واشنگٹن کا روایتی اتحادی چین کے ساتھ
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جب یوم "آزادی" پر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین سے آنے والی درآمدات پر 20 فیصد اور چین کی درآمدات پر 145 فیصد ٹیکس عائد کیا اور یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق خاص موقف اپنایا تو نہ چاہتے ہوئے اپنے اصلی اتحادی یعنی یورپی یونین کا خود سے دور ہونے اور اپنے سخت ترین مخالف یعنی چین سے قربتوں کا مقدمہ فراہم کر دیا۔ لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے پہلے 14 فروری 2025ء کے دن جب جرمنی کے شہر میونخ میں عالمی سیکورٹی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو امریکہ کے نائب صدر جی ڈی وینس نے یورپی ممالک کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا اور ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کے قوانین "جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں۔" یورپی حکام نے امریکی نائب صدر کے اس موقف پر انتہائی شدید ردعمل بھی ظاہر کیا تھا۔ تحریر: محمد انیسی طہرانی
5 نومبر 2024ء کے دن صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے عالمی سطح پر دو بڑی طاقتوں چین اور یورپی یونین کو ناراضی کر دیا لیکن وہ سیاست کی دنیا میں پیش آنے والی تلخیوں کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔ اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ برسلز اور بیجنگ امریکی صدر کی ناپسندیدہ پالیسیوں کے تناظر میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگرچہ چین نے ہمیشہ سے روس کے ساتھ وسیع تعاون پر زور دیا ہے اور یہ بات یورپی یونین کی ناراضگی کا سبب بنی ہے اور حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی پر روس کی فتح کا جشن منانے کے لیے ماسکو کا دورہ بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود یورپی یونین اور چین کے درمیان تعلقات میں فروغ کی علامات پہلے سے زیادہ نمایاں ہو چکی ہیں۔ چین اور یورپی یونین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر چینی صدر نے یورپی یونین سے اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
ٹرمپ نے کس طرح یورپ کو چین کے قریب کر دیا؟
جب یوم "آزادی" پر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین سے آنے والی درآمدات پر 20 فیصد اور چین کی درآمدات پر 145 فیصد ٹیکس عائد کیا اور یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق خاص موقف اپنایا تو نہ چاہتے ہوئے اپنے اصلی اتحادی یعنی یورپی یونین کا خود سے دور ہونے اور اپنے سخت ترین مخالف یعنی چین سے قربتوں کا مقدمہ فراہم کر دیا۔ لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے پہلے 14 فروری 2025ء کے دن جب جرمنی کے شہر میونخ میں عالمی سیکورٹی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو امریکہ کے نائب صدر جی ڈی وینس نے یورپی ممالک کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا اور ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کے قوانین "جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں۔" یورپی حکام نے امریکی نائب صدر کے اس موقف پر انتہائی شدید ردعمل بھی ظاہر کیا تھا۔
اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیٹو کے رکن یورپی ممالک کی مسلسل سرزنش کرنا اور انہیں مناسب مقدار میں نیٹو کے اخراجات کے لیے فنڈز مہیا نہ کرنے کے طعنے دینا بھی اس بات کا باعث بنے کہ یورپی یونین دھیرے دھیرے امریکہ سے دور ہوتا جائے۔ یورپی کمیشن کی سربراہ اورسیلا فنڈرلائن، جو اپنی پہلی مدت صدارت میں چین اور ماسکو کے درمیان تعلقات کو یورپ کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتی تھیں اور چین پر انحصار کو بھی بہت زیادہ نقصان دہ اور خطرناک سمجھتی تھیں بھی اب اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے 2024ء میں کہا تھا: "چین کی جانب سے زیادہ جارحانہ موقف اور غیر منصفانہ اقتصادی مقابلہ بازی اور روس کے ساتھ نامحدود دوستی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔" لیکن ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اب وہ چین اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیتی ہیں۔
