پاک بھارت تنازعے سے مذہبی تناؤ مزید گہرا ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مئی 2025ء) آٹھ مئی کو، بھارت کے خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے پہلگام کے مہلک حملے پر میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ حملہ آوروں کا ایک مقصد "جموں و کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں فرقہ وارانہ فساد کو ہوا دینا تھا۔"
بتایا جاتا ہے کہ انتہاپسندوں نے 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 26 شہریوں کو ان میں سے زیادہ تر کو، یہ پوچھنے کے بعد کہ وہ مسلمان ہیں یا ہندو، خاندان کے افراد کے سامنے قتل کر دیا-
کشمیر: حالیہ تصادم پاکستانی فوج اور بھارتی قوم پرستوں کے لیے کتنا سودمند؟
مصری کی اس پریس بریفنگ کے دوران ان کے ساتھ کرنل صوفیہ قریشی، ایک مسلمان، اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ، جو ایک ہندو ہیں، موجود تھیں- اس کا ایک مقصد مذہبی برادریوں، جنسوں اور فوج کے درمیان اتحاد کی تصویر پیش کرنا تھا۔
(جاری ہے)
لہٰذا جب مصری نے کہا،’’اس بات کا سہرا حکومت اور بھارت کے عوام کے سر جاتا ہے کہ ان منصوبوں کو ناکام بنا دیا گیا،‘‘ تو ان کے یہ الفاظ قابل اعتماد تھے۔ لیکن اس سے پرے ایک مختلف حقیقت بھی ہے۔
نفرت انگیز تقریروں میں اضافہبھارت کی حکومت کی جانب سے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگانے کے بعد، مسلم مخالف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ اکثر انتہا پسند قوم پرست سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی وجہ سے ہوا ہے، جو بھارتی مسلمانوں کو "درانداز" یا "غدار" قرار دیتے ہیں۔جعلی خبروں کے سیلاب میں صحافتی اخلاقیات کا جنازہ
دائیں بازو کے ہندو قوم پرست گروپ وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے ایک بیان جاری کیا جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ "پاکستانی شہریوں اور ان کے سلیپر سیلز" کو باہر نکالے۔
بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وی ایچ پی کے رہنما سریندر جین نے یہ بھی کہا کہ "اس واقعے سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا یقینی طور پر کوئی مذہب ہے"۔ وی ایچ پی نے اس بیان پر تبصرہ کے لیے ڈی ڈبلیو کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔آن لائن نفرت حقیقی زندگی میں بھی پھیل گئی ہے۔
جنوبی شہر حیدرآباد میں "کراچی بیکری" میں مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور بیکری کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ کراچی پاکستان کے ایک شہر کا نام ہے۔مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے اس واقعے پر متعدد افراد پر فرد جرم عائد کی، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان بھی شامل ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بیکری ہندوؤں کی ملکیت ہے، جن کے آباؤ اجداد 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے کے بعد کراچی سے بھارت آ گئے تھے۔
ایک این جی او انڈیا ہیٹ لیب کے مطابق، پہلگام حملےکے بعد پہلے 10 دنوں میں، نو ریاستوں اور جموں و کشمیر کے خطے میں کم از کم 64 مسلم مخالف نفرت انگیز تقریروں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
پہلگام حملے کے بعد ردعمل کا خدشہپہلگام میں وحشیانہ حملے کے انتقام کے طور پر وہاں سے تقریباً 1,000 کلومیٹر دور آگرہ میں، ایک بریانی کی دکان کے مالک کو گولی مار دی گئی۔ دہلی سے کوئی تین گھنٹے جنوب مشرق میں، علی گڑھ میں، ایک 15 سالہ مسلمان لڑکے پر مبینہ طور پر حملہ کیا گیا اور اسے پاکستانی پرچم پر پیشاب کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اس حملے کی ویڈیوز کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ممبئی سے تعلق رکھنے والے ایک بھارتی مسلمان، احمد* نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "لوگ دہشت گردی کے حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے مشتعل ہو جاتے ہیں اور اسلامو فوبک باتیں کہتے ہیں، اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ میں بھی وہاں ہوں۔" "وہ مجھے مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔
