بھارت کے ساتھ تنازعہ: سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کی حمایت میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مئی 2025ء) خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کی پذیرائی زیادہ تر نوجوان شہریوں کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی کُل 240 ملین کی آبادی کا دو تہائی 30 برس سے کم عمر کے شہریوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان کی نوجوان آبادی کے لیے پہلا بڑا فوجی معرکہپاکستان سے تعلق رکھنے والی ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ نگہت داد کے مطابق روایتی حریف اور ہمسایہ ممالک پاکستان اوربھارت کے درمیان اس سے قبل بڑا فوجی تنازعہ 1999ء کارگل جنگ تھی جو متنازعہ علاقے جموں و کشمیر تک محدود رہی تھی اور یہ کہ پاکستان کی نوجوان آبادی نے جوہری قوت کے حامل ان ممالک کو کرکٹ کے میدان میں ہی مدمقابل دیکھا تھا۔
کشمیر: حالیہ تصادم پاکستانی فوج اور بھارتی قوم پرستوں کے لیے کتنا سودمند؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان ’غلط معلومات کی جنگ‘ بدستور جاری
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے نگہت داد کا کہنا تھا کہ بدھ سات مئی کو بھارت کی طرف سے پاکستان کے اندر میزائل حملے، دارالحکومت اسلام آباد سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں ''وہ پہلا موقع تھا جب انہوں (نوجوان پاکستانی) نے گولیاں چلتے اور دھماکے ہوتے اور ڈرون حملوں کی آوازیں سنیں، اور انہوں نے اپنے گھروں کے اوپر ڈرون اڑتے ہوئے دیکھے۔
(جاری ہے)
‘‘نگہت داد کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتحال نے ''ایک جزباتی احساس پیدا کیا کہ کسی نے، جو ہمارا ہمسایہ ہے، جو کئی دہائیوں سے اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری ہم پر عائد کرتا آ رہا ہے، ہم پر حملہ کیا۔‘‘
ان جزبات کا اظہار سوشل میڈیا پر کھُل کر ہوا۔ ان حالات میں پاکستان کی طرف سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر گزشتہ ایک سال سے لگی پابندی بھی ہٹا دی گئی۔
2024ء میں پارلیمانی انتخابات کے دوران جب اس پلیٹ فارم پر پاکستانی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو پاکستانی حکومت نے پاکستان کے اندر اس پلیٹ فارم کو بلاک کر دیا تھا۔
پاکستانیوں کے دل جیتنے والے ایئر وائس مارشل اورنگ زیب احمدپاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر جو ملک کی سیاسی صورتحال اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کے سبب اپوزیشن اور سوشل میڈیا پر تنقید کا مرکز رہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران تاہم وہ پس پردہ رہے اور عوام اور میڈیا کے سامنے حکومتی اور فوجی ترجمانوں نے ہی ملکی صورتحال کی نمائندگی کی۔پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہائی رینکنگ افسران میں سے ایئر وائس مارشل اورنگ زیب احمد نے سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کو سب سے زیادہ متاثر کیا، جنہوں نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پاکستانی ایئرفورس نے بھارت کے تین رفال طیاروں کو مار گرایا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق ایک یورپی ملٹری ذریعے کے مطابق اس بات کے ''انتہائی کم امکانات‘‘ ہیں کہ پاکستان نے بھارت کے تین رفال طیاروں کو گرایا ہو، تاہم یہ بات ''قابل اعتبار‘‘ ہے کہ ایک طیارہ مار گرایا گیا ہو۔
نگہت داد کے بقول ''نوجوان پاکستانیوں نے بھارتی میڈیا کی طرف سے پھیلائی گئی غلط خبروں کے تناظر میں میمز کا استعمال کرتے ہوئے لطیفے بنائے اور مذاق اڑایا‘‘، جس کے نتیجے میں بھارت نے ایکس اور یو ٹیوب پر پاکستان کی نامور شخصیات کے اکاؤنٹ ملک میں بلاک کر دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاق کی شکل میں یہ میمز اصل میں اپنا نکتہ نظر اور معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی سپورٹ کا اظہار تھیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج پر پاکستانی کہ پاکستان پاکستان کی پر پاکستان کی طرف سے کے مطابق بھارت کے
پڑھیں:
ٹرمپ کا ٹیرف وار، مودی چین سے تعلقات بہتر بنانے اور براہِ راست پروازوںکیلئے کوشاں