یورپ امریکہ تعلقات میں کشیدگی پر بائیڈن کی تشویش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایٹلنٹک کے دو پار امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان 80 سالہ انتہائی قریبی اور اسٹریٹجک تعلقات استوار رہے ہیں۔ یہ تعلقات اس حد تک اسٹریٹجک اور مشترکہ اقدار پر استوار تھے کہ اب جب دونوں میں کشیدگی پیدا ہونے لگی ہے تو بڑے بڑے امریکی سیاست دان تشویش کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ان میں سے ایک سابق امریکی صدر جو بائیڈن ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہاوس چھوڑنے کے بعد بی بی سی سے اپنے پہلے انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا: "امریکہ کے فیصلہ کن اقدامات اور واشنگٹن کے قائدانہ کردار پر یورپ کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔" جو بائیڈن نے کہا کہ یورپی حکام کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ آیا ہم امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ کیا وہ ہماری پشت پناہی کرے گا؟ سابق امریکی صدر نے ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان تلخ کلامی پر بھی شدید پریشانی کا اظہار کیا۔
چین اور یورپی یونین شریک ہیں حریف نہیں
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ چین اور یورپی یونین کے درمیان تعاون کا اہم ترین پہلو تجارتی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔ کسٹم سے متعلق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024ء میں دونوں کے درمیان تجارت کی مقدار 731 ارب یورو تھ جس میں سے 213 ارب یورو یورپ کی چین کے لیے برآمدات جبکہ 518 ارب یورو چین سے یورپ کی جانب برآمدات شامل ہیں۔ یورپی یونین کے نائب سیکرٹری جنرل اولاف اسکوگ کے بقول گذشتہ پچاس برس میں چین اور یورپی یونین میں بہت گہری تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کے باعث اس وقت ان دونوں کے تعلقات دنیا کی اہم ترین شراکت داری کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "چین اور یورپی یونین ایک دوسرے کے لیے اصلی شریک میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان کی دوطرفہ تجارت کا بجٹ 8 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔"
تجارت میں تمام رکاوٹوں کا خاتمہ
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ بیجنگ اور یورپی پارلیمنٹ نے باہمی تجارت میں پائی جانے والی تمام رکاوٹوں کے مکمل خاتمے پر اتفاق کیا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے بقول لین جیان نے گذشتہ ہفتے پریس کانفرنس میں کہا: "گذشتہ چند سالوں کے دوران جانی پہچانی وجوہات کی بنا پر چین اور یورپی یونین کے درمیان تجارت میں کچھ رکاوٹیں پیدا ہو گئی تھیں لیکن موجودہ حالات میں دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ باہمی گفتگو اور تعاون کا فروغ بہت اہم ہے۔" چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ چین اور یورپی یونین اس سال اقتصاد، تجارت اور گرین انرجی کی ترقی کے بارے میں اعلی سطحی مذاکرات انجام دیں گے۔ اسی طرح یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ چین یورپی پارلیمنٹ اور اس کی ذیلی انسانی حقوق کی کمیٹی کے اراکین پر عائد شدہ پابندیاں ختم کر دے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور یورپی یونین کے درمیان چین اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات درآمدات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا اس بات پر نے یورپی اور چین کر دیا چین کی چین کے کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
دنیا میں غلط فہمی تھی کہ بھارت کو روایتی اور غیر روایتی برتری حاصل ہے، حنا ربانی کھر
سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر—فائل فوٹوپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن قومی اسمبلی حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ دنیا میں غلط فہمی تھی کہ بھارت کو روایتی اور غیر روایتی برتری حاصل ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس غلط فہمی کو پاکستان نے نہیں، خود بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے توڑا۔
حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ ثابت ہوگیا ہے یہاں کوئی ملک دشمن نہیں۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ کوئی دو رائے نہیں کہ جنگ میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے، بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خوشی منانا کہ ہم نے بھارت کو کتنے برے طریقے سے ہرایا خوشی کی بات نہیں ہے، دو نیوکلیئر ریاستیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مودی فیصلہ کرتے ہیں کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کیا ہم یہ بات سر جھکا کر مان لیں؟ پاکستان کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