"احمد اپنے والدین کے بارے میں بھی فکر مند ہے جو مغربی ریاست گجرات کے ایک قصبے میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "وہ (دائیں بازو کے گروہ) مسلم مخالف نعروں کے ساتھ ریلیاں نکال رہے ہیں۔ میرے والدین خوفزدہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہو سکتا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے بھارت چھوڑنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔
دہلی سے سات گھنٹے کی دوری پر شمال میں واقع پہاڑی قصبے نینی تال میں ایک 12 سالہ بچی کی ریپ کے خلاف احتجاج فرقہ وارانہ تشدد میں بدل گیا۔
جس شخص پر ریپ کرنے کا الزام ہے وہ مسلمان ہے۔ شہر کے ایک کاروباری شاہد نے کہا کہ یکم مئی کی شام 5-6 بجے کے قریب، کمیونٹی کی طرف سے اس آدمی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا جو کہ قابل فہم اور درست ہے۔
لیکن ہندو دائیں بازو کے گروہوں کے لوگ جلد ہی اس میں شامل ہو گئے۔"شاہد نے بتایا کہ یہ واقعہ ہندو مسلم منافرت کی شکل اختیار کر گیا۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی کئی دکانیں تباہ ہو گئیں۔ "اگلے دو دنوں تک بازار میں کرفیو جیسا ماحول تھا۔ میرے گھر والوں نے مجھ سے کام پر نہ جانے کی التجا کی۔"
انہوں نے کہا، "اب بھی، لوگ یہی باتیں کرتے ہیں۔
تشدد، دہشت گردی کے حملے اور پاکستان کے ساتھ بھارت کی جنگ۔ پڑوسی آکر مجھے کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے پاکستان کے ڈرونز کو کیسے تباہ کیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ دراصل وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ "دیکھو آپ کی کمیونٹی کے منصوبے ناکام ہو گئے ہیں۔" ناراضگی میں اضافہقومی سلامتی سے متعلق ایک بھارتی میگزین 'فورس' کی ایڈیٹر غزالہ وہاب کے بقول، بھارت اور پاکستان تنازعہ اقلیتوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے والا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، لیکن پہلگام حملے کے بعد جس پیمانے پر واقعات ہوئے ہیں، وہ "پہلے کبھی نہیں ہوئے"۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پچھلی تمام حکومتوں اور موجودہ حکومت میں بہت فرق ہے۔ 1965 کی جنگ اور 1971 کی جنگ اور پھر ہم نے سیاچن میں ایک مستقل قسم کا تنازعہ دیکھا ہے۔ ان سب کے باوجود، ہمیں بھارت اور پاکستان کے درمیان عوام سے عوام کے رابطے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔"
پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے تمام ویزے منسوخ کر دیے۔
سفر اور تجارت معطل ہے۔غزالہ وہاب نے کہا، "پہلے بھی تشدد کے واقعات ہوتے تھے لیکن وہ دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے تھے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 1991 میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے میچ سے کچھ دن پہلے ممبئی کے وانکھیڑے اسٹیڈیم میں کچھ لوگوں نے کرکٹ کی پچ کھود دی تھی۔
"لیکن اب یہ اکا دکا لوگ مین اسٹریم بن چکے ہیں۔
"سینیئر صحافی نروپما سبرامنیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں دائیں بازو کے گروہوں کا حوصلہ اس لیے بڑھا ہے کہ جرائم کے اکثر معاملات میں ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا، اس کے باوجود، جہاں تک پہلگام حملے کے ردعمل کا تعلق ہے، "غنڈہ گردی، ہراساں کرنے، حتیٰ کہ تشدد کی کارروائیاں بھی ہوئی ہیں لیکن یہ فساد کی شکل نہیں اختیار کر سکا، جو شاید اس حملے کا ارادہ تھا۔
ایسا نہیں ہوا۔ اور میں اسے ایک امید افزاء بات سمجھتی ہوں۔"بی جے پی کے ترجمان نے تبصرہ کے لیے ڈی ڈبلیو کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
'خوف کی نفسیات پیدا کرنا'جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق پروفیسر، تانیکا سرکار، جنہوں نے بھارت میں سیاست، مذہب اور سماج کے باہمی ربط پر کئی کتابیں لکھی ہیں، نے بتایا کہ بے اعتمادی کیسے ردعمل کی صورت اختیار کرتی ہے۔
تانیکا سرکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا "کیا ہے کہ جنگ فوری طور پر ملک میں تشدد میں تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ بہت تلخ یادوں اور واقعات اور الزامات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ میں نہیں جانتی کہ یہ پاکستان کی طرف کیسا ہے، مجھے لگتا ہے کہ بہت کچھ ایسا ہی ہے"۔
تازہ ترین تنازعہ میں خاص طور پر بھارت کے نیوز چینلوں کا رویہ مثبت نہیں رہا۔
کچھ سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز نے 8 مئی اور 10 مئی کے درمیان، سنسنی خیز، غیر تصدیق شدہ معلومات کی بھرمار کر دی جو بعد میں غلط نکلیں۔ اس نے واٹس ایپ پر گردش کرنے والے پیغامات کے ساتھ مل کر خوف کا ماحول پیدا کیا۔تانیکا سرکار نے کہا، "یہ ایک ایسی صورت حال ہے جہاں آپ کسی چیز پر یقین یا اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ اور اس صورت حال میں اگر آپ خود بھی ویسا ہی سوچتے ہوں، تو آپ ہر مسلمان کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں گے۔
" انہوں نے مزید کہا کہ خوف ہی خوف پیدا کرتا ہے۔"اگرچہ ان حملوں کو معمول نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ بھارت میں رہنے والے ہر مسلمان کے دل میں خوف کی ایک نفسیات پیدا کرتے ہیں۔"
*درخواست پر نام تبدیل کر دیے گئے۔
جاوید اختر مصنف: مہیما کپور
ادارت: صلاح الدین زین
https://www.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دائیں بازو کے اور پاکستان پہلگام حملے پاکستان کے انہوں نے بھارت کے کے ساتھ حملے کے نے کہا کہا کہ کے لیے ہیں کہ کے بعد
پڑھیں:
پی ایس ایل کیلئے کبھی پاکستان نہیں آؤنگا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا
پاکستان کے ہاتھوں جنگی میدان میں بدترین شکست کے بعد بھارتی میڈیا نے پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) کو نشانے پر رکھ لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نیوزی لینڈ کے آل راؤنڈر ڈیرل مچل نے خود سے وابستہ بھارتی میڈیا کے دعوؤں کو مسترد کردیا، جس میں کہا گیا تھا کہ کیوی کرکٹر پی ایس ایل کی معطلی کے بعد کہا کہ وہ کبھی واپس پاکستان نہیں جائیں گے۔
تاہم پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں لاہور قلندرز کی نمائندگی کرنیوالے کیوی آل راؤنڈر ڈیرل مچل نے کہا کہ "پاکستان اور بھارت دونوں ہی میرے دل کے قریب ہیں، انھیں آپس میں الجھتا دیکھنا بہت ہی مشکل ہے، میری ہمدردیاں اس سے متاثر ہونے والے افراد کے ساتھ ہیں"۔
مزید پڑھیں: شکست خوردہ بھارتیوں نے آسٹریلوی کرکٹر کو بھی نہ بخشا
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ "پی ایس ایل اور آئی پی ایل دونوں نے ہی میرے کیریئر میں اہم کردار ادا کیا، میں نے دونوں ہی ٹورنامنٹس میں بہت لطف اٹھایا، مجھے امید ہے کہ جلد امن ہونے سے ہمارا محبوب کھیل دوبارہ شروع ہوگا، میں مستقبل میں دونوں ممالک میں واپس لوٹنے کا منتظر ہوں گا"۔
مزید پڑھیں: "آئی پی ایل دوبارہ شروع ہوئی تو بھی آسٹریلوی کرکٹرز نہیں آئیں گے"
کرکٹر کے بیان نے ایک مرتبہ پھر بھارتی میڈیا کا جھوڑ بےنقاب کردیا ہے جبکہ جنگی ماحول کے دوران بھی غلط رپورٹنگ پر بھی بھارت کے نامور نیوز چینلز نے معذرت کی تھی، جس انہیں جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