Daily Ausaf:
2025-07-02@13:02:56 GMT

خاموشی سے طوفان تک

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

جب دشمن نے رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کیا، جب نہتے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، عورتوں ، بچوں اور بزرگوں کا خون بہایا گیااور جب بھارت نے اپنی روایت کے مطابق مکاری اور چالاکی سے جنگی جنون کا مظاہرہ کیا تب پاکستان نے خاموش تماشائی بننے کے بجائے تاریخ کا وہ باب رقم کیا جو آنے والی نسلوں کے لیے فخر اور غیرت کی علامت بن چکا ہے۔ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی۔ہم نے بارہا عالمی برادری کے سامنے یہ بات رکھی کہ جنوبی ایشیا میں امن قائم رہنا چاہیے۔ ہماری قیادت نے بھارت کو ہر فورم پر باور کرایا کہ ہم ایک ذمہ دار ریاست ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے،ہم ترقی چاہتے ہیں۔ ہم خطے کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت نے ہر بار ہماری پرخلوص کوششوں کو کمزوری جانا۔ اُس نے ہتھیاروں کی دھمکی دی، اس نے سفارتی جھوٹ بولے اور آخرکار بزدلی کی انتہا کر دی ۔ لیکن وہ یہ بھول گیا کہ پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ ایک نظریہ ہے، یہ ایک جذبہ ہے، یہ قربانیوں سے بنی ہوئی ریاست ہے۔جب آرمی چیف نے یہ کہا کہ ’’تیرہ لاکھ بھارتی فوج ہمیں ہتھیاروں سے ڈرا نہیں سکتی‘‘ تو یہ محض ایک فقرہ نہیں تھا، یہ دشمن کو کھلا چیلنج تھا اور جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’’اگر بھارت نے جارحیت کی تو ہم تیار ہیں، آزماؤ نہیں‘‘ تو یہ الفاظ نہیں تھے، ایک عزم تھا، ایک وعدہ تھا کہ پاکستان اپنی سا لمیت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ دشمن نے حملہ کر کے وہی کیا جو ایک بزدل دشمن کرتا ہے، لیکن ہماری افواج نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ پاکستان کی سرزمین پر اگر کسی نے میلی آنکھ ڈالی تو وہ آنکھ ہمیشہ کے لیے بند کر دی جائے گی۔ ہم نے میدان جنگ میں بھی دشمن کو للکارااور سفارتی محاذ پر بھی۔ یہ ہمارا اخلاقی برتری کا ثبوت ہے کہ ہم نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی، لیکن دشمن اگر جنگ مسلط کرے گا تو ہم جواب بھی اپنی مرضی کے وقت اور اپنی مرضی کی جگہ پر دیں گے اور یہی ہوا۔ بھارت کو اپنے پاگل پن، اپنے جنگی جنون اور اپنی بوکھلاہٹ کا ایسا جواب ملا کہ وہ نہ صرف پچھتایا بلکہ عالمی سطح پر رسوابھی ہوا۔
پاکستان کی افواج نے جس بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا، وہ اس قوم کے لیے باعثِ فخر ہے۔ یہ صرف ایک فوجی جواب نہیں تھا بلکہ ایک پیغام تھا کہ پاکستان کی عوام اور افواج ایک پیج پر ہیں۔ دشمن نے ایک آزاد ریاست کے غیر مسلح شہریوں پر حملہ کر کے جو گھٹیا پن دکھایا، اس کا جواب اُسے اتنی شدت سے دیا گیا کہ وہ دن اور رات کا فرق بھول گیا۔ اب یہ بھارت کی مرضی تھی کہ اس نے محاذ آرائی کا راستہ چُنا، لیکن یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم اُسے کہاں اور کیسے لے کر جاتے ہیں۔جب دشمن نے بزدلی سے وار کیا تو ہماری خاموشی ایک لمحہ رہی، اُس کے بعد جو گرج اٹھی وہ پاکستان کے ہر سپاہی کے دل سے نکلی ہوئی للکار تھی۔ یہ للکار صرف بندوقوں کی گونج نہ تھی، یہ وہ ایمان افروز عزم تھا جو ہمارے ہر شہید کے خون سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ دشمن یہ بھول بیٹھا تھا کہ ہم وہ قوم ہیں جو لاشوں پر آنسو بہانے کے بجائے عزم کے نئے چراغ جلاتی ہے۔ بھارت کا خیال تھا کہ وہ ہمیں خوفزدہ کر دے گا، ہماری کمر جھکا دے گا لیکن اُسے جواب ملا اُن آہنی ہاتھوں سے جو سرحدوں پر سیسہ پلائے کھڑے ہیں۔
