دفاع کرنا جانتے ہیں،بھارتی فوج ہمیں ڈرا دھمکا نہیں سکتی، آرمی چیف
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
13 ؍لاکھ بھارتی فوج اپنے تمام تر ہتھیاروں سے ہمیں ڈرا اور دھمکا نہیں سکتی، ہمارے آباؤ اجداد نے اور ہم نے اس ملک کو بنانے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ، ہم اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں
ہم بھارت کی طاقت، مکاری اور جارحیت سے مرعوب ہونے والی قوم نہیں ،الحمدللہ! تاریخ نے یہ ثابت کیا افواج پاکستان اور قوم ہر جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے ہیں، جنرل عاصم منیر
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سالمیت کا دفاع کیسے کرنا ہے یہ ہم بخوبی جانتے ہیں۔بھارت کو منہ توڑ جواب دینے والے آپریشن بنیان مرصوم کی کامیابی کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بیانات کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں انہیں ملکی سالمیت اور خود مختاری کے حوالے سے بات کرنے سنا جا سکتا ہے ۔ویڈیو میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کہہ رہے ہیں الحمدللہ! تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ افواج پاکستان اور قوم ہر جارحیت کے خلاف پوری قوت سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔آرمی چیف نے کہاکہ علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پاکستان میں بھرپور دفاعی صلاحیت موجود ہے ، ملکی سالمیت کا دفاع کیسے کرنا ہے یہ ہم بخوبی جانتے ہیں۔جنرل عاصم منیر نے کہاکہ 13 لاکھ بھارتی فوج اپنے تمام تر ہتھیاروں سے ہمیں ڈرا اور دھمکا نہیں سکتی، ہمارے آباؤ اجداد نے اور ہم نے اس ملک کو بنانے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ہم اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کہہ رہے ہیں کہ ہم بھارت کی طاقت، مکاری اور جارحیت سے مرعوب ہونے والی قوم نہیں ہیں۔یاد رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام کے سیاحتی مرکز پر فائرنگ کر کے 26 افراد کو قتل کر دیا گیا، پاکستان نے پہلگام واقعے کی ناصرف فوری طور پر مذمت کی بلکہ بھارت کو معاملے کی شفاف تحقیقات میں ہر قسم کے تعاون کی پیشکش بھی کی تاہم ہندوتوا پالیسی پر گامزن بھارت کی ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی نے واقعے کے چند منٹ بعد ہی بغیر شواہد کے پاکستان پر الزام لگا دیا اور سیاسی مقاصد کے لیے پہگام فالس فلیگ آپریشن کو جواز بنا کر پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔پاکستان کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہد ختم نہیں کر سکتا، اگر بھارت نے پاکستانی دریاؤں کے پانی کا بہاؤ روکا یا اس کا رخ موڑا تو اسے جنگ تصور کیا جائے گا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا پانی ہماری لائف لائن ہے ، اگر بھارت نے پاکستان کے پانی پر ڈیم بنائے تو اس اسٹرکچر کو تباہ کر دیں گے ۔پاکستان کے واضح پیغامات کے باوجود بھارت باز نہ آیا اور 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب آزاد کشمیر اور پاکستان کے 5 مقامات پر بمباری کی جس کا پاکستانی افواج نے بھرپور جواب دیتے ہوئے دشمن کے 3 رافیل سمیت 5 طیارے تباہ کر دیے ۔بھارت نے 8 مئی کو پھر پاکستان کے متعدد شہروں میں اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون بھیجے ، ان ڈرونز کی مدد سے راولپنڈی میں جاری پی ایس ایل کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، 9 اور 10 مئی کی رات بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی فورسز کی طاقت کا امتحان لینے کی کوشش کی جس پر پاکستان نے بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جسے بھارت طویل عرصے تک یاد رکھے گا۔پاکستانی شاہینوں نے جے ایف 17 تھنڈر اور جے 10 سی طیاروں کی مدد سے بھارت کے فضائی دفاعی نظام ایس 400 سمیت کئی ائیر فیلڈز اور چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔پاکستانی فورسز کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے بے بس ہو کر بھارت نے امریکا سے سیز فائر کی درخواست کی جس کے بعد مختلف ممالک کی کوششوں سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا جس کی تصدیق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کی۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
برطانیہ میں چند روز۔ وطن سے دوری کی تپش
پاکستان میں سردیوں کی آمد آمد تھی۔ فضا میں خنکی کی پہلی لہرآ چکی تھی، درختوں کے پتوں پر اوس کے موتی چمک رہے تھے اور ایسے میں برطانیہ کا سفر درپیش تھا۔ سنا تھا کہ ولایت کا موسم تو پہلے ہی سردی کی چادر اوڑھ چکا ہے اور یخ بستہ ہوائیں اپنے مخصوص برطانوی انداز میں استقبال کو بے تاب ہیں۔
احباب نے تاکید کی کہ گرم کپڑوں کا خاص خیال رکھا جائے چنانچہ گرم لباس جس میںبھاری جیکٹ اور وطن کی خوشبو میں بسے مفلر کے ساتھ عازمِ سفر ہوا۔ مگر سچ کہوں تو جیکٹ سے زیادہ میرے دل پر جذبات کی وہ گرمی چھائی تھی جو ہر پاکستانی کو وطن سے رخصت ہوتے وقت محسوس ہوتی ہے۔یہ سفر محض سرکاری ذمے داری نہیں تھا بلکہ ایک جذباتی معاملہ تھا، ایک ایسا لمحہ جب دل میں فخر بھی تھا اور اداسی بھی تھی۔
فخر اس بات کا کہ پانچ برس کے طویل وقفے کے بعد پاکستان کی قومی ایئر لائن ایک بار پھر برطانیہ کی فضاؤں میں اپنے سبز ہلالی پرچم کے ساتھ بلند ہونے جا رہی تھی اور اداسی اس لیے کہ اس پرواز کے پرچم میں وہی وطن کا احساس چھپا ہوا تھا جس سے ہر لمحہ دوری محسوس ہوتی ہے۔
وطن سے دوری میرے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے کیونکہ مجھے اپنی زمین کے ساتھ بڑی انسیت اور محبت ہے۔ خصوصاً وادی سون کے ساتھ ایسا رشتہ ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا جب کہ لاہور تو روح میں بسا ہوا ہے۔ویسے تو پورا پاکستان ہی میرے لیے حسین خوبصورت اور اہم ہے۔ کراچی ہو پشاور ہو یا اسلام آباد ‘کہیں بھی چلا جاؤں کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ البتہ جب بھی وطن سے دور ہوتا ہوں تو دل میں وطن واپس جانے کی امنگ ہر وقت موجود رہتی ہے ۔یہی احساس اسلام آباد سے روانگی کے وقت بھی میرے ذہن پر سوار تھا۔ البتہ برطانیہ کی فضاؤں میں پی آئی اے کے ہمراہ جانے کا قابل فخر احساس بھی دل میں جاگزیں تھا۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر اس روز ایک جشن کا سماں تھا۔ سبز رنگوں میں نہایا ہوا ہال، مسافروں کے چہروں پر چمک اور ماحول میں وطن کی مہک رچی ہوئی تھی۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ بھی اس تاریخی پرواز کے مسافروں کو الوداع کہنے موجود تھیں۔ اس پرواز کے ہر مسافر کی آنکھوں میں ایک کہانی تھی، کوئی اپنے بچوں سے ملنے جا رہا تھا تو کوئی اپنے خوابوں کے دیس میں برسوں کی محنت کے بعد لوٹنے والا تھا اور کوئی صرف اس لیے سفر پر تھا کہ پاکستان کی پروازدوبارہ برطانیہ جا رہی تھی۔
طیارے میں بیٹھے بزرگ مسافروں کے چہروں پر ایک خاص اطمینان تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا،بیٹا، اب تو دل خوش ہے، پی آئی اے سے براہ راست اپنے بچوں کے پاس جا رہی ہوں،ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان خود مجھے وہاں چھوڑنے جا رہا ہے۔ان بزرگ خاتون کے لہجے کی سادگی میں جو محبت تھی وہ کسی قومی ترانے سے کم نہیں تھی۔اڑان بھرتے ہی جیسے ہی جہاز نے نیلا آسمان چھوا، دل میں ایک بے نام سا احساس جاگاکہ زمین چھوٹ گئی مگر دل کے نہال خانوں میں یہ اطمینان بھی تھا کہ وطن تو نہیں چھوٹا۔ اسلام آباد کی روشنیوں سے دور ہوتے ہوئے کھڑکی سے جھانکا تو ایسا لگا جیسے زمین پر سبز پرچم بچھا ہوا ہے اور جہاز اس پر ایک خواب کی مانند تیر رہا ہے۔
