ہے، اگر ہمیں ایک دن بھی فاقہ کرنا پڑے یا بھوکا رہنا پڑے تو ہمیں لگ پتا جائے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ کھانا ضایع کریں یا کسی بھوکے کو کھلائیں؟

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیادہ کھانا کھانا ضایع ضایع کرنے کھانے کا سے زیادہ ہے جس کے جاتا ہے ہوتا ہے ہے اور

پڑھیں:

کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر

کراچی والے بارش سے ڈرتے ہیں،کیونکہ ایک دن کی بارش سے شہر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے، حالیہ بارشوں نے جہاں جنوبی پنجاب کو نشانہ بنایا،گجرات کو ڈبویا، وہیں کراچی کو تباہ کر دیا، چند علاقوں کو چھوڑ کر سارا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سڑکیں زیر آب آگئی ہیں، لوگوں کے گھروں میں پانی بھر گیا ہے۔

بعض علاقوں میں یوں ہوا کہ سیلابی پانی سے بچاؤ کی خاطر اپنا سامان اپنے رشتے داروں کے ہاں منتقل کر دیا، لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ جہاں انھوں نے سامان رکھا تھا، وہاں بھی سیلابی ریلا آ گیا، لوگوں نے بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچائیں، وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر سیلاب آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے کہ انھوں نے بارش سے نمٹنے کی تیاری کر لی ہے اور یہ کہ انتظامی صورت حال ان کی گرفت میں ہے لیکن بارش ہوتے ہی سارا کچا چٹھا سامنے آ گیا، تمام سڑکیں زیر آب اور باقی رہ گئی ہیں، ان میں شگاف پڑھ گئے ہیں، سڑکیں دھنس گئی ہیں اور گڑھوں میں پانی بھر گیا ہے۔

کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جو میٹروپولیٹن سٹی کہلاتا ہے، یہاں سے 70 فی صد ٹیکس حکومت کو جاتا ہے، چونکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کبھی ووٹ نہیں ملتے، اس لیے پی پی کبھی کراچی پر کراچی کا ٹیکس خرچ نہیں کرتی، تنگ دلی کی یہ مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ گجرات شہر بھی سیلابی پانی میں ڈوب گیا لیکن مسلم لیگی حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی کیونکہ گجرات سے ووٹ نہیں ملے تھے، لیکن جو حال کراچی کا ہے اس کے ساتھ المیہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی سب کچھ ہضم کر جاتی ہے۔ کراچی کے میئر کو بھی اس شہر کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ساری سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، ان سڑکوں پہ سفرکرنے والوں کی کمر جھٹکوں کی تاب نہیں لا سکتی۔

ہر دوسرا آدمی کمر درد اور سروائیکل کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ الیکشن کے بعد جن کو نوازا گیا، انھوں نے اپنی مرضی کا نظام نافذ کر دیا۔ ’’ بڑوں‘‘ نے حکم دیا کہ انھیں نہ چھیڑا جائے، انھیں اپنی مرضی کرنے دی جائے اور اس حکم کے بعد پیاروں کو حکومت دے دی۔ اسی لیے کراچی کو لاوارث قرار دے دیا، اس شہر سے لوگ ووٹ لیتے ہیں لیکن اس بدنصیب شہر کی پرواہ کوئی نہیں کرتا، کسی نے کہا تھا کہ ’’ہم کراچی کو پیرس بنائیں گے۔‘‘ لیکن ہوا کیا؟ بھتہ خور مافیا نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا۔

 حکمران اگر چاہیں تو کراچی سنور سکتا ہے کیونکہ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تینوں نے اپنے دور میں وعدہ کیا کہ وہ کراچی کی فکر کریں گے، لیکن ہو کیا رہا ہے؟ ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں، لوگوں کا گزرنا محال ہے۔صورتحال بہت تشویشناک ہے، لقمہ اجل صرف غریب کیوں بن رہا ہے؟ تباہی صرف غریبوں کو کیوں خون کے آنسو رلا رہی ہے؟ جن کی وجہ سے یہ سیلابی صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ تو آرام سے اپنے اپنے گھروں میں محو خواب ہیں، جنھوں نے نالوں پہ گھر بنا کر بیچ دیے، وہ تو اپنا حصہ لے کر بیٹھ گئے، تباہی آئی تو غریب پر، قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی سزا بہرحال ملتی ہے۔

کہتے ہیں دریا اور سمندر اپنی زمین واپس لیتے ہیں۔ لاہور میں راوی کنارے جو بستی بسائی گئی تھی وہ زیر آب آگئی، بلڈرز نے رشوت دے کر این او سی حاصل کر لیا اور گھر بنا کر بیچ دیے۔

ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ ابھی تک کوئی دوسری خبر نہیں آئی کہ راوی کنارے ہاؤسنگ اسکیم کے بنانے والے کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی یا نہیں؟ ہر جگہ پیسہ چلتا ہے، جس طرح مافیا نے بستی بسانے کا لائسنس حاصل کیا، اسی طرح وہ چھوٹ بھی جائیں گے۔