ؔیہ سینے صورت فولاد ڈٹ جاتے ہیں میدان میں
خدا کہتا ہے خود بنیان مرصوص ان کو قرآن میں
ڈی جی آئی ایس پی آر کا ایک ایک لفظ دشمن کے لیے اعلانِ جنگ سے کم نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تیار ہیں، لیکن پہل ہم نہیں کریں گے اور جب دشمن نے اپنی اوقات سے تجاوز کیا تو ہم نے اُسے دکھایا کہ یہ سرزمین تمہارے ناپاک قدموں کے لیے نہیں بنی۔ ہم نے اُسے یاد دلایا کہ یہ وہی زمین ہے جہاں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘۔ہمارے فوجی جوان جب اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے ہیں تو وہ صرف جنگ نہیں لڑتے۔وہ اپنے وطن کی مٹی، اپنے پرچم اور اپنے شہیدوں کی قسم پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ اس قوم کی بیٹیاں جب اپنے لختِ جگر کو وطن پر قربان کرنے کے لیے دعائیں دیتی ہیں تو دشمن کے ہتھیار اور اُس کے ناپاک عزائم خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہ جذبہ، یہ حوصلہ، اور یہ غیرت کسی بھی دشمن کے خواب کو بھیانک حقیقت میں بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔بھارت کا یہ سمجھنا کہ وہ رات کی تاریکی میں وار کر کے بچ جائے گا، اُس کی سب سے بڑی بھول تھی۔پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ دفاع صرف توپ و تفنگ سے نہیں ہوتابلکہ اس کے پیچھے ایک پوری قوم کی دعائیں، ماں کی آنکھوں سے گرتے آنسو، شہیدوں کے لہو سے لکھی تاریخ اور حب الوطنی کے وہ جذبات ہوتے ہیں جو ہر سپاہی کو فولاد سے بھی سخت بنا دیتے ہیں۔ اس بار بھی دشمن کو وہی سبق ملا جو ماضی میں کئی بار پڑھایا جا چکا ہے۔ یاد رکھیں، یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو آزمایا ہو۔ لیکن ہر بار اُسے شرمندگی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کارگل، سیاچن، بالاکوٹ، اور اب یہ حالیہ حملہ ،بھارت نے جب بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی، اُس کی راہ میں افواجِ پاکستان کی آہنی دیوار کھڑی ہو گئی۔یہ وقت ہے کہ پوری پاکستانی قوم ایک آواز ہو جائے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ ہماری افواج اپنی جانوں کی بازی لگا کر سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ان کے مورال کو بلند رکھیں۔ ان پر اعتماد کریں اور اُن قوتوں کا مقابلہ کریں جو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہمیں کمزور کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ ہمیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کا قرض ادا کرنا ہے ۔اُن ماؤں کی آنکھوں کا احترام کرنا ہے جنہوں نے بیٹے وطن پر قربان کیے اور ان بچوں کے خوابوں کو تعبیر دینی ہے جنہوں نے ایک آزاد، محفوظ اور خوشحال پاکستان کا خواب دیکھا۔یہ وقت ایک نئے عزم، نئی یکجہتی اور نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے۔ دشمن کے لیے ہمارا پیغام ایک ہی ہے: تم نے وار کیا، ہم نے جواب دیا۔ لیکن یاد رکھو، اگر دوبارہ کبھی میلی آنکھ سے دیکھا تو یہ جواب اُس سے بھی سخت، اُس سے بھی بھرپور اور اُس سے بھی فیصلہ کن ہو گا۔پاکستان کی سا لمیت، خود مختاری اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ہم نہ پہلے جھکے تھے، نہ اب جھکیں گے۔ یہ وطن ہماری پہچان ہے، ہماری غیرت ہے اور ہماری آخری سانس تک اس کے دفاع کے لیے ہم تیار ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔افواجِ پاکستان پائندہ باد

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کی بھارت نے دشمن کے کے لیے سے بھی تھا کہ

پڑھیں:

سانحہ سوات اور ہماری اجتماعی بے حسی

ایک طرف اٹلی ہے جہاں ایک کتے کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔ دوسری طرف افغانستان ہے جہاں دریا میں لہروں کی نظر ہوتے ہوئے ایک آدمی کو ہیلی کاپٹر سے بچایا گیا۔ جبکہ تیسری طرف ہم اور ہماری ایٹمی طاقت رکھنے والی حکومت ہے کہ جہاں 18میں سے ایک ہی خاندان کے چھوٹے بڑے 15 افراد دو گھنٹوں تک دریائے سوات کی تیز لہروں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے، لیکن نہ کوئی اسلام آباد، راولپنڈی اور پشاور سے ریسکیو ہیلی کاپٹر پہنچا اور نہ ہی انہیں بچانے کے لئے کسی دوسرے نے ہمت کی۔ ان ڈوبنے والے ایک ہی خاندان کے افراد کا تعلق پنجاب سیالکوٹ سے تھا جو وہاں سیاحت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ یہ المناک واقعہ سوات میں مینگورہ بائی پاس کے مقام پر اچانک طوفانی سیلابی ریلا آنے کی وجہ سے پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس دوران دو دفعہ ریسکیو کی ٹیمیں موقع پر پہنچیں مگر انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سیلابی لہروں سے بچائو کا سامان نہیں ہے۔ دریا کے کنارے ہزاروں افراد اس بدنصیب خاندان کو ڈوبتے ہوئے دیکھتے رہے مگر شائد وہ سب ان کا تماشا دیکھنے آئے تھے کیونکہ ان میں کتنے ہی افراد لائیو ویڈیوز بناتے رہے، اور انہیں بچانے کے لئے کوئی آگے بڑھا اور نہ ہی کسی درد دل کی آنکھوں سے آنسو ٹپکا۔
یہ سانحہ سوات ہمارے بے حس معاشرے کی دردناک مگر حیرت انگیز ترین کہانی ہے جس میں ہم سب کسی نہ کسی سطح پر ایک ذیلی کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں کوئی سرکاری محکمہ ہے تو اس میں کرپشن کرتی کالی بھیڑیں ہیں، کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ اپنی من پسند ادویات لکھ کر دے رہا ہے جس سے اسے کمیشن ملے گا اور آپریشن کر رہا ہے تو خطرہ ہے کہ کہیں وہ مریض کا صحتمند گردہ ہی نہ نکال لے، دودھ والا ہے تو وہ پانی ملا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ بے ایمانی سے پیسہ کمانے کے لئے اس میں پوڈر بھی ملا دے، اور کوئی دکان دار ہے تو سودا سلف خریدنے والے سے بل پر قیمت لگانے سے پہلے پوچھے گا کہ ایک نمبر مال چایئے، دو نمبر چاہیے یا پھر تین نمبر مال کی ضرورت ہے۔ ایک اور تصویر پاکستان کی یہ ہے کہ یہاں کرکٹ کے میچ کی پچ خشک کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر ہوتا ہے، وزیراعظم، صدر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور فوج کے لئے ہیلی کاپٹرز ہوتے ہیں، لیکن ریسکیو 1122 کے پاس جانیں بچانے کے لئے اس وقت کوئی ہیلی کاپٹر میسر نہیں تھا!
کہا جاتا ہے کہ 2019 ء میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان اور اس کی بیٹی چترال سیر کے لئے گئے تھے تو اس وقت بھی سیلاب سے راستے بند ہو گئے تھے اور علیمہ خان سمیت کئی سیاح چترال میں پھنس گئے تھے۔ تب پشاور سے فورا ًہیلی کاپٹر پہنچ گیا تھا اور انہیں بچا لیا گیا تھا۔ صوبہ کے پی کے میں 12 سال سے تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر اس کی یہ کارکردگی ہے کہ اس پر کروڑوں روپے کے ’’بسکٹ‘‘ کھا جانے کا الزام ہے۔ اس نوع کے واقعات سوات، دیر اور چترال میں ہر سال پیش آتے ہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس دوران ریسکیو ٹیموں ہی کو فعال کر سکیں۔ اس سے قبل امسال صوبہ خیبر پختونخوا میں چترال کے مقام پر اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے لیکن کسی کو اس جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا خیال تک نہیں آیا جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔
2010 ء میں بھی خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت تھی مگر تب تیمرگرہ ایف سی گرائونڈ میں دو ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے لئے ہر وقت تیار کھڑے ہوتے تھے۔ حالانکہ اس وقت نہ صرف سیلاب تھا، بلکہ دہشت گردی بھی اپنے عروج پر تھی۔ لیکن نجانے اس ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے ایسے اندوہناک واقعات کی روک تھام کے لئے کیوں انتظامات نہ کیے کہ نہ گنڈا پور کی صوبائی حکومت ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لیئے کچھ کر سکی اور نہ مقامی انتظامیہ ہی کسی کام آئی۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی طرف سے جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان نے اپنے سے 5 گنا بڑے دشمن کو شکست دی، گورنر پنجاب
  • سوات واقعہ افسوسناک، سیاست کی بجائے سچائی کیساتھ اسکا جائزہ لینا چاہئے، شہباز شریف
  • خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو)
  • ہماری مسلح افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، مودی کا تکبر خاک میں مل گیاہے. خواجہ آصف
  • کاجول نے اجے دیوگن اور شاہ رخ خان کے تعلقات پر خاموشی توڑ دی
  • کراچی میں 13 کروڑ کی ڈکیتی معمہ بن گئی، گرفتاریوں کے بعد پولیس کی پُراسرار خاموشی
  • ہماری لڑائی آئینی ضمانتوں کی بحالی کیلئے ہے، آغا سید روح اللہ
  • سانحہ سوات اور ہماری اجتماعی بے حسی
  • چشمیہ بیراج کی جھیلیں بھر گئیں ، سیلاب کا الر ٹ لاہور ، مضافات میں طوفان 9افراد جاں بحق
  • مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد پر قبضہ کرنے کی دھمکی دیدی