پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے اتحاد کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 14th, August 2025 GMT
پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت میں طے شدہ پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل کا مطالبہ کیا ہے اور ڈیڑھ سال میں دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں مگر لگتا ہے کہ ن لیگ پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کو شامل کرنے پر راضی نہیں ہو رہی جب کہ وہ وفاقی حکومت میں تو پیپلز پارٹی کو نمایندگی دینے پر تیار ہے اور دونوں پارٹیاں بلوچستان حکومت میں شامل ہیں اور دونوں نے بلوچستان میں جے یو آئی کو نظرانداز کرکے مخلوط حکومت بنائی تھی جب کہ جے یو آئی کے پاس بلوچستان میں کے پی سے زیادہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی ہیں۔
سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی اسمبلی تو کیا ایک رکن سندھ اسمبلی بھی نہیں ہے اور سندھ میں پی پی کو واضح اکثریت اسی طرح حاصل ہے، جیسی اکثریت (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں حاصل ہے اور پنجاب میں پی ٹی آئی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کو پنجاب کے گورنر کا عہدہ ملا ہوا ہے اور چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کے پاس ہے اور ملتان ڈویژن میں گیلانی خاندان نے متعدد نشستیں بھی حاصل کر رکھی ہیں اور جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نمایندگی حاصل ہے اور وہ پنجاب میں (ن) لیگ کی حلیف بھی ہے اس لیے پنجاب حکومت میں شمولیت چاہتی ہے جس کے لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان متعدد اجلاس ہو چکے ہیں مگر ن لیگ کو نہ جانے کون سے تحفظات ہیں کہ وہ راضی نہیں ہو رہی۔
پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنے وزیروں کی ضرورت ہے تاکہ وہ محکمے لے کر پی پی کارکنوں کو نواز سکے۔ گورنر پنجاب کا عہدہ آئینی ہے جب کہ وزیروں کو محکمے تو ملتے ہیں مگر وہ وہاں من مانیاں نہیں کر سکتے کیونکہ پنجاب حکومت اور اس کی انتظامی ٹیم کی ہر محکمے پر نظر ہے اورن لیگ ایک واضح پالیسی کے تحت صوبہ چلا رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے ارکان اگر حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو انھیں پنجاب حکومت کی پالیسی کسی صورت قبول نہیں ہوگی جس سے دونوں پارٹیوں میں اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔دونوں پارٹیوں میں اختلافات ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ارکان کو مجبوراً مفاہمت کی پالیسی اپنانا ہو گی۔
پی پی کے ارکان اگر وزیر بنتے ہیں تو انھیں اپنی پارٹی کو پروموٹ کرنا ہوگا تاکہ پنجاب میں پی پی کی مقبولیت بڑھے جو ن لیگ کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنے طریقے سے حکومت چلانے کے اصول متعین کر رکھے ہیں جن پر عمل کرنا پی پی وزیروں کے لیے بہت ہی مشکل ہوگا۔پنجاب حکومت پیپلز پارٹی کو زیادہ اہمیت کیوں دے گی ،ایسا کرنے سے اس کی سیاسی حیثیت اور ساکھ متاثر ہو گی۔
پی پی کو کابینہ میں شمولیت دونوں پارٹیوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھا سکتی ہے اس لیے پنجاب میں پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل نہیں ہو پا رہا اور پی پی اپنے مطالبے پر جلد عمل چاہتی ہے۔ (ن) لیگ کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرح پیپلز پارٹی سے بھی خطرہ ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ ایک خاندان کی حکومت نظر آتی ہے اور ارکان اسمبلی کو بھی (ن) لیگی حکومت سے شکایات ہو سکتی ہیں مگر وہ پنجاب حکومت کی بھی مخالفت نہیں کر سکتی۔ دونوں پارٹیوں کا اتحاد جب بھی ختم ہوگا دونوں میں اختلافات بڑھیں گے جس کا ثبوت پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو پی ڈی ایم حکومت کے ختم ہوتے ہی (ن) لیگ کی مخالفت کرتے ہوئے دے چکے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کو دونوں پارٹیوں پنجاب میں پی پنجاب حکومت حکومت میں کو پنجاب نہیں ہو ہیں مگر کے لیے ہے اور
پڑھیں:
تہاڑ جیل میں انجینئر رشید کی دو روزہ بھوک ہڑتال
ذرائع کے مطابق عوامی اتحاد پارٹی کے ترجمان انعام النبی نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اور عوامی اتحاد پارٹی کے بانی انجینئر رشید نے تہاڑ جیل میں آج سے دو روزہ بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں عوامی اتحاد پارٹی نے کہا ہے کہ تہاڑ جیل میں نظربند ان کے پارٹی سربراہ انجینئر رشید نے جو بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں، آج سے دو روزہ بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق عوامی اتحاد پارٹی کے ترجمان انعام النبی نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اور عوامی اتحاد پارٹی کے بانی انجینئر رشید نے تہاڑ جیل میں آج سے دو روزہ بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انجینئر رشید نے تہاڑ جیل کے حکام کو باضابطہ طور پر علامتی بھوک ہڑتال کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ ترجمان نے کہا کہ انجینئر رشید نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے امن کو ایک حقیقی موقع دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک مہذب معاشرے میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