بانی پی ٹی آئی کیساتھ کوئی ڈیل نہیں کی گئی ، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل کی خبروں کی تردید کی ہے۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ بانی کے اہلِ خانہ بھی حالات سے مکمل طور پر باخبر ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی باتوں کو کبھی باہر شیئر نہیں کیا، اور ہمیشہ ان کی امانت کو محفوظ رکھا۔ بانی کے بچوں نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ کوئی ڈیل نہیں کی گئی ،قاسم اور سلیمان اپنے والد سے رابطے میں ہیں۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سیاسی معاملات کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے، اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس سمت میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر بانی پی ٹی پی ٹی آئی
پڑھیں:
استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-3
قانون سب کے لیے برابر ہے اسلام ایک ایسا کامل نظامِ حیات ہے جو عدل، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی شریف جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور کرتا تو اس پر حد قائم کرتے‘‘۔ (بخاری)
یہ فرمانِ نبویؐ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلامی معاشرہ تبھی سلامت رہ سکتا ہے جب احتساب سب کے لیے یکساں ہو، خواہ وہ حاکم ِ وقت ہو یا عام شہری۔سیدنا عمرؓ کا عدل اور قانون کی بالادستی اسلامی تاریخ کا روشن باب سیدنا عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت ہے۔ وہ خلیفہ ہونے کے باوجود خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھتے تھے۔ ایک موقع پر جب اْن سے بیت المال کے کپڑے کے اضافی حصے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو گواہ بنا کر وضاحت پیش کی۔ یہی وہ طرزِ حکمرانی تھا جس نے اسلامی نظام کو دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی مثال بنا دیا۔ اہل ِ بیت اطہار بھی قانون کے تابع اسی اصول کی سب سے عظیم مثال سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں اس وقت سامنے آئی جب ایک یہودی کے ساتھ مقدمہ پیش ہوا۔ خلیفہ ٔ وقت ہونے کے باوجود سیدنا علیؓ قاضی کے سامنے مدعی کے طور پر کھڑے ہوئے، اور جب قاضی نے گواہی ناکافی ہونے پر فیصلہ اْن کے خلاف دیا، تو انہوں نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔
اسی طرح نبیؐ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے بارے میں بھی رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا ’’اگر فاطمہ بنت ِ محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘۔ (بخاری) یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اسلام میں کوئی مقدس گائے (Sacred Cow) نہیں، شریعت کے دائرے میں سب برابر ہیں۔ آج ملک کی سلامتی کے اداروں، عدلیہ پارلیمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے تمام کے لیے پیغام ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب تمام ادارے، سیاسی، عدالتی، عسکری یا مذہبی قرآن و سنت کے پابند بنیں۔ خلافِ شریعت کوئی فیصلہ نہ کیا جائے، اور احتساب کا نظام بلا امتیاز نافذ کیا جائے۔ بدقسمتی سے آج قانون کمزور کے لیے تلوار اور طاقتور کے لیے ڈھال بن چکا ہے۔ یہ روش اسلامی اصولوں سے انحراف ہے اور قوموں کی بربادی کی علامت ہے قرآن کہتا ہے ’’اِنَّ اللَّہَ اَمْرْ بِالعَدلِ وَالاِحسَان‘‘ (النحل: 90) یعنی اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کے لیے یہی پیغامِ ہے کہ عدل قائم کیجیے، احتساب سب کا کیجیے، اور قانون کو ہر درجہ پر مقدم رکھیے۔ یہی اسلامی نظام کی روح اور حقیقی عدلِ عمرؓ کا تسلسل ہے۔