ہمارے صاحب اقتدار افراد نے دولت کی ہوس میں سمندر کے پاس زمین بھی بیچ دی اور اسے خشک کرکے وہاں پوش آبادیاں قائم کر لیں، کبھی بہت پہلے باتھ آئی لینڈ تک پانی آیا کرتا تھا، اس وقت ہاوسنگ سوسائٹی بننا شروع ہوئی تھی، مزید دولت کی ہوس میں سمندر کو مٹی سے پاٹ کر انتہائی قیمتی ہائی رائز اپارٹمنٹ بنا دیے گئے ، صرف یہی نہیں بلکہ ساحل سمندر پر بے شمار ریسٹورنٹ بنا دیے گئے ہیں جہاں علاوہ بسیار خوری کے کچھ بھی نہیں، کبھی کلفٹن پر فش ایکوریم، امیوزمنٹ پارک اور مختلف تفریحات کا انتظام تھا، بچوں کی تفریح کا انتظام تھا، لیکن اب صرف کھانے پینے کے ڈھابے رہ گئے ہیں، مینگروز جو سمندری سیلاب کے خلاف قدرتی مدافعت ہوتی ہے اسے بھی تلف کرکے پلاٹ بنا دیے گئے ہیں اور مختلف ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا کر اربوں روپے کما لیے گئے۔

ہوس ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس لوٹ مار میں سبھی شامل ہیں، کے ایم سی اور کے ڈی اے کے افسران سے کبھی رشوت کبھی سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے اورکبھی بدمعاشی سے تجاوزات اور چائنا کٹنگ کرکے ہر طرف تعمیر شروع کر دی، کراچی اب کنکریٹ کے جنگل کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ ایک سو بیس اور دو سو گز پر صرف ایک گھر ہوتا تھا، اور ایک گھرانہ۔ اب ان چھوٹے پلاٹوں پر چھ اور سات منزلہ بلڈنگز تعمیر ہو گئی ہیں، پہلے ایک گھرانہ رہتا تھا اب تین فلیٹ بن گئے ہیں، بعض علاقوں میں نوے گز پر آٹھ دس فلیٹ بن گئے ہیں جس سے سیوریج کا سسٹم خراب ہو گیا ہے، ہر طرف گٹر ابل رہے ہیں، حالیہ بارشوں کے بعد شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔بے تحاشا آبادی، سڑکوں پر دھواں اگلتی گاڑیاں اور ان سے کاربن گیس کا اخراج ماحول میں زہر گھول رہا ہے، شہر کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔

باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے اس شہر کو مزید برباد کر دیا ہے، چوری اور ڈاکہ زنی میں یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ دوسرے علاقوں کی اجنی عورتیں سڑکوں اور ویگنوں میں خواتین کے پرس سے مال چرا لیتی ہیں اور کسی خاتون نے اگر سونے کی چین پہنی ہو تو تین عورتیں مل کر اس کے گرد گھیرا تنگ کرکے چین اتار لیتی ہیں۔

خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ تقریباً تین تولے کی چین اور اس میں پڑا ہوا لاکٹ الٰہ دین پارک میں ان عورتوں نے اتار لیا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی، لیکن ساری خواتین ایسی نہیں ہوتیں، کچھ گھروں میں کام کرتی ہیں اور عزت کی روٹی کماتی ہیں، بعض مرد چنگ چی رکشہ چلاتے ہیں۔اگر کراچی کے اطراف میں پھیلے سمندر نے واپسی کا سفر شروع کر دیا تو کیا ہوگا، کراچی سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔

شاید یہ کسی نیک بندے کا فیض ہے کہ کراچی اب تک طوفانوں سے بچا ہوا ہے، لیکن حالیہ بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خدارا تعصب ختم کیجیے اور کراچی کو مزید تباہ ہونے سے بچائیے۔ یہ شہر بڑا پالن ہار ہے، یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہ شہر بڑا غریب پرور ہے۔ پورے پاکستان سے یہاں لوگ آئے ہوئے ہیں تاکہ روزی کما سکیں، خدارا اس شہر پر رحم کیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • پرانے دوست!
  • غزہ میں کرنسی بھی مر گئی ہے
  • شہباز شریف کی ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات، ’اب پاکستان کو مچھلی کھانے کے بجائے پکڑنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے‘
  • غزہ: بچے خوراک اور پانی کی تلاش میں ہلاک ہو رہے ہیں، ٹام فلیچر
  • کراچی۔۔۔ ایک بدقسمت شہر
  • ٹرینوں کی ڈائننگ کار میں مسافروں کو غیر معیاری اشیاء فراہم کیے جانے کا انکشاف
  • کیا روٹی پر گھی لگانا واقعی نقصان دہ ہے؟
  • انڈونیشیا: اسکول سے کھانا خرید کر کھانے کے بعد ایک ہزار سے زائد بچے فوڈ پوائزننگ کا شکار
  • اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی تحفظ خوراک رانا تنویر سے شام کے سفیر ڈاکٹر رامز الراعی ملاقات کر رہے ہیں
  • غزہ ڈوب نہیں، ابھر رہا ہے