بھارت اور چین جو 2020 کے سرحدی تنازع کے بعد شدید کشیدہ تعلقات کا شکار رہے، اب آہستہ آہستہ معاشی روابط کی بحالی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس پیش رفت کی ایک بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف کا نفاذ ہے، جس کے ردعمل میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی برکس ممالک کے ساتھ قربت بڑھانے کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ سفارتی گرمجوشی کی راہ پر گامزن ہیں۔
بلوم برگ کے مطابق، چین سے قریبی تعلقات رکھنے والے ذرائع نے بتایا ہے کہ مودی حکومت اگلے ماہ چین کے ساتھ براہِ راست پروازیں بحال کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ پیش رفت ممکنہ طور پر اس وقت سرکاری طور پر اعلان کی جائے گی جب مودی سات برس بعد چین کا دورہ کریں گے اور 31 اگست کو تیانجن میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی سربراہی اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ کی جانب سے روسی تیل کی خریداری پر بھارتی مصنوعات پر بھاری جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد نئی دہلی کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔ امریکی صدر نے نہ صرف بھارت پر ٹیرف دگنا کر دیا بلکہ بھارتی معیشت کو ’مردہ‘ قرار دے کر تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کر دی۔
بیجنگ کے تھنک ٹینک “سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن” کے صدر ہنری وانگ کے مطابق، بھارت اور چین اب تعلقات کی بہتری کے “اپ سائیکل” میں داخل ہو چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بطور ترقی پذیر ممالک کے قائدین، دونوں کو باہمی رابطے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ وانگ کے مطابق، ٹرمپ کی “ٹیرف وار” نے بھارت کو اپنی اسٹریٹجک خودمختاری کو قائم رکھنے کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔
چین، جو خود بھی امریکی تجارتی جنگ کا نشانہ بن چکا ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے آمادگی ظاہر کر رہا ہے۔ حال ہی میں چین نے بھارت کے لیے یوریا کی ترسیل پر عائد پابندیوں میں نرمی کی ہے، جو کہ تجارتی بحالی کی طرف ایک مثبت اشارہ ہے۔
ذرائع کے مطابق، بھارتی صنعتکار گوتم اڈانی کا گروپ چین کی معروف الیکٹرک کار ساز کمپنی BYD کے ساتھ شراکت داری کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ بھارت میں بیٹریوں کی پیداوار اور ماحول دوست توانائی کی جانب پیش رفت کی جا سکے۔
مودی حکومت نے حال ہی میں برسوں بعد چینی شہریوں کے لیے سیاحتی ویزے بحال کر دیے ہیں، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی ماحول میں بہتری کی علامت ہے۔ چین، امریکہ کے بعد بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور بھارت کو اپنی صنعتی ترقی کے لیے چینی اجزاء پر انحصار برقرار رکھنا ناگزیر ہے۔
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط بہتر ہو رہے ہیں، تاہم مکمل اعتماد بحال ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ دونوں ایشیائی طاقتیں ایک دوسرے کو طویل عرصے سے علاقائی حریف سمجھتی آئی ہیں، اور حال ہی میں چین کی جانب سے بھارت کے فوجی تنازع میں پاکستان کو ہتھیار اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کرنے کے بعد باہمی شکوک میں مزید اضافہ ہوا۔
نئی دہلی کے مطابق، ٹرمپ کی حالیہ سخت رویے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت نے ان کے اس دعوے کی تردید کر دی تھی کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرانے میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ اطلاعات کے مطابق، جون میں مودی اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ایک ٹیلیفون کال میں مودی نے براہِ راست ان دعوؤں کو چیلنج کیا، جس کے بعد واشنگٹن کے رویے میں تبدیلی دیکھی گئی۔
مودی برکس کے دیگر بانی ارکان جیسے روس اور برازیل سے بھی تعلقات مضبوط کر رہے ہیں۔ انہوں نے اگست میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کو بھارت کے دورے کی دعوت دی، جو کہ امریکہ سے بڑھتی خفگی کا مظہر ہے۔
اگرچہ امریکہ نے طویل عرصے سے بھارت کو چین کے خلاف توازن قائم رکھنے کے لیے ایک اسٹریٹجک اتحادی تصور کیا، لیکن اب ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے نتیجے میں بیجنگ اور نئی دہلی مشترکہ مفادات کی بنیاد پر قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چین میں تعینات بھارتی سفیر ژو فیہانگ نے مودی کو ٹیرف کے معاملے پر اخلاقی حمایت کی پیشکش بھی کی ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں نئی لچک کی نشاندہی کرتی ہے۔