آٹھ گھنٹے کا سفر کٹھن نہیں لگا کیونکہ ہر لمحہ یہ احساس ساتھ تھا کہ ہم اس تاریخی سفر کا حصہ ہیں جو صرف ایک پرواز نہیں بلکہ ایک جذبہ تھا۔ وہ جذبہ جو ہر بیرونِ ملک پاکستانی کے دل میں مچلتا ہے جب وہ کسی غیر سرزمین پر پی آئی اے کے طیارے پر پاکستانی پرچم کو دیکھتا ہے۔مانچسٹر ایئرپورٹ کے قریب پہنچے تو فضا میں ایک عجیب جوش تھا۔ طیارے کے اندر خاموشی چھا گئی،تمام مسافر اپنے پیاروں سے ملنے کو بے تاب دکھائی دیے۔ جیسے ہی جہاز کے پہیوں نے برطانوی سرزمین کو چھواطیارے کے اندر کی فضاء تالیوں کی گونج میں پاکستان زندہ بادکے نعرے سے گونج اٹھی۔
کھڑکی سے باہر جھانکا تو منظر ناقابلِ بیان تھا۔ سیکڑوں پاکستانی ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھامے رن وے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر خوشی چمک رہی تھی، کوئی نعرہ لگا تا دکھائی دیا تو کوئی ہاتھ ہلا کر وطن کی محبت میں رو رہا تھا۔ اس لمحے احساس ہوا کہ پردیس میں بسنے والوں کے لیے پی آئی اے کا طیارہ صرف ایک جہاز نہیں بلکہ وطن کی ایک سانس ہے جو ان کے لیے فضاؤں سے اترتی ہے۔ائر پورٹ پر دوران گفتگو ایک صاحب کہنے لگے بھائی ہم یہاں دور رہتے ہیں مگر جب کبھی وطن کی یاد ستاتی ہے تو ہم ایئرپورٹ آ کر پی آئی اے کا طیارہ دیکھ لیتے ہیں۔ وہ دم پر لہراتا پرچم ہی ہمارے لیے پاکستان ہے۔ان کے الفاظ دل میں تیر کی طرح اتر گئے۔ سوچا واقعی پردیس میں سب کچھ ہے مگر وطن کی مٹی جیسی خوشبو کہیں نہیںہے۔
مانچسٹر کی یخ بستہ ہوا میں جب ہم نے طیارے سے نیچے قدم رکھا تو ہاتھوں میں دو پرچم تھے۔ ایک پاکستان کا، ایک برطانیہ کا۔ ایک محبت کا، ایک احترام کا۔ استقبالیہ تقریب میں برطانوی حکام، پاکستانی کمیونٹی اور مقامی میڈیا موجود تھا۔ مگر ہمارے اپنے سفارت خانے کے نمایندے شاید کسی اور مصروفیت کی وجہ سے اس زحمت سے بچ گئے تھے۔ دل چاہا کہ کوئی ان سے کہے محترم یہ وہ لمحہ تھا جب ہر پاکستانی کا دل یہاں دھڑک رہا تھا آپ ہوتے تو جانتے کہ وطن سے دور یہ جذبے کتنے قیمتی ہوتے ہیں۔
ایئرپورٹ کے باہر بھی وہی منظر تھا کچھ پاکستانی اپنے عزیزوں کو لینے آئے تھے مگر زیادہ تر صرف اس لیے کہ اپنی قومی ایئرلائن کو خوش آمدید کہہ سکیں۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو کئی گھنٹے کا سفر طے کر کے صرف اپنے وطن کے طیارے کو دیکھنے آئے تھے۔
ان کے لیے یہ صرف ایک پرواز نہیں بلکہ ایک احساسِ تعلق تھا ، ایک یاد دلانے والا لمحہ کہ چاہے ہم کتنے بھی دور کیوں نہ ہوں، پاکستان ہم میں زندہ ہے۔پردیس کے پاکستانی محنت کرتے ہیں، دن رات کام کر کے زرِمبادلہ بھیجتے ہیں مگر دل ان کا ہمیشہ پاکستان کے آسمان کے نیچے رہتا ہے۔ وہ اپنے وطن کے حالات دیکھ کر فکرمند ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کا پاکستان ترقی کرے، مستحکم ہو۔ ان کے دلوں میں یہ خوف بھی ہے کہ کہیں وہ اپنی شناخت سے محروم نہ ہو جائیں۔یہ الفاظ ایک عام محنت کش نے کہے مگر یہ جملہ ہر بیرون ملک پاکستانی کے دل کی آواز ہے کہ ہمیں ووٹ کا حق تو نہیں ملا مگر خدارا ہم سے پاکستان کا احساس تو نہ چھینیں۔ ہم پردیس میں رہ کر بھی پاکستانی ہیں بلکہ شاید اس سے زیادہ ہیں۔
مانچسٹر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے جب میں نے سبز پرچم لہراتے پاکستانیوں کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے ان پرچموں کی سرسراہٹ میں پاکستان کا نام گونج رہا ہو، دل بے اختیار فخر سے بھر گیا۔ وطن کی مٹی کی مہک نہ سہی مگر ان چہروں کی چمک میں وہی وطن جھلک رہا تھا۔یقیناً غریب الوطنی ایک عذاب بھی ہے اور ایک نعمت بھی۔ عذاب اس لیے کہ دوری کا درد دل میں جاگزیں رہتا ہے اور نعمت اس لیے کہ یہ درد ہی وطن کی محبت کو تازہ رکھتا ہے۔ شاید یہی احساس ہمیں زندہ رکھتا ہے یہی یاد دلاتا ہے کہ ہم جہاں بھی ہوں پاکستان ہماری پہچان ہے یہ صرف برطانیہ میں چند روز کی بات نہیں بلکہ ہر اس لمحے کی داستان ہے جو کسی پاکستانی نے وطن سے دور رہ کر محسوس کی ہے۔ وہ لمحے جب کوئی پی آئی اے کا طیارہ دیکھ کر مسکرا دیتا ہے جب کسی پردیسی کی آنکھ وطن کے نام پر بھیگ جاتی ہے اور جب دل کے کسی کونے سے ایک صدا آتی ہے پاکستان زندہ باد۔