Express News:
2025-09-28@07:09:42 GMT

پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT

پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت میں طے شدہ پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل کا مطالبہ کیا ہے اور ڈیڑھ سال میں دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں مگر لگتا ہے کہ ن لیگ پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کو شامل کرنے پر راضی نہیں ہو رہی جب کہ وہ وفاقی حکومت میں تو پیپلز پارٹی کو نمایندگی دینے پر تیار ہے اور دونوں پارٹیاں بلوچستان حکومت میں شامل ہیں اور دونوں نے بلوچستان میں جے یو آئی کو نظرانداز کرکے مخلوط حکومت بنائی تھی جب کہ جے یو آئی کے پاس بلوچستان میں کے پی سے زیادہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی ہیں۔

سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی اسمبلی تو کیا ایک رکن سندھ اسمبلی بھی نہیں ہے اور سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت اسی طرح حاصل ہے، جیسی اکثریت (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں حاصل ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب کے گورنر کا عہدہ ملا ہوا ہے اور چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے پاس ہے اور ملتان ڈویژن میں گیلانی خاندان نے متعدد نشستیں بھی حاصل کر رکھی ہیں اور جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نمایندگی حاصل ہے اور وہ پنجاب میں (ن) لیگ کی حلیف بھی ہے اس لیے پنجاب حکومت میں شمولیت چاہتی ہے جس کے لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان متعدد اجلاس ہو چکے ہیں مگر ن لیگ کو نہ جانے کون سے تحفظات ہیں کہ وہ راضی نہیں ہو رہی۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنے وزیروں کی ضرورت ہے تاکہ وہ محکمے لے کر پی پی کارکنوں کو نواز سکے۔ گورنر پنجاب کا عہدہ آئینی ہے جب کہ وزیروں کو محکمے تو ملتے ہیں مگر وہ وہاں من مانیاں نہیں کر سکتے کیونکہ پنجاب حکومت اور اس کی انتظامی ٹیم کی ہر محکمے پر نظر ہے اورن لیگ ایک واضح پالیسی کے تحت صوبہ چلا رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے ارکان اگر حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو انھیں پنجاب حکومت کی پالیسی کسی صورت قبول نہیں ہوگی جس سے دونوں پارٹیوں میں اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔دونوں پارٹیوں میں اختلافات ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ارکان کو مجبوراً مفاہمت کی پالیسی اپنانا ہو گی۔

 پی پی کے ارکان اگر وزیر بنتے ہیں تو انھیں اپنی پارٹی کو پروموٹ کرنا ہوگا تاکہ پنجاب میں پی پی کی مقبولیت بڑھے جو ن لیگ کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنے طریقے سے حکومت چلانے کے اصول متعین کر رکھے ہیں جن پر عمل کرنا پی پی وزیروں کے لیے بہت ہی مشکل ہوگا۔پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کو زیادہ اہمیت کیوں دے گی ،ایسا کرنے سے اس کی سیاسی حیثیت اور ساکھ متاثر ہو گی۔

پی پی کو کابینہ میں شمولیت دونوں پارٹیوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھا سکتی ہے اس لیے پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہیں ہو پا رہا اور پی پی اپنے مطالبے پر جلد عمل چاہتی ہے۔ (ن) لیگ کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرح پیپلز پارٹی سے بھی خطرہ ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ ایک خاندان کی حکومت نظر آتی ہے اور ارکان اسمبلی کو بھی (ن) لیگی حکومت سے شکایات ہو سکتی ہیں مگر وہ پنجاب حکومت کی بھی مخالفت نہیں کر سکتی۔ دونوں پارٹیوں کا اتحاد جب بھی ختم ہوگا دونوں میں اختلافات بڑھیں گے جس کا ثبوت پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو پی ڈی ایم حکومت کے ختم ہوتے ہی (ن) لیگ کی مخالفت کرتے ہوئے دے چکے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کو دونوں پارٹیوں پنجاب میں پی پنجاب حکومت حکومت میں کو پنجاب نہیں ہو ہیں مگر کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پیپلز پارٹی سیلاب پر سیاست نہیں کرتی: شرجیل میمن

