اداکاروں و موسیقاروں کا جنگوں سے تعلق نہیں، وہ محبت کے سفیر ہیں، عتیقہ اوڈھو
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک) سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے کہا ہے کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی تمام شخصیات کا جنگوں، تنازعات اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، تنازعات میں ان پر تنقید نہ کی جائے، وہ محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔
عتیقہ اوڈھو نے حال ہی میں ’کیا ڈراما ہے‘ نامی شو میں کہا کہ اگر کوئی ڈاکٹر یا وکیل کسی بھی دوسرے ملک میں کام کرنے جاتا ہے تو اسے کوئی کچھ نہیں کہتا، انہیں گالیاں نہیں دی جاتیں لیکن اداکار ایسا کرتا ہے تو اسے گالیاں پڑتی ہیں۔
عتیقہ اوڈھو نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر بات کرتےہوئے کہا کہ بھارت کو شواہد کے بغیر پہلگام حملے کے الزامات پاکستان پر نہیں لگانے چاہیے تھے اور انہوں نے ثبوتوں کے بغیر ہی پاکستان پر حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی سالمیت اور دفاع کی خاطر بھارتی جارحیت کا جواب دیا اور پاک فوج نے بہادرانہ اور کامیاب کارروائیاں کیں، جس پر افواج خراج تحسین کے لائق ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنازع میں فنون لطیفہ سے وابستہ شخصیات کو نہیں گھسیٹا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق ہر پروفیشن سے تعلق رکھنے والے فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ کیریئر کی بہتری کے لیے دوسرے ملک جا کر کام کرے اور ہر کوئی کرتا ہے لیکن اداکاروں و موسیقاروں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اداکاروں، موسیقاروں، لکھاریوں اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد محبت کے سفیر مانے اور سمجھے جاتے ہیں، ان کا کام محبتیں اور امن پھیلانا ہے۔
عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور خصوصی طور پر اداکاروں، موسیقاروں اور لکھاریوں میں جنگوں اور تنازعات میں نہ گھسیٹا اور لایا جائے، ان کا جنگوں میں کوئی کام نہیں۔
اداکارہ کے مطابق لکھاریوں، اداکاروں و موسیقاروں کا سیاست اور تنازعات سے کوئی کام نہیں ہوتا، وہ امن، یکجہتی اور محبت کو فروغ دینے والے افراد اور سفیر ہیں۔
سینئر اداکارہ کا کہنا تھا کہ تنازعات اور جنگوں کے درمیان فنکاروں کے ساتھ ہونے والے رویے بدقسمتی ہیں، ان پر تنقید بے جا تھی، انہیں ایسے معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔
ساتھ ہی انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر پاکستان اور بھارت کے فنکاروں، اداکاروں، موسیقاروں اور لکھاریوں کو اپیل کی کہ وہ بھی جنگوں اور تنازعات کا حصہ نہ بنیں، وہ محبت اور امن کو پھیلائیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سے تعلق رکھنے فنون لطیفہ کہا کہ
پڑھیں:
عالمی تنازعات میں اموات کا بڑا سبب کلسٹر بم، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) دنیا بھر میں ہونے والے مسلح تنازعات میں بیشتر ہلاکتیں کلسٹر بموں سے ہوئی ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں مسلسل تیسرے سال ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی سب سے بڑی تعداد انہی بموں کا نشانہ بنی جبکہ شام اور یمن میں ہلاکتوں کا بڑا سبب بھی یہی اسلحہ تھا۔
سول سوسائٹی کے اقدام 'کلسٹر مونیشن مانیٹر' کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، فروری 2022 میں یوکرین پر روس کا حملہ شروع ہونے کے بعد 1,200 سے زیادہ لوگ کلسٹر بموں کا نشانہ بننے سے ہلاک و زخمی ہوئے ہیں تاہم، حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور درست اعدادوشمار سامنے آنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
Tweet URLرپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کی سربراہ لورین پرسی نے جنوب مشرقی ایشیا کے ملک لاؤ کو کلسٹر بموں سے آلودہ سب سے بڑا ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں ان بموں سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
