عظیم تر اسرائیلی ریاست کا قیام میرا روحانی مشن ہے؛ نیتن یاہو
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
وزیر اعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کو تاریخی اور روحانی مشن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ماضی کے خوابوں کی تعبیر اور مستقبل کی رہنمائی ہے۔
یہ دعویٰ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا جس میں انھوں نے خود کو ایک "تاریخی اور روحانی مشن" پر مامور قرار دیا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ یہ نسلوں کا مشن ہے۔ نسلوں نے یہاں آنے کا خواب دیکھا اور نسلیں آئندہ بھی یہاں آئیں گی۔ اگر آپ پوچھیں کہ کیا میں ایک تاریخی و روحانی مشن پر ہوں، تو جواب ہے: بالکل ہاں۔
نیتن یاہو کے اس بیان نے بین الاقوامی سطح پر تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کیونکہ "گریٹر اسرائیل" کا تصور مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی عدم استحکام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
"گریٹر اسرائیل" کا مطلب صرف موجودہ اسرائیل نہیں بلکہ وہ تمام علاقے ہیں جنہیں اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں فتح کیا تھا۔
ان علاقوں میں مشرقی یروشلم، مغربی کنارے، غزہ، گولان کی پہاڑیاں، جزیرہ نما سینا بھی شامل ہیں اور یہ تصور بعض انتہا پسند صیہونی رہنماؤں اور لیکود پارٹی کے نظریاتی بانی زئیف جابوٹنسکی کے خیالات سے جڑا ہے۔
اس انٹرویو کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اینکر شارون گل نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو ایک "تعویذ" بھی پیش کیا، جس پر مبینہ طور پر وعدہ شدہ زمین (Promised Land) کا نقشہ بنا ہوا تھا۔
انھوں نے مذاقاً کہا کہ وہ نیتن یاہو کو مزید تحائف میں الجھانا نہیں چاہتے، اس بات کا اشارہ نیتن یاہو کے خلاف زیر سماعت تحائف کے مقدمات کی جانب تھا۔
مصر، اردن اور سعودی عرب نے گریٹر اسرائیل کے بیان پر کہا کہ یہ نظریہ خطے میں امن کی کوششوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظریہ دو ریاستی حل کی مخالفت کے مترادف ہے۔
اسی طرح یورپی یونین نے بھی گریٹر اسرائیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی مشن جیسے الفاظ سیاسی توسیع پسندی کو جواز فراہم کر سکتے ہیں۔
ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا، لیکن بیک ڈور ڈپلومیسی میں نیتن یاہو پر دباؤ بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گریٹر اسرائیل نیتن یاہو کہا کہ
پڑھیں:
آسٹریلیا کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اگست 2025ء) دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں امن کی بہترین امید ہے، انتھونی البانیزی
آسٹریلیا کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلانآسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیزی نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل انسانیت کے لیے بہترین امید ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں تشدد کا سلسلہ رک سکتا ہے اور غزہ میں جاری تنازع، تکالیف اور بھوک کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔البانیزی نے کہا کہ جب تک اسرائیلی اور فلسطینی ریاستوں کا قیام مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتا، تب تک امن صرف عارضی ہوگا۔
(جاری ہے)
آسٹریلیا فلسطینی عوام کے ان کی اپنی ریاست کے حق کو تسلیم کرے گا اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس حق کو حقیقت بنانے کی کوشش کرے گا۔
یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب برطانیہ، فرانس اور کینیڈا سمیت کئی مغربی ممالک نے بھی تقریباً دو برس قبل حماس کے حملوں کے بعد غزہ میں اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کی ہے۔
البانیزی نے کہا کہ آسٹریلیا کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی کی ان یقین دہانیوں پر مبنی ہے کہ مستقبل کی کسی فلسطینی ریاست میں حماس کے عسکریت پسندوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ پٹی پر کنٹرول نہیں رکھتی، جو تقریباً دو دہائیوں سے حماس کے زیر انتظام ہے۔آسٹریلیا کے اعلان کے بعد کینبرا میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس پر تبصرے سے انکار کر دیا۔ اس سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی عالمی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امن نہیں بلکہ جنگ کو جنم دے گا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل فرانس، برطانیہ اور پرتگال سمیت دس سے زائد ممالک ستمبر میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلانات کر چکے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر