جب دشمن نے رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کیا، جب نہتے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، عورتوں ، بچوں اور بزرگوں کا خون بہایا گیااور جب بھارت نے اپنی روایت کے مطابق مکاری اور چالاکی سے جنگی جنون کا مظاہرہ کیا تب پاکستان نے خاموش تماشائی بننے کے بجائے تاریخ کا وہ باب رقم کیا جو آنے والی نسلوں کے لیے فخر اور غیرت کی علامت بن چکا ہے۔ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی۔ہم نے بارہا عالمی برادری کے سامنے یہ بات رکھی کہ جنوبی ایشیا میں امن قائم رہنا چاہیے۔ ہماری قیادت نے بھارت کو ہر فورم پر باور کرایا کہ ہم ایک ذمہ دار ریاست ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے،ہم ترقی چاہتے ہیں۔ ہم خطے کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت نے ہر بار ہماری پرخلوص کوششوں کو کمزوری جانا۔ اُس نے ہتھیاروں کی دھمکی دی، اس نے سفارتی جھوٹ بولے اور آخرکار بزدلی کی انتہا کر دی ۔ لیکن وہ یہ بھول گیا کہ پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ایک نظریہ ہے، یہ ایک جذبہ ہے، یہ قربانیوں سے بنی ہوئی ریاست ہے۔جب آرمی چیف نے یہ کہا کہ ’’تیرہ لاکھ بھارتی فوج ہمیں ہتھیاروں سے ڈرا نہیں سکتی‘‘ تو یہ محض ایک فقرہ نہیں تھا، یہ دشمن کو کھلا چیلنج تھا اور جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’اگر بھارت نے جارحیت کی تو ہم تیار ہیں، آزماؤ نہیں‘‘ تو یہ الفاظ نہیں تھے، ایک عزم تھا، ایک وعدہ تھا کہ پاکستان اپنی سا لمیت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ دشمن نے حملہ کر کے وہی کیا جو ایک بزدل دشمن کرتا ہے، لیکن ہماری افواج نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ پاکستان کی سرزمین پر اگر کسی نے میلی آنکھ ڈالی تو وہ آنکھ ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی۔ ہم نے میدان جنگ میں بھی دشمن کو للکارااور سفارتی محاذ پر بھی۔ یہ ہمارا اخلاقی برتری کا ثبوت ہے کہ ہم نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی، لیکن دشمن اگر جنگ مسلط کرے گا تو ہم جواب بھی اپنی مرضی کے وقت اور اپنی مرضی کی جگہ پر دیں گے اور یہی ہوا۔ بھارت کو اپنے پاگل پن، اپنے جنگی جنون اور اپنی بوکھلاہٹ کا ایسا جواب ملا کہ وہ نہ صرف پچھتایا بلکہ عالمی سطح پر رسوابھی ہوا۔
پاکستان کی افواج نے جس بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا، وہ اس قوم کے لیے باعثِ فخر ہے۔ یہ صرف ایک فوجی جواب نہیں تھا بلکہ ایک پیغام تھا کہ پاکستان کی عوام اور افواج ایک پیج پر ہیں۔ دشمن نے ایک آزاد ریاست کے غیر مسلح شہریوں پر حملہ کر کے جو گھٹیا پن دکھایا، اس کا جواب اُسے اتنی شدت سے دیا گیا کہ وہ دن اور رات کا فرق بھول گیا۔ اب یہ بھارت کی مرضی تھی کہ اس نے محاذ آرائی کا راستہ چُنا، لیکن یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم اُسے کہاں اور کیسے لے کر جاتے ہیں۔جب دشمن نے بزدلی سے وار کیا تو ہماری خاموشی ایک لمحہ رہی، اُس کے بعد جو گرج اٹھی وہ پاکستان کے ہر سپاہی کے دل سے نکلی ہوئی للکار تھی۔ یہ للکار صرف بندوقوں کی گونج نہ تھی، یہ وہ ایمان افروز عزم تھا جو ہمارے ہر شہید کے خون سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ دشمن یہ بھول بیٹھا تھا کہ ہم وہ قوم ہیں جو لاشوں پر آنسو بہانے کے بجائے عزم کے نئے چراغ جلاتی ہے۔ بھارت کا خیال تھا کہ وہ ہمیں خوفزدہ کر دے گا، ہماری کمر جھکا دے گا لیکن اُسے جواب ملا اُن آہنی ہاتھوں سے جو سرحدوں پر سیسہ پلائے کھڑے ہیں۔
ؔیہ سینے صورت فولاد ڈٹ جاتے ہیں میدان میں
خدا کہتا ہے خود بنیان مرصوص ان کو قرآن میں
ڈی جی آئی ایس پی آر کا ایک ایک لفظ دشمن کے لیے اعلانِ جنگ سے کم نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تیار ہیں، لیکن پہل ہم نہیں کریں گے اور جب دشمن نے اپنی اوقات سے تجاوز کیا تو ہم نے اُسے دکھایا کہ یہ سرزمین تمہارے ناپاک قدموں کے لیے نہیں بنی۔ ہم نے اُسے یاد دلایا کہ یہ وہی زمین ہے جہاں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘۔ہمارے فوجی جوان جب اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے ہیں تو وہ صرف جنگ نہیں لڑتے۔وہ اپنے وطن کی مٹی، اپنے پرچم اور اپنے شہیدوں کی قسم پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ اس قوم کی بیٹیاں جب اپنے لختِ جگر کو وطن پر قربان کرنے کے لیے دعائیں دیتی ہیں تو دشمن کے ہتھیار اور اُس کے ناپاک عزائم خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہ جذبہ، یہ حوصلہ، اور یہ غیرت کسی بھی دشمن کے خواب کو بھیانک حقیقت میں بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔بھارت کا یہ سمجھنا کہ وہ رات کی تاریکی میں وار کر کے بچ جائے گا، اُس کی سب سے بڑی بھول تھی۔پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ دفاع صرف توپ و تفنگ سے نہیں ہوتابلکہ اس کے پیچھے ایک پوری قوم کی دعائیں، ماں کی آنکھوں سے گرتے آنسو، شہیدوں کے لہو سے لکھی تاریخ اور حب الوطنی کے وہ جذبات ہوتے ہیں جو ہر سپاہی کو فولاد سے بھی سخت بنا دیتے ہیں۔ اس بار بھی دشمن کو وہی سبق ملا جو ماضی میں کئی بار پڑھایا جا چکا ہے۔ یاد رکھیں، یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو آزمایا ہو۔ لیکن ہر بار اُسے شرمندگی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کارگل، سیاچن، بالاکوٹ، اور اب یہ حالیہ حملہ ،بھارت نے جب بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی، اُس کی راہ میں افواجِ پاکستان کی آہنی دیوار کھڑی ہو گئی۔یہ وقت ہے کہ پوری پاکستانی قوم ایک آواز ہو جائے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ ہماری افواج اپنی جانوں کی بازی لگا کر سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ان کے مورال کو بلند رکھیں۔ ان پر اعتماد کریں اور اُن قوتوں کا مقابلہ کریں جو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہمیں کمزور کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ ہمیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کا قرض ادا کرنا ہے ۔اُن ماؤں کی آنکھوں کا احترام کرنا ہے جنہوں نے بیٹے وطن پر قربان کیے اور ان بچوں کے خوابوں کو تعبیر دینی ہے جنہوں نے ایک آزاد، محفوظ اور خوشحال پاکستان کا خواب دیکھا۔یہ وقت ایک نئے عزم، نئی یکجہتی اور نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے۔ دشمن کے لیے ہمارا پیغام ایک ہی ہے: تم نے وار کیا، ہم نے جواب دیا۔ لیکن یاد رکھو، اگر دوبارہ کبھی میلی آنکھ سے دیکھا تو یہ جواب اُس سے بھی سخت، اُس سے بھی بھرپور اور اُس سے بھی فیصلہ کن ہو گا۔پاکستان کی سا لمیت، خود مختاری اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ہم نہ پہلے جھکے تھے، نہ اب جھکیں گے۔ یہ وطن ہماری پہچان ہے، ہماری غیرت ہے اور ہماری آخری سانس تک اس کے دفاع کے لیے ہم تیار ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔افواجِ پاکستان پائندہ باد
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کی بھارت نے دشمن کے کے لیے سے بھی تھا کہ
پڑھیں:
خطے کے امن کا دشمن مودی
پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ اسلام آباد نے جنگ بندی کی درخواست کی تھی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب علاقائی امن و استحکام کے لیے بین الاقوامی کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ بیان غلط معلومات، سیاسی، موقع پرستی اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ایک خطرناک رحجان کی نمایندگی کر رہا ہے۔
دوسری جانب ٹرمپ نے سعودی عرب میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ شاید ہم انھیں تھوڑا سا اکٹھا بھی کرسکتے ہیں، جہاں وہ باہر جا کر ایک ساتھ اچھا کھانا کھائیں، اور مسائل حل کریں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہے۔
جنگ بندی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں پاکستان کے خلاف سخت لہجہ اپنایا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دیا، جب کہ دوسری جانب بھارت اور پاکستان میں ایک نئی سفارتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔
دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں پر ’’ ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث‘‘ ہونے کا الزام عائد کرکے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اقدام حالیہ فوجی تصادم اور امریکا کے دباؤ میں دونوں ملکوں کے درمیان فائر بندی کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے بعد دونوں دیرینہ حریفوں کے درمیان ایک نیا سفارتی تعطل پیدا ہوگیا ہے۔
ایک فرانسیسی اخبار نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی نے جلتی پر تیل ڈالا، جب کہ تقریر کرتے ہوئے ان کا چہرہ بھیانک لگ رہا تھا۔ تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ طاقت کے خواب دیکھنے والے رہنما اگر زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیں تو انھیں زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بڑے خواب کبھی کبھار بڑے سانحات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ مودی کی پالیسیوں کی ایک بڑی خامی یہ تھی کہ انھوں نے زمینی حقائق کے بجائے خوابوں کی دنیا میں فیصلہ سازی شروع کردی۔
انڈیا کو ایک عالمی طاقت بنانے کی خواہش اپنی جگہ، مگر یہ خواہش تبھی مکمل ہو سکتی ہے جب ریاست کی پالیسیوں میں توازن، تدبر اور علاقائی حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ مودی کے اقتدار میں انڈیا نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحانہ پالیسی اپنائی، جس کا نتیجہ سفارتی تنہائی اور عسکری ناکامی کی صورت میں سامنے آیا۔ اندرونِ ملک بھی صورت حال کچھ مختلف نہ تھی۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، مسلم مخالف قوانین اور اقلیتوں کے خلاف پے در پے اقدامات نے مودی حکومت کو عالمی سطح پر متنازع بنا دیا ہے۔ امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا، مگر بھارتی حکومت نے ہر تنقید کو پراپیگنڈہ قرار دے کر رد کر دیا۔
’آپریشن سندور‘ ایک اور ایسا فوجی منصوبہ تھا، جس نے مودی حکومت کو پریشانیوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ جب مودی حکومت نے پہلگام واقعے کے بعد اپنے ’فوجی‘ بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کی تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔ آپریشن سندور وہ آپریشن تھا، جس کا مقصد پاکستان کے ساتھ تناؤ کے دوران بھارت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا، خاص طور پر ایئر فورس کے جدید رافیل طیاروں کی مدد سے۔ مودی نے رافیل طیاروں کو عسکری طاقت کا ایک اہم ستون قرار دیا تھا اور ان طیاروں کے ذریعے پاکستان کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
مودی کا خیال تھا کہ رافیل طیارے انڈیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہوں گے اور ان طیاروں کی موجودگی پاکستان کو شکستِ فاش دے گی، مگر جب آپریشن سندور میں انڈین طیارے پاکستان کے فضائی دفاع کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال ہوئے، تو پاکستان نے نہ صرف ان کو بے اثر کیا بلکہ طیارے بھی گرا دیے۔مودی کی انتہا پسندی اور جارحانہ پالیسیوں سے خطے کا امن تباہ ہو رہا ہے اور پاکستان کو اس نے ترنوالہ سمجھا لیکن پاکستان ترنوالہ نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والا بھارت اب قوم پرستی کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس کے ذریعے اندرونی مسائل اور عالمی تنقید سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ یہ خطرناک سیاسی حکمت عملی خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
پہلی بار بھارتی عوام کا ایک بڑا طبقہ ہر بار پاکستان کو الزام دینے کے بجائے داخلی طور پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ بھارت کی کشمیر اتنی وسیع سیکیورٹی فورسز کہاں تھیں؟ کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوجی کیا کر رہے تھے؟ یہ سوچ کا ابھار ایک اہم لمحہ ہے اور پاکستان کے موقف کی ایک بڑی تائید۔ پاکستان بارہا بھارت پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی خفیہ مدد، دہشت گردی میں ملوث ہونے اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے تخریبی کارروائیوں کی پشت پناہی جیسے الزامات لگاتا رہا ہے جن کے واضح شواہد انڈین خفیہ اداروں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
آج مودی حکومت نے انڈین جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، لیکن آج مودی کے بھارت میں میڈیا، ادارے اور تعلیم سب اس تنگ نظری کے شکار ہو چکے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں پر ظلم بڑھ گیا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو سختی سے کچلا جا رہا ہے۔ آج وہ صحافی، دانشور اور سماجی کارکن جنھیں کبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یا تو خاموش کر دیے گئے ہیں یا دباؤ میں آ چکے ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات کے مرکزی کردار مودی اب ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو انڈیا کو آمریت کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ان کی حکومت نے نہ صرف انڈیا کی جمہوری بنیادوں کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ ان کی وراثت تشدد کو ہوا دیتی ہے اور مفاہمت کو ختم کرتی ہے اور یہ اب چھپایا نہیں جا سکتا۔
ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین افواج رکھنے والا پاکستان مجبور ہو رہا ہے کہ وہ یہ سوچے کہ آیا اسے طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر دانشمندی سے کام لے کر انڈین عوام اور عالمی طاقتوں پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ اس صورتحال کو قابو میں رکھیں گے۔پاکستان کسی جزیرے کی طرح تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے پاس جغرافیائی سیاست میں اہم اتحادی ہیں اور وہ ترقی کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر صرف معیشت کی بات کی جائے تو واضح ہے کہ گریٹر ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا خوشحال مستقبل جنوبی ایشیا کے امن سے وابستہ ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد بھی بھارتی حکام اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، اس دوران جہاں ایک طرف تنازع کشمیر پر مؤقف غیر لچکدار قرار دیدیا، وہیں اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ کہا کہ سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کو ایک مکمل اور فوری فائر بندی کا اعلان کئی دنوں تک جاری رہنے والی فوجی جھڑپوں کے بعد کیا گیا جس نے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر نے یو ایس، سعودی سرمایہ کاری فورم میں یہ دعویٰ دہرایا کہ ’’امریکا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا‘‘ جب کہ بھارت کی حکومت اس دعوے کو مسترد کر رہی ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ دونوں جوہری طاقتوں، بھارت اور پاکستان، کو تجارتی مراعات کی پیشکش کی ہے، اگر آپ (بھارت اور پاکستان) لڑائی روک دیں، تو ہم آپ سے تجارت کریں گے، اگر آپ لڑائی نہیں روکیں گے، تو تجارت نہیں ہوگی۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے کہ امریکا کے صدر کی ’’ ثالثی پالیسی‘‘ خطے میں امن کے لیے مددگار ہے یا نہیں۔بھارت کی جانب سے یہ کہنا کہ پاکستان ثالثی کے لیے امریکی صدر کے پاس گیا، غلط ثابت ہو چکا ہے، امریکی صحافی نک رابرٹسن بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نہیں ثالثی کے لیے بھارت نے ٹرمپ سے رابطہ کیا۔ اس تناظر میں، پاکستان نے امریکی ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر بھارت مذاکرات کے لیے تیار ہے تو پاکستان بھی اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ضروری ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کی مدد سے گریز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس تمام صورتحال میں، جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے لیے عالمی برادری کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرے۔