ڈی جی ایم اوز کا تیسرا ہاٹ لائن رابطہ، جنگ بندی برقرار رہے گی
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان بدھ کی دوپہر ہاٹ لائن کے ذریعے رابطہ ہوا، جو دونوں ممالک کے درمیان سیزفائر کے بعد تیسرا رابطہ ہے۔
یہ سیزفائر امریکہ اور دیگر دوستانہ ممالک کی کوششوں سے ممکن ہوا تھا۔ دونوں افسران نے زمینی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اگرچہ اس رابطے کی تفصیلات کسی بھی جانب سے منظرعام پر نہیں آئیں، تاہم باخبر ذرائع نے روزنامہ جنگ اور دی نیوز کو بدھ کی شام بتایا کہ دونوں ممالک نے سیزفائر برقرار رکھنے اور سابقہ رابطے (جو پیر کو ہوا تھا) میں طے شدہ ’اسٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری اور ترجمان، سفیر شفقات علی خان، کل (جمعہ کو) میڈیا کو بریفنگ دیں گےدریں اثناء سفارتی ذرائع نے اس نمائندے کو بتایا کہ دنیا کے کئی اہم دارالحکومت دونوں ممالک سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کو بڑھانے سے گریز کریں اور جلد از جلد اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) کریں تاکہ باضابطہ اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کئی تجاویز زیر غور ہیں۔
پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک اور بھارت کے اجیت ڈوول پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز (NSAs) کی سطح پر ملاقات متوقع ہے، کیونکہ دونوں کے درمیان ابتدائی بات چیت ہو چکی ہے۔
یہ دونوں شخصیات ایک ایسی حکمت عملی طے کر سکتے ہیں جو سیاسی سطح پر “کمپوزٹ ڈائیلاگ” (مربوط مذاکرات) کی بحالی کا ذریعہ بنے، جیسا کہ ماضی میں کئی سالوں تک اسلام آباد اور نئی دہلی میں سیکریٹری خارجہ سطح پر ہوتا رہا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیلی حراست میں مشتاق احمد سمیت تمام پاکستانیوں کی رہائی کیلیے ثالثی ملک سے رابطہ جاری ہے، اسحاق ڈار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: نائب وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت تمام گرفتار پاکستانیوں کی رہائی کے لیے ایک بااثر یورپی ملک کے ساتھ رابطے میں ہے۔
وفاقی وزیر خارجہ نے کہاکہ اطلاعات کے مطابق سابق سینیٹر کو اسرائیلی فورسز نے گرفتار کیا ہے اور حکومت پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ تمام پاکستانیوں کو بحفاظت وطن واپس لایا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ چونکہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات موجود نہیں ہیں، اس لیے ان رہائی کی کوششیں تیسرے ملک کے ذریعے کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے امن معاہدے سے متعلق 20 نکاتی پلان میں اسلامی ممالک کی طرف سے دی گئی ترامیم کو شامل نہیں کیا گیا، جس پر پاکستان کو تحفظات ہیں اور اس ڈرافٹ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ وزیر اعظم نے امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے ٹویٹ کا فوری جواب دیا، اس وقت تک ڈرافٹ میں تبدیلیوں کا علم نہیں تھا، فلسطین کے معاملے پر پاکستان کا موقف قائداعظم کے مؤقف کے عین مطابق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے پاکستان کے مسائل اجاگر کیے اور اسرائیل کا نام لے کر اس پر تنقید بھی کی، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک غزہ میں خون ریزی روکنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کا بنیادی مقصد غزہ میں جنگ بندی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اکتوبر میں 40 ممالک کے وزراء پاکستان کا دورہ کریں گے اور آج بھی 40 ممالک کے سفارتکاروں سے اہم ملاقاتیں ہو رہی ہیں، حرمین الشریفین پر ہماری جان بھی قربان ہے، یہ معاہدہ اچانک نہیں بلکہ پی ڈی ایم دور میں شروع ہونے والی بات چیت کا تسلسل ہے جسے موجودہ حکومت نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک انتہائی اہم اور سوچا سمجھا معاہدہ ہے جس پر دیگر اسلامی ممالک نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اگر مزید ممالک شامل ہوئے تو یہ ایک نیٹو کی طرز پر پلیٹ فارم بن سکتا ہے اور میرا یقین ہے کہ پاکستان مسلم امہ کی قیادت کرے گا۔