ویب ڈیسک: وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ سبسڈی دینے پر ہم پر تنقید کی گئی،پیپلز پارٹی سیلاب پر سیاست نہیں کرتی۔

 کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں کسان کو سہولت دینا لازم ہے، گندم اگانے والوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

 سینئر صوبائی وزیر شرجیل میمن نے وزیراعلیٰ پنجاب کے ریمارکس کو نامناسب قرار دیدیا اور یہ کہنا کہ عالمی برادری سے اپیل کرنے والا شخص خوددار یا باعزت نہیں، غلط ہے،پیپلز پارٹی سیلاب پر سیاست نہیں کرتی،سیلاب کو بپلسٹی اسٹنٹ بنانے والے قدرتی آفت پر سیاست کرتے ہیں، مفاہمت کے نام پر ہم آنکھیں نہیں بند کرسکتے، پیپلز پارٹی پنجاب کے سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑی رہے گی۔

شوہر کا بیوی پر قاتلانہ حملہ; ملزم گرفتار

 شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ وفاق سے اپیل کی ہے کہ آئی ایم ایف سے بات کریں،  بلاول بھٹو نے کسی صوبے سے نہیں وفاق سے بات کی، بلاول بھٹو نے وفاق سے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے بیرونی امداد کی اپیل کی جائے۔

  شرجیل میمن نے سندھ پولیس کو ملک کی بہترین پولیس قرار دے دیا ،صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت سندھ کسان پیکیج پر 55 ارب روپے سے زائد خرچ کرے گی، کسان پیکیج سے 4 لاکھ 4 ہزار 408 کسان شامل ہیں، بلاول بھٹو کی پالیسی سے کسان، مزدور اور غریب کو فائدہ ہو گا۔

جعلی اور غیر معیاری ادویات کی فروخت کا انکشاف, 36 ادویات پر الرٹ جاری

 ان کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کی پالیسی کا مقصد کسانوں کو مضبوط کرنا ہے، ملک میں عوام کا ڈیٹا صرف پیپلز پارٹی کی حکومت میں بنایا ہے، اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں لازم ہے کہ کسان سہولت دیں،انہوں نے کہا کہ فوڈ سکیورٹی کے لیے ہمیں کسانوں کو سہولت دینے کی ضرورت ہے، کل چیئرمین بلاول بھٹو نے انقلابی پالیسی کا اعلان کیا، انہوں نے کسانوں کے لیے ریلیف کا اعلان تھا، یہ ریلیف صرف کاشتکار کے لیے نہیں پورے پاکستان کے لیے ہے۔

صاحبزادہ فرحان اور حارث رؤف نے سماعت میں میچ ریفری کو لاجواب کردیا

متعلقہ مضامین

  • پی پی آئندہ الیکشن میں سرپرائز دے گی، بلاول عوامی مینڈیٹ سے ملک کے وزیراعظم بنیں گے: گورنر پنجاب
  • ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کے دور میں ہر پاکستانی 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہو گیا
  • 4اکتوبر لاہور،5کو کراچی میں غزہ ملین مارچ ہوں گے،حافظ نعیم
  • ٹی ایل پی نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ پیپلز پارٹی سے چھین لی
  • پیپلز پارٹی سیلاب پر سیاست نہیں کرتی: شرجیل میمن
  • مریم نواز کے بیانات تفرقہ پیدا کرنے والے اور تنگ نظری پر مشتمل ہیں، پیپلز پارٹی
  • بینظر انکم سپورٹ تنازعہ، شازیہ مری کا مریم نواز اور عظمیٰ بخاری کو جواب
  • پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مشورے اپنے پاس رکھیں، مریم نواز
  • پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مریم نواز
  • پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب پر سیاست کی، مشورے اپنے پاس رکھیں:مریم نواز