اتحادی حکومت میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے: رانا احسان افضل
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
—فائل فوٹو
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت میں ہمیشہ چیلنج ہوتا ہے، مسلم لیگ ن اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ گفتگو کریں اور ایشوز حل کریں۔
رانا احسان افضل کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جو ایشو اٹھا رہی ہے، ان کے ساتھ بیٹھیں گے، ایشوز حل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں مسائل کا حل مل بیٹھ کر بات کرنے میں ہی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا
ایک ماحول بن رہا ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ چند دوست ماحول بنا رہے ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ ان کی رائے میں اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے دمیان سب ٹھیک نہیں ہے۔ دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ناراضگیاں جنم لے رہی ہیں۔
اس لیے دوستوں کی رائے میں کچھ ہوسکتا ہے۔ دوستوں کی رائے میں کرپشن پر بھی اختلافات ہیں۔ایسے میں سیالکوٹ کے واقعہ میں اے ڈی سی آر کی گرفتاری نے بھی ماحول کو گرما دیا ہے۔ اس لیے اب ساری صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
جہان تک خواجہ آصف کے استعفیٰ کی خبر نماافواہوں کا تعلق ہے تو انھوں نے کوئی استعفیٰ نہیں دیا تھا، وہ خبریں غلط تھی۔ یہ درست ہے کہ اے ڈی سی آر کے لیے ان کی ہمدردی تھی لیکن خواجہ آصف جیسا جہاندیدہ سیاستدان ایسے معاملے کے لیے استعفیٰ نہیں دیتا۔ انھوں نے سیاست کے بہت نشیب و فرا ز دیکھے ہیں۔
پھر دوست یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس اے ڈی سی آر کو خواجہ آصف نے نہیں لگوایا تھا۔ وہ نگران دور میں تعینات ہوا تھا اور آج تک وہاں تعینات تھا ، چیف سیکریٹری، آئی جی سمیت اہم عہدوں پر نگران دور کے تعینات افسر ہی موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے افسر نہیں لگائے جو تعینات تھے،انھیں کے ساتھ گزارا کیا ہے۔ اے ڈی سی آر سیالکوٹ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔
دوسری طرف ایک اے ڈی سی آر جیسے معاملے پر حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے تعلقات خراب نہیں ہو سکتے، یہ بہت چھوٹا معاملہ ہے۔ میڈیا نے غیر ضروری اہمیت دے دی ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے تعلقات بالکل ٹھیک ہیں۔ کوئی دوریاں نہیں ہیں۔ حال ہی میں امریکا میں اوور سیز پاکستانیوں سے خطاب میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ ان کی کارکردگی سے خوش نظرا ٓئے ہیں۔ اس لیے انھوں نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ حکومت سے انھیں کوئی شکایت ہے۔ بلکہ وہ تو حکومت کی تعریف کر رہے تھے۔
سوال یہ ہے کہ پھر مسئلہ کیا ہے۔ میری راے میں مسئلہ اٹھارویں ترمیم ہے۔کیونکہ ایک کمزور وفاق نے کمزور پاکستان بنا دیا ہے۔ صوبوں کے پاس وسائل کی بھر مار ہے۔ لیکن وفاق غریب ہے۔ یہ عدم توازن ہے۔ پہلے سب کچھ وفاق کے پاس تھا تو صوبے بہت غریب تھے۔ پھر سب کچھ صوبوں کے پاس چلا گیا تو وفاق غریب ہوگیا۔
ہم ابھی تک کوئی متوازن فارمولہ نہیں بنا سکے۔مضبوط اور باوسائل صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں کو ترقی یافتہ بنا سکیں نہ پاکستان کو ترقی دینے میں معاون ثابت ہوسکیں۔ اسٹبلشمنٹ کی اس حوالے سے ایک اپنی سوچ ہے۔
