پاکستان کی بھارت کے خلاف فتح کی گونج دنیا بھر میں سنائی دینے لگی
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان کی بھارت کیخلاف فوجی کامیابی کے بعد، سوشل میڈیا پر بے مثال جشن کا سماں ہے اور خصوصاً بین الاقوامی مسلم کمیونٹی اور مغربی معاشروں کے غیر متوقع گوشوں کی طرف سے پاک فوج کی حمایت و مقبولیت بڑھ گئی ہے۔
سوشل میڈیا پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج کی تعریفوں سے بھرا ہوا ہے، مختلف براعظموں کے لاکھوں افراد پاک فوج کی کارکردگی کو سراہ رہے ہیں۔ ترکی، ایران، بنگلہ دیش، فلسطین، سعودی عرب، آذربائیجان، اور وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک سے آنے والی زبردست تعریفیں اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج انسٹاگرام، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور ٹک ٹوک پر ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔
کئی لوگ اس واقعے کو صرف فوجی تصادم کے طور پر نہیں دیکھ رہے، بلکہ اسے ایک شاندار اور نادر لمحے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں ایک مسلم قوم نے فیصلہ کن انداز سے ایک بہت بڑے مخالف ملک کو شکست سے دوچار کر دیا ہے۔
پاکستان کے دیرینہ اسٹریٹجک پارٹنر چین کے عوام میں بھی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ایک وائرل ویڈیو میں چائنیز شہریوں کے ایک گروپ کو پاک فضائیہ کی جانب سے گرائے گئے بھارتی رافیل طیاروں کے گرنے کا مذاق اڑاتے طنزیہ گانا گاتے اور رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح چند عرب نوجوان چائنیز لوگوں کی نقل کرتے ہوئے رافیل طیارے کی تباہی کے واقعے پر بھارت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں، وردی میں ملبوس چائنیز اور پاکستانی فوجیوں کو ایک سرحدی چوکی کے قریب ایک ساتھ رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ منظر نہ صرف پاک چین فوجی تعاون کی علامت ہے بلکہ بھارت کیخلاف پاک فوج کی تاریخی فتح کے مشترکہ جشن کا بھی اظہار ہے۔
حیرت انگیز طور پر، کچھ مغربی سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان تعریفی لمحات میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کچھ نے پاکستان کی فوج کو دنیا کی اول نمبر فوج قرار دیا ہے۔ یہ صورتحال بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مسلح افواج کیلئے بڑھتے احترام اور وقار کی عکاس ہے۔
بین الاقوامی رد عمل سے ہٹ کر دیکھیں تو پاکستان کی فتح کے اس واقعے نے خود بھارت میں گہری دراڑیں ڈال دی ہیں۔
ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو مسلم نوعمر لڑکوں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جب ایک مقامی رپورٹر کی جانب سے اُن پر پاکستان مخالف نعرہ لگانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تو لڑنے نے پاکستان کیلئے تعریفی کلمات دہراتے ہوئے مخالف نعرہ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔
دور دراز مقامات پر، پاکستان کی سرحدوں سے دور ممالک میں، پاکستان اور اس کی فوج کی حمایت میں نعرے لگانے سے لیکر پاکستان کی جیت پر رقص کرنے تک، یہ وہ مناظر ہیں جو اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاک فوج کی کامیابی نے کس طرح قومی حدود سے آگے جا کر لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
اگرچہ حکومتیں اپنے رد عمل میں محتاط ہوتی ہیں لیکن مسلم دنیا کے بیشتر حصوں اور پاکستان کے اتحادی ممالک میں عوام کے جذبات بہت واضح ہیں۔ یہ بھارت کیلئے انتہائی شرم کی بات ہے کہ پاکستان کی جیت کے نفسیاتی اور علامتی اثرات دنیا کے تمام ملکوں میں بھرپور انداز سے گونجتے نظر آ رہے ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کا بد ترین حملہ، بمباری سے کئی مقامات پر زمین پھٹ گئی، 28 فلسطینی شہید
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پاکستان کی پاک فوج کی دیکھا جا رہے ہیں
پڑھیں:
اسرائیل کے خلاف صرف عسکری جہاد کافی نہیں!
