عمران خان کی طرف سے کبھی بھی خفیہ مفاہمت یا سودے بازی کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا
وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی فلور پر مذاکرات کی دعوت کو مثبت انداز میں لیا گیا، بیرسٹر گوہر

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرنے ڈیل کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ کوئی ڈیل زیر غور نہیں ہے ۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ پارٹی کے بانی عمران خان اور حکومت کے درمیان کسی بھی خفیہ معاہدے یا مفاہمت کی بات سراسر بے بنیاد ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی فلور پر مذاکرات کی دعوت کو مثبت انداز میں لیا گیا، تاہم اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے پارٹی مشاورت اور عمران خان کی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔بیرسٹر گوہر نے زور دے کر کہا کہ عمران خان کی طرف سے کبھی بھی خفیہ مفاہمت یا سودے بازی کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ عمران خان کی ذاتی زندگی، خصوصاً ان کے بیٹے قاسم اور سلیمان موجودہ حالات سے پوری طرح باخبر ہیں اور ان کی جانب سے بھی اس قسم کی کسی ڈیل کی سختی سے تردید کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہمیشہ مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی سے میری اس حوالے سے کیا میٹنگ ہوئی، وہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے ، مگر عمران خان کبھی ڈیل نہیں کریں گے ۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کسی نے اگر اپنے سورس سے خبر دی ہے تو اس کی مرضی ہے ۔ میں نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات سے متعلق معاملات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان اس وقت ایک ناجائز اور ناحق قیدکا سامنا کر رہے ہیں اور ایسی صورت حال میں کسی ڈیل کی بات کرنا درست نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین کا مؤقف روز اول سے یہی رہا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کا حل صرف اور صرف سیاسی مذاکرات اور بات چیت سے نکلنا چاہیے نہ کہ پس پردہ معاہدوں سے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ہر فورم پر بات چیت کے حامی ہیں، لیکن ایسی کسی سودے بازی کا تصور بھی قابل قبول نہیں۔بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ جو بھی سیاسی عمل ہوگا، وہ کھلے اور شفاف ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہوگا اور اس میں پارٹی کارکنان اور قائدین کی مشاورت بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کہ عمران خان عمران خان کی بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی نے کہا کہ انہوں نے ڈیل کی

پڑھیں:

شارٹ کٹ کوئی نہیں!

خبروں کا موسم بھی عام موسم کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ آج کل اچھی خبروں کا موسم ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا پچھلے چند مہینوں میں ان بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ گرم جوش اٹھنا بیٹھنا ہے جن سے ملنے کے لیے کبھی ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔

بار بار بتایا جا رہا ہے، وہ دن گئے کہ پاکستان کو معاشی مسائل اور عالمی تنہائی کا سامنا تھا،اب نیا دور ہے، سیکیورٹی معاملات میں بھی ہر چہ بادآباد ہے اور معاشی معاملات میں بھی۔

سیکیورٹی معاملات کے بارے میں بہت کچھ کہااور لکھا جا رہا ہے، تاہم ہمارا فوکس معاشی اقدامات اور مستقبل کے امکانات پر ہے۔

یادش بخیر 11/12 سال پہلے اسلام آباد میں ایک زوردار دھرنا ہوا تھا جس میں ایک نعرہ گونجا تھا: سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ مولانا طاہر القادری نے ریاست بچانے کے لیے جو معاشی خاکہ پیش کیا، اس کی بنیاد پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی معدنی ذخائر تھے۔

بعد میں جب بھی حکومتوں کا، معاشی مسائل سے جی گھبراتا ہے تو معدنی ذخائر کی افراط اور اربوں کھربوں مالیت کی نوید دل کے قرار کا باعث بنتی ہے۔ پی ڈی ایم ون کی حکومت نے اپنے آخری ہفتے میں پاکستان میں نئے معدنی ذخائر کی دریافت اور امکانات کا ایسا خوش کن نقشہ کھینچا کہ بن پیئے سرور والا معاملہ ہو گیا۔

پی ڈی ایم ٹو کی موجودہ حکومت نے بھی تین مرتبہ ان امکانات کو اس انداز میں پیش کیا کہ جیسے اب قوم کو مزید ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہے اور نہ حکومت کو مزید کچھ تردد کرنے کی ضرورت۔

کھربوں ڈالرز کے وارے نیارے ہوں گے، سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے… اللہ اللہ خیر صلا۔ کہاں کا آئی ایم ایف؟ کون سی معاشی مشکل؟ کون سی بیڈ گورننس؟ اتنی معدنی دولت کے ساتھ مستقبل اس قدر تابناک ہو تو ڈر کاہے کا!سچی بات یہ ہے کہ بقول شاعر دل تو یہی چاہتا ہے کہ:

کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں

پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو

پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

لیکن پھر بقول فیض… لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے۔ پیش آمدہ معاشی منظر نامہ ان خوابوں میں گم رہنے میں حائل ہو جاتا ہے۔ ملک کا ایک کثیر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں آگیا۔کروڑوں افراد کے گھر بار، مال مویشی، فصلیں اور کاروبار تہ و بالا ہوگئے۔

حکومتوں کی امداد اپنی جگہ لیکن زندگی کی چلتی گاڑی کو ڈی ریل ہونے کے بعد پٹڑی پر ڈالنے اور دوڑنے میں کافی وقت لگے گا۔اس ہفتے ورلڈ بینک نے بتلایا کہ پاکستان میں ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ مزید خط غربت سے نیچے جا گرے ہیں۔

برآمدات میں گزشتہ تین ماہ کے دوران11فیصد کمی ہوئی ہے۔ عالمی ٹریڈ امریکی ٹیرف اور جاری جنگوں کے سبب ہچکولے کھا رہی ہے، ایسے میں برآمدات پر جو تکیہ تھا وہ بھی سرک رہا ہے۔ رواں ہفتے ملک کے ایک معروف ٹیکسٹائل گروپ نے اعلان کیا کہ وہ اپنا اپیرل بزنس بند کر رہے ہیں۔

وجوہات میں کاروباری لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ، اچھی کوالٹی کی مقامی کاٹن کی کمی، ناموافق حکومتی پالیسیوں کا بوجھ اور دنیا میں گردن توڑ مقابلہ۔ انڈسٹری ایسوسی ایشنز نے بھی خبردار کیا ہے کہ صنعتی پیداوار کے شعبے کو مہنگی بجلی، گیس سمیت دیگر پیداواری اخراجات میں اضافے نے بے حال کر دیا ہے۔

دوسری طرف بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ ملک بھر میں جمع کرائی گئی 50فیصد انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن میں زیرو آمدنی ظاہر کی گئی ہے جب کہ ایف بی آر کے پاس ڈیٹا کے مطابق ان لوگوں کا شاہانہ لائف اسٹائل ہے، لگژری گاڑیاں ہیں، بڑے گھر ہیں ، انٹرنیشنل ٹریولنگ ہے مگر ٹیکس ذمے داری پر انھوں نے ملک کو ٹھینگا دکھایا ہے۔

اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں۔ دکھاوے کے چند نوٹس ووٹس، سخت بیانات کا راگ الاپ… اور بس۔ زیرو آمدنی سے ایکٹو ٹیکس اسٹیٹس مل گیا، کاروبار زندگی کے لیے یہی درکار تھا!

اسی ہفتے ایک رپورٹ کے مطابق قومی ائیر لائن نے 2007 سے 2018 کے درمیان کئی ہزار ٹکٹیں فری جاری کیں جن کی مالیت سکہ رائج الوقت کے مطابق کئی ارب روپے تھی۔ قومی املاک اور وسائل پر اشرافیہ کے تصرف کا یہی وطیرہ پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں بھی جاری و ساری ہے۔

آڈیٹر جنرل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر کارپوریشنز کا دو سال کا نقصان 1.4 ٹریلین روپے سے بھی زائد رہا۔ بجلی کے سرکلر ڈیٹ کا 1.2 ٹریلین روپے کا نیا کمرشل قرضہ لے کر کامیابی سے ’’خاتمہ‘‘ کیا گیا ہے۔

ان چند مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کے اصلاحات اور گڈ گورننس کے نعروں کی اصل حقیقت کیا ہے۔

ایسے میں حکومت خطیر معدنی ذخائر کی دستیابی اور عالمی سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو ایک انقلابی معاشی مشتقبل بتلا کر قوم کو بقول شخصے ’’ٹھنڈ‘‘ رکھنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے پاس ریکوڈیک میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں rare earth elements کے امکانات ہیں اور تھر کا کوئلہ ہے۔

اندازہ ہے کہ صرف ریکوڈیک سے نکلنے والے ذخائر پینسٹھ ارب ڈالر مالیت کے ہیں لیکن کیا ہمارے پاس وہ ادارہ جاتی ڈھانچہ اور تکنیکی صلاحیت موجود ہے جو ان وسائل کو پائیدار ترقی میں بدل سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مائننگ سیکٹر فرسودہ ٹیکنالوجی، کمزور قوانین اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ بڑے منصوبے برسوں عدالتی تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔

حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ صرف ریکوڈیک کا تانبا اور سونا یا rare earth minerals کی کان کنی سے قرضے اتر جائیں گے اور لاکھوں نوکریاں پیدا ہو جائیں گی، تو یہ خوش فہمی ہے۔ ترقی اس وقت آتی ہے جب کوئی ملک اپنی معیشت میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرے، ٹیکس نیٹ کو وسیع بنائے، برآمدات میں تنوع پیدا کرے، زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرے اور سب سے بڑھ کر مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دے۔

جاپان، سنگاپور، چین اور جنوبی کوریا نے اپنی معیشتیں معدنی وسائل پر نہیں بلکہ انسانی وسائل، تعلیم، ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ پر کھڑی کیں۔

دنیا کا سبق یہی ہے کہ وسائل ترقی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں اور بربادی کا بھی۔ یہ سب کچھ اداروں، پالیسیوں اور حکمرانی کے معیار پر منحصر ہے۔ اگر پاکستان نے چلی، بوٹسوانا اور آسٹریلیا کی طرح شفاف ادارے، معقول قوانین اورمتنوع معیشت کھڑی کی تو معدنی وسائل ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

لیکن اگر کانگو، نائجیریا اوروینزویلا کی طرح صرف وسائل پر انحصار اور بدانتظامی جاری رہی تو یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونامشکل ہے۔ پاکستان کو معدنی خواب دیکھنے کاحق ہے لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خود سخت محنت، شفاف حکمرانی اور ادارہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہے کیونکہ ترقی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شارٹ کٹ کوئی نہیں!
  • اگر مجھے یا خاندان کو کوئی نقصان پہنچا تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی، ایمل ولی خان
  • شعیب ملک نے ثنا جاوید سے علیحدگی کی خبروں پر خاموشی توڑ دی
  • حکومت عمران خان کا اکا ئونٹ بند کرنے سے متعلق متحرک، ایکس سے رابطے
  • حکومت نے  عمران خان کا  اکائو نٹ بند کرنے سے متعلق ایکس (ٹوئٹر)سے رابطے شروع کر دئیے
  • حکومت کا عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ بند کرنے سے متعلق اہم اعلان، ایکس سے رابطے
  • بیرسٹر وقاص ابریز خان چیئرمین ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب مقرر
  • حکومت نے فلسطین پر اصولی مؤقف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے: بیرسٹر سیف
  • بیک وقت دو سرکاری عہدے رکھنے کا معاملہ‘ سندھ حکومت کی جانب سے جواب جمع
  • بیک وقت دو سرکاری عہدے رکھنے کا معاملہ: سندھ حکومت کی جانب سے جواب جمع