یہ بھی دلیل ہے کہ اٹھارویں ترمیم اس لیے کی گئی تھی کہ اختیارات کو نچلی سطح تک لیجایا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جو سیاسی جماعتیں اٹھارویں ترمیم کے حق میں ہیں، انھوں نے اپنے اپنے صوبوں میں لمبے اقتدار کے بعد بھی کوئی اچھا موثر بلدیاتی نظام نہیں بنایا۔ وسائل وفاق سے نکل کر صوبائی حکومت کی تحویل میں آگئے ہیں۔ صوبائی حکومتیں اپنے اختیار بلدیاتی اداروں تک منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے اٹھارویں ترمیم کا اصل مقصد حا صل نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا اب اگراس کو ختم نہیں کرنا تو ا س میں تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن ) کو ان تبدیلوں پر کوئی اعتراض نہیں، دیکھا جائے تو رکاوٹ پیپلزپارٹی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی تیار ہو جائے تو کل ہی ترامیم ہو سکتی ہیں۔ ایم کیو ایم بھی تیار ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور آئی پی پی بھی تیار ہیں۔ رکاوٹ پیپلزپارٹی ہے۔ اس لیے دوست شاید صورتحال کو صحیح دیکھ نہیں رہے۔ مسئلہ وفاقی حکومت سے نہیں پیپلزپارٹیٰ سے ہے۔
اس سے پہلے نہروں کے مسئلہ پر بھی اختلاف پیپلزپارٹیٰ سے ہی تھا۔نہروں کا معاملہ بھی پیپلزپار ٹی کی وجہ سے ہی رول بیک ہوا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) تب بھی نہروں کے حق میں تھی۔ صدر آصف زرداری پہلے مان گئے پھر پیپلزپارٹی نے سیاسی نقصان کی وجہ سے یو ٹرن لیا۔ اس کے جواب میں پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کا یہ بھی موقف ہے کہ وہ بھی سیاسی وجوہات کی وجہ سے کئی معاملات پر یوٹرن لے سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے نہیں لیا۔ بلکہ اپنا سیاسی نقصان برداشت کیا۔
یہ کیسا اتحاد ہے کہ آپ سیاسی فائدہ تو خوشی خوشی لے لیں۔ لیکن نقصان کی دفعہ بھاگ جائیں۔ یہ کوئی اتحاد نہیں۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ رائے بن رہی ہے کہ وہ فائدے تو لے لیتی ہے لیکن نقصان کی دفعہ نظر یں بدل لے لیتی ہے۔ اس طرح معاملات کیسے چل سکتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی یہی شکا یت ہے کہ پیپلزپارٹی فائدے سب لیتی ہے اور پھر آنکھیں بھی دکھاتی ہے۔
اس لیے اگر دیکھا جائے تو اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے کی تکمیل میں پیپلزپارٹی رکاوٹ ہے۔ ایسے میں مجھے حکومت جاتی تو نظر نہیں آرہی۔ البتہ ایک ایسا منظر نامہ تو نظرا ٓرہا ہے کہ اسی پارلیمان میں حکومتی اتحاد پہلے سادہ اکثریت اور پھر دو تہائی اکثریت حا صل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نا اہلیوں کا موسم شروع ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی سیٹوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ سزاؤں کی وجہ سے تحریک انصاف میں تقسیم نظرآ ٓرہی ہے۔ وہاں سے بھی ایک فاورڈ بلاک بن رہا ہے۔ جو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ آجائے گا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں مسلم لیگ (ن) کو سادہ اکثریت کے لیے اتحادی کی ضرورت نہیں ہوگی، پھر دو تہائی بھی پیپلز پارٹی کے بغیر بن جائے گی۔
معاملات پیپلزپارٹی کے بغیر چلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کی پارلیمان میں تعداد بڑھتی نظرآرہی ہے۔ لیکن کیا نظام کو ختم کیا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا۔ کیا ملک میں مارشل لا لگ رہا ہے؟ مجھے نہیں لگتا۔ کیا پارلیمان کو ختم کیا جا رہا ہے ؟مجھے نہیں لگتا۔ البتہ اسی پارلیمان میں عددی تبدیلی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن اگر یہ فارمولہ ناکام ہو گیا تو پھر کوئی حل سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی اسی حل پر کام ہو رہا ہے۔ یہ حل مسلم لیگ (ن) کے لیے اچھا ہے۔ مشکلات پیپلزپارٹی کے لیے ہوںگی۔ وہ نظر بھی آرہی ہیں۔