اسلام ٹائمز: دوحہ قرارداد نے ایک بار پھر اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ عالمِ اسلام کو صرف "بیانات" سے نہیں بچایا جا سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا محض لفظوں کے ہیر پھیر سے نکل کر عملی اقدامات کرے۔ سفارتی، معاشی، عسکری اور سیاسی سطح پر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو واضح پیغام دیا جانا چاہیئے۔ اگر اسلامی دنیا متحد ہو جائے تو وہ عالمی نظام کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت سب سے بڑی کمزوری مسلمانوں کی اپنی صفوں میں موجود ہے۔ اتحاد، قیادت، خود مختاری اور غیرت و حمیت کی کمی نے ہمیں عالمی طاقتوں کا غلام بنا دیا ہے۔ دوحہ قرارداد نے ہمیں ایک بار پھر آئینہ دکھایا ہے۔ یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس آئینے میں اپنے اصل چہرے کو پہچان کر خود کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
امیر جماعت اہل حرم پاکستان
مرکزی نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان
دوحہ کانفرنس اور اس کے نتیجے میں جاری ہونے والی 25 نکاتی قرارداد نے عالمِ اسلام کی بے بسی، کمزوری اور اندرونی تضادات کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے نہ صرف انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی گئیں بلکہ اس نے مسلم دنیا کی تمام "ریڈ لائنز" کو بھی پامال کر دیا۔ اس تمام صورتحال میں دوحہ قرارداد میں جس شرمناک کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا، وہ نہ صرف امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ مستقبل میں مسلمان ممالک کے لیے ایک انتباہی پیغام بھی ہے۔ دوحہ کانفرنس میں مسلم ممالک کے نمائندے، جو کہ مجموعی طور پر دنیا کی دو ارب سے زائد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں، نہایت ہی مایوس کن اور بزدلانہ رویہ اختیار کیے نظر آئے۔ یہ نمائندے ایک تہائی اقوام متحدہ کی رکنیت رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر توانائی کی ضروریات کا بھی ایک تہائی حصہ بھی پورا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود عملی اقدامات کے بجائے محض بیانات اور رسمی قرارداد پر اکتفا کیا گیا۔
کانفرنس کا ماحول "آمدن، نشست، گفتن اور برخاستن" سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ایک ایسے موقع پر جب اسرائیل نے نہ صرف غزہ بلکہ قطر جیسے ملک پر بھی حملے کی جرأت کی، مسلمانوں کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ اپنے اتحاد، طاقت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے، مگر افسوس یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔ اسرائیل نے اپنے حالیہ اقدامات سے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑا دیں۔ نہتے شہریوں پر حملے، بچوں اور عورتوں کا قتل عام اور قطر جیسے ملک پر جارحیت تمام تر عالمی اداروں اور مسلم دنیا کی ریڈ لائنز کو روندتے ہوئے کیے گئے۔ مگر اس کے جواب میں مسلمان ممالک نے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ محض "زبان کی سختی" پر اکتفا کیا۔ اس موقع پر ضرورت اس امر کی تھی کہ "عمل کی سختی" دکھائی جاتی۔ کم از کم اتنا ہی کر لیا جاتا کہ اسرائیل کے لیے ایئر سپیس بند کر دی جاتی۔ سفارتی تعلقات منقطع کیے جاتے اور معاشی دباؤ ڈالا جاتا۔ مگر کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا گیا۔
قطر پر حملے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ باقی عرب ممالک کو واضح پیغام دیا جائے کہ اگر کسی نے اسرائیل یا اس کے سرپرست امریکہ کی مخالفت کی تو اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔ اردن، مصر، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں اسرائیل اور امریکہ کے خوف سے خاموش تماشائی بنی رہیں۔ ان کے رویئے نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی خود مختاری، حمیت اور دینی و ملی غیرت سے زیادہ واشنگٹن اور تل ابیب کے اشاروں پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ قطر نے ماضی قریب میں امریکہ کو دو کھرب ڈالر بطور تحفہ دیئے تھے، جس کا مقصد ظاہر ہے کہ اپنے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ مگر جب وقت آیا تو یہی امریکہ قطر کی حفاظت کرنے سے منہ پھیر گیا۔ اسرائیل نے حملہ کیا اور امریکہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ امریکہ کی ساکھ اس خطے میں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ جن عرب حکمرانوں نے امریکہ کو اپنا محافظ سمجھا تھا، انہیں آج اس دھوکے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوحہ کانفرنس میں فلسطین کے مسئلے پر وہی فرسودہ باتیں کی گئیں کہ مسئلے کا حل "دو ریاستی فارمولا" ہے۔ یہ بنیادی طور پر اسرائیل کو بطور ریاست قبول کرنے کی طرف ایک قدم ہے، ورنہ عالم اسلام کے اکابرین نے ہمیشہ اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ وہ اس سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز وجود کے کبھی بھی حامی نہیں رہے بلکہ اس کو مٹانا اپنا اہم اور ملی فریضہ سمجھتے تھے۔ آج کے حکمران ابراہام معاہدے کے نام پر گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ اسرائیل کی توسیع پسندی کو جائز قرار دینے کے مترادف ہے۔ دنیا میں اس وقت دو ہی ریاستیں ایسی ہیں، جن کا رویہ کھلی جارحیت اور توسیع پسندی پر مبنی ہے، ایک اسرائیل اور دوسرا بھارت۔ دونوں ممالک اپنے پڑوسیوں کے حقوق پامال کرتے ہیں، اقلیتوں پر ظلم کرتے ہیں اور علاقائی طاقت بننے کے لیے ہر بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اسرائیل کی غزہ اور قطر پر جارحیت ہو یا بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں بربریت، دونوں ممالک عالمی ضمیر کو چیلنج کر رہے ہیں۔