اسلام ٹائمز: اب ضرورت ہے کہ تمام مسلمان اسرائیل کے ساتھ جنگ کو صرف فوجی جنگ تک محدود نہ سمجھیں بلکہ اس جنگ کو ایک عالمگیر اصول کے طور پر اپنا لیں۔ اب پوری دنیا کے مسلمانوں کو امریکی کولا، برطانوی میک اپ اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس جنگ کو امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف اقتصادی جنگ میدان میں تبدیل کرنا چاہیئے۔ ایران کے جذبے، جرات اور شہادتوں کو سلام، لیکن اب اس جنگ کو اقتصادی جہاد کے طور پر لڑنا یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ آج کے دور میں اقتصادی جنگ عسکری و فوجی جنگ سے کئی گنا بڑھ کر موثر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ایران کے ساتھ الجھے ہوئے امریکہ و فرانس اور اسرائیل کو ایک بروقت اقتصادی دھچکا لگے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
ایران کے جوابی حملے طوفانِ نوح کی طرح اسرائیل کا سارا غرور و تکبر بہا کر لے گئے ہیں۔ حیفا کی تیل ریفائنری سے اٹھتے دھوئیں کو ساری دنیا نے دیکھا۔ چشمِ فلک نے اسرائیل کی فضاوں میں ایرانی طیاروں کی پروازں کا نظارہ بھی کیا۔ دمِ تحریر اسرائیل کے "ناقابل تسخیر" ہونے کے گھمنڈ کے ٹوٹنے اور اسرائیل کے چٹخنے کی آوازیں ساری دنیا وقفے وقفے سے سُن رہی ہے۔ اسرائیل میں بجلی کے گرڈ اسٹیشنز تباہ ہونے کے بعد پھیلنے والی خوشی سے ہر فلسطینی کا سینہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ یقیناً قساریہ میں لرزتی ہوئی صہیونی قیادت یہ سوچ رہی ہوگی کہ ستاون مسلم ملکوں سمیت پورا سعودی بلاک اور ترکی جیسا اقتصادی پارٹنر کہاں مر کھپ گیا ہے۔؟ نیتن یاہو کو اس وقت جتنی امید سعودی بلاک اور ترکی سے ہے، اتنی امریکہ و برطانیہ سے بھی نہیں۔
فلسطین کیلئے ایران نے ماضی میں بھی بہت قربانیاں دیں اور اس وقت بھی دے رہا ہے۔ یہ انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت اسرائیل کے خلاف جنگ صرف ایرانی میزائلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا کا ہر مسلمان اس میں دل و جان سے شریک ہوگیا ہے۔ یہ جنگ اگر مزید طول پکڑے گی تو اسرائیلی اندازے مزید غلط ثابت ہوتے جائیں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنی قربانیوں اور شہادتوں کے بعد ایران کے میزائلوں نے صہیونی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ جب حیفا کا اسٹریٹجک آئل ڈپو تباہ ہوا، جب شمالی اسرائیل میں 35 سے زائد افراد لاپتہ ہوئے، تو دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکی و برطانوی حمایت کے باوجود صہیونی ریاست کتنی غیر محفوظ ہے۔ ایران نے صبر اور تدبیر کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے یہ منوا لیا ہے کہ خدا پر توکل کرکے ظلم کے خلاف مزاحمت کا عزم رکھنے والے کبھی تنہا نہیں ہوتے۔
اب ضرورت ہے کہ تمام مسلمان اسرائیل کے ساتھ جنگ کو صرف فوجی جنگ تک محدود نہ سمجھیں بلکہ اس جنگ کو ایک عالمگیر اصول کے طور پر اپنا لیں۔ اب پوری دنیا کے مسلمانوں کو امریکی کولا، برطانوی میک اپ اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس جنگ کو امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف اقتصادی جنگ میدان میں تبدیل کرنا چاہیئے۔ ایران کے جذبے، جرات اور شہادتوں کو سلام، لیکن اب اس جنگ کو اقتصادی جہاد کے طور پر لڑنا یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ آج کے دور میں اقتصادی جنگ عسکری و فوجی جنگ سے کئی گنا بڑھ کر موثر ہے۔ یہ وقت ہے کہ ایران کے ساتھ الجھے ہوئے امریکہ و فرانس اور اسرائیل کو ایک بروقت اقتصادی دھچکا لگے۔
ہمیں فلسطین کو آزاد کرانے کیلئے انتہائی سادہ زندگی کو اپنانا ہوگا، حتی کہ کفار کے لذیذ مشروبات اور غذاوں کے بجائے نمک اور مرچ پر گزارا کرنا ہوگا۔ ہمارے سامنے ایران نے کتنی زیادہ اقتصادی پابندیاں برداشت کی ہیں، اب ہمیں خود ہی اپنے اوپر یہ پابندی لگانی ہوگی کہ ہم کوَئی استعماری پروڈکٹ نہیں خریدیں گے۔ ہمارا عوامی و قومی عزم دنیا کی سُپر طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ حقیقی طاقت بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہوتی ہے۔ کیا ہم میک ڈونلڈز کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔؟ کیا ہم کے ایف سے کے بغیر مر جائیں گے۔؟ یقین جانئے ہم تو نہیں مریں گے لیکن غزہ کے معصوم بچوں کی زندگیوں کو بچا سکیں گے۔ ہمارے بازاروں میں امریکی، برطانوی و صہیونی مصنوعات کی خرید و فروخت ہی فلسطینیوں کی غلامی کا سبب ہے۔ ہمیں یہ شعور کب آئے گا کہ جب ہم اپنے دشمنوں کی مصنوعات خریدتے ہیں، تو درحقیقت ہم انہیں اپنے ہی خلاف مضبوط کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص فلسطین کیلئے بہت کچھ کرسکتا ہے، جیسے امریکی فاسٹ فوڈ چینز سے چھٹکارا، برطانوی لگژری برانڈز سے پرہیز، اسرائیلی ٹیکنالوجی کے متبادل کی تلاش، مقامی مصنوعات کو ترجیح دینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں، لیکن درحقیقت ان کے نتائج بہت بڑے بڑے ہیں۔ ایران نے جو جہاد کیا ہے، وہ تب مطلوبہ نتائج دے گا کہ جب ہم میں سے ہر شخص اسرائیل پر اپنی بساط کے مطابق وار کرے گا۔ ہمارا پیسہ اور ہماری قوّتِ خرید ہماری طاقت ہے اور اس طاقت کو استعماری طاقتوں کے خلاف استعمال کرنا ہی ہمارا جہاد ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے خلاف اگر ہم اور کچھ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم اقتصادی بائیکاٹ کو ہی ایک مشترکہ حکمت عملی کے طور پر اپنائیں۔ ایک طرف ایران تن تنہاء خطے کے استعماری پنجوں سے ٹکرا رہا ہے، تو دوسری طرف اربوں مسلمان اپنی ذمہ داری سے غافل نظر آتے ہیں۔ گویا وہ جانتے ہی نہیں کہ آج کے زمانے میں اقتصادی مزاحمت سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔
یہ بائیکاٹ عالمی طاقتوں کو یہ احساس دلائے گا کہ اخلاقی و انسانی اقدار کو پامال کرنے والے ممالک کی معیشتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ جب مسلمان ایک بڑی اکثریت کے طور پر ان طاقتور ممالک کی مصنوعات اور خدمات کو مسترد کریں گے تو یہ ان ممالک کی معیشتوں اور پالیسیوں کیلئے ایک بڑا چیلنج اور معاشی دباو بن جائے گا۔ یہ معاشی دباؤ ان طاقتور ریاستوں کو اس بات کا قائل کرے گا کہ اقتصادی تعلقات صرف سود اور نقصان کا معاملہ نہیں ہیں، بلکہ ان کا تعلق عالمی اخلاقی ضمیر سے بھی ہے۔ پھر انہیں سمجھ آئے گی کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت، اخلاقی قوت ہے، نہ کہ صرف مالی وسائل۔ پھر وہ اپنے غیر انسانی اور ظالمانہ سیاسی فیصلوں پر نظرثانی کرنے پر تیار ہونگے۔ جیسے ایک دریا اپنے راستے میں آنے والی چٹانوں کو موم کی طرح پگھلا دیتا ہے، ویسے ہی اقتصادی بائیکاٹ طاقتور ممالک کو نرم کرکے اپنے فیصلوں پر غور کرنے کے لیے مجبور کر دیتا ہے۔
اس بائیکاٹ کے ذریعے، اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ میں سرمایہ کاری کی روانی سست پڑ جائے گی، کیونکہ عالمی سرمایہ کاروں کو بھی اس دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر مسلمان اپنے دشمنوں کے خلاف اپنا اقتصادی دباو نہیں بنائیں گے تو استعماری ممالک کو کیسے یہ بات سمجھ آئے گی کہ ریاستوں کی ذمہ داری صرف معیشت کا ارتقا نہیں بلکہ انسانیت اور انسانی اصولوں کی بقا بھی ہے۔ یوں یہ بائیکاٹ اقتصادی میدان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کیلئے ایک اخلاقی، سیاسی اور سماجی پیغام بھی بن جائے گا۔ آخر میں ایک جملہ اُن لوگوں کیلئے بھی لکھتا چلوں کہ جنہیں ایران سے خدا واسطے کا بیر ہے، ایسے لوگ یاد رکھیں کہ جو شخص ٹھیک نقشے پر نہیں چلتا، وہ کسی دوسرےکا نقصان نہیں کرتا بلکہ خود اپنا ہی راستہ گُم کر دیتا ہے۔