یہ بم پھٹنے سے کئی طرح کے زہریلے مواد وسیع علاقے میں پھیل کر تباہی مچاتے ہیں۔کلسٹر بموں کا وسیع استعمالاقوامِ متحدہ کے شعبہ تخفیفِ اسلحہ میں تحقیقاتی ادارے (یو این آئی ڈی آئی آر) کی معاونت سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں اسرائیل کے اس الزام کا حوالہ بھی شامل ہے کہ رواں سال جون میں ایران نے اس پر بیلسٹک میزائل حملے میں کلسٹر مواد استعمال کیا جبکہ غزہ اور جنوبی لبنان میں بھی ان ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میانمار میں فوجی حکومت نے اس وقت جاری خانہ جنگی کے دوران مقامی طور پر تیار کردہ کلسٹر بموں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے جو فضا سے گرائے جاتے ہیں۔
مانیٹر کے تحقیقی ماہر مائیکل ہارٹ نے بتایا ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سکول بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ اسلحہ ریاست چِن، رخائن، کاچن اور سائیگون خطے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
بچوں کا نقصانذیلی ہتھیار جنہیں بم لیٹس بھی کہا جاتا ہے، دھماکوں کے اثر، اپنی آگ لگانے کی صلاحیت اور ٹکڑوں کے پھیلاؤ کے ذریعے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس بم کے ایک ہی حملے میں اس کے ہزاروں ٹکڑے سیکڑوں مربع میٹر رقبے پر پھیل جاتے ہیں۔
یہ بم فضا اور زمین سے داغے جا سکتے ہیں اور انہیں بکتر بند گاڑیوں، جنگی سازوسامان اور فوجی اہلکاروں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، لورین پرسی کے مطابق، کلسٹر بموں کے استعمال سے بڑا نقصان شہریوں کا ہی ہوتا ہے۔2024 میں بھی ان بموں سے ہونے والے جانی نقصان میں بچوں کا تناسب زیادہ (42 فیصد) تھا کیونکہ بچے عموماً ان بم لیٹس کو دلچسپ اور کھلونوں جیسا سمھجتے ہیں یا کھیل کے دوران، سکول جاتے ہوئے یا کھیتوں میں کام کرتے وقت یہ بم ان کے ہاتھ لگ کر پھٹ جاتے ہیں۔
بارودی مواد کی صفائی کا مسئلہامدادی وسائل میں آنے والی کمی سے بھی کلسٹر بموں سے متاثرہ ممالک پر منفی اثر پڑا ہے۔
مانیٹر کی اعلیٰ سطحی محقق کیٹرین ایٹکنز نے بتایا ہے کہ افغانستان، عراق اور لبنان نے بارودی مواد سے آلودہ زمین کو صاف کرنے میں اچھی پیش رفت کی تھی لیکن اب یہ ملک امداد میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے صفائی کا عمل سست پڑ گیا ہے۔لورین پرسی نے بتایا ہے کہ ماضی میں امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی معاونت سے بارودی مواد کی صفائی کے منصوبوں کو روک دیا گیا ہے جن میں لاؤ کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔
یہ منصوبہ 60 اور 70 کی دہائی میں بنایا گیا تھا جو کئی دہائیوں تک نہ صرف دور دراز علاقوں میں کلسٹر بموں کے متاثرین کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے میں مددگار رہا بلکہ اس کے تحت متاثرین کی بحالی اور مصنوعی اعضا فراہم کرنے کا نظام بھی قائم کیا گیا تھا۔
کلسٹر بموں کی پیداوار میں کمیمانیٹر کے مطابق، کلسٹر ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن کی منظوری کو پندرہ برس گزر چکے ہیں۔
اس دوران صرف 10 ممالک نے یہ ہتھیار استعمال کیے ہیں اور یہ تمام اس عالمی معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔اب تک 18 ممالک کلسٹر بموں کی پیداوار بند کر چکے ہیں۔ ارجنٹائن کے علاوہ وہ تمام ممالک اب اس معاہدے کے فریق ہیں جو پہلے یہ ہتھیار تیار کرتے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب بھی 17 ممالک کلسٹر بم تیار کرتے ہیں یا اس حق کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہے۔ ان ممالک میں برازیل، چین، مصر، یونان، انڈیا، ایران، اسرائیل، میانمار، شمالی کوریا، پاکستان، پولینڈ، رومانیہ، روس، سنگاپور، جنوبی کوریا، ترکیہ اور امریکہ شامل ہیں۔