جن مسلم ممالک نے اسرائیل اور امریکہ سے خوشامدانہ تعلقات قائم کیے، آج وہ بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہیں اندازہ ہوچکا ہے کہ ان کی وفاداری کا کوئی صلہ نہیں ملنے والا۔ امریکہ صرف اپنے مفادات کا محافظ ہے، وہ کسی ملک کا دوست یا حامی نہیں ہوسکتا۔ جو عرب ممالک کل تک امریکی دفاعی چھتری پر فخر کرتے تھے، آج وہ اپنی حفاظت کے لیے بے بس ہوچکے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر اتنا عسکری سرمایہ، اربوں ڈالر کا اسلحہ، جدید ٹیکنالوجی، دفاعی معاہدات اور فوجی اتحاد کس کام کے لیے ہیں۔؟ اگر ان کا استعمال مظلوموں کی حفاظت، مسلم دنیا کے دفاع اور دشمن کو روکنے کے لیے نہیں ہو رہا تو پھر یہ سب کچھ صرف دکھاوے اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اسلحے کے انبار لگانے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر دشمن کے سامنے جھکنا ہی مقدر ہو۔
دوحہ قرارداد نے ایک بار پھر اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ عالمِ اسلام کو صرف "بیانات" سے نہیں بچایا جا سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا محض لفظوں کے ہیر پھیر سے نکل کر عملی اقدامات کرے۔ سفارتی، معاشی، عسکری اور سیاسی سطح پر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو واضح پیغام دیا جانا چاہیئے۔ اگر اسلامی دنیا متحد ہو جائے تو وہ عالمی نظام کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس وقت سب سے بڑی کمزوری مسلمانوں کی اپنی صفوں میں موجود ہے۔ اتحاد، قیادت، خود مختاری اور غیرت و حمیت کی کمی نے ہمیں عالمی طاقتوں کا غلام بنا دیا ہے۔ دوحہ قرارداد نے ہمیں ایک بار پھر آئینہ دکھایا ہے۔ یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس آئینے میں اپنے اصل چہرے کو پہچان کر خود کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دوحہ کانفرنس ایک بار پھر ا اسرائیل اور اسرائیل کی پر اسرائیل مسلم دنیا کرتے ہیں دیا ہے کے لیے کر دیا
پڑھیں:
پاکستان کا وژن دوحہ اعلامیہ کی روح سے ہم آہنگ ہے، صدر مملکت آصف علی زرداری
صدر مملکت آصف علی زرداری نے سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے غربت کے خاتمے، مہذب کام کو فروغ دینے اور سب کے لیے برابری اور انسانی حقوق کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب اور قطر انتہائی مثبت رہا، عطا اللہ تارڑ کی پریس کانفرنس
صدر مملکت منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سماجی ترقی کے لیے دوسری عالمی سربراہی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔
انہوں نے دوحہ سیاسی اعلامیہ کے لیے مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعیت اور پائیدار ترقی کے لیے پاکستان کا وژن دوحہ اعلامیہ کی روح سے ہم آہنگ ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان عوام کو پالیسی کے مرکز میں رکھنے پر ثابت قدمی سے کاربند ہے۔ صدر مملکت نے پاکستان کی ترقی کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا حوالہ دیا جس نے معالی معاونت، ہیلتھ کیئر اور تعلیم کے ذریعے 90 لاکھ خاندانوں کو بااختیار بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام عالمی سطح پر سماجی تحفظ کے بہترین ماڈلز میں سے ایک کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ 5 سال میں خواندگی کو 90 فیصد تک بڑھایا اور ہر بچے کے اسکول جانے کو یقینی بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیے: قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
انہوں نے نیشنل یوتھ انٹرنشپ پروگرام اور گرین اینڈ ریزیلینٹ ہاؤسنگ پروجیکٹس جیسے اقدامات کا بھی ذکر کیا جن کا مقصد نوجوانوں کو بااختیار بنانا اور مینگروو بحالی جیسے فطرت پر مبنی حل کے ذریعے کلائمیٹ ریزیلینس کو مضبوط بنانا ہے۔
صدر مملکت نے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسے 240 ملین پاکستانیوں کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ دوحہ اعلامیہ کو عملی شکل دینے کے لیے عالمی مالیاتی اصلاحات، قرضوں میں ریلیف، مساوی ٹیکس اور وسیع سماجی تحفظ کی ضرورت ہے اور دنیا کو وقار، مساوات اور یکجہتی کے تین ستونوں کے اردگرد متحد ہونا چاہیے۔
صدر مملکت نے فلسطین میں نسل کشی، نسل پرستی اور بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کی مذمت کرتے ہوئے ایک منصفانہ اور دیرپا امن کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کشمیری عوام کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ انصاف اور حق خودارادیت کے حصول میں دونوں جدوجہد ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ امن کانفرنس پیر کو مصر میں ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ اور عبدالفتاح السیسی مشترکہ صدارت کریں گے
صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ترقی کا آغاز اور اختتام لوگوں کی بہتری سے ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر ہمدردی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
دوحہ دوسری عالمی سربراہی کانفرنس صدر آصف علی زرداری قطر